وزیر داخلہ چوہدری نثار اور اسلام آباد پولیس

اسلام آباد پولیس کا نصب العین یوں ہے: Let Us Beat Crime Togather (آیے متحد ہو کر جُرم کا خاتمہ کریں) افسوس۔۔۔


Tanveer Qaisar Shahid August 18, 2013
[email protected]

اسلام آباد پولیس کا نصب العین یوں ہے: Let Us Beat Crime Togather (آیے متحد ہو کر جُرم کا خاتمہ کریں) افسوس اٹھارہ تھانوں پر مشتمل اسلام آباد کی ساڑھے دس ہزار پولیس، ایک آئی جی،تین ڈی آئی جی اور تین ایس ایس پی مل کر بھی ایک مسلح شخص کو دہشت پھیلانے اور سر ِعام جُرم کرنے سے نہ روک سکے۔ یہ تماشہ ایک دنیا نے دیکھا جس کا نوٹس عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس عزت مآب جناب افتخار محمدچوہدری نے بھی لیا ہے۔ پندرہ اگست 2013ء کی سہ پہر سے رات تک وفاقی دارالحکومت کی ایک اہم ترین شاہراہ، جناح ایونیو، پر سکندر نامی ایک مسلح شخص(جس نے بیک وقت دو جدید ترین بندوقیں تھام رکھی تھیں) نے اپنے دو بچوں اور بیوی کی موجودگی میں جو ڈرامہ رچایا، اس نے اسلام آباد پولیس کے افسروں اور جوانوں کی پیشہ وارانہ اہلیت و قابلیت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔

گویا اسلام آباد پولیس کے لیے مختص کیا جانے والا ساڑھے چار، پانچ ارب روپے کا بھاری بجٹ اکارت چلا گیا؟ مجموعی طور پر نااہلی اسلام آباد پولیس (ICTP) کی تھی لیکن بدقسمتی سے ندامت وزیرِ داخلہ کے حصے میں آئی۔ اِس سانحہ کی بازگشت 906 مربع کلو میٹر پر پھیلے وفاقی دارالحکومت کے گھر گھر ہی میں سنائی نہیں دی گئی بلکہ ساری دنیا نے ایک واحد شخص کی دہشت اور متعلقہ انتظامیہ کی ناکامی کا یہ ملا جلا لائیو ڈرامہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب پہلے ہی ملک بھر میں لاء اینڈ آرڈر کی دگر گوں صورتحال سے کسی قدر دبائو میں ہیں۔ اب اِس تازہ واقعہ اور الیکٹرانک میڈیا کی مسلسل چھ گھنٹے رپورٹنگ (اور بعد ازاں اِسی حوالے سے کئی نجی ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والے پروگراموں) کی وجہ سے اُن کے اعصاب پر مزید دبائو پڑا ہو گا کہ آخر وہ بھی گوشت پوست کے انسان ہیں۔

وفاقی وزیرِ داخلہ ہونے کے ناتے جناب نثار علی خان سے زیادہ واقفِ احوال اور کون ہو گا کہ جب سے اُن کی پارٹی برسرِ اقتدار آئی ہے، اور جسے اب تقریباً 80 دن گزر چکے ہیں، اب تک دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان کے ساڑھے چار سو افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ جو زخمی ہوئے ہیں، اُن کی تعداد 1225 بتائی جاتی ہے۔ (بحوالہ ایکسپریس ٹربیون۔ اشاعت سولہ اگست۔ صفحہ 2) اُن کے وزیرِ داخلہ بننے کے بعد بھی، توقعات کے برعکس، بم دھماکوں میں کوئی کمی نہیں آ سکی۔ چوہدری نثار علی خان صاحب نے خود پندرہ اگست 2013ء کو قومی اسمبلی میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا ہے: ''یکم جون 2013ء سے لے کر بارہ اگست 2013ء تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں 358 بم دھماکے ہوئے ہیں۔'' اور پاکستانی عوام کی بدنصیبی ملاحظہ فرمایے کہ اِن سیکڑوں بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں سے کسی ایک بھی ذمے دار کا سراغ لگایا جا سکا نہ اُن کے سرپرستوں کی گرفتاری عمل میں آ سکی ہے۔

چوہدری نثار صاحب ایک تجربہ کار، سرد و گرم چشیدہ سیاست کار ہیں۔ وہ کئی بار وزیر بنے اور کئی بار پُر آزمائش لمحات سے سرخرو ہو کر نکلے ہیں۔ غالباً اِسی لیے وزیرِ اعظم جناب محمد نواز شریف نے اُنہیں وزارتِ داخلہ ایسا حساس اور بھاری ذمے داری کا حامل قلم دان سونپا۔ عوام نے بھی اُن سے بلند توقعات وابستہ کر لیں۔ اُن کے وزارت سنبھالنے کے بعد ہم نے بھی دو تین بار اِسی پس منظر میں اُن کی خیر خواہی میں اِنہی صفحات پر خوش گمانیوں کا اظہار کیا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی معرکۃلآرا فیصلہ کرنے کے حوالے سے اُن کے ہاتھ کسی نے باندھ رکھے ہوں۔ 15 اگست کے اسلام آباد سانحہ نے اُن کی قوتِ نافذہ کے بارے میں کئی سنجیدہ سوالات اُٹھا دیے۔

چوہدری نثار صاحب انسان ہونے کے ناتے اپنی غلطی تسلیم بھی کر لیتے ہیں، جیسا کہ اُنہوں نے سولہ اگست 2013ء کو لاہور میں کی جانے والی اپنی پریس کانفرنس میں اعتراف کیا۔ یہ اُن کے کردار کی عظمت ہے لیکن چوہدری صاحب یہ ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں کہ ملک بھر میں امنِ عامہ کی صورتحال بہت خراب ہے۔ جس ملک میں سرِ عام جیلیں ٹوٹ جائیں اور ''بہادر'' طالبان اپنے بڑے بڑے مجرم و سزا یافتہ قیدیوں کو ساتھ لے جانے میں کامیاب بھی ہو جائیں اور قانون نافذ کرنے والے صوبائی و وفاقی ادارے منہ تکتے رہ جائیں، وہاں یہ کہنا کہ ملک میں امنِ عامہ کی صورتحال اتنی بھی خراب نہیں، بات ناقابلِ فہم سی لگتی ہے۔

ہمارے وزیرِ داخلہ صاحب سے جب اِسی حوالے سے پندرہ اگست کو، جب کہ اسلام آباد کو صرف ایک مسلح شخص نے تاراج اور مفلوج کر رکھا تھا، اسمبلی کے فلور پر رکنِ قومی اسمبلی نعیمہ کشور خان نے سوال کیا تو چوہدری صاحب نے انکار کرتے ہوئے کہا: ''دہشت گردوں کے حملوں کا تعدد مختلف وجوہ کی بِنا پر گھٹتا بڑھتا رہتا ہے لیکن یہ کہنا مناسب نہ ہو گا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہت زیادہ خراب ہے۔'' اِس حوالے سے سوال کی شدت و حدت کم کرنے کی غرض سے چوہدری صاحب نے سری لنکا ایسے ممالک کی مثالیں بھی دیں۔یعنی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام، جن کی زندگیاں بم دھماکوں اور خود کش حملہ آوروں نے اجیرن بنا رکھی ہیں، کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے کسی بھی وزیرِ داخلہ کو اِسی طرح کے بیانات دینے چاہئیں۔ دیکھاجائے تو وزیرِ داخلہ صاحب بھی اپنے تئیں درست کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں یہ حالات ورثے میں ملے ہیں جونہایت خونریز اور دل دہلا دینے والے ہیں۔ وہ اِس اعصاب شکن فنامنا کی سفاکی اور وحشت کم کرنے میںلگے تو ہوئے ہیں۔ یقینا اُنہیں ایک نہایت صبر آزما مہم کاسامنا ہے جس میں کامیاب ہونے کے لیے وقت درکارہے۔

لیکن آپ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا بننے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ ایک واحد مسلح شخص کے ہاتھوں اسلام آباد بھر کی انتظامیہ اور مامور و متعینہ پولیس کے چھکے چھڑائے جانے کے منظر میں ہمارے ایک دوست ضیاء کھوکھر صاحب، جو پیپلز پارٹی کو عزیز از جان سمجھتے ہیں، نے فون پر مجھے کہا: ''ایک شخص کی وجہ سے اسلام آباد کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ہاتھ پائوں پُھولنے کے بعد میَں نے واضح طور پر محسوس کیا ہے کہ اسلام آباد کے کسی بھی عام شہری کی زندگی محفوظ نہیں رہی۔'' ممکن ہے اِسے مبالغہ آرائی یا ''چھوٹے'' سے واقعے کو بانس پر چڑھائے جانے کے مترادف قرار دیا جائے لیکن یہ واقع ہے کہ ضیاء کھوکھر صاحب نے وفاقی دارالحکومت کے بہت سے مکینوں کے احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ حکومت خواہ اِسے مانے یا نہ مانے۔ شاعر، جو کبھی اپنے زمانے کے اہم واقعات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، بھی اِس ''احساسِ غیر محفوظگی'' میں شریک ہیں؛ چنانچہ ممتاز شاعر جناب ظفر اقبال نے اسلام آباد کے ''سکندری سانحہ'' کے حوالے سے پاکستان کے جملہ شہریوں کے غیر محفوظ ہونے کے بارے میں یوں ارشاد کیا:

جانتے تھے خوب ہم گلیاں نہ گھر محفوظ ہیں

نام ہی کو یہ سفر اور ہم سفر محفوظ ہیں

اِک مسلح شخص آیا اتنے ناکے توڑ کر

اور ثابت ہو گیا ہم کس قدر محفوظ ہیں

جب پاکستان کی اکثریت زمرد خان صاحب کو ہیرو کا درجہ دے رہی ہو اور مقتدرین کا گروہ جنابِ زمرد کے عمل کو ''احمقانہ'' قرار دے رہا ہو تو لوگ سچ اور جھوٹ کہنے والوں کے بارے میں خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں۔ البتہ استہزائیہ اسلوبِ گفتگو کرنے اور ہر بات کا ٹھٹھہ اڑانے والے رانا ثناء اللہ صاحب ایسے لوگوں کی بات الگ ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب سے بھی منسوب یہ جُملہ شائع ہوا ہے کہ زمرد خان کی بہادری قابلِ تعریف ہے۔ پیپلز پارٹی والے، جو ابھی تک انتخابی شکست کے زخم چاٹ رہے ہیں، اپنے بہادر رہنما زمرد خان کی بلائیں لے رہے ہیں اور اُن کی خدمت میں بہادری کی شمشیریں پیش کی جا رہی ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو زمرد خان کے ایکشن کو گہنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ اِس واقعہ اور زمرد خان کے کردار سے مقتدر جماعت کو زک پہنچی ہے۔ ایسے میں ضروری ہو گیا تھا کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان پوزیشن صاف کرنے کے لیے پریس کانفرنس کریں کہ اِس واقعہ کی بازگشت سے جنابِ وزیرِ اعظم بھی متاثر ہوئے ہیں۔ جنابِ نثار لاہور میں اخبار نویسوں کے رُوبرو آئے تو سکندر کے اٹھائے گئے طوفان کے حوالے سے الیکٹرانک میڈیا کی کوریج سے وہ نالاں نظر آئے۔ اُن کی ناراضگی بے جا تھی نہ بے بنیاد ......

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں