مونچھیں ہوں تو نتھو لعل جیسی
اوپرا ونفری کا نام کون نہیں جانتا؟ اوپرا صرف امریکا کی ہی نہیں دنیا کی سب سے مشہور ٹی۔وی ہوسٹ ہے۔۔۔
ISLAMABAD:
اوپرا ونفری کا نام کون نہیں جانتا؟ اوپرا صرف امریکا کی ہی نہیں دنیا کی سب سے مشہور ٹی۔وی ہوسٹ ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں مارننگ شوز اوپرا کی وجہ سے ہی متعارف ہوئے۔ ایسا شو جس سے گھریلو خواتین اپنے آپ کو جڑا محسوس کرتیں۔ اوپرا نے زندگی میں بہت سی مشکلات دیکھیں۔ ان کے پہلے شوہر نے انھیں اس لیے چھوڑ دیا کیوں کہ ان کے خیال میں اوپرا میں لوگوں سے بات کرنے کا شعور اور اعتماد نہیں تھا اس کے علاوہ طبی وجوہات کی بنا پر اوپرا کے بچے نہیں ہوپائے لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور کوشش کرکے ٹی۔وی ہوسٹ بنیں جس کے بعد وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔
اوپرا آج بلینیئر ہین دنیا کی ٹاپ ٹین امیر ترین خواتین میں سے ایک اگر وہ کسی شخص یا کمپنی کا نام اپنے شو میں لے لیں تو وہ راتوں رات مشہور ہوجاتی ہے۔ آج اوپرا کا ایک صرف ٹی۔وی شو ہی نہیں پورا ٹی۔وی چینل ہے اس کے علاوہ میگزین، ریڈیو چینلز وغیرہ وغیرہ جب کہ اوپرا نے خود اپنا ٹی۔وی پر کام کرنا بند کردیا اس کے باوجود وہ سال کے 77 ملین کماتی ہیں اتنی شہرت کے باوجود اوپرا کو ایک شخص نہیں جانتا اور وہ ہے سوئٹزر لینڈ کی ایک ہائی کلاس بیگس کے اسٹور میں کام کرنے والی سیلز گرل۔
کچھ دن پہلے اوپرا سوئٹزرلینڈ میں تھیں وہ شاپنگ کرنے ایک اسٹور میں پہنچیں۔ ان کے ساتھ نہ ان کا کوئی اسٹاف تھا اور نہ وہ مہنگے کپڑے یا جیولری پہنے تھیں۔ شوکیس میں رکھے ایک ہینڈ بیگ کو انھوں نے دکھانے کو کہا بیگ کی قیمت 38,000 ڈالرز تھی۔ سیلز گرل نے اوپرا کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور کہا کہ وہ یہ بیگ نہیں خرید سکتیں۔
اس واقعے کے بعد پریس میں جیسے کھلبلی مچ گئی۔ میڈیا نے اس کو ''نسل پرستی'' قرار دے کر خوب اچھالا کیونکہ اوپرا افریقین امریکن ہیں اس لیے سیلزگرل نے ان کے رنگ کی وجہ سے ایسا کہا۔ پریس کے مطابق کسی گورے کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ اسٹور کے مالکان نے پریس کے سامنے معافی مانگی اور یہ کہا کہ سیلز گرل تو امیگرنٹ ہے اس کا تعلق سوئٹزر لینڈ سے نہیں ہے وہاں کی حکومت نے بھی اوپرا سے باقاعدہ معافی مانگی ہے جب کہ سیلز گرل کے سی این این کے دیے انٹرویو میں کہا گیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا یہ ایک من گھڑت کہانی ہے۔ اس کے باوجود سوئٹزرلینڈ امریکا سے ایسا شرمندہ ہے جیسے بن لادن ان کے ملک میں مقیم پایا گیا ہو۔
اوپرا نے امریکا واپس آکر بیان دیا کہ اسٹور یا سوئٹزرلینڈ کو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں اگر کوئی ایک انسان غلطی کرتا ہے تو اس میں ملک کا قصور نہیں، اگر کوئی امریکن کسی غیر ملکی کے ساتھ ایسا کرے تو امریکا کبھی اس کی معافی نہیں مانگے گا۔ اس لیے کسی اور ملک کو بھی ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس مدعے کو اٹھانے سے نسل پرستی کی باتیں پھیلیں گی جو میں نہیں چاہتی۔
اوپرا کو اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کا پورا موقعہ ملا تب بھی انھوں نے جانے دیا کیوں کہ اس سے ''ریسیسزم'' کو بڑھاوا ملتا لیکن ہمارے ملک کے ''نتھولعل'' اپنے ہی ملک کو Raceist بتا کر امریکا کا ویزا چاہتے ہیں۔
امیتابھ کی مشہور فلم شرابی کا ڈائیلاگ ہے کہ مونچھیں ہوں تو نتھو لعل جیسی ورنہ نہ ہوں۔ نتھولعل فلم میں ایک ایسا شخص دکھایا ہے جو مونچھوں کو تاؤ دے کر مروڑتا رہتا ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے پشاور کے اڑتالیس سالہ بزنس مین ملک عامر کی مونچھیں بھی لمبی ہیں۔ اپنی تیس انچ لمبی مونچھوں کو وہ روزانہ آدھے گھنٹے سنوارتے ہیں جس کے بعد ان کی تنی مونچھیں ان کے سر سے اوپر نکل جاتی ہیں، عامر کو مونچھوں کا شوق اس لیے ہے کہ اس طرح لوگ ان کو اہمیت دیتے ہیں اور مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں۔ عامر اپنے آپ کو خاص آدمی محسوس کرتے ہیں۔
عامر کی مونچھوں کے پیچھے کئی مشکلات چھپی ہوئی ہیں۔ ان کے بقول ان کے علاقے میں مونچھیں رکھنے پر پابندی ہے وہاں کے لوگوں کو لگتا ہے کہ مونچھیں رکھنے سے آپ اپنا تعلق انڈین کلچر سے جوڑ رہے ہوتے ہیں اسی وجہ سے عامر کو اپنی مونچھوں کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔
بقول عامر 2009 میں عامر کو لشکر اسلام نے دھمکیاں دینی شروع کیں جس میں وہ عامر کو جان سے مار دینے کی بات کر رہے تھے اگر انھوں نے مونچھیں نہیں کٹوائیں۔ عامر ان کی فون کالز سے نہیں ڈرے جس کے نتیجے میں عامر کو اغوا کرلیا گیا اور انھیں افغان بارڈر کے پاس ایک غار میں رکھا گیا جس کے بعد انھیں مجبوراً مونچھیں کٹوانی پڑیں اور اس کے بعد انھیں رہائی ملی۔
عامر باز نہیں آئے انھیں اپنی مونچھیں اپنی جان اور گھر والوں سے زیادہ پیاری تھیں اس لیے وہ پھر مونچھیں بڑھانے لگے۔ آج عامر کی مونچھیں پھر لمبی، گھنی اور اونچی ہیں۔ عامر خود تو خطرے کی وجہ سے پنجاب میں رہتے ہیں لیکن گھر والوں سے ملنے مہینے میں ایک آدھ بار واپس پشاور جاتے ہیں، انھیں اب بھی دھمکیوں کے فون آتے ہیں۔ اس لیے وہ سیاسی پناہ لے کر امریکا یا کینیڈا ہمیشہ کے لیے شفٹ ہوجانا چاہتے ہیں۔
عامر نے کئی بار میڈیا سے رجوع کیا اور کئی بار ان کی کہانی منظر عام پر آئی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ طالبان گروپس کتنا بھی غلط کیوں نہ کر رہے ہوں کم ازکم ان کے پاس اتنا فارغ وقت نہیں ہوگا کہ ایک شخص کو اغوا کرکے اسے مہینے بھر تک مناتے رہیں کہ پلیز اپنی مونچھیں کٹوا دو اور نہ ہی چار سال تک ان کی مونچھوں کی لمبائی اور اونچائی کا حساب رکھیں گے۔
حالات سے تنگ آکر جیسے کئی لوگ مختلف وجوہات بتا کر ملک سے باہر جانا چاہتے ہیںممکن ہے کہ ویسے ہی عامر بھی اپنی مضبوط مونچھوں کا سہارا لے کر امریکا کینیڈا کی نیشنلٹی چاہتے ہوں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عامر کو ویزا نہ لگے ورنہ وہ ملک سے باہر جاکر اپنی مونچھوں کو تاؤ دے دے کر یہ بتائیں گے پاکستان میں زبان، نسل، ذات پات تو دور کی بات ہے مونچھوں کی لمبائی اونچائی تک پر آپ سے فرق کیا جاتا ہے، ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ جہاں دوسرے ملک اوپرا جیسی سیلبریٹی کے ساتھ ریسیسزم کرکے بھی بچ جاتے ہیں وہیں ہم خوامخواہ اپنے ہی ملک کے نتھو لعل کی مونچھوں کی وجہ سے ''ریسیسٹ ملک'' مشہور ہوجائیں گے۔