قبائلی اضلاع میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کا انعقاد مثبت روایت
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کے حوالے سے دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے جب ضلع خیبر میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تواس کا مقصد وہاں کے رہائشیوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ وہ اب صوبہ خیبرپختونخوا کا ہی حصہ ہیں جس کے بعد ہی سے انتظار کیا جا رہا تھا کہ اب اگلا نمبر کس قبائلی ضلع کا آئیگا اور یہ قرعہ ضلع مہمند کے نام نکلا جہاں صوبائی کابینہ کے اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس سے یقینی طور پر مزید مثبت پیغام گیا ہے اور یقینی طور پر یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
گو کہ اب ماہ رمضان قریب ہے اور پھر ساتھ ہی قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی نزدیک آگئے ہیں تاہم اس دوران دیگر پانچ قبائلی اضلاع میں بھی صوبائی کابینہ کے اجلاسوں کا انعقاد ہوتا رہنا چاہیے اور ان اجلاسوں کے حوالے سے یہ بھی ضرور دیکھنا چاہیے کہ جس بھی قبائلی ضلع میں کابینہ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہو اس میں دیگر معمول کے ایجنڈے کے ساتھ خصوصی طور پر اس متعلقہ ضلع کے حوالے سے آئیٹمز کو ایجنڈے کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ اس ضلع ہی میں اس سے متعلق کسی نہ کسی معاملے میں فیصلہ کیاجائے جس کا اعلان بھی وہیں پر ہو جس سے اس ضلع کے باسیوں کو مثبت پیغام جائے گا۔
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کے حوالے سے دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے جس کے لیے جہاں صوبائی حکومت نے اصلاحاتی ایجنڈے کوعملی جامہ پہنانے کے حوالے سے فوکس کیا ہوا ہے وہیں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی دوڑ لگائی جا رہی ہے جس کی بنیادی وجہ جون،جولائی میں وہاں منعقدہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہیں جس کے لیے مرکزی حکومت نے وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی کوخصوصی ٹاسک پر خیبرپختونخوا بھیج رکھا ہے جس کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ جہاں وہ ایک جانب قبائلی علاقہ جات میں جاری اصلاحاتی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے وہاں کے مسائل میں کمی لانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں وہیں پر ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں بھی دوڑ لگائی جائے اور پھر ساتھ ہی قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے بھی مناسب امیدواروں کا انتخاب کیا جا سکے جو وننگ ہارسز ہوں تاکہ پی ٹی آئی قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے وہاں سے اچھا آغاز کر سکے ۔
ہفتہ رفتہ حقیقی معنوں میں عوامی نیشنل پارٹی کا ہفتہ تھا کیونکہ اس ہفتہ میںعوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے انتخابات کاانعقاد ہوا جس میںباچاخان فیملی کی چوتھی نسل پارٹی کی قیادت کی صورت میں سامنے آئی ہے ،ایمل ولی خان کے اے این پی کے صوبائی صدر بننے کا معاملہ خوب،خوب گرم رہا ،ایک جانب اگر پارٹی رہنماؤں کی جانب سے ان کی آمد کو خوشگوار تبدیلی قراردیا جاتا رہا تو دوسری جانب نوعمری کے حوالے سے ان پر تنقید بھی ہوتی رہی، بالکل ایسے ہی جیسے امیر حیدر ہوتی پر ہوتی رہی تھی مگر انھوں نے سارے اندازے غلط ثابت کئے۔
اور اب ایمل ولی خان کے حوالے سے بھی لگ بھگ ویسی ہی باتیں اور قصے کہانیاں جاری ہیں لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ انہوں نے جس گھر اور جن ہاتھوں میں پرورش پائی اس کے اثرات ان کی کارکردگی میں نظر آئیں گے اور وہ ثابت کرینگے کہ وہ باچاخان ،ولی خان اور اسفندیارولی خان کی اولاد ہیں اور انھیں اپنے باپ ،دادا کی پارٹی چلانا بخوبی آتی ہے، رہی بات امیرحیدر ہوتی کی تو ان کے حوالے سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے مرکزی صدر بن جائیں کیونکہ اس وقت وہ اکلوتے رکن ہیں جو قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور پھر ان کے پاس وزارت اعلیٰ اور پارٹی کے صوبائی صدر ہونے کا تجربہ بھی موجود ہے اور اس تجربہ کی بنیاد پر وہ پارٹی کی مرکزی سطح پر قیادت کر سکتے ہیں تاہم ایسا اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ جب پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان سائیڈ لائن ہونے پر تیار ہوں اور اس بارے میں اب تک کسی قسم کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ معاملات صرف زیر غور ہیں۔
اور اے این پی کے صوبائی انتخابات کے حوالے سے اہم بات یہ رہی کہ صوبائی سیکرٹری اطلاعات کے عہدہ پردانیال بلورکو مقابلے سے دستبردار کرانے کے لیے ان کے ساتھ رابطوں کو الٹا اثر ہوا،نہ صرف یہ کہ دانیال بلور اے این پی ہی سے مستعفی ہوگئے بلکہ ساتھ ہی حاجی غلام احمد بلور بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے جس سے اے این پی میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی مگر ایمل ولی خان اپنی کابینہ کا پہلا اجلاس کرنے کے بعد پورے لاؤلشکر کے ساتھ بلورہاؤس جا پہنچے جہاں یقینی طور پر بلور خاندان کی جانب سے گلے شکوے تو ضرور کیے گئے لیکن بلور خاندان اورایمل ولی خان نے ایک دوسرے کو گلے سے لگاتے ہوئے تجدیدعہد وفا کیا اور جو اختلاف پیداہوا تھا۔
اس کا ڈراپ سین ہوگیا ۔ جے یوآئی کے انٹراپارٹی انتخابات کا مرحلہ باقی ہے، جے یوآئی کے گزشتہ انٹراپارٹی انتخابات میں نہ صرف یہ کہ خیبرپختونخوا کے انتخابات میں اچھی خاصی گیم ہوئی تھی اور گروپ بندیاں اور دھڑے کھل کر سامنے آئے تھے بلکہ پارٹی کے مرکزی انتخابات میں بھی مولانا محمدخان شیرانی مرکزی امارت کے لیے سامنے آگئے تھے اور اس مرتبہ بھی امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ پرانے حساب چکتا کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جس کا پہلا سین کے پی کے انتخابات میں نظرآئے گا جس میں مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک کی جوڑی ایک مرتبہ پھر امارت اور جنرل سیکرٹری کے عہدوں کے لیے میدان میں اترنے کے لیے تیار ہے جن کی راہ روکنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔
اور یہ تیاریاں وہی گروپ کررہاہے جسے گزشتہ انٹراپارٹی انتخابات میں زخم لگے تھے،وہ گروپ اپنے ان زخموں کا حساب برابر کرنے کی کوشش کرے گا جس کے لیے جوڑتوڑ جاری ہے اور اس کے بعد مرکزی انتخابات کا مرحلہ آئے گاجس میں مولانافضل الرحمن کو تو کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہیں تاہم دیگر عہدوں جن میں مرکزی جنرل سیکرٹری کا عہدہ بھی شامل ہے ،ان پر اچھا خاصا مقابلہ ہوگا، تاہم یہ انتخابات عید کے بعد ہونے ہیں اور ماہ رمضان کے دوران اس سلسلے میں جوڑتوڑ میں اچھی خاصی تیزی آئے گی۔
گو کہ اب ماہ رمضان قریب ہے اور پھر ساتھ ہی قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی نزدیک آگئے ہیں تاہم اس دوران دیگر پانچ قبائلی اضلاع میں بھی صوبائی کابینہ کے اجلاسوں کا انعقاد ہوتا رہنا چاہیے اور ان اجلاسوں کے حوالے سے یہ بھی ضرور دیکھنا چاہیے کہ جس بھی قبائلی ضلع میں کابینہ کا اجلاس منعقد ہو رہا ہو اس میں دیگر معمول کے ایجنڈے کے ساتھ خصوصی طور پر اس متعلقہ ضلع کے حوالے سے آئیٹمز کو ایجنڈے کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ اس ضلع ہی میں اس سے متعلق کسی نہ کسی معاملے میں فیصلہ کیاجائے جس کا اعلان بھی وہیں پر ہو جس سے اس ضلع کے باسیوں کو مثبت پیغام جائے گا۔
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کے حوالے سے دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے جس کے لیے جہاں صوبائی حکومت نے اصلاحاتی ایجنڈے کوعملی جامہ پہنانے کے حوالے سے فوکس کیا ہوا ہے وہیں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی دوڑ لگائی جا رہی ہے جس کی بنیادی وجہ جون،جولائی میں وہاں منعقدہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہیں جس کے لیے مرکزی حکومت نے وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی کوخصوصی ٹاسک پر خیبرپختونخوا بھیج رکھا ہے جس کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ جہاں وہ ایک جانب قبائلی علاقہ جات میں جاری اصلاحاتی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے وہاں کے مسائل میں کمی لانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں وہیں پر ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں بھی دوڑ لگائی جائے اور پھر ساتھ ہی قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے بھی مناسب امیدواروں کا انتخاب کیا جا سکے جو وننگ ہارسز ہوں تاکہ پی ٹی آئی قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے وہاں سے اچھا آغاز کر سکے ۔
ہفتہ رفتہ حقیقی معنوں میں عوامی نیشنل پارٹی کا ہفتہ تھا کیونکہ اس ہفتہ میںعوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے انتخابات کاانعقاد ہوا جس میںباچاخان فیملی کی چوتھی نسل پارٹی کی قیادت کی صورت میں سامنے آئی ہے ،ایمل ولی خان کے اے این پی کے صوبائی صدر بننے کا معاملہ خوب،خوب گرم رہا ،ایک جانب اگر پارٹی رہنماؤں کی جانب سے ان کی آمد کو خوشگوار تبدیلی قراردیا جاتا رہا تو دوسری جانب نوعمری کے حوالے سے ان پر تنقید بھی ہوتی رہی، بالکل ایسے ہی جیسے امیر حیدر ہوتی پر ہوتی رہی تھی مگر انھوں نے سارے اندازے غلط ثابت کئے۔
اور اب ایمل ولی خان کے حوالے سے بھی لگ بھگ ویسی ہی باتیں اور قصے کہانیاں جاری ہیں لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ انہوں نے جس گھر اور جن ہاتھوں میں پرورش پائی اس کے اثرات ان کی کارکردگی میں نظر آئیں گے اور وہ ثابت کرینگے کہ وہ باچاخان ،ولی خان اور اسفندیارولی خان کی اولاد ہیں اور انھیں اپنے باپ ،دادا کی پارٹی چلانا بخوبی آتی ہے، رہی بات امیرحیدر ہوتی کی تو ان کے حوالے سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے مرکزی صدر بن جائیں کیونکہ اس وقت وہ اکلوتے رکن ہیں جو قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور پھر ان کے پاس وزارت اعلیٰ اور پارٹی کے صوبائی صدر ہونے کا تجربہ بھی موجود ہے اور اس تجربہ کی بنیاد پر وہ پارٹی کی مرکزی سطح پر قیادت کر سکتے ہیں تاہم ایسا اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ جب پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان سائیڈ لائن ہونے پر تیار ہوں اور اس بارے میں اب تک کسی قسم کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا بلکہ معاملات صرف زیر غور ہیں۔
اور اے این پی کے صوبائی انتخابات کے حوالے سے اہم بات یہ رہی کہ صوبائی سیکرٹری اطلاعات کے عہدہ پردانیال بلورکو مقابلے سے دستبردار کرانے کے لیے ان کے ساتھ رابطوں کو الٹا اثر ہوا،نہ صرف یہ کہ دانیال بلور اے این پی ہی سے مستعفی ہوگئے بلکہ ساتھ ہی حاجی غلام احمد بلور بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے جس سے اے این پی میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی مگر ایمل ولی خان اپنی کابینہ کا پہلا اجلاس کرنے کے بعد پورے لاؤلشکر کے ساتھ بلورہاؤس جا پہنچے جہاں یقینی طور پر بلور خاندان کی جانب سے گلے شکوے تو ضرور کیے گئے لیکن بلور خاندان اورایمل ولی خان نے ایک دوسرے کو گلے سے لگاتے ہوئے تجدیدعہد وفا کیا اور جو اختلاف پیداہوا تھا۔
اس کا ڈراپ سین ہوگیا ۔ جے یوآئی کے انٹراپارٹی انتخابات کا مرحلہ باقی ہے، جے یوآئی کے گزشتہ انٹراپارٹی انتخابات میں نہ صرف یہ کہ خیبرپختونخوا کے انتخابات میں اچھی خاصی گیم ہوئی تھی اور گروپ بندیاں اور دھڑے کھل کر سامنے آئے تھے بلکہ پارٹی کے مرکزی انتخابات میں بھی مولانا محمدخان شیرانی مرکزی امارت کے لیے سامنے آگئے تھے اور اس مرتبہ بھی امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ پرانے حساب چکتا کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جس کا پہلا سین کے پی کے انتخابات میں نظرآئے گا جس میں مولانا گل نصیب خان اور مولانا شجاع الملک کی جوڑی ایک مرتبہ پھر امارت اور جنرل سیکرٹری کے عہدوں کے لیے میدان میں اترنے کے لیے تیار ہے جن کی راہ روکنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔
اور یہ تیاریاں وہی گروپ کررہاہے جسے گزشتہ انٹراپارٹی انتخابات میں زخم لگے تھے،وہ گروپ اپنے ان زخموں کا حساب برابر کرنے کی کوشش کرے گا جس کے لیے جوڑتوڑ جاری ہے اور اس کے بعد مرکزی انتخابات کا مرحلہ آئے گاجس میں مولانافضل الرحمن کو تو کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہیں تاہم دیگر عہدوں جن میں مرکزی جنرل سیکرٹری کا عہدہ بھی شامل ہے ،ان پر اچھا خاصا مقابلہ ہوگا، تاہم یہ انتخابات عید کے بعد ہونے ہیں اور ماہ رمضان کے دوران اس سلسلے میں جوڑتوڑ میں اچھی خاصی تیزی آئے گی۔