فیس نہیں تعلیم کا معیار بلند کیا جائے
تعلیم کے نجی ادارے میڈیکل کے شعبے میں ہوں یادوسرے تعلیم کے لیے لازم ہے کہ انکے تعلیمی و تدریسی معیارکو برقراررکھا جائے
پاکستانی قوم کی مجبوریاں اور ناداریاں اپنی جگہ مگر اسے خوب معلوم ہے کہ اس کا نفع نقصان کس میں ہے۔ میں دیہات سے لے کر شہروں تک ہر باپ کے دل میں ایک خواہش کو خوب جانتا ہوں کہ اس کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں کیونکہ اس کا حقیقی فائدہ اسی میں ہے۔
تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کے غول کے غول اس کے سامنے ہیں اور مستقبل قریب میں اسے ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے نوکری اور روزگار دکھائی نہیں دے رہا۔ مگر اس کے باوجود ہر شہر میں بلکہ اب تو تحصیل کی سطح پر بھی نجی اسکول دھڑا دھڑا کھل رہے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہو رہی ہیں۔ اچھے اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کے لیے ہزار جتن کیے جاتے ہیں۔ گھر والے بھوکے رہ رہے ہیں، اپنا بہت کچھ بیچ رہے ہیں مگر بچوں کو تعلیم دلا رہے ہیں۔
تعلیم کے بغیر اب نوجوان نسل کا کوئی تصور نہیں رہا ہے۔ جاہل نوجوان حیوان کے برابر سمجھے جا رہے ہیں۔ نئے نجی تعلیمی اداروں کے غیر معمولی فروغ نے تعلیم کو ایک کاروبار بھی بنا دیا ہے اور کاروبار کی طرح اس میں تعلیم کم اور فیسیں زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔ تعلیمی ادارے جتنے عام ہوتے جا رہے ہیں، تعلیم کا معیار اتنا ہی پست ہوتا جا رہا ہے۔ اور وجہ یہ ہے کہ حکومت کے کسی بھی لیول پر ان اداروں کی نگرانی کا کوئی موثر انتظام موجود نہیں ہے۔ میرے اپنے گھر کے بچے لاہور کے نامی گرامی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن مجھے دکھ ہوتا ہے جب میں شام کو ان کو کسی اکیڈمی میں مزید تعلیم کے لیے جاتے دیکھتا ہوں۔
بچے کہتے ہیں کہ اسکول میں استاد ہمیں اس طرح علم نہیں سکھا رہے جس طرح امتحان میں پرچہ آنا ہے وہ صرف ہمیں درسی کتب پڑھا دیتے ہیں لیکن امتحان کس طرح دینا ہے اس کی رہنمائی نہیں کرتے اور اس رہنمائی کے لیے شہر بھر میں اکیڈمیاں قائم کی گئی ہیں جہاں پر انھی اسکولوں کے استاد اپنے اسکول کی بچوں کو مزید فیس لے کر رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
حکومتی نگرانی نہ ہونے کے باعث ایک طرف تو تعلیم کا معیار پست ہو گیا ہے دوسری طرف فیسوں میں ہوشربا اضافے نے والدین کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ حکومت مستقبل کے معماروں کی طرف سے مکمل غفلت برت رہی ہے نہ کوئی فیسوں میں غیر معمولی اضافے کی پروا کرتا ہے اور نہ کوئی ان فیسوں کے عوض تعلیم کے معیار کی پروا کرتا ہے۔ تعلیم مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور طالبعلم علم کی دولت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
حکومت کی اس بے حسی کو دیکھتے ہوئے ہماری اعلیٰ عدلیہ نے کچھ عرصہ قبل نجی اسکولوں کے مالکان کو عدالت کے کٹہرے میں حاضر کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ فیسوں میں کمی کی جائے جس کا ان نجی اسکولوں پر اثر یہ ہوا کہ وقتی طور پر فیسوں میں کمی کر دی گئی لیکن اب دوبارہ وہی اسکول پرانی ڈگر پر آ رہے ہیں۔ عدالت نے حکومتی نگرانی میں قائم بعض اسکولوں کو فیسوں میںکمی سے مثتثنٰی بھی کر دیا تھا جس کی والدین کو سمجھ نہیں آ سکی کہ حکومتی سر پرستی والے بعض اسکول بھی نجی تعلیمی اداروں کی طرح غیر معمولی فیسیں وصول کر رہے ہیں اور ان کی فیسوں میں بھی کمی ہونی چاہیے تھی لیکن معلوم ہوا کہ عدالت نے ان کو استثنیٰ دیا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ جو والدین یہ استطاعت رکھتے ہیں وہی اپنے بچوں کو ان مہنگے تعلیمی اداروں میں علم دلائیں لیکن اس کے لیے بھی کو ئی ایسا نظام وضع کیا جانا چاہیے تا کہ تعلیم کی غیر معمولی فروخت کا عمل رک سکے اور صاحب استطاعت والدین پر بھی غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔
ملک میں شائد تعلیم کا ایک شعبہ ایسا بھی ہے جس کی نگرانی کا کسی حد تک موثر نظام موجود ہے اور اس پر تعجب بھی ہوتاہے یہ میڈیکل کا شعبہ ہے۔ پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل ملک بھر کے میڈیکل کالجوں کے معیار کی نگرانی کرتا ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ نجی شعبے میں قائم کیے جانے والے میڈیکل کالج اس کونسل کی بات کس حد تک سنتے اور مانتے ہیں۔
حکومتی شعبے میں نجی تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مضبوط اور موثر لائحہ عمل کا قیام والدین کا مطالبہ اور ملک کے مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔ حکومتی سطح پر نجی تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک ایسا نظام بنایا جائے جس میں اسکولوں میں موجود سہولتوںکے مطابق فیسیں حکومت مقرر کرے اور اس کی ایک حد بھی مقرر کی جائے تاکہ فیسوں میں آئے روز کے اضافے کے بوجھ سے والدین کی جان چھوٹ جائے۔
نجی تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند بھی کیا جائے کہ وہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کی بھرتی کے لیے علمی قابلیت کا ایک معیار مقرر کریں جس کے تحت اساتذہ کو بھرتی کیا جائے تا کہ وہ معیاری تعلیم کو فروغ دے سکیں اور طالبعلوں کو اکیڈمیوں میں ٹیوشن کے لیے نہ جانا پڑے ۔ تعلیم کی نگرانی کا عمل وفاقی یا صوبائی حکومت جس کی بھی ذمے داری ہے لیکن اس کے معیار کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے ورنہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں پڑھے لکھے جاہل تیار کرتے رہیں گے۔
تعلیم کے نجی ادارے میڈیکل کے شعبے میں ہوں یا دوسرے تعلیم کے لیے لازم ہے کہ ان کے تعلیمی و تدریسی معیار کو برقرار رکھا جائے اور اگر کوئی نگرانی کا ادارہ پہلے سے موجود ہے تو اسے مزید مستحکم کیا جائے ورنہ ہم توفیسوں میں اضافے کو تعلیم کے معیار میں اضافہ ہی تصور کرتے رہیں گے۔
تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کے غول کے غول اس کے سامنے ہیں اور مستقبل قریب میں اسے ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے نوکری اور روزگار دکھائی نہیں دے رہا۔ مگر اس کے باوجود ہر شہر میں بلکہ اب تو تحصیل کی سطح پر بھی نجی اسکول دھڑا دھڑا کھل رہے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہو رہی ہیں۔ اچھے اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کے لیے ہزار جتن کیے جاتے ہیں۔ گھر والے بھوکے رہ رہے ہیں، اپنا بہت کچھ بیچ رہے ہیں مگر بچوں کو تعلیم دلا رہے ہیں۔
تعلیم کے بغیر اب نوجوان نسل کا کوئی تصور نہیں رہا ہے۔ جاہل نوجوان حیوان کے برابر سمجھے جا رہے ہیں۔ نئے نجی تعلیمی اداروں کے غیر معمولی فروغ نے تعلیم کو ایک کاروبار بھی بنا دیا ہے اور کاروبار کی طرح اس میں تعلیم کم اور فیسیں زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔ تعلیمی ادارے جتنے عام ہوتے جا رہے ہیں، تعلیم کا معیار اتنا ہی پست ہوتا جا رہا ہے۔ اور وجہ یہ ہے کہ حکومت کے کسی بھی لیول پر ان اداروں کی نگرانی کا کوئی موثر انتظام موجود نہیں ہے۔ میرے اپنے گھر کے بچے لاہور کے نامی گرامی اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن مجھے دکھ ہوتا ہے جب میں شام کو ان کو کسی اکیڈمی میں مزید تعلیم کے لیے جاتے دیکھتا ہوں۔
بچے کہتے ہیں کہ اسکول میں استاد ہمیں اس طرح علم نہیں سکھا رہے جس طرح امتحان میں پرچہ آنا ہے وہ صرف ہمیں درسی کتب پڑھا دیتے ہیں لیکن امتحان کس طرح دینا ہے اس کی رہنمائی نہیں کرتے اور اس رہنمائی کے لیے شہر بھر میں اکیڈمیاں قائم کی گئی ہیں جہاں پر انھی اسکولوں کے استاد اپنے اسکول کی بچوں کو مزید فیس لے کر رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
حکومتی نگرانی نہ ہونے کے باعث ایک طرف تو تعلیم کا معیار پست ہو گیا ہے دوسری طرف فیسوں میں ہوشربا اضافے نے والدین کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ حکومت مستقبل کے معماروں کی طرف سے مکمل غفلت برت رہی ہے نہ کوئی فیسوں میں غیر معمولی اضافے کی پروا کرتا ہے اور نہ کوئی ان فیسوں کے عوض تعلیم کے معیار کی پروا کرتا ہے۔ تعلیم مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور طالبعلم علم کی دولت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
حکومت کی اس بے حسی کو دیکھتے ہوئے ہماری اعلیٰ عدلیہ نے کچھ عرصہ قبل نجی اسکولوں کے مالکان کو عدالت کے کٹہرے میں حاضر کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ فیسوں میں کمی کی جائے جس کا ان نجی اسکولوں پر اثر یہ ہوا کہ وقتی طور پر فیسوں میں کمی کر دی گئی لیکن اب دوبارہ وہی اسکول پرانی ڈگر پر آ رہے ہیں۔ عدالت نے حکومتی نگرانی میں قائم بعض اسکولوں کو فیسوں میںکمی سے مثتثنٰی بھی کر دیا تھا جس کی والدین کو سمجھ نہیں آ سکی کہ حکومتی سر پرستی والے بعض اسکول بھی نجی تعلیمی اداروں کی طرح غیر معمولی فیسیں وصول کر رہے ہیں اور ان کی فیسوں میں بھی کمی ہونی چاہیے تھی لیکن معلوم ہوا کہ عدالت نے ان کو استثنیٰ دیا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ جو والدین یہ استطاعت رکھتے ہیں وہی اپنے بچوں کو ان مہنگے تعلیمی اداروں میں علم دلائیں لیکن اس کے لیے بھی کو ئی ایسا نظام وضع کیا جانا چاہیے تا کہ تعلیم کی غیر معمولی فروخت کا عمل رک سکے اور صاحب استطاعت والدین پر بھی غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔
ملک میں شائد تعلیم کا ایک شعبہ ایسا بھی ہے جس کی نگرانی کا کسی حد تک موثر نظام موجود ہے اور اس پر تعجب بھی ہوتاہے یہ میڈیکل کا شعبہ ہے۔ پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل ملک بھر کے میڈیکل کالجوں کے معیار کی نگرانی کرتا ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ نجی شعبے میں قائم کیے جانے والے میڈیکل کالج اس کونسل کی بات کس حد تک سنتے اور مانتے ہیں۔
حکومتی شعبے میں نجی تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مضبوط اور موثر لائحہ عمل کا قیام والدین کا مطالبہ اور ملک کے مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔ حکومتی سطح پر نجی تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک ایسا نظام بنایا جائے جس میں اسکولوں میں موجود سہولتوںکے مطابق فیسیں حکومت مقرر کرے اور اس کی ایک حد بھی مقرر کی جائے تاکہ فیسوں میں آئے روز کے اضافے کے بوجھ سے والدین کی جان چھوٹ جائے۔
نجی تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند بھی کیا جائے کہ وہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کی بھرتی کے لیے علمی قابلیت کا ایک معیار مقرر کریں جس کے تحت اساتذہ کو بھرتی کیا جائے تا کہ وہ معیاری تعلیم کو فروغ دے سکیں اور طالبعلوں کو اکیڈمیوں میں ٹیوشن کے لیے نہ جانا پڑے ۔ تعلیم کی نگرانی کا عمل وفاقی یا صوبائی حکومت جس کی بھی ذمے داری ہے لیکن اس کے معیار کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے ورنہ ہم اپنے تعلیمی اداروں میں پڑھے لکھے جاہل تیار کرتے رہیں گے۔
تعلیم کے نجی ادارے میڈیکل کے شعبے میں ہوں یا دوسرے تعلیم کے لیے لازم ہے کہ ان کے تعلیمی و تدریسی معیار کو برقرار رکھا جائے اور اگر کوئی نگرانی کا ادارہ پہلے سے موجود ہے تو اسے مزید مستحکم کیا جائے ورنہ ہم توفیسوں میں اضافے کو تعلیم کے معیار میں اضافہ ہی تصور کرتے رہیں گے۔