کراچی کے آنسو
کراچی میں ہونے والی بارشوں سے آسمان سے پانی ٹپکا۔ رحمت کے زحمت بن جانے کے سبب یہ پانی کے قطرے نہیں۔۔۔
کراچی میں ہونے والی بارشوں سے آسمان سے پانی ٹپکا۔ رحمت کے زحمت بن جانے کے سبب یہ پانی کے قطرے نہیں بلکہ کراچی کے آنسو ثابت ہوئے۔ اب شہر قائد کے باسی سوچنے لگے ہیں کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں یا اسے صوبے کا درجہ ملنا چاہیے۔ ایسی بارشیں لاہور میں ہوں تو مسئلہ پیدا نہیں ہوتا کہ بڑے شہر کے حکمرانوں کی رہائش اسی شہر کی ہوتی ہے۔ کراچی آنسو کیوں بہا رہا ہے؟ اس لیے کہ یہاں حکمرانی کرنے والوں کی نہ یہ مستقل رہائش ہے، نہ یہ یہاں عید مناتے ہیں اور نہ مرنے کے بعد یہ اس شہر میں دفن ہوں گے۔
کراچی شاید دنیا کا واحد صوبائی دارالحکومت ہے جہاں کے صوبائی اعلیٰ حکمران کا ڈومیسائل کبھی اس شہر کا نہیں رہا۔ پچھلی نصف صدی سے سندھ کے باسی دو حصوں میں اپنے نمایندے چنتے آ رہے ہیں۔ دیہی لوگ پیپلز پارٹی کو تو شہری سندھ جماعت یا متحدہ کو۔ جب بھی صوبے اور شہر میں الگ الگ قیادتیں ہوتی ہیں تو ان میں ٹکراؤ لازمی ہے۔ اس کی ابتدا سن ستر سے ہورہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو سندھ کے مقبول رہنما تھے۔ ان کی ملک پر حکمرانی کا سبب پنجاب میں ہردلعزیزی تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی حکمرانی کا تاج بھٹو کے ماتھے پر سجا۔ کوٹہ سسٹم نے سندھ کے شہری ودیہی کی تقسیم نمایاں کردی۔ اس سے قبل ممتاز علی بھٹو نے سندھ اسمبلی میں ''لسانی بل'' پیش کرکے تقسیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔ کراچی میں''اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے'' کے نعرے گونجنے لگے۔ بہاریوں کی پاکستان آمد کے خلاف بھی کراچی کی سڑکوں پر قدیم سندھیوں نے جلوس نکالے۔ ''بہاری نہ کھپن'' کے نعروں نے صوبے کی دونوں آبادیوں کے درمیان خلیج وسیع کردی۔ جلوس، قانون اور آئینی ترمیم نے سندھ کو دو حصوں اور پاکستان کو پانچ اکائیوں میں بانٹ دیا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
جنرل ضیا ء الحق کی حکومت کا مطلب پیپلز پارٹی کی سیاسی تباہی و تنہائی تھی لیکن یہ سندھیوں کا احساس محرومی بھی تھا۔اس کی انتہا بھٹوکو پھانسی ہوگئی۔یہ حقیقت ہے کہ جو صدمہ اندرون سندھ نے محسوس کیا وہ شہری سندھ نے محسوس نہیں کیا تھا۔ سندھی بھٹو سے والہانہ محبت کرتے تھے ۔ بھٹو کو بھی سندھیوں سے ایسا ہی پیار تھا۔ انھوں نے سندھیوں کو زندگی کی نئی امید دی یہی وجہ ہے کہ سندھیوں نے مردہ بھٹو سے بھی بے انتہا پیار کیا اور ان کا نام امر کر دیا۔ایم آرڈی کی تحریک میں بھی دیہی سندھ متحرک تھا۔ کراچی کی خاموشی نے آبادی کے دو حصوں میں خلیج کو پھر وسیع کردیا۔ ایسے میں ایک موقع آیا جب بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر کراچی اور صوبے کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ تھے۔ موٹروہیکل ٹیکس کے مسئلے پر بلدیہ کراچی اور سندھ حکومت ٹکرا گئیں۔ میئر کا کہنا تھا کہ جب سڑکیں اور پل بلدیہ تعمیر کرتی ہے گاڑیوں کا ٹیکس صوبہ کیوں وصول کر ے؟ 1987 میں وزیراعلیٰ غوث علی شاہ نے عبدالستار افغانی کی بلدیاتی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یہ ایک ٹکراؤ تھا جو صوبے اور بلدیہ کے درمیان ہوا۔ بظاہر یہی تھا لیکن حقیقت میں یہ شہری اور دیہی آبادیوں کے درمیان تنازعہ تھا۔
ایم کیو ایم کے منظر عام پر آنے اور مقبولیت حاصل کرنے سے قبل کی یہ باتیں ہیں۔ کراچی کے شہری دیکھ رہے تھے کہ بھٹو کے بعد بے نظیر ایک مضبوط سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ اندرون سندھ کے عوام اپنے تمام ووٹ پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈال کر ان کی قوت سوداکاری کو مضبوط کر رہے ہیں۔ وہ بھی ایک مضبوط پارٹی اور ایک مقبول شخصیت چاہتے تھے۔ یوں ضیا الحق کے دور میں ہونے والے تیسرے بلدیاتی انتخابات میں کراچی و حیدر آباد کی شہری آبادی نے اپنا ووٹ الطاف حسین کے پلڑے میں ڈال دیا۔ سن 88 کے قومی انتخابات میں تاریخ نے عجیب نظارہ کیا۔
بے نظیر بھٹو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر گئیں کہ پہلی مرتبہ دیہی و شہری قیادت نے اپنا ووٹ ایک جانب کرلیا تھا۔ دو نوجوان لیڈر جن کا سن پیدائش 53 اور عمر اس کا الٹ تھی۔ محسوس ہورہا تھا کہ اب معاملات بحسن و خوبی چلیں گے۔ ایک سال بعد بے نظیر کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد نے ایک بار پھر دیہی و شہری سندھ کے راستے جدا کردیے۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور بے نظیر اقتدار سے محروم کردی گئیں۔
نواز شریف نے اپنے پہلے اقتدار کے دوسرے سال میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ اس تنہائی اور برے وقت کی نزاکت کو دیہی سندھ نے محسوس نہ کیا۔ قدیم سندھیوں کے لیے بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی اہم تھی تو نئے سندھیوں کے لیے الطاف حسین کی جلاوطنی۔ اپنی اپنی خوشیاں اور اپنے اپنے دکھ۔ کروڑوں کی آبادیاں، ایک ملک اور ایک صوبہ لیکن سوچ مختلف۔ نواز شریف تین سالہ مدت پوری کرکے رخصت ہوئے تو بے نظیر برسراقتدار آئیں۔ پہلی مرتبہ دیہی سندھ بھرپور اقتدار میں تو شہری سندھ بھرپور اپوزیشن میں تھا۔ تاریخ یہ نظارہ بھی پہلی مرتبہ کر رہی تھی۔ تین سالہ دور مکمل کرکے بے نظیر بھی رخصت ہوئیں۔ اب نواز شریف برسراقتدار آئے تو انھوں نے ایم کیو ایم کو منالیا۔ ایک سال بھی گزرا تھا کہ حکیم محمد سعید کو شہید کردیا گیا۔ مسلم لیگ نے صوبے کی حکومت ختم کرکے گورنر راج لگادیا۔ اب پہلی مرتبہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ایک جیسی صورت حال سے دوچار تھے۔ نواز شریف سے بھی اور اقتدار سے بھی یا دونوں سے دور۔ اب نئی صدی شروع ہوئی تو پرویز مشرف برسر اقتدار تھے۔ وہ شریف خاندان سے دور تھے لیکن بے نظیر اور الطاف حسین سے ایک فاصلے پر تھے۔
پرویز مشرف اور الطاف حسین کی قربت نے ایم کیو ایم کے لیے بہتر مواقعے پیدا کیے لیکن متحدہ کچھ تاخیر کرگئی۔ بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ سے جماعت اسلامی کے نعمت اللہ کو بہتر کارکردگی دکھانے کا موقع ملا۔ صدی کے ابتدائی نصف عشرے میں بزرگ میئر نے ایمانداری اور کارکردگی کی اچھی مثال قائم کی۔ کراچی میں چالیس ارب روپے خرچ ہوئے۔ اگلا نصف عشرہ مصطفیٰ کمال کا تھا۔ انھوں نے نعمت اللہ کی رکھی گئی عمدہ بنیاد پر شاندار عمارت تعمیر کردی۔ اہل کراچی محسوس کرنے لگے کہ ان کے اپنے نمایندے اور اپنا بلدیاتی نظام ہو تو شہر کا نقشہ بدلا جاسکتا ہے۔
آصف زرداری اور ان کی پیپلزپارٹی کا پانچ سالہ اقتدار ایم کیو ایم سے ''کھنچی کھنچی سے مجبوری کی محبت'' کا عرصہ تھا۔ بلدیاتی نظام پر ڈھائی سالہ مذاکرات سے کچھ نہ نکلا۔ اب جب کہ مرکز میں نواز شریف، سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اپوزیشن میں ہیں تو سوال ہے کہ پھر کراچی کا کون پرسان حال ہو؟ اگر حیدر آباد و کراچی کے نمایندے اپنے تمام ووٹ ایک پارٹی کو دے کر بھی صوبے میں اپوزیشن میں ہوں تو؟ اگر صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات نہ کروا دے تو؟ تو وہی کچھ ہوتا ہے جو یوم آزادی سے دس روز قبل کی بارشوں میں کراچی میں ہوا۔ نعمت اللہ اور مصطفیٰ کمال کے دور میں 2013 سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہوئیں لیکن اس مرتبہ نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ شہر سے باہر کا ڈومیسائل رکھنے والے وزراء کراچی کے بلدیاتی معاملات کب تک چلائیں گے؟ اور جب تک یہ صورتحال برقرار رہے گی۔ شہر قائد کے باسی تمام تر اختیارات نچلی سطح تک والے بلدیاتی انتخابات کا شدت کے ساتھ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے اور شاید یہی حل ہے تین اگست کو ٹپکنے والے کراچی کے آنسو کا۔ورنہ اس کے بعد بات بگڑ سکتی ہے۔
کراچی شاید دنیا کا واحد صوبائی دارالحکومت ہے جہاں کے صوبائی اعلیٰ حکمران کا ڈومیسائل کبھی اس شہر کا نہیں رہا۔ پچھلی نصف صدی سے سندھ کے باسی دو حصوں میں اپنے نمایندے چنتے آ رہے ہیں۔ دیہی لوگ پیپلز پارٹی کو تو شہری سندھ جماعت یا متحدہ کو۔ جب بھی صوبے اور شہر میں الگ الگ قیادتیں ہوتی ہیں تو ان میں ٹکراؤ لازمی ہے۔ اس کی ابتدا سن ستر سے ہورہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو سندھ کے مقبول رہنما تھے۔ ان کی ملک پر حکمرانی کا سبب پنجاب میں ہردلعزیزی تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی حکمرانی کا تاج بھٹو کے ماتھے پر سجا۔ کوٹہ سسٹم نے سندھ کے شہری ودیہی کی تقسیم نمایاں کردی۔ اس سے قبل ممتاز علی بھٹو نے سندھ اسمبلی میں ''لسانی بل'' پیش کرکے تقسیم کی بنیاد رکھ دی تھی۔ کراچی میں''اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے'' کے نعرے گونجنے لگے۔ بہاریوں کی پاکستان آمد کے خلاف بھی کراچی کی سڑکوں پر قدیم سندھیوں نے جلوس نکالے۔ ''بہاری نہ کھپن'' کے نعروں نے صوبے کی دونوں آبادیوں کے درمیان خلیج وسیع کردی۔ جلوس، قانون اور آئینی ترمیم نے سندھ کو دو حصوں اور پاکستان کو پانچ اکائیوں میں بانٹ دیا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
جنرل ضیا ء الحق کی حکومت کا مطلب پیپلز پارٹی کی سیاسی تباہی و تنہائی تھی لیکن یہ سندھیوں کا احساس محرومی بھی تھا۔اس کی انتہا بھٹوکو پھانسی ہوگئی۔یہ حقیقت ہے کہ جو صدمہ اندرون سندھ نے محسوس کیا وہ شہری سندھ نے محسوس نہیں کیا تھا۔ سندھی بھٹو سے والہانہ محبت کرتے تھے ۔ بھٹو کو بھی سندھیوں سے ایسا ہی پیار تھا۔ انھوں نے سندھیوں کو زندگی کی نئی امید دی یہی وجہ ہے کہ سندھیوں نے مردہ بھٹو سے بھی بے انتہا پیار کیا اور ان کا نام امر کر دیا۔ایم آرڈی کی تحریک میں بھی دیہی سندھ متحرک تھا۔ کراچی کی خاموشی نے آبادی کے دو حصوں میں خلیج کو پھر وسیع کردیا۔ ایسے میں ایک موقع آیا جب بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر کراچی اور صوبے کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ تھے۔ موٹروہیکل ٹیکس کے مسئلے پر بلدیہ کراچی اور سندھ حکومت ٹکرا گئیں۔ میئر کا کہنا تھا کہ جب سڑکیں اور پل بلدیہ تعمیر کرتی ہے گاڑیوں کا ٹیکس صوبہ کیوں وصول کر ے؟ 1987 میں وزیراعلیٰ غوث علی شاہ نے عبدالستار افغانی کی بلدیاتی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یہ ایک ٹکراؤ تھا جو صوبے اور بلدیہ کے درمیان ہوا۔ بظاہر یہی تھا لیکن حقیقت میں یہ شہری اور دیہی آبادیوں کے درمیان تنازعہ تھا۔
ایم کیو ایم کے منظر عام پر آنے اور مقبولیت حاصل کرنے سے قبل کی یہ باتیں ہیں۔ کراچی کے شہری دیکھ رہے تھے کہ بھٹو کے بعد بے نظیر ایک مضبوط سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ اندرون سندھ کے عوام اپنے تمام ووٹ پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈال کر ان کی قوت سوداکاری کو مضبوط کر رہے ہیں۔ وہ بھی ایک مضبوط پارٹی اور ایک مقبول شخصیت چاہتے تھے۔ یوں ضیا الحق کے دور میں ہونے والے تیسرے بلدیاتی انتخابات میں کراچی و حیدر آباد کی شہری آبادی نے اپنا ووٹ الطاف حسین کے پلڑے میں ڈال دیا۔ سن 88 کے قومی انتخابات میں تاریخ نے عجیب نظارہ کیا۔
بے نظیر بھٹو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر گئیں کہ پہلی مرتبہ دیہی و شہری قیادت نے اپنا ووٹ ایک جانب کرلیا تھا۔ دو نوجوان لیڈر جن کا سن پیدائش 53 اور عمر اس کا الٹ تھی۔ محسوس ہورہا تھا کہ اب معاملات بحسن و خوبی چلیں گے۔ ایک سال بعد بے نظیر کے خلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد نے ایک بار پھر دیہی و شہری سندھ کے راستے جدا کردیے۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور بے نظیر اقتدار سے محروم کردی گئیں۔
نواز شریف نے اپنے پہلے اقتدار کے دوسرے سال میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ اس تنہائی اور برے وقت کی نزاکت کو دیہی سندھ نے محسوس نہ کیا۔ قدیم سندھیوں کے لیے بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی اہم تھی تو نئے سندھیوں کے لیے الطاف حسین کی جلاوطنی۔ اپنی اپنی خوشیاں اور اپنے اپنے دکھ۔ کروڑوں کی آبادیاں، ایک ملک اور ایک صوبہ لیکن سوچ مختلف۔ نواز شریف تین سالہ مدت پوری کرکے رخصت ہوئے تو بے نظیر برسراقتدار آئیں۔ پہلی مرتبہ دیہی سندھ بھرپور اقتدار میں تو شہری سندھ بھرپور اپوزیشن میں تھا۔ تاریخ یہ نظارہ بھی پہلی مرتبہ کر رہی تھی۔ تین سالہ دور مکمل کرکے بے نظیر بھی رخصت ہوئیں۔ اب نواز شریف برسراقتدار آئے تو انھوں نے ایم کیو ایم کو منالیا۔ ایک سال بھی گزرا تھا کہ حکیم محمد سعید کو شہید کردیا گیا۔ مسلم لیگ نے صوبے کی حکومت ختم کرکے گورنر راج لگادیا۔ اب پہلی مرتبہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ایک جیسی صورت حال سے دوچار تھے۔ نواز شریف سے بھی اور اقتدار سے بھی یا دونوں سے دور۔ اب نئی صدی شروع ہوئی تو پرویز مشرف برسر اقتدار تھے۔ وہ شریف خاندان سے دور تھے لیکن بے نظیر اور الطاف حسین سے ایک فاصلے پر تھے۔
پرویز مشرف اور الطاف حسین کی قربت نے ایم کیو ایم کے لیے بہتر مواقعے پیدا کیے لیکن متحدہ کچھ تاخیر کرگئی۔ بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ سے جماعت اسلامی کے نعمت اللہ کو بہتر کارکردگی دکھانے کا موقع ملا۔ صدی کے ابتدائی نصف عشرے میں بزرگ میئر نے ایمانداری اور کارکردگی کی اچھی مثال قائم کی۔ کراچی میں چالیس ارب روپے خرچ ہوئے۔ اگلا نصف عشرہ مصطفیٰ کمال کا تھا۔ انھوں نے نعمت اللہ کی رکھی گئی عمدہ بنیاد پر شاندار عمارت تعمیر کردی۔ اہل کراچی محسوس کرنے لگے کہ ان کے اپنے نمایندے اور اپنا بلدیاتی نظام ہو تو شہر کا نقشہ بدلا جاسکتا ہے۔
آصف زرداری اور ان کی پیپلزپارٹی کا پانچ سالہ اقتدار ایم کیو ایم سے ''کھنچی کھنچی سے مجبوری کی محبت'' کا عرصہ تھا۔ بلدیاتی نظام پر ڈھائی سالہ مذاکرات سے کچھ نہ نکلا۔ اب جب کہ مرکز میں نواز شریف، سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اپوزیشن میں ہیں تو سوال ہے کہ پھر کراچی کا کون پرسان حال ہو؟ اگر حیدر آباد و کراچی کے نمایندے اپنے تمام ووٹ ایک پارٹی کو دے کر بھی صوبے میں اپوزیشن میں ہوں تو؟ اگر صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات نہ کروا دے تو؟ تو وہی کچھ ہوتا ہے جو یوم آزادی سے دس روز قبل کی بارشوں میں کراچی میں ہوا۔ نعمت اللہ اور مصطفیٰ کمال کے دور میں 2013 سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہوئیں لیکن اس مرتبہ نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ شہر سے باہر کا ڈومیسائل رکھنے والے وزراء کراچی کے بلدیاتی معاملات کب تک چلائیں گے؟ اور جب تک یہ صورتحال برقرار رہے گی۔ شہر قائد کے باسی تمام تر اختیارات نچلی سطح تک والے بلدیاتی انتخابات کا شدت کے ساتھ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے اور شاید یہی حل ہے تین اگست کو ٹپکنے والے کراچی کے آنسو کا۔ورنہ اس کے بعد بات بگڑ سکتی ہے۔