فکری ابہام میں گھرا پاکستان
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ان غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط فیصلوں کا تسلسل ہے، جو گزشتہ 66 برسوں کے دوران جاری ہیں۔
KARACHI:
جمعرات کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کو ایک مسلح شخص 5 گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھتا ہے اور پوری سیکیورٹی فورس اس ایک شخص کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ وہ ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے۔ کون سی شریعت یہ اسے بھی نہیں معلوم، مگر حکام اس کے اس مطالبے کے بعد خوف و ہراس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ فکری ابہام میں مبتلا ہونے کے سبب پاکستان کی ریاست اور اس کے جغرافیہ کو نقصان پہنچانے والے عناصر پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے۔
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ان غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط فیصلوں کا تسلسل ہے، جو گزشتہ 66 برسوں کے دوران جاری ہیں اور ان پر غیر منطقی انداز میں اصرار کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال اس لیے بھی پیدا ہوئی ہے، کیونکہ حکمرانوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی ان ہی نعروں کی بنیاد پر سیاست کو جاری رکھنے کی کوشش کی جو تحریک پاکستان کے دوران ایک سیاسی ضرورت تھے۔ اس کے علاوہ تاریخ کے ان گنت ایسے حقائق ہیں، جن تک عوام کی رسائی نہ ہونے کے سبب بھی بہت سے ابہام پیدا ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ وہ فصل ہے جو خود ہم نے بوئی تھی اور اب اسے کاٹ رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت میں غیر ملکی ہاتھ تلاش کرنا دراصل خود کو دھوکا دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔
ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ لکھا جا چکا ہے کہ دنیا میں مختلف اقوام اپنی آزادی کے لیے مختلف نعرے لگاتی ہیں، مگر آزادی میسر آنے کے بعد وہ ان نعروں کو فراموش کر کے اپنی پوری توجہ قومی ترقی کے اہداف کے حصول پر مرکوز کرتی ہیں۔ یہاں دو مثالیں دینا کافی ہو گا۔ پہلی مثال شمالی آئرلینڈ کی ہے، جہاں اکثریت رومن کیتھولک عقائد کے ماننے والوں کی ہے اور برطانیہ کا سرکاری عقیدہ پروٹسٹنٹ ہے۔ اس لیے آئرش ری پبلکن آرمی نے آزادی کی جدوجہد میں مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ مگر جیسے ہی مذاکرات کامیاب ہوئے، انھوں نے اس نعرے کو پس پشت ڈال کر قومی ترقی کے اہداف کے حصول پر توجہ مرکوز کر دی۔
دوسری مثال جنوبی افریقہ کی ہے، جو ڈیڑھ سو برس تک بدترین نسلی امتیاز(Appartheid) کا شکار رہا۔ نیلسن منڈیلا نے اس نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کی اور اپنی زندگی کے 27 برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذار دیے۔ مگر جب آزادی کا سورج طلوع ہوا تو اس شخص کی عظمت یہ تھی کہ اس نے ایک سچائی کمیشن بنا کر حقائق تو اکٹھا ضرور کیے، لیکن اپنے ملک کے عظیم تر مفاد میں عام معافی کا اعلان کیا۔ اگر وہ انتقامی کارروائیوں پر اتر آتے تو آج جنوبی افریقہ ایک مستحکم ملک کی بجائے میدان جنگ بنا ہوتا۔ ان دو مثالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قومی آزادی کی جدوجہد کے دوران عوام کو متحرک کرنے کے لیے بعض رومان پرور نعرے تخلیق کرنا وقت کی ضرورت ہوتے ہیں، مگر ان نعروں کو قومی پالیسی کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ بلکہ اہداف حاصل کرنے کے بعد ان نعروں کے سحر سے نکل کر حقیقی اقدامات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں قومی رہنمائوں کے عقائد، نظریات اور ذاتی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہوتے ہیں، جس پر عوام فخر کرتے ہیں۔ مگر ہم نے تحریک پاکستان کے رہنمائوں کی ذاتی زندگیوں اور ان کے خاندانی مسالک کو پراسرار بنا رکھا ہے۔ نہ جانے وہ کون سا خوف ہے، جو تاریخی حقائق کو منظر عام پر لانے اور اکابرین کے عقائد اور مسلکی وابستگی کے بارے میں معلومات عوام تک پہنچانے میں ہچکچاہٹ کا سبب بنا ہوا ہے۔ حالانکہ اگر تمامتر سچائی کے ساتھ مکمل معلومات عوام تک پہنچائی جاتی تو شاید ہم ان حالات سے دوچار نہ ہوتے جن کا آج شکار ہیں۔ عوام کو اصل حقائق سے آگاہ نہ کرنے اور تاریخ پر مسلسل دبیز پردے ڈالنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ آج ہم ایک ایسی آگ میں سلگ رہے ہیں، جس کے بجھنے کے فی الحال آثار نظر نہیں آ رہے، تاآنکہ سچائی کو تسلیم نہ کر لیا جائے۔
اگر ملک کو متشدد فرقہ واریت اور تنگ نظر مذہبی جنونیت سے نکالنا ہے، تو اپنے عوام اور نوجوان نسل کو تاریخی حقائق کے بارے میں آگہی دینا ہو گی۔ انھیں بتانا ہو گا کہ تحریک پاکستان میں برصغیر کے مسلمانوں کے تمام فقہوں، فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے شہری برابر کے شریک تھے۔ ان کے درمیان فقہہ، مسلک اور فرقہ کے حوالے سے کسی قسم کی تخصیص نہیں تھی۔ ہمیں اپنے عوام کے سامنے یہ حقیقت بھی لانا ہو گی کہ دو قومی نظریہ کے اصل بانی سرسید احمد خان تھے، جو برصغیر میں معتزلہ فکر کا تسلسل تھے۔ اسی طرح یکم اکتوبر 1906ء کو مسلمان زعماء کے جس 17 رکنی وفد نے وائسرائے ہند لارڈ منٹو سے ملاقات کی، اس کی قیادت اسماعیلی فرقہ کے روحانی پیشوا سر سلطان محمد شاہ آغاخان سوئم نے کی تھی۔
اس وفد میں مسلمانوں کے تمام فقہوں، فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے زعماء شامل تھے۔ ملاقات سے واپسی پر سر آغا خان نے24 اکتوبر1906ء کو نواب محسن الملک کو جو اس وفد کا رکن ہونے کے علاوہ مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے سربراہ بھی تھے، خط لکھا کہ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جماعت کی اشد ضرورت ہے۔ نواب صاحب کی جانب سے مثبت جواب آنے پر دسمبر کے چوتھے ہفتے میں مسلمان زعماء ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کے گھر پر جمع ہوئے اور 30 دسمبر 1906ء کو آل انڈیا مسلم لیگ تشکیل پائی۔ اس کے پہلے صدر سر آغا خان، جب کہ پہلے سیکریٹری سید حسن بلگرامی منتخب ہوئے، جن کا تعلق اثنائے عشری شیعہ کمیونٹی سے تھا۔ ورکنگ کمیٹی میں بھی تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان زعماء شامل تھے، کیونکہ اس جماعت کی تشکیل کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے وسیع تر مفادات کا تحفظ تھا۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو یہ بتاتے ہوئے کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ وائسرائے کونسل کے رکن اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر چوہدری ظفر اللہ احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے تھے جب کہ مسلم لیگ کے تیسرے صدر اور بانیِ پاکستان محمد علی جناح اسماعیلی شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ 1898ء میں اثنائے عشری عقیدہ قبول کیا۔ اس کا Affidavit آج بھی ممبئی ہائی کورٹ کے آرکائیو میں موجود ہے۔ اس Affidavit پر علامہ عباس نجفی مرحوم کے دستخط بطور گواہ ثبت ہیں۔ کراچی کے پہلے کمشنر سید ہاشم رضا مرحوم کے مطابق بابائے قوم کی پہلی نماز جنازہ گورنر جنرل ہائوس (موجودہ گورنر ہائوس سندھ) کے بڑے ہال میں پڑھائی گئی، جس کی اقتدا مولانا انیس الحسنین مرحوم نے کی تھی۔ اس کے بعد سرکاری نماز جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی مرحوم نے پڑھائی۔ خطیب القوم نواب بہادر یار جنگ مہدوی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے، جسے بلوچستان میں ذکری کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے لیے اپنی جائیداد، جاگیر اور دولت وقف کرنے والے راجہ صاحب محمود آباد اثنائے عشری شیعہ تھے۔ اس لیے اس ملک کو یک مسلکی ریاست میں تبدیل کرنے کے خواہشمند عناصر کو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ تاریخ سے کس کس باب کو ختم کریں گے، کس کس شخصیت کا تذکرہ کھرچ کر مٹانے کی کوشش کریں گے۔
یہ سب کچھ بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ حقائق پر پردہ ڈالنے سے ذہنوں میں ابہام جنم لیتے ہیں۔ سچائی کو چھپانے سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ قائد اعظم بحیثیت بانی پاکستان پورے ملک کے عوام کے لیے کل بھی محترم تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ لیاقت علی خان کو قوم قائد ملت کہتی ہے اور اسے اس سے غرض نہیں کہ ان کا عقیدہ کیا تھا لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی جدوجہد کا نتیجہ ہے اس لیے اس ملک پر مسلمانوں کے تمام مسالک اور فرقوں کے علاوہ غیرمسلموں کا بھی مساوی حق ہے کیونکہ جس خطے پر پاکستان قائم ہوا ہے، اس پر آباد مسیحی کمیونٹی نے بھی پاکستان کی حمایت کی تھی۔ سندھ کی ہندو برادری اپنی دھرتی چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھی، جسے جبراً یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب وفاق کے تصور اور جمہوری اقدار سے روگردانی کرتے ہوئے بنگالی عوام کی عددی تعداد کو پیریٹی کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی گئی تو سقوط ڈھاکہ ہو گیا پاکستان پر کسی ایک مسلک، فقہہ یا فرقہ کی بالادستی بزور طاقت تھوپنے کی کوشش اس ملک کا وجود ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
لہٰذا ملک کے تمام حلقوں اور شراکت داروں کو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کے مذہبی تشخص کا تعین1973ء کے آئین میں جید علماء اور مذہبی جماعتوں کی سفارشات پر مبنی متفقہ شقوں کے ذریعے ہو چکا ہے۔ اسلیے پاکستان کے مذہبی تشخص میں غیر آئینی طریقہ سے کسی قسم کی تبدیلی ممکن ہے اور نہ اسے ایران یا سعودی عرب کی طرز کی مذہبی ریاست بنانے کا ایڈونچر کیا جا سکتا۔ چنانچہ پاکستان کو بچانے اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان پر کسی ایک مسلک کی بالادستی قائم کرنے کی بجائے شراکتی جمہوریت (Participatory Democracy) کی طرف بڑھنے کی کوشش کرنا چاہیے تا کہ اقتدار و اختیار کی نچلی ترین سطح تک حقیقی منتقلی ہو سکے اور ملک میں موجود مختلف نوعیت کے ابہام کا خاتمہ ہو سکے۔
جمعرات کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کو ایک مسلح شخص 5 گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھتا ہے اور پوری سیکیورٹی فورس اس ایک شخص کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ وہ ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے۔ کون سی شریعت یہ اسے بھی نہیں معلوم، مگر حکام اس کے اس مطالبے کے بعد خوف و ہراس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ فکری ابہام میں مبتلا ہونے کے سبب پاکستان کی ریاست اور اس کے جغرافیہ کو نقصان پہنچانے والے عناصر پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے۔
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ان غلطیوں، کوتاہیوں اور غلط فیصلوں کا تسلسل ہے، جو گزشتہ 66 برسوں کے دوران جاری ہیں اور ان پر غیر منطقی انداز میں اصرار کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال اس لیے بھی پیدا ہوئی ہے، کیونکہ حکمرانوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی ان ہی نعروں کی بنیاد پر سیاست کو جاری رکھنے کی کوشش کی جو تحریک پاکستان کے دوران ایک سیاسی ضرورت تھے۔ اس کے علاوہ تاریخ کے ان گنت ایسے حقائق ہیں، جن تک عوام کی رسائی نہ ہونے کے سبب بھی بہت سے ابہام پیدا ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ وہ فصل ہے جو خود ہم نے بوئی تھی اور اب اسے کاٹ رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت میں غیر ملکی ہاتھ تلاش کرنا دراصل خود کو دھوکا دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔
ان صفحات پر ایک سے زائد مرتبہ لکھا جا چکا ہے کہ دنیا میں مختلف اقوام اپنی آزادی کے لیے مختلف نعرے لگاتی ہیں، مگر آزادی میسر آنے کے بعد وہ ان نعروں کو فراموش کر کے اپنی پوری توجہ قومی ترقی کے اہداف کے حصول پر مرکوز کرتی ہیں۔ یہاں دو مثالیں دینا کافی ہو گا۔ پہلی مثال شمالی آئرلینڈ کی ہے، جہاں اکثریت رومن کیتھولک عقائد کے ماننے والوں کی ہے اور برطانیہ کا سرکاری عقیدہ پروٹسٹنٹ ہے۔ اس لیے آئرش ری پبلکن آرمی نے آزادی کی جدوجہد میں مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ مگر جیسے ہی مذاکرات کامیاب ہوئے، انھوں نے اس نعرے کو پس پشت ڈال کر قومی ترقی کے اہداف کے حصول پر توجہ مرکوز کر دی۔
دوسری مثال جنوبی افریقہ کی ہے، جو ڈیڑھ سو برس تک بدترین نسلی امتیاز(Appartheid) کا شکار رہا۔ نیلسن منڈیلا نے اس نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کی اور اپنی زندگی کے 27 برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذار دیے۔ مگر جب آزادی کا سورج طلوع ہوا تو اس شخص کی عظمت یہ تھی کہ اس نے ایک سچائی کمیشن بنا کر حقائق تو اکٹھا ضرور کیے، لیکن اپنے ملک کے عظیم تر مفاد میں عام معافی کا اعلان کیا۔ اگر وہ انتقامی کارروائیوں پر اتر آتے تو آج جنوبی افریقہ ایک مستحکم ملک کی بجائے میدان جنگ بنا ہوتا۔ ان دو مثالوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قومی آزادی کی جدوجہد کے دوران عوام کو متحرک کرنے کے لیے بعض رومان پرور نعرے تخلیق کرنا وقت کی ضرورت ہوتے ہیں، مگر ان نعروں کو قومی پالیسی کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ بلکہ اہداف حاصل کرنے کے بعد ان نعروں کے سحر سے نکل کر حقیقی اقدامات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں قومی رہنمائوں کے عقائد، نظریات اور ذاتی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہوتے ہیں، جس پر عوام فخر کرتے ہیں۔ مگر ہم نے تحریک پاکستان کے رہنمائوں کی ذاتی زندگیوں اور ان کے خاندانی مسالک کو پراسرار بنا رکھا ہے۔ نہ جانے وہ کون سا خوف ہے، جو تاریخی حقائق کو منظر عام پر لانے اور اکابرین کے عقائد اور مسلکی وابستگی کے بارے میں معلومات عوام تک پہنچانے میں ہچکچاہٹ کا سبب بنا ہوا ہے۔ حالانکہ اگر تمامتر سچائی کے ساتھ مکمل معلومات عوام تک پہنچائی جاتی تو شاید ہم ان حالات سے دوچار نہ ہوتے جن کا آج شکار ہیں۔ عوام کو اصل حقائق سے آگاہ نہ کرنے اور تاریخ پر مسلسل دبیز پردے ڈالنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ آج ہم ایک ایسی آگ میں سلگ رہے ہیں، جس کے بجھنے کے فی الحال آثار نظر نہیں آ رہے، تاآنکہ سچائی کو تسلیم نہ کر لیا جائے۔
اگر ملک کو متشدد فرقہ واریت اور تنگ نظر مذہبی جنونیت سے نکالنا ہے، تو اپنے عوام اور نوجوان نسل کو تاریخی حقائق کے بارے میں آگہی دینا ہو گی۔ انھیں بتانا ہو گا کہ تحریک پاکستان میں برصغیر کے مسلمانوں کے تمام فقہوں، فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے شہری برابر کے شریک تھے۔ ان کے درمیان فقہہ، مسلک اور فرقہ کے حوالے سے کسی قسم کی تخصیص نہیں تھی۔ ہمیں اپنے عوام کے سامنے یہ حقیقت بھی لانا ہو گی کہ دو قومی نظریہ کے اصل بانی سرسید احمد خان تھے، جو برصغیر میں معتزلہ فکر کا تسلسل تھے۔ اسی طرح یکم اکتوبر 1906ء کو مسلمان زعماء کے جس 17 رکنی وفد نے وائسرائے ہند لارڈ منٹو سے ملاقات کی، اس کی قیادت اسماعیلی فرقہ کے روحانی پیشوا سر سلطان محمد شاہ آغاخان سوئم نے کی تھی۔
اس وفد میں مسلمانوں کے تمام فقہوں، فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے زعماء شامل تھے۔ ملاقات سے واپسی پر سر آغا خان نے24 اکتوبر1906ء کو نواب محسن الملک کو جو اس وفد کا رکن ہونے کے علاوہ مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے سربراہ بھی تھے، خط لکھا کہ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جماعت کی اشد ضرورت ہے۔ نواب صاحب کی جانب سے مثبت جواب آنے پر دسمبر کے چوتھے ہفتے میں مسلمان زعماء ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کے گھر پر جمع ہوئے اور 30 دسمبر 1906ء کو آل انڈیا مسلم لیگ تشکیل پائی۔ اس کے پہلے صدر سر آغا خان، جب کہ پہلے سیکریٹری سید حسن بلگرامی منتخب ہوئے، جن کا تعلق اثنائے عشری شیعہ کمیونٹی سے تھا۔ ورکنگ کمیٹی میں بھی تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان زعماء شامل تھے، کیونکہ اس جماعت کی تشکیل کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے وسیع تر مفادات کا تحفظ تھا۔
ہمیں اپنی نوجوان نسل کو یہ بتاتے ہوئے کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ وائسرائے کونسل کے رکن اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر چوہدری ظفر اللہ احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے تھے جب کہ مسلم لیگ کے تیسرے صدر اور بانیِ پاکستان محمد علی جناح اسماعیلی شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ 1898ء میں اثنائے عشری عقیدہ قبول کیا۔ اس کا Affidavit آج بھی ممبئی ہائی کورٹ کے آرکائیو میں موجود ہے۔ اس Affidavit پر علامہ عباس نجفی مرحوم کے دستخط بطور گواہ ثبت ہیں۔ کراچی کے پہلے کمشنر سید ہاشم رضا مرحوم کے مطابق بابائے قوم کی پہلی نماز جنازہ گورنر جنرل ہائوس (موجودہ گورنر ہائوس سندھ) کے بڑے ہال میں پڑھائی گئی، جس کی اقتدا مولانا انیس الحسنین مرحوم نے کی تھی۔ اس کے بعد سرکاری نماز جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی مرحوم نے پڑھائی۔ خطیب القوم نواب بہادر یار جنگ مہدوی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے، جسے بلوچستان میں ذکری کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے لیے اپنی جائیداد، جاگیر اور دولت وقف کرنے والے راجہ صاحب محمود آباد اثنائے عشری شیعہ تھے۔ اس لیے اس ملک کو یک مسلکی ریاست میں تبدیل کرنے کے خواہشمند عناصر کو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ تاریخ سے کس کس باب کو ختم کریں گے، کس کس شخصیت کا تذکرہ کھرچ کر مٹانے کی کوشش کریں گے۔
یہ سب کچھ بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ حقائق پر پردہ ڈالنے سے ذہنوں میں ابہام جنم لیتے ہیں۔ سچائی کو چھپانے سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ قائد اعظم بحیثیت بانی پاکستان پورے ملک کے عوام کے لیے کل بھی محترم تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ لیاقت علی خان کو قوم قائد ملت کہتی ہے اور اسے اس سے غرض نہیں کہ ان کا عقیدہ کیا تھا لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی جدوجہد کا نتیجہ ہے اس لیے اس ملک پر مسلمانوں کے تمام مسالک اور فرقوں کے علاوہ غیرمسلموں کا بھی مساوی حق ہے کیونکہ جس خطے پر پاکستان قائم ہوا ہے، اس پر آباد مسیحی کمیونٹی نے بھی پاکستان کی حمایت کی تھی۔ سندھ کی ہندو برادری اپنی دھرتی چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھی، جسے جبراً یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب وفاق کے تصور اور جمہوری اقدار سے روگردانی کرتے ہوئے بنگالی عوام کی عددی تعداد کو پیریٹی کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی گئی تو سقوط ڈھاکہ ہو گیا پاکستان پر کسی ایک مسلک، فقہہ یا فرقہ کی بالادستی بزور طاقت تھوپنے کی کوشش اس ملک کا وجود ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
لہٰذا ملک کے تمام حلقوں اور شراکت داروں کو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کے مذہبی تشخص کا تعین1973ء کے آئین میں جید علماء اور مذہبی جماعتوں کی سفارشات پر مبنی متفقہ شقوں کے ذریعے ہو چکا ہے۔ اسلیے پاکستان کے مذہبی تشخص میں غیر آئینی طریقہ سے کسی قسم کی تبدیلی ممکن ہے اور نہ اسے ایران یا سعودی عرب کی طرز کی مذہبی ریاست بنانے کا ایڈونچر کیا جا سکتا۔ چنانچہ پاکستان کو بچانے اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان پر کسی ایک مسلک کی بالادستی قائم کرنے کی بجائے شراکتی جمہوریت (Participatory Democracy) کی طرف بڑھنے کی کوشش کرنا چاہیے تا کہ اقتدار و اختیار کی نچلی ترین سطح تک حقیقی منتقلی ہو سکے اور ملک میں موجود مختلف نوعیت کے ابہام کا خاتمہ ہو سکے۔