تعلیم کی بہتری معیاری نصاب کے بغیرممکن نہیں

نوجوانوں کی نشوونما فکری، اخلاقی اور نظریاتی تعلیم و تربیت سے مربوط ہے.

نوجوانوں کی نشوونما فکری، اخلاقی اور نظریاتی تعلیم و تربیت سے مربوط ہے۔ فوٹو: فائل

قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ اس کے نوجوانوں کے دم قدم سے ہے اور نوجوانوں کی نشوونما فکری، اخلاقی اور نظریاتی تعلیم و تربیت سے مربوط ہوتی ہے۔

اگر معاشرے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر دیانت داری، نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ محنت کی جائے تو اس معاشرے کے نوجوان اپنے معاشرے کی روشن و مثالی تقدیر کے ضامن بن سکتے ہیں، اور اس کے برعکس اگر کسی معاشرے میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو ثانوی حیثیت دی جائے اور ان کی اخلاقی، فکری اور نظریاتی تربیت میں سستی و کاہلی سے کام لیا جائے تو ایسے نوجوان اپنے ہی معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بن جاتے ہیں۔

عالم اسلام میں جتنے بھی ایسے مسائل پنپ رہے ہیں جن کی وجہ سے ملت اسلامیہ دن بدن تنزلی میں گرتی چلی جارہی ہے ان میں جوبنیادی عنصر غالب ہے وہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت سے عدم توجہی اور غفلت برتنا ہے۔ تمام مسلم ممالک کی قیادت نے اپنی نوجوان نسل کو بے لگام چھوڑدیا ہے جس کی وجہ سے آج وہ جانوروں کے منتشر ریوڑکی طرح چلے جارہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ منزل سے بھٹکنے کے ذمہ دار نوجوان نہیں بلکہ مقتدر حلقے ہیں، کیوں کہ انہوں نے اپنی سلطنت و حکومت کی طوالت عمری، عیش و عشرت میں محو ہونے اور اقوام مغرب کی اندھی تقلید میں گم ہونے کے سبب اپنی ملت کی نوجوان نسل (جو کہ قوم کا مستقبل ہوا کرتے ہیں) کی خبر گیری سے عمداً آنکھیں چرالیں ہیں۔


پاکستان کے نصاب و نظام تعلیم میں بھی وہ سب خامیاں بدرجہا اَتم موجود ہیں جن کے سبب ملک کی نئی نسل کا دیوالیہ نکل جائے، بلکہ اب دن بدن ملک میں رائج نصاب تعلیم میں سے جو پہلے ہی علمی وفکری ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھا، نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کچھ کو تو حذف کر دیا گیا ہے اور باقی ماندہ کی ہمیں خبر ہی نہیں۔ پاکستان میں رائج تعلیمی نصاب میں تبدیلی کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن افسوس یہ تبدیلی کسی حکمت عملی اور سوچ بچار کے بجائے صرف نئے نئے تجربات کرنے کی دھن میں کی جا رہی ہیں۔ نصاب میں تبدیلی کا یہ سلسلہ اگر یونہی جاری رہا تو (خدانخواستہ) اس ملک و ملت کو تباہی و بربادی کی کھائیوں میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ معیاری نصاب تعلیم نہ ہونے سے آج ہماری نوجوان نسل کی اکثریت بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا شکار ہو رہی ہے۔

اور ایسے ہی حقائق کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کی تباہی و بربادی میں جس قدر برائیوں اور خرابیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ آج کے پاکستانی معاشرے میں پوری ہوچکی ہیں، یعنی پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوان (استثنیٰ کے ساتھ) والدین سے بد سلوکی، بڑوں کی بے ادبی، اساتذہ کی توہین جیسی خرافات و برائیوں میں لت پت ہوچکے ہیں۔ ایک تقریب میں سرکاری یونیورسٹی کے طالب علم نے دوران گفتگو بتایا کہ امیر سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم جو اکثر کلاس روم سے غیر حاضر رہتا تھا، نے چند دن قبل رزلٹ کے نتائج اس کے حق میں نہ آنے پر استاد کے کمرہ میں جاکر بد اخلاقی و بد تہذیبی کی انتہا کر دی۔ یہ واقعہ بطور مثال درج کیا گیا ہے ورنہ اس طرح کی درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ اور یہ سب کچھ کمزور اور ضروریات پوری نہ کرنے والے نصاب تعلیم کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

قابل غور امر یہ ہے کہ موجودہ نصاب کے مطابق تعلیم سے فراغت حاصل کرنے والے طلباء و طالبات میں بداخلاقی جیسے موذی جراثیم کہاں سے اورکیسے داخل ہورہے ہیں؟ تو ہمارے نزدیک ان جراثیم کے پنپنے کے دو بنیادی سبب ہیں، ایک غیر معیاری نصاب اور دوسرا کمزور نظام ہے۔ ہمارے ہاں جو نصاب رائج ہے اس میں لارڈمیکالے کے افکار و نظریات کی ترجمانی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ 1835ء میں لارڈ میکالے نے کہا تھا ''میں پورے برصغیر کادورہ کر چکا ہوں یہاں مجھے کسی طرح کی واضح کمزوری ہاتھ نہیں آسکی کہ جس کے سبب ہم ان کو یرغمال بنا سکیں البتہ دو راستے ہیں، ان کے ذریعے سے ممکن ہے کہ یہ شکل و صورت کے لحاظ سے تو ہندوستانی رہیں مگر افکار و نظریا ت میں یہ انگریز کے ترجمان ہوں گے، اور وہ یہ ہے کہ ان کے نصاب تعلیم کو بدل دیں''۔ اور آج ان افکار نے ہمارے نظریات اور ثقافت کو بدلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

شعبہ تعلیم کی بہتری کی بنیادی اکائی نصاب ہے جس کو معیاری بنائے بغیر کسی خواب کی تعبیر ممکن نہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے ہائر ایجوکیشن کمیشن، صوبائی وزارت تعلیم، یونیورسٹیز کے صدور، کالجز اور سکولز کے پرنسپلز سمیت تمام متعلقہ ارباب اختیار کی مشاورت سے ایک لائحہ عمل (پالیسی) طے کیا جائے۔ دوسرا انگریزی زبان جو کہ آج کے وقت کی ضرورت ہے اور اسے نصاب سے خارج کرنے کی بات کوئی عقل سے عاری فرد ہی کر سکتا ہے مگر مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کو انگریزی زبان میں مرتب و مدون کروایا جائے۔ اس کاوش سے دوفوائد حاصل ہوں گے، ایک انگریزی زبان داخل نصاب رہے گی اور دوسرا اسلامی و ملکی تاریخ سے نئی نسل روشناس ہوجائے گی، یہ اصلاح پہلی جماعت سے ہی شروع کروا دی جائے۔ تیسرا تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا تقرر سفارش اور رشوت کے بجائے ان کی علمی و اخلاقی، فکری و نظریاتی استعداد اور مہارت فن کو دیکھ کر کیا جائے۔
Load Next Story