پاکستانی عوام نے فیصلہ دے دیا
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے آگے جھکنا کوئی حل نہیں۔ ہمیں کسی بھی حل پر قومی اتفاق۔۔۔
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے آگے جھکنا کوئی حل نہیں۔ ہمیں کسی بھی حل پر قومی اتفاق رائے پیدا کر کے اس پر یکسو ہو کر جلد عمل کرنا ہو گا۔ جب تک قوم خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد نہیں ہوتی، ان پر قابو پانا مشکل ہے۔ جب تک پوری قوم خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد نہیں ہو گی، مشکلات پر قابو پانا مشکل ہے۔ قوم متحد ہو تو کسی بھی مسئلے کا حل ناممکن نہیں۔ دہشت گردی کا بحران بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ ہماری سب سے پہلی ترجیح ملک و قوم کا مفاد ہونی چاہیے۔ دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تقریر قابل تعریف ہے کیونکہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے ہر قسم کے ابہام سے پاک ہے۔ ان کی تقریر گائیڈ لائن ہے، دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے۔ ان کی تقریر کا سب سے اہم ترین فقرہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے سامنے جھکنا کوئی حل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کا بحران بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ صرف ضرورت یہ ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں سے نمٹنے میں یکسو ہو جائے۔ یہ نہ ہو کہ قوم کی ایک بڑی تعداد ان کو مسلمان بھائی بھی کہے جن کے ہاتھ پچاس ہزار بے گناہ پاکستانی بچوں' بوڑھوں اور عورتوں کے خون سے رنگین ہوں۔ جنرل کیانی کی تقریر کا سب سے قیمتی فقرہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے آگے جھکنا کوئی حل نہیں۔ پاکستانی قوم کو پتہ ہے کہ اس فقرے کا مطلب کیا ہے۔ پاکستان کے عسکری اور سیاسی ادارے ان دہشت گردوں کے سامنے جھک جائیں اور بقول جنرل کیانی جس بہادر پاکستانی قوم نے دس سال مسلسل اس دہشت گردی کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے ہوں آخرکار مذاکرات کے نام پر ان کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنے ہاتھوں خودکشی کر لے۔
مذاکرات کرنے میں یہ کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑ کر اور دہشت گردی کی بے شمار وارداتیں کر کے بندوق کی نوک پر ہمیں مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔ ایک طرف یہ دہشت گردی کی وارداتیں کر کے اس کی ذمے داری بھی لیتے ہیں تو دوسری طرف ان کے حمایتی کہتے ہیں کہ یہ کوئی اور کر رہا ہے۔ ایک عجیب کنفیوژن کا عالم ہے۔ دہشت گردوں کے حمایتی اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہیں کہ وہ انتہائی چالاکی اور مکاری سے اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ان دہشت گردوں کو معصوم اور پارسا بنا کر پاکستانی قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور پاکستانی سادہ لوح قوم کا ایک بڑا حصہ ان کے جھانسے میں آیا ہوا ہے۔ یہ پاکستانی قوم کی سادہ لوحی ہی تھی جس نے 71ء میں ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اب ہم 42 ویں سال پر اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ 42 ویں سال کی بڑی اہمیت ہے، پیش گوئی میں۔ اس میں کوئی نہ کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے جو بہت بُرا بھی ہو سکتا ہے۔
اگر پاکستانی قوم جذبات اور مذہبی تعصبات کے بھنور میں پھنسی رہی جسے دہشت گردوں نے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پھنسایا ہوا ہے تو 71ء کی تاریخ پھر سے دہرائی جا سکتی ہے۔ عوام جب اپنے حقوق مانگیں تو انھیں مذہب کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے طاقت کے زور پر کچل دو۔ پاکستان کی تاریخ میں اس ہتھیار کا پہلی مرتبہ استعمال ایک مذہبی جماعت کی ذیلی تنظیموں کے ذریعے بنگالی مسلمانوں کے خلاف کیا گیا اور غریب بنگالی مسلمانوں کو جو اپنے حقوق مانگتے تھے مذہب کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے غدار قرار دے کر ان کا قتل عام کیا گیا۔ مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ''ٹیکنالوجی'' اب اپنی انتہائی جدید شکل میں ہمارے سامنے ہے، جب پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اسلحہ کے زور پر جلسے جلوس کرنے سے روک دیا گیا۔ 1971ء اس کی ابتداء تھی اور 2013 ء اس کی انتہا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتیں جیل توڑنے سمیت یہ ثابت کرتی ہیں کہ دہشت گردوں نے اپنے حمایتیوں کے ذریعے جو پاکستان کے ہر ادارے میں چھپے بیٹھے ہیں پاکستان پر قبضہ کر لیا ہے۔
پاکستانی ریاست کی رٹ ختم ہو رہی ہے۔ اس وقت سویلین سیٹ اپ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ دہشت گردوں سے گھبرایا ہوا ہے۔ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جائیں یا نہ کیے جائیں اس کا فیصلہ پاکستان کے عوام خاص طور پر پنجاب کے عوام نے کر دیا ہے۔ مذاکرات کی حمایتی مذہبی جماعتوں کو حالیہ انتخابات میں شکست ہوئی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ ایک مذہبی جماعت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بیشتر حلقوں میں 5 سے 10 ہزار ووٹ ہیں لیکن جب نتیجہ آیا تو یہ متذکرہ ووٹ تو کیا ایک ہزار ووٹ بھی نہ نکلے اور بیشتر حلقوں میں اس کے امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئیں۔ ایسی جماعتیں ہی انتہا پسندوں سے مذاکرات کی سب سے بڑی حمایتی ہیں۔ اگر عوام ان کے موقف کو صحیح سمجھتے تو ان کو انتخابات میں جتا سکتے تھے۔ پاکستانی عوام نے ایسی جماعتوںکو ووٹ نہ دے کر طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ دے دیا ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس عبرت ناک شکست کے باوجود ان کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ پھر بھی وہ اپنی رائے پاکستانی عوام پر ٹھونسنے پر بضد ہیں۔
پاک بھارت تعلقات 18 سے 20 اگست تک پھر سے بہتری کی طرف جانے کا آغاز ہو جائے گا۔
موجودہ بارشوں کی شدت میں کمی 19' 20 اگست سے آئے گی۔