پنجاب بیوروکریسی کی نئی صف بندی وزیر اعلیٰ کا درست فیصلہ

تقرروتبادلوں کا دوسرامرحلہ مزیدوسیع ہوگااور اس کادائرہ کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، آر پی اوز اور ڈی پی اوزتک پھیلا ہوا ہوگا۔

تقرروتبادلوں کا دوسرامرحلہ مزیدوسیع ہوگااور اس کادائرہ کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، آر پی اوز اور ڈی پی اوزتک پھیلا ہوا ہوگا۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان متعدد مرتبہ یہ بیان دے چکے ہیں کہ بیوروکریسی کے کچھ لوگ تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار سمیت متعدد صوبائی وزراء کو بھی بیوروکریسی کے حوالے سے شدید تحفظات اور شکایات تھے۔

تحریک انصاف کے بعض اہم رہنما یہ بھی کہتے ہیں کہ پنجاب میں کہنے کو تو حکومت تحریک انصاف کی ہے لیکن کلیدی عہدوں پر مسلم لیگ(ن) کے ''قریبی'' افسر تعینات ہیں جو حکومت کو دانستہ طور پر کمزور اور ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔کچھ روز قبل عمران خان نے دورہ لاہور کے موقع پر پنجاب کابینہ اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں وزراء نے اپنے محکموں کے سیکرٹریز کے عدم تعاون بارے شکایات کے انبار لگا دیئے تھے جبکہ پنجاب پولیس کے سربراہ کے اوپر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا جس پر عمران خان نے عثمان بزدار کو تقرر وتبادلے کرنے کی ہدایت کی تھی۔دو روز قبل پہلے مرحلے میں آئی جی پنجاب سمیت 15 صوبائی سیکرٹریز کے تبادلے ہوئے ہیں لیکن قوی امکان ہے کہ تقرر وتبادلوں کا دوسرا مرحلہ مزید وسیع ہوگا اور اس کا دائرہ کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، آر پی اوز اور ڈی پی اوز تک پھیلا ہوا ہوگا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اہم رہنما پہلے والے افسروں کو بھی ''ن'' لیگ کا چہیتا قرار دیتے تھے اور اب تبادلوں کے بعد تعینات ہونے والے بعض نئے افسروں کو بھی اسی الزام کا سامنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں بعض افسروں نے خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ثابت کرنے کی کوشش کی،ان کے ہر جائز وناجائز حکم کی بجا آوری کیلئے قانون اور قواعد وضوابط کو موم کی ناک بنا ڈالا لیکن ایسے افسروں کی تعداد نہایت کم تھی اور ان کے ناموں سے سبھی واقف ہیں اور وہ لوگ آج نیب کا بھی سامنا کر رہے ہیں، بعض افسر ایسے بھی تھے جو میاں صاحب کا ''ہر اول دستہ'' تو نہیں تھے لیکن انہوں نے کسی مصلحت یا دباو میں ن لیگی سرکار کیلئے چھوٹی موٹی ڈنڈی ماری تھی یا پھرلاہور بدر ہونے سے بچنے اور اچھی پوسٹنگ کیلئے شہباز سرکار کو اپنی وفاداری کا دکھاوا ضرور کیا مگر مجموعی طور پر وہ بیوروکریسی ن گروپ کا حصہ نہیں تھے۔

یہ تصور کرنا بالکل غلط ہوگا کہ ن لیگ کے دور حکومت میں جو بھی افسر ایوان وزیر اعظم یا ایوان وزیر اعلی میں کسی اہم پوسٹ پر تعینات رہا ہے یا کسی بڑے اور اہم محکمہ کا سیکرٹری یا ڈی جی لگا رہا ہے وہ لازمی طور پر ن لیگ کا جیالا ہی ہوگا۔ میاں شہباز شریف ''ون مین آرمی'' پر یقین رکھتے ہیں لہذا انہوں نے ہر ایسے افسر کو خود سے دور کر دیا جس نے کسی منصوبے یا پالیسی میں میاں صاحب کے مزاج کے خلاف مشورہ دینے کی کوشش کی۔ سول اور پولیس بیوروکریسی بھی اسی معاشرے میں سے منتخب ہوتی ہے،جیسے ہم سب میں من الحیث البشر کئی خامیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں ، ہم بھی دباو میں آجاتے ہیں ویسے ہی یہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔


سول افسر کی سب سے بڑی کوشش لاہور میں کسی اچھے عہدے پر تعیناتی کی ہوتی ہے کیونکہ اس کے بیوی بچے یہاں ہوتے ہیں، سکولوں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں لہذا وہ کوشش کرتا ہے کہ لاہور یا اس کے نزدیک ترین مقام پر ہی پوسٹنگ ہو،اسی ''لالچ'' میں وہ کئی معاملات میں مصلحتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔گزشتہ دس برس میں لاہور کو ہی ترقیاتی کاموں کا مرکز بنا دیا گیا تھا جبکہ باقی پورا پنجاب محرومی کا شکار رہا لہذا اگر کسی افسر نے لاہور میں پوسٹنگ کی خاطر شہباز سرکار کی جی حضوری کی تو اسے اب رعایت ملنی چاہیے کیونکہ اب تو نیا پاکستان بن رہا ہے۔

سول سروس کے قابل ترین افسروں کی بڑی تعداد پنجاب میں ہوتی ہے ،ہر افسر نہ تو کرپٹ ہوتا ہے نہ ہی خوشامدی، ایسے افسر آج بھی موجود ہیں جو ناجائز مطالبے پر نہ صرف NO کہنے کی جرات رکھتے ہیں بلکہ وہ فائلوں اور سمریوں پر ایسی نوٹنگ کر دیتے ہیں کہ ان کے بعد آنے والا کوئی افسر بھی یہ ناجائز کام نہ کر پائے۔نیا پاکستان بنانے والوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ پوری سول سروس کو فارغ کر کے نئی بیوروکریسی لانا ممکن نہیں ہے ،لہذا ہر قابل افسر پر''ن'' لیگ کا لیبل لگا کر اس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا قتل عام کر دینا کسی طور درست نہیں۔تحریک انصاف کا طرز حکومت گزشتہ تین یا چار دہائیوں میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں سے یکسر مختلف ہے لہذا بیوروکریسی کو کچھ وقت دینا چاہیئے کہ وہ اس تبدیلی سے ہم آہنگ ہو سکے۔

وزیر اعلی سردار عثمان بزدار نے پنجاب میں نئی ٹیم بنانے کا آغاز اہم ترین محکموں میں تبدیلی سے کیا ہے۔ صوبے میں اس وقت گندم خریداری مہم جاری ہے جو حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے، سابقہ سیکرٹری فوڈ شوکت علی نے ڈھائی برس میں محکمہ خوراک کی ترقی کیلئے بہت شاندار کام کیا ہے اور اب حکومت نے ایک قابل اور منجھے ہوئے افسر نسیم صادق کو سیکرٹری فوڈ تعینات کیا ہے،نسیم صادق ایک ایسے افسر ہیں جو اپنی غیر معمولی قوت فیصلہ، سخت مانیٹرنگ اور سرکاری امور میں بے جا مداخلت کے خلاف سخت مزاحمت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں،اس وقت بعض لوگ ان پر بھی ''ن'' لیگ کا لیبل لگانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ بھول رہے ہیں کہ میاں شہباز شریف کے ہی دور اقتدار میں نسیم صادق کو بحیثیت ڈائریکٹر جنرل ایکسائز، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر عمر سیف سے اختلافات کی وجہ سے میاں صاحب کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔نسیم صادق کے آنے سے گندم خریداری مہم میں نئی تیزی اور فائدہ مند تبدیلیوں کی امید بڑھ گئی ہے۔

احمد جاوید قاضی بہترین افسروں میں سے ایک ہیں اور انہوں نے اپنی ہر پوسٹنگ کے دوران کامیاب وقت گزارا ہے ، صوبائی حکومت نے انہیں سیکرٹری آبپاشی تعینات کیا ہے، یہ محکمہ زراعت اور کسان کیلئے نہایت اہم ہے ،اور اس محکمہ میں سیاسی دباو اور مداخلت بھی حد سے زیادہ ہوتی ہے لہذا احمد جاوید قاضی کے آنے کے بعد محکمہ آبپاشی جو کہ گزشتہ سال، ڈیڑھ سال سے سست روی کا شکار تھا اور کئی معاملات مصلحتوں کا شکار ہو چکے تھے اب اس محکمہ کی تنظیم نو بھی ہو گی اور میرٹ پر فیصلوں کی بھی امید ہے۔ سیکرٹری ایکسائز کے عہدے پر تعینات ہونے والے بیرسٹر نبیل احمد اعوان اعلی تعلیم سے آراستہ سول افسر ہیں ، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زمین سے جڑے آدمی ہیں لہذا فیصلہ کرتے وقت زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہیں۔ وہ ٹیم ورک پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں مس گائیڈ کرنا ممکن نہیں۔ امید ہے کہ وہ سابقہ سیکرٹریز ایکسائز بابر شفیع اور شیر عالم محسود کے دور میں پیدا ہونے والے بحرانوں کا خاتمہ جلد از جلد کر پائیں گے اور محکمہ ایکسائز کے سالانہ ریونیو میں اضافہ کیلئے بھی غیر معمولی سکیمیں متعارف کروائیں گے ۔
Load Next Story