طلبہ کی صلاحیتوں اور اُن سے وابستہ توقعات میں ربط کیسے پیدا ہو

چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ کر طالب علموں کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کیا جاسکتا ہے.

چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ کر طالب علموں کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہر شخص میں پیدائشی طور پر کچھ نہ کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ صلاحیتیں اور کام ہر کسی میں مختلف ہوتے ہیں۔

اور یہ صلاحیتیں اگرایک فرد کی حیثیت سے تسلیم کرلی جائیں تو وہ دوسروں کی خاطر وہ کام نہیں کرتے جس کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ کسی ایسی چیز کا اعتراف اگر زمانہ طالب علمی کے ابتدائی دور میں سکول اور گھر کی سطح تک ہوجائے تو اس کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اور اس مقصد کے حصول کے لئے والدین اور اساتذہ کی خدمت میں کچھ نکات یہاں پیش کیے جارہے ہیں (یہ سرگرمی کسی بھی ورکنگ ٹیم کے لئے کی جاسکتی ہے)

٭ ہر طالب علم کی اپنی خاص اہلیت کو اہمیت دیں کیوں کہ کوئی بھی دو افراد ایک جیسی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوسکتے۔ ہر شخص کی مختلف معاملات میں اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ اور ان کے پروان چڑھنے اور آگے بڑھنے کی اپنی رفتار ہوتی ہے۔

٭ طلباء کو ان کی اپنی قوتوں پر فوکس کرنے میں مدد کریںکیوں کہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ اچھا کرسکتا ہے، ان کے ساتھ مل کر ایک ایسی لسٹ بنائیں کہ ان کی صلاحیتیں سامنے آجائیں۔ یہ لسٹ گھر یا کلاس روم میں آویزاں کریں، ان سے انہیں مستقبل کے طویل المعیاد اور قلیل المعیاد مقاصد کی تشکیل میں مدد ملے گی۔

٭ دوسروں کی صلاحیتوں کی تعریف کرنا سکھائیں۔ والدین اور کلاس فیلوز کے ساتھ ان کی مذکورہ بالا لسٹ شئیر کریں۔ ان سے دوسروں کی مثبت خصوصیات کی لسٹ بنوائیں تاکہ طلباء کو یہ علم ہو جائے کہ دوسرے ان کے بارے میں کیا سمجھتے ہی۔ اس سے بہت سے طلبہ احساس کمتری کے خول سے نکل آئیں گے، انہیں احساس ہوگا کہ وہ بھی دوسروں سے کم نہیں ہیں اور دوسروں کی طرح بہت سے اہم کام سرانجام دے سکتے ہیں۔ تحسین و تعریف کی مثالوں سے ان کی رہنمائی بھی کریں۔ معین ہمیشہ مسکراتا رہتا ہے، سویرا کو لائبریر ی کی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے، انسہ انعام ہمیشہ وقت پر آتی ہے،طوبیٰ کا انداز تحریر خوبصورت ہے وغیرہ وغیرہ۔

٭ تمام طلبہ کو برابری کی بنیاد پر عزت دیں۔طلبہ کو اپنے رویے سے بتائیں کہ آپ ان کے ناپسندیدہ رویوں کو ناپسند اور اچھے رویوں کو پسند کرتے ہیں۔ میں آپ کے لباس کی صفائی کو پسند کرتا ہوں لیکن آپ کی بدتمیزیوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح ان کے محسوسات سے متعلق بتائیں کہ آپ ان کی فیلنگ (feelings) سمجھتے ہیں لیکن ہمدردی کے بجائے ان کی قوت ارادی میں اضافے کی کوشش کریں۔ ''بھئی لگ رہا ہے کہ آپ اپنے ٹیسٹ کے کم نمبروں کی وجہ سے پریشان ہیں ؟لیکن وجہ بھی آپ کو پتہ ہوگی''

٭ طلبہ کے احساسات (feelings) باہر نکالنے میں ان کی مدد کریں۔ اپنے پیارے طلبہ کو یہ سمجھائیں کہ چلیں کچھ محسوس (feel)کرنا تو ٹھیک ہے لیکن ان کو سامنے لانے کا طریقہ مناسب ہونا چاہئے۔ غصہ ،افسوس، ناراضگی،جوش و خروش، شکست کو برداشت کرنا ایسے جذبات ہیں کہ انہیں ٹریننگ مل جائے تو وہ زیادہ بہتر انسان بن سکتے ہیں۔

٭ طلبہ کے بارے میں زیادہ پُرخلوص سنجیدگی اپنائیں۔ ان کی دلچسپیوں کا بغور مطالعہ کریں اور ان کے ساتھ ایک عام انسان کی طرح گھل مل جائیں۔ ان کی سوچ اور کاموں میں پُرخلوص دلچسپی کا مظاہرہ کریں کیوں کہ پرخلوص دلچسپی کا اثر بعض اوقات تحسین و تعریف سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔




٭ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جب ٹیچرز اور والدین طلباء سے پاس یا فیل ہونے کی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ طلباء سے اس کی توقع بھی کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے اس قسم کی توقعات کا لازمی تجزیہ کریں کہ یہ توقعات غیر حقیقی تو نہیں ہیں؟کیا آپ دوسروں سے بھی ایسی چیزوں کی توقع کرسکتے ہیں جو اسی قسم کے حالات میں آپ سے ممکن نہیں تھیں!کیا آپ اپنے بچوں یا طلبہ سے کامیابی کی توقع کرتے ہیں ؟ آپ کی توقعات آپس کے تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہیں؟

٭ طلبہ کے ''انکار'' کے پس منظر کا تجزیہ کریں، اگر طالب علم کہتا ہے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتاتو کیااس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود کو نااہل سمجھتا ہے؟یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ناکامی یا آپ کی ناراضگی سے خوف زدہ ہے؟ یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ اس کام کے لیے میری مرضی نہیں ہے اور میں تو کچھ اور کرنا چاہتا ہوں!

٭ بچوں پر اعتماد اور یقین ظاہر کریں! ان کو اس بنیاد پر اہمیت دیں کہ وہ جو کچھ ہیں آپ کے لیے اہم ہیں۔ ان پر اعتماد ظاہر کریں کہ ان میں زندگی کے چیلنج کا سامنا کرنے کی اہلیت موجود ہے۔ یہ کام زبانی یا عملی دونوں طرح سے کیا جاسکتا ہے۔

٭ آپ کے طلباء کو خود سے وابستہ توقعات کا علم ہونا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ توقعات غیر حقیقی نہ ہوں۔ ایسی توقعات کے نتیجے مں طلباء میں جھنجلاہٹ ،غصہ اور مایوسی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں۔

٭ ''میں'' کا زیادہ اور ''تم'' کا کم استعمال کیا جائے۔ اگر گفتگو میں ہمارے طلباء فرسٹ پرسن سنگولر (صیغہ واحد حاضر)کا استعمال سیکھ جائیں توان کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ دوسری صورت میں اگر تم یعنی سیکنڈ پرسن سنگولر (صیغہ واحد حاضر)کا استعمال ہو گا تو یہ دوسروں پر الزام دھرنے اور شرم دلانے کے مترادف ہوگا۔ مثال کے طور پر تم نے مجھے غصہ دلایا کے بجائے ''مجھے غصہ آگیا'' استعمال کریں۔ تم بہت شور مچارہے ہو ،کے بجائے ''مجھے اتنے شور میں بات کرتے ہوئے دشواری ہو رہی ہے'' استعمال کریں۔

٭ ذو معنی اور منفی فیلنگ والی(Feelings) باتیں نہ کریں۔ آپ کی باتیں صاف اور پیغام واضح اور مثبت ہونا چاہیے۔یہ تصویر تو خوبصورت ہے لیکن درخت تو کھمبی جیسے لگ رہے ہیں ؟(یعنی یہ تصویربھونڈی ہے) چلیں اپنا یہ کام مجھے کرنے دیں (یعنی آپ نالائق ہیں اور آپ سے یہ کام نہیں ہوسکتا) مجھے تنگ نہ کرو (یعنی آپ میرے لیے اہم نہیں ہیں)

٭ اپنی حرکات و سکنات اور الفاظ میں ربط پیداکریں۔ اپنے منہ سے ہاں کہتے ہوئے آپ دائیں بائیں سر ہلا رہے ہیں (یعنی میں آپ کی بات نہیں مان سکتا) میں آپ کی بات سن رہا ہوں (جب کہ کوئی دوسرا کام کر رہے ہوں) ذمہ داری کے کام صرف انہیں دینا جنہیں آپ ذمہ دار سمجھتے ہوں (یعنی باقی لوگ غیر ذمہ دار ہیں ) اونچی آواز میں کہنا کہ مجھے غصہ نہیں آرہا (یعنی آپ غصے میں ہیں )۔طلبہ کو تبادلہ خیال کر کے سمجھائیں۔

٭ دوسروں کو کم تر ظاہر کرنے والے الفاظ استعمال نہ کریں۔ گالیاں دینا، دوسروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے مشکل بڑھانے والی باتیں کرنا، طنزیہ جملے کسنا وغیرہ وغیرہ۔ اپنے ہی نقطہ نظر کو سچ سمجھنا، دوسروں کی بات توجہ سے سننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان کے نقطہ نظر کو سچ مان رہے ہیں۔

٭ لیبلنگLabelling) ( سے بچنا۔ طلباء کو کسی قسم کی لیبلنگ سے بچاتے ہوئے انہیں یہ سکھائیں کہ صرف رویوں کو لیبل کریں نہ کہ افراد کو۔ جیسے ''تم غیر ذمہ دار ہو'' کہنے کے بجائے یہ کہیں ''ہوم ورک نہ کرنا غیر ذمہ داری ہے''کیوں کہ لیبلنگ دراصل ڈس ایبلنگ (معذوری) ہے۔

٭ دوسروں کو مثبت فیڈ بیک دینا سکھائیں۔ طلباء جب کسی کو فیڈ بیک دے رہے ہوں تو اسے حتمی فیصلہ سمجھ کر نہ دیں بلکہ سادہ سے الفاظ میں بیان کردیں ۔اسے اپنے مقصد تک محدود رکھیں نہ کہ عمومی بنادیں۔ اس میں ماضی کا حوالہ دینے کے بجائے زمانہ حال تک محدود رکھیں، اس میں اپنی عزت نفس کو شامل نہ کریں بلکہ اس کے مقصد کو سامنے رکھیں۔ متعلقہ شخص کے رویے کو سامنے رکھیں تاکہ وہ اس میں تبدیلی کرکے زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکے۔
Load Next Story