جیل جانے والی خواتین سے والدین تک منہ پھیر لیتے ہیں

قیدی خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے سرگرم اقبال النساء سے گفتگو

قیدی خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے سرگرم اقبال النساء سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

جیل کا خیال آتے ہی ہمارے ذہن میں ایک بہت بری جگہ کا تصور آنے لگتا ہے۔

یہ بات مشہور ہے کہ وہاں اگر کوئی چھوٹا مجرم بھی چلا جائے، تو خراب ماحول کے باعث پھر وہ بڑا مجرم بن کے نکلتا ہے۔ دوسری طرف کورٹ کچہری کے معاملات بھی برسوں بعد جا کر حل ہو پاتے ہیں۔ ان دونوں جگہوں پر اگر معاملہ صنف نازک سے متعلق ہو تو صورت حال اور بھی گمبھیر ہو جاتی ہے۔ ان مسائل سے دوچار افراد اور خواتین کو دوسروں کی مدد کی بھی خاصی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ جلد از جلد ان مسائل سے چھٹکارا پا سکیں۔ ایسی ہی خواتین کی معاونت کا خیال لیے اقبال النساء گزشتہ 16 سال سے اپنی گھریلو اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔

اگر خواتین کے لیے خدمات ہی انجام دینی ہیں تو آخر جیل ہی کیوں؟ اس حوالے سے اقبال النساء کا کہنا ہے کہ جیل کے کچھ برے تاثر اور کچھ دشواریوں کے باعث خواتین جانا بالکل پسند نہیں کرتیں۔ اس لیے مدد اور اصلاح کے لیے اس راہ کا انتخاب کیا، کیوں کہ اس وقت انہیں جس قدر مدد کی ضرورت ہوتی ہے، معاشرہ انہیں اتنا ہی خود سے پرے دھکیل دیتا ہے۔ لوگ ہم سے بھی پوچھتے ہیں کہ آپ ''مجرموں'' کی مدد کیوں کرتے ہیں؟ ہمارا بنیادی مقصد قیدی خواتین کی اخلاقی تربیت تھا۔ اس کے ساتھ ہم نے اپنی بساط کے مطابق ان کے مسائل بھی حل کرنا شروع کیے۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ قانونی معاونت تھا، اس کے لیے ہم نے انہیں اچھے وکلا مہیا کیے، پھر بہت سی خواتین رہائی، اور رہائی کے بعد معاشی مسائل سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ہم نے اخلاقی تربیت اور قانونی مدد کے ساتھ ان کی مناسب تعلیم اور ہنر کا بندوبست بھی کیا۔ خواتین وکلا کی طرح خواتین اساتذہ متعین کی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ ہنر سیکھنے اور رہائی کے بعد بھی کام شروع کرنے کے لیے مناسب مدد دی جاتی ہے، جیسے سلائی مشینیں وغیرہ دینا۔ اس کے علاوہ گردن چھڑائی، راشن اور وہاں موجود بچوں کے لیے بسکٹ اور دوائوں وغیرہ کی ضروریات بھی پوری کی جارہی ہیں۔

چوں کہ جیل میں انفرادی سطح پر اپنے کام کے لیے اجازت کا مسئلہ درپیش تھا۔ اس لیے 1996ء میں ''ویمن ایڈ ٹرسٹ'' کی تشکیل ہوئی اور اب تمام امور اسی ذریعے سے انجام دیے جا رہے ہیں۔ یہ فیض النساء خلیل صاحبہ کا تصور تھا، جس میں اقبال النساء ان کے ہم راہ تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد اب وہی ان تمام امور کی نگراں ہیں۔ ٹرسٹ کی چھ، سات اراکین فنڈز وغیرہ کے حصول کے لیے بھی کام کرتی ہیں۔ ابتدا میں بڑی مشکل جیل میں موجود خواتین کا اعتماد حاصل کرنا تھا۔ جیلوں میں بہت سی خواتین قانونی مدد حاصل نہ ہونے کے باعث طویل عرصے تک کسم پرسی کی حالت میں پڑی رہتی ہیں۔ ان کی مدد کی جاتی ہے۔ ان کے مقدمات شروع کرائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ایسی خواتین کو بھی وکیل مہیا کیے جاتے ہیں، جو اپنے مسائل کے حل کے لیے عدالت جانے پر مجبور ہوتی ہیں مگر مالی استطاعت نہیں رکھتیں۔

بعض جگہوں پر لڑکیوں کا 12، 13 سال کی عمر میں نکاح کر دیا جاتا ہے اور رخصتی چند سال بعد کی جاتی ہے۔ اس موقع پر وہ شوہر کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتی ہیں۔ ایسے مسائل ہمارے پاس آتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ معاملہ عدالت پہنچنے سے پہلے حل ہو جائے، اگر نہ ہوسکے تو عدالت سے لڑکی کو اس کا حق دلایا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سی خواتین کو تحریری طور پر طلاق نہیں دی جاتی۔ بعض کو بچوں اور جائیداد کے مسائل کے حل کے لیے بھی قانونی چارہ جوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سی خواتین اپنے جرم کا اعتراف نہیں کرتیں اور نقصان اٹھاتی ہیں۔ کچھ کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اغوا اور چوری جیسے جرائم کی مرتکب ہوئی ہیں۔ جرم تسلیم نہ کرنے سے بہ طور ملزم بھی قید میں رہتی ہیں، پھر سزا ہونے کے بعد بھی قید کاٹتی ہیں۔ ایسی خواتین کی اخلاقی تربیت کے لیے ہفتے میں دو دفعہ تربیتی نشست رکھی جاتی ہے۔

جیل جانے والی خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ بتاتے ہوئے اقبال النساء نے کہا کہ ایسی خواتین کے خاندان والے بھی ان سے ملنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ رہائی کے بعد بھی انہیں ساتھ نہیں لے کر جاتے۔ یہ ان کا معاشرتی مسئلہ ہونے کے ساتھ معاشی مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔ اس لیے ہم نے قیدی خواتین کو ہنر سکھانے کے لیے سلائی کڑھائی اور کمپیوٹر کے علاوہ دست کاریوں کے مختلف کورس کرانے شروع کیے۔ ہمارے کے بعد حکومت بھی اس جانب متوجہ ہوئی اور سرکاری طور پر جیل میں انڈسٹریل ہوم قائم ہوا۔ جو خواتین سلائی سیکھ گئی ہیں، انہیں ہم کام لا کر دیتے ہیں اور پھر سلائی کے بعد انہیں پورا، پورا معاوضہ دیتے ہیں۔

جیلوں میں اقبال النساء کی زیر نگرانی ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے کمپیوٹر کورسز کا سلسلہ گزشتہ 8 سال سے جاری ہے۔ 6 ماہ کا کورس وہاں کی خواتین کی استعداد کو دیکھتے ہوئے ایک سال پر محیط ہے۔ کام یابی سے کمپیوٹر کورس کرنے والی خواتین کی سزا میں چار ماہ کی تخفیف کر دی جاتی ہے۔ ہمارا بنیادی کام ان کی تعلیم وتربیت ہے، کیوں کہ لاعلمی اور اخلاقی خرابی انہیں یہاں تک لائی، تاہم ان کے مسائل کے حل کے لیے ضمنی طور پر ہم انہیں مختلف ہنر سکھاتے ہیں۔




جیل میں کچھ خواتین واقعی جرم کا ارتکاب کرنے والی ہیں جب کہ کچھ کسی کے ساتھ ہونے کی بنا پر یہاں آگئیں۔ جیسے قتل کے معاملے پر ایک خاتون اپنی ساس کے ساتھ جیل میں ہیں۔ یہ صرف اعانت کی مرتکب ہوئیں۔ ان کا ڈھائی سالہ بچہ والدہ کے پاس تھا۔ والدہ کا انتقال ہو گیا، تو وہ بچہ ان کے رشتے دار لے گئے اور ان کے گھر پر بھی قابض ہو گئے۔ تاہم ان کی کوششوں سے یہ مسئلہ حل ہو چکا۔ جیل میں اپنی سرگرمیوں کے لیے وہاں کی لیڈیز سپریٹنڈنٹ کی ہمیشہ سے بھرپور مدد رہی۔ معمول کی تربیتی سرگرمیوں کے ساتھ اہم قومی و مذہبی تہواروں پر بھی جیلوں میں پروگرام کرائے جاتے ہیں۔ آئی جی صاحب نے ان کا کام دیکھ کر صوبے بھر میں ہمیں اپنا کام بڑھانے کی دعوت دی، لیکن وسائل کی کمی اور مصروفیات کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا۔

اقبال النساء کا بیک وقت تین جگہوں پر مصروف عمل رہنے کے حوالے سے کہنا ہے کہ میں نے پہلے اپنے گھر کو دیکھا اس کے بعد اپنی پیشہ ورانہ اور فلاحی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ باہر نکلنا ہر عورت کا حق ہے، لیکن گھر ایک ایسا محاذ ہے جو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے باہر نکلنے والی خواتین اپنے گھر کو کبھی پس پشت نہ ڈالیں۔

ذاتی زندگی

اقبال النساء نے جامعہ کراچی سے نفسیات میں ایم اے کر رکھا ہے اور اب جناح یونیورسٹی برائے خواتین میں تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ اپنے معمولات میں گھر، جامعہ اور انجمن، تینوں سے پورا انصاف کرتی ہیں۔ بقول ان کے کہ ان کی زندگی میں آرام کا لفظ موجود نہیں۔ والدین نے نام اقبال رکھا تو وہ چاہتی تھیں کہ کوئی بلندی کا کام بھی کر جائیں۔ ان کے معمولات ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ فلاحی سرگرمیاں شادی کے کافی عرصے بعد شروع کیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس کام کا مقصد مجرمانہ ذہنوں کی کردار سازی تھی۔ شوہر سے نظریاتی اور فکری ہم آہنگی کے باعث کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ گھر اور تدریس کے ساتھ اپنے اس کام کو بھی پورا وقت دیتی ہیں۔ ان کے نو بچے ہیں۔ دوبیٹیوں کی شادی ہو چکی، پانچ نواسے نواسیاں ہیں۔ اپنے سب بچوں کو اعلا تعلیم دلائی، اور ٹیوشن کی کمی بھی خود ہی پوری کی۔ چھوٹی بیٹیاں بھی اب گریجویشن کے مراحل طے کر رہی ہیں۔

خواتین جیل کے حوالے سے غلط تصور

جیل سے باہر جیل کی خواتین کے حوالے سے افسوس ناک حد تک انتہائی منفی رائے پائی جاتی ہے۔ جس میں ذرہ برابر بھی کوئی صداقت نہیں۔ خواتین جیل کا انتظام خاصا مستحکم ہے۔ جیل جانے والی خواتین معاشرے میں اپنے مقام اور عزت سے محروم ہو جاتی ہیں۔ ہم خود ایسی لڑکیوں کو جانتے ہیں جو صرف شبے کی بنیاد پر قید ہوئیں، تو ان کے خاندان تو خاندان والدین تک نے ان سے قطع تعلق کر لیا۔ ان کے شوہر نے بھی انہیں طلاق دے دی اور ان کا بنا بنایا گھر اُجڑ گیا، کیوں کہ لوگ سمجھتے ہیں، کہ پتا نہیں جیل میں کس طرح کے لوگ اور کیسا ماحول ہوتا ہے، جب کہ ہم اس چیز کے گواہ ہیں کہ جیل میں خواتین کا احاطہ مکمل طور پر خواتین عملے کے ہی زیر نگرانی ہے، اور وہاں کسی بھی طرح کسی مرد کی رسائی ممکن ہی نہیں۔ صرف 6، 7 سال کے بچوں کو ساتھ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ 175 خواتین اور 35 بچے ہیں۔ دوسری طرف اگر گھر والے ساتھ دیں تو قید خاتون کی جلد رہائی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔ ایک خاتون قبضہ مافیا کے جبر کا شکار ہوئیں۔ ان کی پڑوسن نے اپنی بچی کو ان کے ہاں چھوڑا اور جا کر پولیس لے آئی اور اغوا کا الزام لگا دیا۔ دراصل وہ پڑوسن قبضہ مافیا سے ملی ہوئی تھی، جو یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح انہیں جیل بھیج کر خود گھر پر قبضہ کر لیا جائے۔ ان کے گھر والوں نے دیگر خواتین کے برعکس ان کا ساتھ دیا تو ان کا مقدمہ جلد نمٹ گیا اور وہ باعزت بری کر دی گئیں۔

خواتین میں جرائم کی وجہ

معاشرے کے بہت نچلے یا بہت اونچے طبقے کی خواتین میں جرائم کا ارتکاب زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے شوہر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور اپنی بیوی کو کچھ دینے کے بہ جائے الٹا ان سے پیسے مانگتے ہیں۔ اس ہی لیے ایک عورت جو چوہا نہیں مار سکتی وہ اپنے شوہر کا قتل کر دیتی ہے۔ جیلوں میں ایسے معاملات بھی ہیں کہ دو سوکنوں نے مل کر اپنے شوہر کو قتل کیا، کیوں کہ وہ تیسری شادی کرنے جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے اور ہمارے بچوں کے اخراجات تو پورے کرتا نہیں۔ نتیجتاً اب وہ دونوں جیل میں ہیں۔ یہ تمام چیزیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ہمارے ہاں آگہی کی کمی ہے۔ لڑکی کی زندگی کے اہم فیصلے کرتے ہوئے اس کی رضا مندی کو اہمیت نہیں دی جاتی، دنیا کے سارے معاملات میں اس کی خواہشات پوری کی جاتی ہیں، لیکن جب اس کی شادی جیسا اہم فیصلہ کیا جاتا ہے، تو رسماً نکاح سے قبل پوچھا جاتا ہے، حالاں کہ شادی کے لیے لڑکی کی رضا مندی بنیادی چیز ہے۔ استخارے اور دیگر مراحل اس کے بعد کے ہیں۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی ایک خاتون نے اپنے شوہر سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس ہی طرح صحابہ اکرام ؓکے حوالے سے بھی ایسی روایات موجود ہیں کہ جب انہوں نے کسی خاتون کو شادی کا پیغام بھیجا، تو ان خواتین نے اپنے انکار کے حق کو استعمال کیا۔
Load Next Story