پاک بھارت دوستی۔۔۔۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی جتنی مضبوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کوشش خود بخود ایک قدم اور۔۔۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی جتنی مضبوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کوشش خود بخود ایک قدم اور پیچھے کی جانب دھکیل دی جاتی ہے یہ عمل پاکستان کی جانب سے تو نہیں البتہ بھارت کی جانب سے ہوتا رہتا ہے اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ بھارت دل سے پاکستان کی دوستی کو قبول ہی نہیں کرتا اور بہانے بازیوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ امن کا راگ الاپتے الاپتے پاکستانی تو اپنے حلق خشک کرچکے ہیں لیکن پڑوسی ہیں کہ نفرتوں کے دیے روشن کیے رہتے ہیں۔
پونچھ سیکٹر میں لائن آف کنٹرول میں پانچ بھارتی فوجیوں کو قتل کرنے کا واویلا اٹھا اور بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے انھیں دہشت گرد قرار دیا جس پر اپوزیشن نے خوب واویلا کیا اور اے کے انتھونی کو معافی مانگنے پر مجبورکیا گیا لہٰذا انھوں نے اپنا پینترا بدلا اور انتہائی دیدہ دلیری سے آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ان دہشت گردوں کو پاکستانی فوجی قرار دیا گیا جس پر پاکستان مخالفین کے دلوں میں ٹھنڈک اتر گئی لیکن پانڈو سیکٹر پر بلااشتعال فائرنگ سے دو پاکستانی نوجوان ضرور اس جھوٹی جنگ کی زد میں آئے۔
اس بیان بازی کی گولہ باری سے فائدہ کسے پہنچا، کیا حکومت کانگریس خود دل سے نہیں چاہتی کہ پاکستان اور بھارت دوستی کے بندھن میں بندھیں یا اسے خوف ہے کہ اس کے اس امر سے الیکشن میں اسے مخالف جماعتیں مہرے کے طور پر استعمال کرسکتی ہیں کیونکہ پہلے ہی بھارتی عوام کے دلوں میں سیاست کے علمبرداروں کے لیے اتنی نفرت پیدا کردی گئی ہے کہ ہر دم جیسے چنگاری سی ابھرتی رہتی ہے اب جو بھی بڑھائے گا وہی ووٹ پائے گا، کی پالیسی کے تحت الیکشن کی تیاریاں جاری ہیں اب اس کے لیے سفارتی آداب کی کون پرواہ کرے؟بھارت رواں سال میں ایک سو نوے سے زائد بار ایل او سی کی خلاف ورزی کرچکا ہے جب کہ رواں ہفتے مسلسل خلاف ورزی جاری ہے۔ اپنے عہد پر قائم رہنا پڑوسیوں کی فطرت میں نہیں، کسی نہ کسی انداز میں زک پہنچانا عادت سی ہے جو قیام پاکستان کے وقت سے لے کر اب تک جاری ہے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ایک بھارتی بچی غلطی سے پاکستانی بارڈر میں داخل ہوگئی، بچی ننگے پیر اور میل دھول سے اٹے کپڑوں میں ملبوس تھی جسے پاکستانی فوجیوں نے صاف ستھرے کپڑے مہیا کیے اور اسے اجازت ملنے کے وقت تک باحفاظت ایک سیکیورٹی اہلکار کے گھر رکھا گیا جہاں بچی کو کھانا پینا، نہانے دھونے کی سہولت ملی اور اعلیٰ حکام کی اجازت کے بعد اسے بھارتی حکام کے حوالے کردیا گیا۔ غلطی سے بارڈر کراس کرلینا دونوں جانب کے باسیوں کے لیے ایک تکلیف دہ امر ہے جو پاکستان کے مقابلے میں بھارتی بارڈر کراس کرلینے والوں کے لیے انتہائی سنگین جرم بن جاتا ہے۔ 30 جولائی کو آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے وادی گریس میں لائن آف کنٹرول پر چار مزدوروں کو پکڑ لیا گیا جو جناؤنی سے تعلق رکھتے تھے۔
وادی گریس کے جنگلات قیمتی جڑی بوٹیوں کے حوالے سے خاصے مشہور ہیں جہاں اکثر لوگ تلاش میں رہتے ہیں ایسی ہی تلاش ان چار مزدوروں کے لیے جان کا روگ بن گئی۔ وہ محض چار مزدور نہ تھے ان کے ساتھ پورا ایک گروپ تھا جو قیمتی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں سرگرداں بھارتی بارڈر پارکرگئے یہ محض انجانے میں کی گئی غلطی تھی جس کا مقصد سوائے دوائیوں کے لیے جڑی بوٹیوں کے سوا کچھ نہ تھا لیکن بھارتی فوجیوں نے انھیں گھیر لیا بہت سے بھاگ گئے خوش نصیبی تھی کہ جان بچ گئی لیکن بد قسمت چار ان کے ہتھے چڑھ گئے۔ بھارتی اہلکاروں کا دعویٰ تھا کہ وہ دہشت گرد تھے اور ان کے قبضے سے ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں جب کہ عینی شاہدین کا کہنا اس کے برعکس ہے وہ معصوم مزدور جن کی عمریں پچیس سے لے کر چالیس برس کی تھیں بھارتی اہلکاروں کی بندوقوں کا نشانہ بنے۔
بھارت مسلسل دوستی نبھانے میں حیل حجت سے کام لے رہا ہے جب کہ پاکستان اسے ہر قدم مضبوط کرنے میں کوشاں رہا ہے، پاکستانی حکومت اپنے عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کرے نہ کرے لیکن بھارتی حکومت اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے اسے کسی بھی طرح سفارتی آداب کے لیے موزوں نہیں قرار دیا جاسکتا۔ پاکستان بھارت کے درمیان بس سروس بھی اسی کھینچا تانی کا نشانہ بنی، عوام کا احتجاج اور ارکان پارلیمنٹ کی نکتہ چینی سے ایک ذمے دار اور اہم وزارت کے منصب پر فائز اے کے انتھونی کی غیر ذمے دارانہ حرکت نے ایک بار پھر سے سرحدوں پر گرما گرمی جاری کردی ہے سیالکوٹ کے بارڈر کوٹلی کے قریب نلیال پر فائرنگ عید کے تیسرے روز بھی جاری رہی۔
پاکستان میں یوتھ کو اس الیکشن میں سب سے زیادہ اہمیت دی گئی یوتھ کی طاقت کا زور بھارتی طالبہ دامنی پر زیادتی کے المناک واقعے کے بعد زیادہ ابھر کر سامنے آیا جب دہلی میں نوجوانوں نے اعلیٰ حکام کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ اسی قوت کو انھوں نے پاکستان کے خلاف بھی اس انداز سے استعمال کیا اور بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے ڈرامے پر پاکستانی ہائی کمیشن کے دفتر پر جس انداز سے دھاوا بولا گیا اس سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اب کوئی مزید بات چیت نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ نواز شریف حکومت جس طاقت کے ساتھ سامنے آئی اس کا اثر بیرون ممالک بھی خاصا مثبت پڑا ہے ایسے میں حکومت کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کا جواب دینا ایک اور منفی رجحان ثابت ہوسکتا ہے اور کانگریس کی حکومت کی پلاننگ مزید پانچ سال پکے کرنے کی ہے۔ اور اس کے لیے وہ بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنا نہیں چاہتے کیونکہ ایک چھوٹے ملک کی مضبوط حکومت ایک بڑے ملک کی لرزتی حکومتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ درست ہے کہ بظاہر ایک مضبوط حکومت کے پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہے، دہشت گردی، ڈرون حملے، توانائی کی کمی وغیرہ کے مسائل بہت بلند ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی حکومت کے عزائم بلند ہیں۔ امید ہے کہ ٹھوس بنیادوں پر یہ عزائم اپنا اصل رنگ دکھائیں گے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور ایل او سی کی خلاف ورزیوں کے پیچھے فطری حسد کے علاوہ بھی بہت کچھ نظر آتا ہے۔
یہ کرسی بہت ظالم ہوتی ہے کسی ملک کے لیے اس کی طاقت کی کیا اہمیت ہے یہ تو ایک عام آدمی سمجھ ہی سکتا ہے لیکن ملک کے مفادات کے خلاف کرسی کا نشہ کس کس طرح نیچ حرکات کرواتا ہے یہ بھی ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں خدا خیر کرے۔۔۔۔!
پونچھ سیکٹر میں لائن آف کنٹرول میں پانچ بھارتی فوجیوں کو قتل کرنے کا واویلا اٹھا اور بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے انھیں دہشت گرد قرار دیا جس پر اپوزیشن نے خوب واویلا کیا اور اے کے انتھونی کو معافی مانگنے پر مجبورکیا گیا لہٰذا انھوں نے اپنا پینترا بدلا اور انتہائی دیدہ دلیری سے آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ان دہشت گردوں کو پاکستانی فوجی قرار دیا گیا جس پر پاکستان مخالفین کے دلوں میں ٹھنڈک اتر گئی لیکن پانڈو سیکٹر پر بلااشتعال فائرنگ سے دو پاکستانی نوجوان ضرور اس جھوٹی جنگ کی زد میں آئے۔
اس بیان بازی کی گولہ باری سے فائدہ کسے پہنچا، کیا حکومت کانگریس خود دل سے نہیں چاہتی کہ پاکستان اور بھارت دوستی کے بندھن میں بندھیں یا اسے خوف ہے کہ اس کے اس امر سے الیکشن میں اسے مخالف جماعتیں مہرے کے طور پر استعمال کرسکتی ہیں کیونکہ پہلے ہی بھارتی عوام کے دلوں میں سیاست کے علمبرداروں کے لیے اتنی نفرت پیدا کردی گئی ہے کہ ہر دم جیسے چنگاری سی ابھرتی رہتی ہے اب جو بھی بڑھائے گا وہی ووٹ پائے گا، کی پالیسی کے تحت الیکشن کی تیاریاں جاری ہیں اب اس کے لیے سفارتی آداب کی کون پرواہ کرے؟بھارت رواں سال میں ایک سو نوے سے زائد بار ایل او سی کی خلاف ورزی کرچکا ہے جب کہ رواں ہفتے مسلسل خلاف ورزی جاری ہے۔ اپنے عہد پر قائم رہنا پڑوسیوں کی فطرت میں نہیں، کسی نہ کسی انداز میں زک پہنچانا عادت سی ہے جو قیام پاکستان کے وقت سے لے کر اب تک جاری ہے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ایک بھارتی بچی غلطی سے پاکستانی بارڈر میں داخل ہوگئی، بچی ننگے پیر اور میل دھول سے اٹے کپڑوں میں ملبوس تھی جسے پاکستانی فوجیوں نے صاف ستھرے کپڑے مہیا کیے اور اسے اجازت ملنے کے وقت تک باحفاظت ایک سیکیورٹی اہلکار کے گھر رکھا گیا جہاں بچی کو کھانا پینا، نہانے دھونے کی سہولت ملی اور اعلیٰ حکام کی اجازت کے بعد اسے بھارتی حکام کے حوالے کردیا گیا۔ غلطی سے بارڈر کراس کرلینا دونوں جانب کے باسیوں کے لیے ایک تکلیف دہ امر ہے جو پاکستان کے مقابلے میں بھارتی بارڈر کراس کرلینے والوں کے لیے انتہائی سنگین جرم بن جاتا ہے۔ 30 جولائی کو آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے وادی گریس میں لائن آف کنٹرول پر چار مزدوروں کو پکڑ لیا گیا جو جناؤنی سے تعلق رکھتے تھے۔
وادی گریس کے جنگلات قیمتی جڑی بوٹیوں کے حوالے سے خاصے مشہور ہیں جہاں اکثر لوگ تلاش میں رہتے ہیں ایسی ہی تلاش ان چار مزدوروں کے لیے جان کا روگ بن گئی۔ وہ محض چار مزدور نہ تھے ان کے ساتھ پورا ایک گروپ تھا جو قیمتی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں سرگرداں بھارتی بارڈر پارکرگئے یہ محض انجانے میں کی گئی غلطی تھی جس کا مقصد سوائے دوائیوں کے لیے جڑی بوٹیوں کے سوا کچھ نہ تھا لیکن بھارتی فوجیوں نے انھیں گھیر لیا بہت سے بھاگ گئے خوش نصیبی تھی کہ جان بچ گئی لیکن بد قسمت چار ان کے ہتھے چڑھ گئے۔ بھارتی اہلکاروں کا دعویٰ تھا کہ وہ دہشت گرد تھے اور ان کے قبضے سے ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں جب کہ عینی شاہدین کا کہنا اس کے برعکس ہے وہ معصوم مزدور جن کی عمریں پچیس سے لے کر چالیس برس کی تھیں بھارتی اہلکاروں کی بندوقوں کا نشانہ بنے۔
بھارت مسلسل دوستی نبھانے میں حیل حجت سے کام لے رہا ہے جب کہ پاکستان اسے ہر قدم مضبوط کرنے میں کوشاں رہا ہے، پاکستانی حکومت اپنے عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے کوئی فیصلہ کرے نہ کرے لیکن بھارتی حکومت اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے اسے کسی بھی طرح سفارتی آداب کے لیے موزوں نہیں قرار دیا جاسکتا۔ پاکستان بھارت کے درمیان بس سروس بھی اسی کھینچا تانی کا نشانہ بنی، عوام کا احتجاج اور ارکان پارلیمنٹ کی نکتہ چینی سے ایک ذمے دار اور اہم وزارت کے منصب پر فائز اے کے انتھونی کی غیر ذمے دارانہ حرکت نے ایک بار پھر سے سرحدوں پر گرما گرمی جاری کردی ہے سیالکوٹ کے بارڈر کوٹلی کے قریب نلیال پر فائرنگ عید کے تیسرے روز بھی جاری رہی۔
پاکستان میں یوتھ کو اس الیکشن میں سب سے زیادہ اہمیت دی گئی یوتھ کی طاقت کا زور بھارتی طالبہ دامنی پر زیادتی کے المناک واقعے کے بعد زیادہ ابھر کر سامنے آیا جب دہلی میں نوجوانوں نے اعلیٰ حکام کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ اسی قوت کو انھوں نے پاکستان کے خلاف بھی اس انداز سے استعمال کیا اور بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے ڈرامے پر پاکستانی ہائی کمیشن کے دفتر پر جس انداز سے دھاوا بولا گیا اس سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اب کوئی مزید بات چیت نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ نواز شریف حکومت جس طاقت کے ساتھ سامنے آئی اس کا اثر بیرون ممالک بھی خاصا مثبت پڑا ہے ایسے میں حکومت کی جانب سے کشمیر کے مسئلے کا جواب دینا ایک اور منفی رجحان ثابت ہوسکتا ہے اور کانگریس کی حکومت کی پلاننگ مزید پانچ سال پکے کرنے کی ہے۔ اور اس کے لیے وہ بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنا نہیں چاہتے کیونکہ ایک چھوٹے ملک کی مضبوط حکومت ایک بڑے ملک کی لرزتی حکومتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ درست ہے کہ بظاہر ایک مضبوط حکومت کے پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہے، دہشت گردی، ڈرون حملے، توانائی کی کمی وغیرہ کے مسائل بہت بلند ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی حکومت کے عزائم بلند ہیں۔ امید ہے کہ ٹھوس بنیادوں پر یہ عزائم اپنا اصل رنگ دکھائیں گے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور ایل او سی کی خلاف ورزیوں کے پیچھے فطری حسد کے علاوہ بھی بہت کچھ نظر آتا ہے۔
یہ کرسی بہت ظالم ہوتی ہے کسی ملک کے لیے اس کی طاقت کی کیا اہمیت ہے یہ تو ایک عام آدمی سمجھ ہی سکتا ہے لیکن ملک کے مفادات کے خلاف کرسی کا نشہ کس کس طرح نیچ حرکات کرواتا ہے یہ بھی ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں خدا خیر کرے۔۔۔۔!