جب گھڑیال نے پانچ بجائے
دنیا میں تشدد سے حکومت کرنے والے کبھی بھی یہ نہیں سوچتے کہ ان کے خونیں اقدامات کن بڑے طوفانوں کی پرورش کر رہے ہیں۔
برصغیر میں اور دنیا کے کئی ملکوں میں 13 اپریل کو جلیانوالہ باغ کے قتل عام کی صد سالہ سالگرہ منائی گئی۔ امرتسر میں اس خونیں سانحے کی یادگار پر راہل گاندھی، دوسرے سیاسی رہنماؤں اور ہندوستانی وزیر اعظم نے بھی حاضری دی۔ ہزاروں لوگ اس یادگار پر پھول چڑھانے، آنسو بہانے اور شمعیں جلانے آئے۔ اس روز انگلستان میں وہ نظم کتابی شکل میں شایع ہوئی جسے 1920ء میں برطانوی راج نے ممنوع قرار دیا تھا۔ اس کی چھپی ہوئی کاپیاں ضبط ہوئیں اور جلا دی گئیں، وہ نہ سنائی جا سکتی تھی اور نہ کسی اخبار یا رسالے میں شایع ہو سکتی تھی۔
22 سالہ نانک سنگھ جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیساکھی کے دن رولٹ ایکٹ کے خلاف پُر امن احتجاج کے لیے جلیانوالہ باغ گیا تھا، تنہا واپس آیا۔ اس کے ساتھی گولیوں سے چھلنی ہو گئے اور اسے عمر بھر کے عذاب میں مبتلا کر گئے۔ نانک سنگھ نے اس باغ میں مارے جانے والوں کے لیے ایک نظم ''خونی ویساکھ'' لکھی۔ خون رُلا دینے والی اس نظم سے برطانوی راج کو ایسا خوف آتا تھا کہ اس پر پابندی لگا دی گئی۔ یہی خونیں واقعہ تھا جس نے نانک کو پنجابی کا ایک اہم ادیب اور شاعر بنا دیا۔ نانک سنگھ نے 50 سے زیادہ ناول، ڈرامے، کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ اس کی کتاب ''ایک میان دو تلواریں'' کو 1962ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی ملا۔
اس سانحے کی صدی کے موقع پر نانک سنگھ کے پوتے نودیپ سوری نے اس نظم کو انگریزی میں ترجمہ کیا۔ نودیپ سوری اس وقت متحدہ عرب امارات میں ہندوستان کے سفیر ہیں۔ تاریخ کا یہ بھی عجیب مذاق ہے کہ 'خونی ویساکھ'' کا ابتدائیہ جسٹن رولٹ نے لکھا ہے جو کہ رولٹ ایکٹ لکھنے والے سر سڈنی رولٹ کا پڑ پوتا ہے۔ کتاب میں نانک سنگھ کی طویل پنجابی نظم کا ہندی اور انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ اس نظم کا اختصار کے ساتھ نثری ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔
''میرے دوستو! وہ 13 اپریل کی تاریخ تھی۔ گھڑیال نے پانچ بجائے۔ ہم سب سکھ، ہندو اور مسلمان باغ میں اکٹھے ہو گئے۔ ہم انصاف اور عزت کے متلاشی تھے۔ ہم میں بوڑھے اور جوان تھے۔ ان میں بچے بھی تھے۔ لوگوں نے وہاں تقریریں کیں۔ اپنا دکھ درد بیان کیا، انصاف طلب کیا، انھوں نے اپنے سینے خوف سے خالی کر لیے تھے اور وہ باغ کی کیاریوں کو اپنے خون سے سینچنے کے لیے نکلے تھے۔ وہ منصور (حلاج) کی طرح تھے، اسے جب معلوم ہوا کہ وہ سولی پر چڑھایا جائے گا۔ تو اس نے نعرہ بلند کیا اور کہا کہ ''میں حق ہوں''۔ یہ نوجوان شمس تبریزی کی طرح حق کی تلاش میںتھے، جس کی تلاش میں اسے درد ناک موت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگل کی چڑیوں کی طرح وہ غول در غول چلے اور اپنے خون کے چشموں سے ڈائرکی پیاس بجھانے کے لیے آگے بڑھے۔ ہمارے لیڈر اپنے غم وغصے کا اظہار کر رہے تھے جب گھڑیال نے ساڑھے پانچ بجائے اور جنرل ڈائر اپنے گورکھا سپاہیوں کے ساتھ آن پہنچا۔ وہ تنگ راستہ جو باغ سے باہر جاتا تھا، اسے جنرل کے حکم پر سپاہیوں نے بند کر دیا تھا۔ اب وہ موت کا باغ تھا۔ اس کے حکم پر گورکھا سپاہیوں نے رائفلیں سیدھی کیں اور سامنے موجود بوڑھوں، نوجوانوں اور بچوں پر اندھا دھند فائرکھول دیا۔ ہزاروں گولیاں چلیں اور ان سے چھلنی بدن سبزے پر گر گئے۔ آہوں اورکراہوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ رائفلوں کی نال سے بل کھاتا دھواں اوپر اٹھ رہا تھا اور جیالے جوان خاک وخون میں تڑپتے تھے۔ ان میں سے کچھ سکھ تھے، کچھ ہندو اور کچھ مسلمان۔ وہ آخری لمحوں میں ایک گھونٹ پانی کے طلبگار تھے لیکن وہاں کوئی نہیں تھا جو ان کی اس آخری خواہش پر کان دھرتا۔ نانک سنگھ اپنے دوستوں کو یاد کرتا ہے جو خون میں بھیگے ہوئے گہری نیند سوتے ہیں۔ کون ان کی حالت جان سکتا تھا سوائے خدائے واحد کے۔''
اس سانحے پر بہت سی نظمیں لکھی گئیں لیکن جو شہرت اور اہمیت نانک سنگھ کی نظم کو ملی وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت پرُ اثر تھی اور ایک ایسے نوجوان کی لکھی ہوئی تھی جو اس خوں چکاں واقعے کا چشم دید گواہ تھا، اپنے کئی عزیز دوست اس نے کھوئے تھے اور غم اس کا سینہ کھرچ رہا تھا۔ یہ نظم اس نے قتل عام کے دوسرے ہی دن لکھ دی تھی۔ جنرل ڈائر نے امرتسر کے اس باغ میں جس طرح موت تقسیم کی، اس نے صرف ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا کو دہشت زدہ کردیا۔ برطانیہ میں بھی اس ظلم پر کئی انگریزوں نے احتجاج کیا اور اسے برطانیہ کے لیے شرم کا سبب قرار دیا۔
یہ وہ دن تھے جب پہلی جنگ عظیم کو ختم ہوئے چند مہینے گزرے تھے۔ پنجاب کے ہزاروں نوجوان اس جنگ میں جان سے جا چکے تھے اور ہزاروں معذور ہو کر گھروں کو لوٹے تھے۔ پنجابیوں کا خیال تھا کہ برطانوی راج کے لیے انھوں نے جو بیش بہا قربانیاں دی ہیں ان کا احترام کیا جائے گا اور تاج برطانیہ انھیں کچھ سیاسی سہولتیں فراہم کرے گا لیکن ہوا اس کے برعکس، اس نوعیت کی مانگ کرنے والے سیاسی رہنماؤں اور ان کے حامیوں کے ساتھ سختی برتی جانے لگی۔ پنجاب کے دو اہم رہنما ستیہ پال اور سیف الدین کچلو گرفتارکر لیے گئے اور امرتسر سے شہر بدر کر دیے گئے۔ یہ دونوں پنجاب کے اہم رہنماؤں میں سے تھے۔ ان کے ساتھ حکومت کا یہ سلوک عوام کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
انھوں نے احتجاجی جلوس اور جلسے شروع کر دیے۔ جنھیں جنرل ڈائر نے نہایت سختی سے کچلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا خیال تھا کہ عوام کو سختی سے کچل کر ہی تاج برطانیہ کی حکمرانی قائم رکھی جا سکتی ہے۔ 11 اپریل کو شہر میں فوج بلا لی گئی۔ ڈائر نے یہ حکم جاری کیا کہ اگر کسی نے بھی جلسے، جلوس کی کوشش کی یا تشدد سے کام لیا تو اسے شدت سے کچل دیا جائے گا اور ذمے داری ان لوگوں کی ہوگی جو سرکار مخالف کسی بھی کارروائی میں شریک ہوں گے۔
13 اپریل کو بیساکھی کا تہوار تھا۔ لوگ جلیانوالہ باغ کی طرف چلے۔ چاروں طرف سے عمارتوں سے گھرے ہوئے اس باغ میں جھولے والوں نے جھولے لگائے اور چھابڑی والے گولی مٹھائی، لیمن جوس اور چاٹ کا سامان لے کر پہنچ گئے۔ شہر والے اپنے بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ باغ میں آئے جہاں ایک احتجاجی جلسے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ابھی چند منٹ بعد کیا ہونے والا ہے۔ یہ باغ جس میں پندرہ، بیس ہزار افراد سما سکتے تھے، جب بھر گیا تو جنرل ڈائر اپنی پلٹن کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ اس کے گھڑ سوار سپاہیوں نے باغ سے باہر نکلنے والا واحد راستہ بند کر دیا اور اس کے بعد جنرل ڈائر نے فائرنگ کا حکم دیا۔
نہتے اور پرُامن شہریوں پر گولیوں کی برسات ہو گئی۔ کچھ لوگ سیدھی فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے۔ کچھ جان بچانے کے لیے بھاگے لیکن فرار کا راستہ بند تھا، ان میں سے کچھ کچلے گئے اور ختم ہوئے۔ ڈائر کے سپاہی اس وقت تک فائرنگ کرتے رہے جب تک ان کے پاس گولیاں ختم نہ ہو گئیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس روز 379 ہندوستانی ہلاک ہوئے جب کہ آزاد ذرایع کے مطابق ایک ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے۔ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔
یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس کی گونج سارے ہندوستان میں سنی گئی حد تو یہ ہے کہ برطانوی سیاستدانوں نے بھی اسے قابل مذمت قرار دیا۔ ہنٹر کمیشن قائم کیا گیا جس نے اس پورے واقعے کی تحقیق کی۔ اس سانحے کے نتیجے میں امرتسر کو دو مہینے کا نہایت سخت کرفیو بھگتنا پڑا۔ ایک انگریز خاتون جو ایک گلی میں کسی ہندوستانی کے ہاتھ قتل ہوئی تھی، اس کا انتقام ڈائر نے اس طرح لیا کہ ہر وہ شخص جو اس گلی سے گزرتا تھا۔ وہ پیٹ کے بل رینگ کر جا سکتا تھا۔ ہندوستانیوں کی عزت نفس کو کچلنے کے جتنے طریقے استعمال کیے جا سکتے تھے وہ کیے گئے۔
جنرل ڈائر اور اس کے ہم خیال انگریزوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ رولٹ ایکٹ کے خلاف عوام میں جو غم وغصہ بھڑکا تھا، اسے گولیوں اور تشدد سے نہیں بجھایا جا سکتا بلکہ سخت گیر رویہ اشتعال کو بھڑکانے کا سبب بن رہا تھا۔ جلیانوالہ باغ تحریک آزادی کو بڑھاوا دینے کا بہت بڑا سبب بنا اور بھگت سنگھ جیسے شیر دل پیدا ہوئے۔ بھگت سنگھ نے جلیانوالہ باغ جا کر وہاں کی خاک چومی تھی اور برطانوی راج سے لڑنے کا عہد کیا تھا۔
آج ہم اگر تحریک آزادی کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ رولٹ ایکٹ اورجلیانوالہ باغ اس تحریک کے کتنے اہم سنگ میل تھے۔ دنیا میں تشدد سے حکومت کرنے والے کبھی بھی یہ نہیں سوچتے کہ ان کے خونیں اقدامات کن بڑے طوفانوں کی پرورش کر رہے ہیں، ایسے طوفان جو آخر کار آمرانہ طرز حکومت کو اُڑا لے جاتے ہیں، ان کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔
22 سالہ نانک سنگھ جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیساکھی کے دن رولٹ ایکٹ کے خلاف پُر امن احتجاج کے لیے جلیانوالہ باغ گیا تھا، تنہا واپس آیا۔ اس کے ساتھی گولیوں سے چھلنی ہو گئے اور اسے عمر بھر کے عذاب میں مبتلا کر گئے۔ نانک سنگھ نے اس باغ میں مارے جانے والوں کے لیے ایک نظم ''خونی ویساکھ'' لکھی۔ خون رُلا دینے والی اس نظم سے برطانوی راج کو ایسا خوف آتا تھا کہ اس پر پابندی لگا دی گئی۔ یہی خونیں واقعہ تھا جس نے نانک کو پنجابی کا ایک اہم ادیب اور شاعر بنا دیا۔ نانک سنگھ نے 50 سے زیادہ ناول، ڈرامے، کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ اس کی کتاب ''ایک میان دو تلواریں'' کو 1962ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ بھی ملا۔
اس سانحے کی صدی کے موقع پر نانک سنگھ کے پوتے نودیپ سوری نے اس نظم کو انگریزی میں ترجمہ کیا۔ نودیپ سوری اس وقت متحدہ عرب امارات میں ہندوستان کے سفیر ہیں۔ تاریخ کا یہ بھی عجیب مذاق ہے کہ 'خونی ویساکھ'' کا ابتدائیہ جسٹن رولٹ نے لکھا ہے جو کہ رولٹ ایکٹ لکھنے والے سر سڈنی رولٹ کا پڑ پوتا ہے۔ کتاب میں نانک سنگھ کی طویل پنجابی نظم کا ہندی اور انگریزی ترجمہ شامل ہے۔ اس نظم کا اختصار کے ساتھ نثری ترجمہ ملاحظہ کیجیے۔
''میرے دوستو! وہ 13 اپریل کی تاریخ تھی۔ گھڑیال نے پانچ بجائے۔ ہم سب سکھ، ہندو اور مسلمان باغ میں اکٹھے ہو گئے۔ ہم انصاف اور عزت کے متلاشی تھے۔ ہم میں بوڑھے اور جوان تھے۔ ان میں بچے بھی تھے۔ لوگوں نے وہاں تقریریں کیں۔ اپنا دکھ درد بیان کیا، انصاف طلب کیا، انھوں نے اپنے سینے خوف سے خالی کر لیے تھے اور وہ باغ کی کیاریوں کو اپنے خون سے سینچنے کے لیے نکلے تھے۔ وہ منصور (حلاج) کی طرح تھے، اسے جب معلوم ہوا کہ وہ سولی پر چڑھایا جائے گا۔ تو اس نے نعرہ بلند کیا اور کہا کہ ''میں حق ہوں''۔ یہ نوجوان شمس تبریزی کی طرح حق کی تلاش میںتھے، جس کی تلاش میں اسے درد ناک موت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگل کی چڑیوں کی طرح وہ غول در غول چلے اور اپنے خون کے چشموں سے ڈائرکی پیاس بجھانے کے لیے آگے بڑھے۔ ہمارے لیڈر اپنے غم وغصے کا اظہار کر رہے تھے جب گھڑیال نے ساڑھے پانچ بجائے اور جنرل ڈائر اپنے گورکھا سپاہیوں کے ساتھ آن پہنچا۔ وہ تنگ راستہ جو باغ سے باہر جاتا تھا، اسے جنرل کے حکم پر سپاہیوں نے بند کر دیا تھا۔ اب وہ موت کا باغ تھا۔ اس کے حکم پر گورکھا سپاہیوں نے رائفلیں سیدھی کیں اور سامنے موجود بوڑھوں، نوجوانوں اور بچوں پر اندھا دھند فائرکھول دیا۔ ہزاروں گولیاں چلیں اور ان سے چھلنی بدن سبزے پر گر گئے۔ آہوں اورکراہوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ رائفلوں کی نال سے بل کھاتا دھواں اوپر اٹھ رہا تھا اور جیالے جوان خاک وخون میں تڑپتے تھے۔ ان میں سے کچھ سکھ تھے، کچھ ہندو اور کچھ مسلمان۔ وہ آخری لمحوں میں ایک گھونٹ پانی کے طلبگار تھے لیکن وہاں کوئی نہیں تھا جو ان کی اس آخری خواہش پر کان دھرتا۔ نانک سنگھ اپنے دوستوں کو یاد کرتا ہے جو خون میں بھیگے ہوئے گہری نیند سوتے ہیں۔ کون ان کی حالت جان سکتا تھا سوائے خدائے واحد کے۔''
اس سانحے پر بہت سی نظمیں لکھی گئیں لیکن جو شہرت اور اہمیت نانک سنگھ کی نظم کو ملی وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت پرُ اثر تھی اور ایک ایسے نوجوان کی لکھی ہوئی تھی جو اس خوں چکاں واقعے کا چشم دید گواہ تھا، اپنے کئی عزیز دوست اس نے کھوئے تھے اور غم اس کا سینہ کھرچ رہا تھا۔ یہ نظم اس نے قتل عام کے دوسرے ہی دن لکھ دی تھی۔ جنرل ڈائر نے امرتسر کے اس باغ میں جس طرح موت تقسیم کی، اس نے صرف ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا کو دہشت زدہ کردیا۔ برطانیہ میں بھی اس ظلم پر کئی انگریزوں نے احتجاج کیا اور اسے برطانیہ کے لیے شرم کا سبب قرار دیا۔
یہ وہ دن تھے جب پہلی جنگ عظیم کو ختم ہوئے چند مہینے گزرے تھے۔ پنجاب کے ہزاروں نوجوان اس جنگ میں جان سے جا چکے تھے اور ہزاروں معذور ہو کر گھروں کو لوٹے تھے۔ پنجابیوں کا خیال تھا کہ برطانوی راج کے لیے انھوں نے جو بیش بہا قربانیاں دی ہیں ان کا احترام کیا جائے گا اور تاج برطانیہ انھیں کچھ سیاسی سہولتیں فراہم کرے گا لیکن ہوا اس کے برعکس، اس نوعیت کی مانگ کرنے والے سیاسی رہنماؤں اور ان کے حامیوں کے ساتھ سختی برتی جانے لگی۔ پنجاب کے دو اہم رہنما ستیہ پال اور سیف الدین کچلو گرفتارکر لیے گئے اور امرتسر سے شہر بدر کر دیے گئے۔ یہ دونوں پنجاب کے اہم رہنماؤں میں سے تھے۔ ان کے ساتھ حکومت کا یہ سلوک عوام کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
انھوں نے احتجاجی جلوس اور جلسے شروع کر دیے۔ جنھیں جنرل ڈائر نے نہایت سختی سے کچلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا خیال تھا کہ عوام کو سختی سے کچل کر ہی تاج برطانیہ کی حکمرانی قائم رکھی جا سکتی ہے۔ 11 اپریل کو شہر میں فوج بلا لی گئی۔ ڈائر نے یہ حکم جاری کیا کہ اگر کسی نے بھی جلسے، جلوس کی کوشش کی یا تشدد سے کام لیا تو اسے شدت سے کچل دیا جائے گا اور ذمے داری ان لوگوں کی ہوگی جو سرکار مخالف کسی بھی کارروائی میں شریک ہوں گے۔
13 اپریل کو بیساکھی کا تہوار تھا۔ لوگ جلیانوالہ باغ کی طرف چلے۔ چاروں طرف سے عمارتوں سے گھرے ہوئے اس باغ میں جھولے والوں نے جھولے لگائے اور چھابڑی والے گولی مٹھائی، لیمن جوس اور چاٹ کا سامان لے کر پہنچ گئے۔ شہر والے اپنے بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ باغ میں آئے جہاں ایک احتجاجی جلسے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ابھی چند منٹ بعد کیا ہونے والا ہے۔ یہ باغ جس میں پندرہ، بیس ہزار افراد سما سکتے تھے، جب بھر گیا تو جنرل ڈائر اپنی پلٹن کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ اس کے گھڑ سوار سپاہیوں نے باغ سے باہر نکلنے والا واحد راستہ بند کر دیا اور اس کے بعد جنرل ڈائر نے فائرنگ کا حکم دیا۔
نہتے اور پرُامن شہریوں پر گولیوں کی برسات ہو گئی۔ کچھ لوگ سیدھی فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے۔ کچھ جان بچانے کے لیے بھاگے لیکن فرار کا راستہ بند تھا، ان میں سے کچھ کچلے گئے اور ختم ہوئے۔ ڈائر کے سپاہی اس وقت تک فائرنگ کرتے رہے جب تک ان کے پاس گولیاں ختم نہ ہو گئیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس روز 379 ہندوستانی ہلاک ہوئے جب کہ آزاد ذرایع کے مطابق ایک ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے۔ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔
یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس کی گونج سارے ہندوستان میں سنی گئی حد تو یہ ہے کہ برطانوی سیاستدانوں نے بھی اسے قابل مذمت قرار دیا۔ ہنٹر کمیشن قائم کیا گیا جس نے اس پورے واقعے کی تحقیق کی۔ اس سانحے کے نتیجے میں امرتسر کو دو مہینے کا نہایت سخت کرفیو بھگتنا پڑا۔ ایک انگریز خاتون جو ایک گلی میں کسی ہندوستانی کے ہاتھ قتل ہوئی تھی، اس کا انتقام ڈائر نے اس طرح لیا کہ ہر وہ شخص جو اس گلی سے گزرتا تھا۔ وہ پیٹ کے بل رینگ کر جا سکتا تھا۔ ہندوستانیوں کی عزت نفس کو کچلنے کے جتنے طریقے استعمال کیے جا سکتے تھے وہ کیے گئے۔
جنرل ڈائر اور اس کے ہم خیال انگریزوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ رولٹ ایکٹ کے خلاف عوام میں جو غم وغصہ بھڑکا تھا، اسے گولیوں اور تشدد سے نہیں بجھایا جا سکتا بلکہ سخت گیر رویہ اشتعال کو بھڑکانے کا سبب بن رہا تھا۔ جلیانوالہ باغ تحریک آزادی کو بڑھاوا دینے کا بہت بڑا سبب بنا اور بھگت سنگھ جیسے شیر دل پیدا ہوئے۔ بھگت سنگھ نے جلیانوالہ باغ جا کر وہاں کی خاک چومی تھی اور برطانوی راج سے لڑنے کا عہد کیا تھا۔
آج ہم اگر تحریک آزادی کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ رولٹ ایکٹ اورجلیانوالہ باغ اس تحریک کے کتنے اہم سنگ میل تھے۔ دنیا میں تشدد سے حکومت کرنے والے کبھی بھی یہ نہیں سوچتے کہ ان کے خونیں اقدامات کن بڑے طوفانوں کی پرورش کر رہے ہیں، ایسے طوفان جو آخر کار آمرانہ طرز حکومت کو اُڑا لے جاتے ہیں، ان کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔