پولیس اصلاحات

موجودہ پولیس سربراہ نے ماضی میں اس ضمن میں کوشش کی تھی جس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے تھے۔

msuherwardy@gmail.com

پنجاب میں پولیس اصلاحات تحریک انصاف کا انتخابی نعرہ ہے۔ لیکن ابھی تک اس محاذ پر تحریک انصاف کوکوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ پہلے یہ کام ناصر درانی کو دیا گیا لیکن وہ مستعفیٰ ہوگئے ۔ آئی جی پنجاب محمد طاہر بھی تبدیل ہوگئے۔ اس کے بعد امجد سلیمی آئی جی پنجاب آئے ۔ اب وہ بھی تبدیل ہوگئے ہیں لیکن پولیس اصلاحات کا خواب تاحال خواب ہی چلا آ رہا ہے ۔ آج بھی پولیس روایتی انداز میں ہی کام کر رہی ہے، پولیس قوانین میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ۔

اب عارف نواز کو آئی جی پنجاب لگا دیا گیا ہے۔ لیکن وہ پہلے بھی اس عہدے پر کام کرچکے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں انھیں اس عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔ پھر انتخابات کے موقعے پر نگران حکومت کے دور میں نیا آئی جی لگایا گیا۔ اب انھیں ایک بار پھر پنجاب پولیس کا سربراہ لگایا گیا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف تجربے کر کے تھک گئی ہے۔ انھیں سمجھ آ گئی ہے کہ وہ پولیس کو تجربہ گاہ نہیں بنا سکتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار پر بھی ڈیلیوری کا پریشر روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ انھیں بھی احساس ہے کہ ان کے پاس اب ضایع کرنے کے لیے مزید وقت نہیں ہے۔ تجربوں میں پہلے ہی بہت وقت گزار دیا گیا ہے۔

آئی جی کسی صوبہ کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف نے پنجاب اور اسلام آباد میں آئی جیز کی تعیناتی کے حوالے سے بہت ایڈونچر کر لیے ہیں۔ اس لیے اب یہ سلسلہ بند کردیا جانا چاہیے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں اگر پولیس سسٹم ٹھیک ہو جائے تو نظام انصاف پر بھی بوجھ کم ہو جائے گا۔ عدالتوں میں مقدمات کی تعداد کم ہو جائے گی۔ بے گناہوں کی مشکلات کم ہو جائیں گی ۔ معاشرہ میں لاقانونیت اور ظلم وزیادتی بند ہو جائے گی ۔ اگر عام شہریوں کی بر وقت تھانے کی سطح پر ہی داد رسی ہوجائے تو شائد ماڈل کورٹس بنانے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی ۔ ہر تھانہ ہی ماڈل کورٹ بن جائے تو حکومتوں کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم ابھی تک پولیس میں حقیقی اصلاحات کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکے ہیں۔


کیا اب پولیس میں اصلاحات کا عمل شروع ہوجائے گا۔ بظاہر یہ ایک مشکل سوال ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ پولیس سربراہ نے ماضی میں اس ضمن میں کوشش کی تھی جس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے تھے۔ تھانوں میں جھوٹے پرچوں کے اندراج روکنے پر کام کیا گیا تھا۔ تھانوں میں پولیس کو پابند کیا گیا تھا کہ اگر درخواست دوران تفتیش جھوٹی ثابت ہو جائے تو جھوٹی درخواست دینے والے کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ بے شک اس ضمن میں سیکڑوں کارروائیاں کی بھی گئیں۔ لیکن عارف نواز کی تبدیلی کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔بہتر ہے کہ اب اس کو دوبارہ شروع کیا جائے۔

معاشرے کی یہ بھی حقیقت ہے کہ جھوٹا پرچہ درج کرانے والا با اثر اور طاقتور ہوتا ہے۔ سیاسی دباؤ بھی موجود ہوتا ہے ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پولیس کے افسر میں جھوٹی درخواست دینے والے کو جھوٹا قرار دینے کی سکت ہی نہیں ہے کیونکہ ملزمان کے پشت پناہ بہت طاقتور ہوتے ہیں۔دیہی علاقوں میں ایسا زیادہ ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ بعد میں اس کے خلاف کارروائی کی پیروی کی غریب میں طاقت نہیں ہوتی۔غریب آدمی کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے اور اس کی سفارش بھی نہیں ہوتی، وہ وکیل کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتا، اس لیے بیچارہ چپ ہوجاتا ہے۔ہمارے ہاں ایسی مثالیں عام ہیں۔میڈیا میں بھی ان کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔

اس ضمن میں ایک جدید نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں پولیس دباؤ سے آزاد ہو، اسے معاشی آسودگی بھی حاصل ہو اور پولیس اہلکاروں اور افسروں پر بھی چیک اینڈ بیلنس کا قانون ہو۔ پولیس اصلاحات اب روایتی طریقوں سے ممکن نہیں ہیں۔ اس کے لیے قانون سازی بھی کرنی ہوگی۔ انگریز کے دور کے اختیارات ختم کرنے کی ضرورت ہے، ارکان اسمبلی کا دباؤ کم کرنا ہوگا، پولیس افسر اور اہلکار کو تحفظ دینا ہوگا لیکن احتساب کے ساتھ۔

میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ایف آئی آر درج کرانے کے طریقہ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سیکشن 154کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر سیکشن 154کو تبدیل کر دیا جائے اور ایف آئی آر کو درج کرانے کا طریقہ کار تبدیل کر دیا جائے تو 22-Aاور 22-Bکی لڑائی بھی ختم ہو جائے گی۔ عدالتوں پر پرچہ درج کرانے کے لیے دباؤ بھی ختم ہو جائے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکیلے آئی جی یہ کام نہیں کر سکتے۔ا س ضمن میں حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔

صوبائی اسمبلی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔قانون سازی کرنی ہوگی۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ عوام کے نمایندے سارا ملبہ پولیس پر ڈال کر خود اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوجائیں۔عوام کے نمایندے اور حکومت اپنا کردار ادا کریں تو بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے تاہم جھوٹی تفتیش کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جھوٹے مقدمات میں بے گناہ گرفتاریوں کو بھی روکا جاسکتا ہے۔پولیس کو عوام کے سامنے جوابدہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ پولیس عوام سے تہذیب سے پیش آئے، چوری کا مال آسانی سے واپس مل جائے، یہ بھی ممکن ہے لیکن کیا ایسا ہوجائے گا ، یہ ایک مشکل سوال ہے۔ لیکن اگر عزم صمیم ہو تو پھر سب کچھ ممکن ہوجاتا ہے۔
Load Next Story