مصنوعی دانت اگانے کی طرف پیش رفت
سائنس دانوں نے مصنوعی طریقے سے دانت اگانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
سائنس دانوں نے مصنوعی طریقے سے دانت اگانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور جس شے کو استعمال کرکے ایسا کیاگیا ہے، وہ کچھ اور نہیں بلکہ انسانی پیشاب ہے۔
اس تجربے کی تفصیلات جریدے''سیل ری جنریشن جرنل'' میں شائع کی گئی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ پیشاب کو سٹم سیلز کے سورس کے طورپر استعمال کرکے دانتوں کو اگایا جاسکتا ہے۔ یہ تجربہ چین میں کیا گیا ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس تکنیک کو استعمال کرکے ضائع ہوچکے دانتوں کا بدل حاصل کیاجاسکے گا۔ تاہم سٹم سیلز کے دیگر محققین کا کہنا ہے کہ ابھی اس ہدف کو حاصل کرنے میں کافی وقت لگے گا۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں سائنس دانوں کی ٹیمیں ایسے طریقے تلاش کررہی ہیں جس کے ذریعے عمر کی زیادتی یا خیال نہ رکھے جانے کے باعث ضائع ہونے والے دانتوں کی جگہ نئے دانت اگائے جاسکیں۔اس سلسلے میں سٹم سیلزتحقیق کا مقبول ترین ذریعہ ہیں جو ماسٹر سیلزہوتے ہیں جن کو کسی بھی قسم کے ٹشوز میں اگایا جاسکتا ہے۔ اب چین کے گوانگ زو انسٹی ٹیوٹ آف بائیو میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے سائنس دانوں نے پیشاب کو استعمال کرنے کے اس کوشش کا آغاز کردیا ہے۔
وہ سیلز یا خلیات جو جسم میں سے باہر نکل آتے ہیں جیسے پیشاب کے راستے سے جو خلیات خارج ہوتے ہیں ، ان کو لیبارٹری میں نشوونما کے عمل سے گذارا جاتا ہے جس کے بعد یہ چنے گئے خلیات ردوبدل کرکے سٹم سیلز میں تبدیل کردیے جاتے ہیں۔اس قسم کے ملے جلے ہوئے سیلز اور ایک چوہیا سے حاصل کیے گئے مواد کو جانوروں میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ تین ہفتے بعد خلیات کا یہ مجموعہ دانت جیسی شکل اختیار کرنے لگا۔ دانت کی شکل والے اس وجود میں دانت کا گودا ، ڈنٹن ، انیمل سپیس enamel space اور انیمل عضو enamel organ بھی موجود تھے۔تاہم یہ دانت اس قدرسخت نہ تھا جس طرح کے دانت ہوتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے ذریعے فوری طور پر ٹوٹے ہوئے اور ضائع شدہ دانتوں کے متبادل نئے دانت اگانے کا ہدف حاصل نہیں ہوگا تاہم محققین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق آگے چل کر مزید تحقیق کی راہ کھول سکتی ہے اور یوں ایک دن نئے انسانی دانت اگانے کا خواب پورا کیا جاسکتا ہے۔پروفیسر کرس میسن جو کہ یونیورسٹی کالج لندن میں سٹم سیلز کے سائنس دان ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ پیشاب کے ذریعے دانت اگانے کی بات کمزور لگتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے یہ ذریعہ بدترین ہے اور پہلے مرحلے میں اس سے بہت کم سیلز پیدا ہوتے ہیں اور ان کے سٹم سیلز میں تبدیل ہونے کی صلاحیت بہت سست ہوتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کی وجہ سے دانتوں کے آلودہ ہونے، مثال کے طورپر بیکٹیریا وغیرہ سے، کا خدشہ بھی بہت زیادہ ہوگا ۔پروفیسر میسن نے مزید کہا کہ بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ چونکہ دانت ایک قسم کا گودا حاصل کرتے ہیں جس میں عصبے اور خون کی نالیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ان کے مستقل دانت میں تبدیل ہونے کا عمل پیدا ہوتا ہے۔
اس تجربے کی تفصیلات جریدے''سیل ری جنریشن جرنل'' میں شائع کی گئی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ پیشاب کو سٹم سیلز کے سورس کے طورپر استعمال کرکے دانتوں کو اگایا جاسکتا ہے۔ یہ تجربہ چین میں کیا گیا ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس تکنیک کو استعمال کرکے ضائع ہوچکے دانتوں کا بدل حاصل کیاجاسکے گا۔ تاہم سٹم سیلز کے دیگر محققین کا کہنا ہے کہ ابھی اس ہدف کو حاصل کرنے میں کافی وقت لگے گا۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں سائنس دانوں کی ٹیمیں ایسے طریقے تلاش کررہی ہیں جس کے ذریعے عمر کی زیادتی یا خیال نہ رکھے جانے کے باعث ضائع ہونے والے دانتوں کی جگہ نئے دانت اگائے جاسکیں۔اس سلسلے میں سٹم سیلزتحقیق کا مقبول ترین ذریعہ ہیں جو ماسٹر سیلزہوتے ہیں جن کو کسی بھی قسم کے ٹشوز میں اگایا جاسکتا ہے۔ اب چین کے گوانگ زو انسٹی ٹیوٹ آف بائیو میڈیسن اینڈ ہیلتھ کے سائنس دانوں نے پیشاب کو استعمال کرنے کے اس کوشش کا آغاز کردیا ہے۔
وہ سیلز یا خلیات جو جسم میں سے باہر نکل آتے ہیں جیسے پیشاب کے راستے سے جو خلیات خارج ہوتے ہیں ، ان کو لیبارٹری میں نشوونما کے عمل سے گذارا جاتا ہے جس کے بعد یہ چنے گئے خلیات ردوبدل کرکے سٹم سیلز میں تبدیل کردیے جاتے ہیں۔اس قسم کے ملے جلے ہوئے سیلز اور ایک چوہیا سے حاصل کیے گئے مواد کو جانوروں میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ محققین کا کہنا ہے کہ تین ہفتے بعد خلیات کا یہ مجموعہ دانت جیسی شکل اختیار کرنے لگا۔ دانت کی شکل والے اس وجود میں دانت کا گودا ، ڈنٹن ، انیمل سپیس enamel space اور انیمل عضو enamel organ بھی موجود تھے۔تاہم یہ دانت اس قدرسخت نہ تھا جس طرح کے دانت ہوتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے ذریعے فوری طور پر ٹوٹے ہوئے اور ضائع شدہ دانتوں کے متبادل نئے دانت اگانے کا ہدف حاصل نہیں ہوگا تاہم محققین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق آگے چل کر مزید تحقیق کی راہ کھول سکتی ہے اور یوں ایک دن نئے انسانی دانت اگانے کا خواب پورا کیا جاسکتا ہے۔پروفیسر کرس میسن جو کہ یونیورسٹی کالج لندن میں سٹم سیلز کے سائنس دان ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ پیشاب کے ذریعے دانت اگانے کی بات کمزور لگتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے یہ ذریعہ بدترین ہے اور پہلے مرحلے میں اس سے بہت کم سیلز پیدا ہوتے ہیں اور ان کے سٹم سیلز میں تبدیل ہونے کی صلاحیت بہت سست ہوتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کی وجہ سے دانتوں کے آلودہ ہونے، مثال کے طورپر بیکٹیریا وغیرہ سے، کا خدشہ بھی بہت زیادہ ہوگا ۔پروفیسر میسن نے مزید کہا کہ بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ چونکہ دانت ایک قسم کا گودا حاصل کرتے ہیں جس میں عصبے اور خون کی نالیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ان کے مستقل دانت میں تبدیل ہونے کا عمل پیدا ہوتا ہے۔