گیس معاہدے کے خلاف امریکا کا دباؤ

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورۂ پاکستان کے بعد ہمارے محترم وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورۂ پاکستان کے بعد ہمارے محترم وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ اگر ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد ہوا تو امریکا پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگا سکتا ہے۔ اس خدشے کی تصدیق ہمارے وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے اپنے اس بیان سے کی ہے کہ گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے ایک چینی کمپنی سرمایہ کاری سے اس لیے گریزاں ہے کہ اس منصوبے کے خلاف امریکی پابندیوں کا خطرہ ہے ایران اس منصوبے پر اب تک 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے محترم وزیر پٹرولیم نے فرمایا ہے کہ معاہدے کے تحت اگر جنوری 2015ء تک پاکستان نے ایران سے گیس کی درآمد شروع نہ کی تو اسے یومیہ 30 لاکھ ڈالر جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ معاہدے کے تحت گیس کی قیمت پر نظرثانی کا آپشن موجود ہے اور ہم اس حوالے سے ایران سے بات کرنے والے ہیں۔

پاکستان نے جب سے ایران سے گیس لینے کا پروگرام بنایا ہے امریکا مسلسل پاکستان پر دباؤ ڈالتا آ رہا ہے کہ وہ ایران سے گیس لینے کے ارادے سے باز آ جائے ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ابتدا میں بھارت بھی اس منصوبے میں شامل ہونے کے لیے تیار تھا لیکن امریکا کے دباؤ پر بھارت نے اس منصوبے سے عملاً علیحدگی اختیار کر لی۔ اس منصوبے کی امریکا کی طرف سے سخت مخالفت کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت نے نہ صرف اس منصوبے پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا بلکہ صدر زرداری نے ایران جا کر اس معاہدے پر دستخط بھی کرائے۔ ہمیں حیرت ہے کہ سابق صدر جنرل (ر) مشرف پر دہشتگردی کے خلاف امریکا کی مہم میں شرکت کو بزدلی قرار دینے والی مسلم لیگ (ن) گیس معاہدے کے حوالے سے امریکا سے خوفزدہ کیوں ہے؟ اقتدار میں آنے سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے خطے میں امریکا کی بالادستی ختم کرنے کی بار بار یقین دہانیاں کی تھیں اب اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت امریکا کے دباؤ کا جرأت سے مقابلہ کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟ ہماری 65 سالہ روایت اگرچہ امریکی غلامی پر مبنی ہے لیکن زرداری حکومت نے گوادر پورٹ امریکا کی مرضی کے خلاف چین کو دینے اور ایران سے گیس منصوبے کے معاہدے پر دستخط کر کے جس جرأت کا مظاہرہ کیا ہے اس پالیسی کو جرأت کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا مسلم لیگ (ن) ایسی جرأت کا مظاہرہ کرے گی؟

بدقسمتی یہ ہے کہ امریکا جو دنیا کے ملکوں اور جمہوریت کی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار اور نگہبان ہونے کا دعویدار ہے قدم قدم پر اپنے ان دعوؤں کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور اسے یہ پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات اور اس کی ضروریات کے حوالے سے جس ملک سے چاہے معاہدے کرے لیکن ملکوں کی خود مختاری کے حامی امریکا کو ہرگز یہ گوارا نہیں کہ کوئی ملک امریکی مفادات کو نظرانداز کر کے صرف اپنے قومی مفادات میں کسی ملک سے کوئی معاہدہ کرے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اوباما کے برسراقتدار آنے کے بعد دنیا کو یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ اوباما حکومت امریکا کی سابق حکومتوں کی غلط خارجہ پالیسیوں کا ازالہ کرے گی اور اس حوالے سے عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی اور 2014ء کے آخر تک افغانستان سے امریکا کی واپسی کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ بادی النظر میں اگرچہ عراق سے واپسی اور افغانستان سے 2014ء تک انخلا بش حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کا ازالہ نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دو جنگوں نے امریکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا اور اوباما حکومت کی یہ مجبوری تھی کہ وہ جتنی جلد ممکن ہو ان جنگوں سے باہر آ کر امریکا کو معاشی اور اخلاقی دیوالیہ پن سے بچائے یوں عراق اور افغانستان سے واپسی امریکا کی جارحانہ پالیسیوں میں تبدیلی نہیں بلکہ اس کی اقتصادی مجبوری تھی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان اور ہندوستان کو ایران سے گیس خریدنے سے کیوں روکنا چاہتا ہے؟ امریکا نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو ہر قیمت پر روکنے کے لیے ایران پر جو سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور آئے دن ان میں اضافہ کر رہا ہے اس کا مقصد ایران پر اس قدر اقتصادی دباؤ بڑھانا ہے کہ وہ گھبرا کر امریکا کی مرضی کے مطابق اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبرداری پر مجبور ہو جائے۔ ایران سے گیس کی خریداری سے ایران کو جو بھاری رقم ملے گی وہ امریکا کی ایران کے خلاف لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں میں رخنہ اندازی ثابت ہو گی اور ایران گیس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقوم کو اپنی اقتصادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے استعمال کرے گا اور امریکا ایران کو باالواسطہ یا بلاواسطہ ایسی سہولت حاصل کرنے سے روکنا چاہتا ہے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران کے ایٹمی پروگرام سے امریکا کو کوئی خطرہ ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہی آتا ہے کہ ایران امریکا کے لیے خطرہ نہیں بن سکتا۔ پھر امریکا ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے کیوں روکنا چاہتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے اسرائیل کو حقیقی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں سے اسرائیل کو کوئی خطرہ اس لیے لاحق نہیں ہے کہ عرب ملک عمومی طور پر امریکا کے اطاعت گزار ہیں اور ایران انقلاب امریکا اور اسرائیل کی جارحانہ سامراجی پالیسیوں کے خلاف ہے اور امریکا کسی آزاد اور خود مختار ملک کو اپنے اور اسرائیل کے خلاف خطرہ بننے دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگر کوئی ملک کسی ملک کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف خطرہ بننے کی کوشش کرتا ہے تو اسے روکنا ہر ملک کا حق ہے لیکن اگر کوئی ملک محض اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے خلاف کسی ملک کی جائز کوششوں کو بزور طاقت روکنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ کھلی جارحیت ہوتی ہے جسے رد کرنا آزاد اور خود مختار ملکوں کی ذمے داری بھی ہے حق بھی ہے۔

امریکا نے مشرق وسطیٰ کے تیل کی دولت پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کو اس خطے میں نہ صرف ایک منی سپر پاور بنا دیا ہے بلکہ اسے عربوں خصوصاً فلسطینیوں کے خلاف غنڈہ گردی کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ اسرائیل جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے فلسطینیوں پر حملہ کر کے انھیں خاک و خون میں نہلا دیتا ہے۔ یہی کام طالبان اپنے خطے میں کر رہے ہیں طالبان کی دہشت گردی اگر انسانیت کے لیے خطرہ ہے تو اسرائیل کی دہشت گردی کیا انسانیت کے لیے کار ثواب ہے؟ امریکا اقوام متحدہ اور اس کے چارٹر کا حامی اور محافظ ہے کیا پاکستان کی ایران سے گیس کی خریداری اقوام متحدہ کے کسی قانون کی خلاف ورزی ہے؟ یقینا نہیں ہے تو پھر پاکستان کو محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ایران سے گیس لینے سے روکنا کیا اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے کے مترادف نہیں؟ مشکل یہ ہے کہ امریکا کو اس کی بین الاقوامی داداگیری سے کوئی ایک ملک نہیں روک سکتا اس داداگیری کو روکنے کے لیے جہاں ملکوں کو انفرادی طور پر جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہیں اس کے خلاف مشترکہ مزاحمت بھی ضروری ہے۔

بھارت کا شمار ماضی میں ان ملکوں میں ہوتا تھا جو سامراجی پالیسیوں کے سخت مخالف تھے غیر جانبداری کی تحریک اصل میں امریکی بالادستی امریکی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی تحریک تھی اور بھارت اس تحریک کی قیادت کرتا تھا لیکن بھارتی حکمرانوں میں جیسے جیسے گریٹر انڈیا اور ایشیا کی سپر طاقت بننے کے جنون میں اضافہ ہوتا گیا بھارت کا حکمران طبقہ امریکا کا یار وفادار بننے لگا بھارت جو ماضی میں پاکستان کی مذمت اور مخالفت اس لیے کرتا تھا کہ وہ امریکا کے فوجی معاہدوں میں شریک ہو کر اس خطے کو نقصان پہنچا رہا ہے وہی بھارت اب ایشیا میں امریکا سے اسٹرٹیجک فوجی معاہدوں میں شریک ہے اور ایران گیس معاہدے سے اس کی علیحدگی امریکا سے وفاداری یا بزدلی کا اظہار ہے۔

پاکستان پچھلے کئی سالوں سے گیس اور بجلی کی جس قلت کا شکار ہے اس کی تمام تر ذمے داری ہمارے ماضی اور حال کے حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے برسوں پہلے جس کام کو کرنا تھا وہ کام یعنی گیس بجلی کی قلت کو روکنے کے لیے جن منصوبوں پر عملدرآمد کرنا تھا وہ نہیں کیا بلکہ اپنا سارا وقت اور ساری توانائیاں قومی دولت کو لوٹنے میں لگا دیں۔ اب ان غلطیوں کا کفارہ اس طرح ادا کیا جا سکتا ہے کہ وہ امریکا کے دباؤ میں آئے بغیر معاہدے کے مطابق گیس لائن کی تنصیب کا کام تیزی سے مکمل کریں اور اس ملک کو اور اس ملک کے عوام کو گیس کی قلت سے بچائیں اگر نواز حکومت اس حوالے سے جرأت مندانہ موقف اختیار کرتی ہے تو اس ملک کے عوام اس کی پشت پر کھڑے رہیں گے۔
Load Next Story