مشورہ حاضر ہے
زندگی کے بہت سے معاملات میں ہمیں دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔
زندگی کے بہت سے معاملات میں ہمیں دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس مددکی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب ہم کسی مسئلے پر شش وپنج کا شکار ہوتے ہیں اور کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ کیا قدم اٹھایا جائے۔ ایسے میں ہمیں ضرورت ہوتی ہے کہ ہم کسی مخلص اور بھروسا مند شخص سے مشورہ لیں اور کوئی بہتر فیصلہ کریں، لیکن کچھ خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ جوں ہی ان کے کان میں کوئی بات پڑے، فوراً سے پیش تر وہ مفت مشوروں کی پٹاری لے کر بیٹھ جاتی ہیں اور سامنے والے کی مکمل بات سنے اور سمجھے بغیر صرف اپنی بات کہنے بلکہ مسلط کرنے سے ہی غرض رکھتی ہیں، جس سے ان کا مشورہ کسی طور بھی قابل عمل نہیں رہ جاتا۔ لوگ ایسے افراد کو دیکھ کر ان سے کترانے لگتے ہیں۔ اگر آپ کا شمار بھی ایسی ہی خواتین میں ہوتا ہے تو بس پھر آج سے ہی اس عادت سے چھٹکارا پانے کا تہیہ کر لیجیے، کیوں کہ یہ ایک ایسی عادت ہے جو بھری محفل میں ہمارا اچھا خاصا مذاق بنا دیتی ہے۔
مشورے دینے والی خواتین اکثر اس بات پر خفا رہتی ہیں کہ لوگ ان کی باتوں کا برا مان جاتے ہیں۔ یہ مشورے دینے سے پہلے یہ بھی نہیں سوچتیں کہ مد مقابل ان مشوروں پر کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔ وہ بھاری جسامت کے لوگوں کو ورزش اور دبلے پتلے لوگوں کو وزن میں اضافے کے مختلف مشورے دینے سے بھی کبھی نہیں چوکتیں۔ بغیر کچھ پوچھے مشوروں کے انبار سے لوگ تلملا اٹھتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسے بن مانگے مشوروں سے بچنے کے لیے راستہ ہی بدل لیتے ہیں۔ مشورے دینے والے بعض اوقات تجویز پیش کرتے وقت ماحول اور حالات کا بھی خیال نہیں کرتے۔ جیسے کسی بیمار فرد کی عیادت یا کسی انتقال کرجانے والے کی تعزیت کے وقت بھی وہ اس حوالے سے مختلف مشورے پیش کیے بغیر نہیں رہتے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ہر وقت مشورے دینے والی خواتین کے اندر دوسروںکے سامنے خود کو نمایاں کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی وجہ سے محسوس ہونے والا اکیلا پن دور کرنا مقصد ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندریہ عادت پیدا ہوتی ہے اور جب دوسرے اس کے مشورے پر عمل کر لیتے ہیں، تو وہ اسے کام یابی سمجھتے ہیں اور مشورہ رد کرنے کی صورت میں ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
ایسی عادت کی حامل خواتین کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے تو ہر کسی کو مشورہ دینے کی عادت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں۔ بن مانگے مشورے کسی کو بھی اچھے نہیں لگتے، بالخصوص جب کسی کے لباس اور اس جیسے نجی معاملات پر رائے زنی کی جائے تو سامنے والے کو کبھی بھی اچھا نہیں لگتا۔ بہت سنجیدہ اور نازک مواقع پر بات چیت سے گریز کریں، کیوں کہ ہمیں بعض اوقات اتنی عادت ہو جاتی ہے کہ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہماری گفتگو ناصحانہ ہونے لگتی ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ مشورہ دینے کا مقصد حکم نہیں، بلکہ ایک اختیاری تجویز ہوتا ہے، جس میں سامنے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ آپ کی بات پر عمل کرے یا نہ کرے۔ اپنے دفتر میں بھی اسی وقت رائے ظاہر کریں، جب آپ کی رائے مانگی جائے اور میٹنگ میں بھی اپنی باتیں مختصر اور منطقی طریقے سے رکھنے کی عادت ڈالیں۔
اس مددکی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب ہم کسی مسئلے پر شش وپنج کا شکار ہوتے ہیں اور کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ کیا قدم اٹھایا جائے۔ ایسے میں ہمیں ضرورت ہوتی ہے کہ ہم کسی مخلص اور بھروسا مند شخص سے مشورہ لیں اور کوئی بہتر فیصلہ کریں، لیکن کچھ خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ جوں ہی ان کے کان میں کوئی بات پڑے، فوراً سے پیش تر وہ مفت مشوروں کی پٹاری لے کر بیٹھ جاتی ہیں اور سامنے والے کی مکمل بات سنے اور سمجھے بغیر صرف اپنی بات کہنے بلکہ مسلط کرنے سے ہی غرض رکھتی ہیں، جس سے ان کا مشورہ کسی طور بھی قابل عمل نہیں رہ جاتا۔ لوگ ایسے افراد کو دیکھ کر ان سے کترانے لگتے ہیں۔ اگر آپ کا شمار بھی ایسی ہی خواتین میں ہوتا ہے تو بس پھر آج سے ہی اس عادت سے چھٹکارا پانے کا تہیہ کر لیجیے، کیوں کہ یہ ایک ایسی عادت ہے جو بھری محفل میں ہمارا اچھا خاصا مذاق بنا دیتی ہے۔
مشورے دینے والی خواتین اکثر اس بات پر خفا رہتی ہیں کہ لوگ ان کی باتوں کا برا مان جاتے ہیں۔ یہ مشورے دینے سے پہلے یہ بھی نہیں سوچتیں کہ مد مقابل ان مشوروں پر کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔ وہ بھاری جسامت کے لوگوں کو ورزش اور دبلے پتلے لوگوں کو وزن میں اضافے کے مختلف مشورے دینے سے بھی کبھی نہیں چوکتیں۔ بغیر کچھ پوچھے مشوروں کے انبار سے لوگ تلملا اٹھتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسے بن مانگے مشوروں سے بچنے کے لیے راستہ ہی بدل لیتے ہیں۔ مشورے دینے والے بعض اوقات تجویز پیش کرتے وقت ماحول اور حالات کا بھی خیال نہیں کرتے۔ جیسے کسی بیمار فرد کی عیادت یا کسی انتقال کرجانے والے کی تعزیت کے وقت بھی وہ اس حوالے سے مختلف مشورے پیش کیے بغیر نہیں رہتے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ہر وقت مشورے دینے والی خواتین کے اندر دوسروںکے سامنے خود کو نمایاں کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی وجہ سے محسوس ہونے والا اکیلا پن دور کرنا مقصد ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندریہ عادت پیدا ہوتی ہے اور جب دوسرے اس کے مشورے پر عمل کر لیتے ہیں، تو وہ اسے کام یابی سمجھتے ہیں اور مشورہ رد کرنے کی صورت میں ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
ایسی عادت کی حامل خواتین کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے تو ہر کسی کو مشورہ دینے کی عادت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں۔ بن مانگے مشورے کسی کو بھی اچھے نہیں لگتے، بالخصوص جب کسی کے لباس اور اس جیسے نجی معاملات پر رائے زنی کی جائے تو سامنے والے کو کبھی بھی اچھا نہیں لگتا۔ بہت سنجیدہ اور نازک مواقع پر بات چیت سے گریز کریں، کیوں کہ ہمیں بعض اوقات اتنی عادت ہو جاتی ہے کہ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہماری گفتگو ناصحانہ ہونے لگتی ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ مشورہ دینے کا مقصد حکم نہیں، بلکہ ایک اختیاری تجویز ہوتا ہے، جس میں سامنے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ آپ کی بات پر عمل کرے یا نہ کرے۔ اپنے دفتر میں بھی اسی وقت رائے ظاہر کریں، جب آپ کی رائے مانگی جائے اور میٹنگ میں بھی اپنی باتیں مختصر اور منطقی طریقے سے رکھنے کی عادت ڈالیں۔