ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم اور جماعت اسلامی

ڈاکٹر اسراراحمد صرف گفتار کے نہیں، کردار کے بھی غازی تھے۔


Asghar Abdullah April 18, 2019

ماہ اپریل ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی برسی کے حوالہ سے تو اہم ہے ہی، لیکن جس دوسری شخصیت کو اس مہینہ میں پاکستان نے کھویا، وہ ڈاکٹر اسراراحمد صاحب ہیں۔ قرآن کی ترویج واشاعت میں جن لوگوں نے اپنی زندگیاں کھپا دیں، ڈاکٹر صاحب کا نام ان میں سر فہرست ہے اور رہے گا۔ وہ کچھ ایسے دبنگ لہجہ میں درس قرآن مجید دیتے کہ سننے والوں کو قرآن کا جمال وجلال دونوں دل میں اترتے ہوئے محسوس ہوتے، اورمسجد دارالسلام باغ جناح اور قرآن اکیڈیمی ماڈل ٹاؤن میں ان کے درس قرآن میں شرکت کے لیے عاشقان قرآن دور دور سے کھنچے چلے آتے۔

رشدوہدایت کا یہ قرآنی سلسلہ جو انھوں نے دوران طالب علمی ہی میں شروع کر دیا تھا، ان کی زندگی کی آخری برسوں تک جاری رہا، تاآنکہ آخری علالت کے باعث زیادہ دیر تک مسند ارشاد پر بیٹھنا ان کے لیے ممکن نہ رہا تھا؛ لیکن اس وقت تک وہ اپنے بیٹوں ڈاکٹر رشید ارشد اور حافظ عاکف سعید کو مسند نشیں ہونے کے قابل بناچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو یہ جہاں رنگ وبو چھوڑ کر رخصت ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں، لیکن ان کی مسند ارشاد اسی طرح آباد ہے، جس طرح ان کی زندگی میں آباد تھی۔ ان کے دونوں بیٹے اپنے باپ کا قرآنی مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر اسراراحمد سے پڑھنے کی حد تک تو زمانہ طالب علمی ہی میں تعارف ہو چکا تھا۔ جمعیت سے اپنی وابستگی کے باعث ان کے ساتھ بھی ایک گونا دلبستگی پیدا ہو چکی تھی۔ وہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہ چکے تھے اوراس عرصہ کی ان کی یادداشتوں پر مشتمل ان کا انٹرویو جمعیت کے نصاب میں شامل ہے۔کنگ ایڈورڈ میڈکل کالج جیسے اعلیٰ درجہ کے میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کچھ عرصہ میڈیکل پریکٹس کی، لیکن جی اس میں لگا نہیں۔ ان کا دل قرآن اور دعوت دین ہی میں لگتا تھا۔ جمعیت سے فارغ ہونے کے بعد وہ فوری طور پرجماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے، جس کے امیر اس زمانہ میں بانی جماعت مولانا مودودی خود تھے۔ ادھر ڈاکٹر اسراراحمد کی افتاد طبع کچھ ایسی تھی کہ کسی کے بھی مقلد محض نہ ہو سکتے تھے۔

قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں جب جماعت کو انتخابی محاذ پر پے درپے شکستوں کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، تواس کے اندر ایک زبردست بحران پیدا ہوگیا۔ ایک طبقہ کی رائے یہ تھی کہ جماعت کو ان انتخابی نتائج سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس میں مزید وقت ضایع کرنے کے بجائے تمام تر توانائیاں خالصتاً دعوتی علمی اور اصلاحی سرگرمیوں پر لگانی چاہییں دوسری رائے یہ تھی کہ جماعت کو ان ابتدائی انتخابی ناکامیوں سے بددل نہیں ہوناچاہیے اور اسی رخ پر مسلسل آگے بڑھتے رہنا چاہیے، کیونکہ یہی راستہ اس منزل مقصود کی طرف جاتا ہے جو جماعت اسلامی کا نصب العین ہے۔ یہ دوسری رائے بانی مولانا مودودی اور ان کے ہم خیالوں کی تھی، جب کہ پہلی رائے مولانا اصلاحی اور ان کے ہم خیالوں کی تھی، جن میں ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے۔

فروری 1958 میں ریگ زار بہاول پورکے ایک دورافتادہ ماچھی گوٹھ میں ارکان جماعت کا کل پاکستان اجتماع ہوا۔ جماعت اور جمعیت کے وہ لوگ ، جنھوں نے اپنی تاریخ کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، بخوبی جانتے ہیں کہ اجتماع ماچھی گوٹھ جماعت کی تاریخ کا انتہائی اہم اور نازک موڑ تھا۔ اس اجتماع میں مولانا مودودی نے اپنی سوچ اور رائے کو مفصل قرارداد کی صورت میں پیش کیا، بلکہ اس کی تشریح میں لمبی چوڑی تقریر بھی کی جو 'جماعت اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل ' کے نام سے جماعتی لڑیچر کا مستقل حصہ بن چکی ہے۔

ماچھی گوٹھ کے اس اجتماع میں مولانا مودودی کے مخالف نقطہ ء نظر کی نمایندگی مولانا امین احسن اصلاحی اور ڈاکٹر اسرار احمد نے کی۔ ڈاکٹر صاحب کا اختلافی موقف، جو انھوں نے اجتماع میں پیش کیا، وہ بھی'' تحریک جماعت اسلامی کا گم شدہ باب '' کے زیرعنوان کتابی صورت میں چھپ چکا ہے اور ان کی '' تنظیم اسلامی'' کے لٹریچر کا لازمی جزو ہے۔ ارکان جماعت نے بہرحال مولانا مودودی کی رائے پرصاد کیا۔ یوں انتخابی سیاست جماعت اسلامی کی مستقل حکمت عملی قرار پا گئی۔ مولانا اصلاحی اور ڈاکٹر اسرارسمیت وہ تمام حضرات، جنھوں نے ماچھی گوٹھ میں مولانا مودودی کی رائے سے اختلاف کیا، یکے بعد دیگرے جماعت سے مستعفیٰ ہو گئے۔

جماعت سے علیحدگی کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے آپ کو مکمل طور پر علمی اور فکری سرگرمیوں تک محدود کرلیا، لیکن ڈاکٹر اسرار احمد نے علمی اور فکری کے ساتھ عملی جدوجہد بھی جاری رکھی۔ قرآن فہمی کے لیے انجمن خدام القرآن قائم کی۔ ماڈل ٹاؤن میں قرآن اکیڈیمی کی بنیاد رکھی، جس کے تحت اب قرآن کالج بھی وجود میں آ چکا ہے۔ یہ دونوں ادارے صرف اور صرف قرآن کے آفاقی پیغام کو عام کرنے کے لیے ہیں۔

اپنی قرآنی فہمی کی روشنی میں انقلاب اسلامی کے لیے تنظیم اسلامی کے نام سے اپنی''انقلابی پارٹی'' بھی قائم کی، جو سیاسی سرگرمیوں کو شرعاً شجرممنوعہ تو قرار نہیں دیتی، لیکن سردست ان میں کسی بھی قسم کاحصہ لینے کی روادار نہیں۔ تنظیم اسلامی کی بنیاد ان کے سمن آباد والے جس گھر میں رکھی گئی، ہفت روزہ ''ندا'' سے وابستگی کے دنوں میں اس تاریخی گھر میں مجھے بھی کچھ عرصہ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔گلی کے کونے پر واقع پرانی طرز کا بنا ہوا یہ گھرپچھلے دنوں دیکھا تو اس کا بیرونی حصہ مارکیٹ میں بدل چکا تھا۔ تنظیم اسلامی کے موجودہ امیر حافظ عاکف سعید صاحب بھی ان دنوں اسی ہفت روزہ سے وابستہ تھے۔

1970میں پاکستان میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پرالیکشن ہوئے۔ جماعت نے اس میں بھرپور شرکت کی۔ مولانا مودودی کو پورا یقین تھا کہ ایک تاریخی کام یابی بس ان کے قدم چومنے ہی والی ہے مگر جماعت اسلامی پورے پاکستان سے بمشکل چار نشستیں ہی جیت سکی۔ مولانا مودودی جو تین عشروں سے مسلسل امیر جماعت چلے آ رہے تھے، اتنے دل برداشتہ ہوگئے کہ آیندہ مدت کے لیے امیر جماعت بننے سے معذرت کرلی۔ میاں طفیل محمد صاحب ان کے جانشین قرار پائے، جن کی امارت میں جماعت اسلامی نے 1977 اور1985کے الیکشن میں حصہ لیا۔ ان کے بعد قاضی حسین احمدصاحب آئے، جن کے دور امارت میں جماعت نے1988، 1990، 1993اور2002 کے الیکشن میں حصہ لیا، جب کہ 1997 اور2008 کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔

1993کے الیکشن میں قاضی صاحب نے اسلامی فرنٹ قائم کیااور دوسری پارٹیوں کی طرح روایتی انداز میں انتخابی مہم چلائی مگر نتیجہ پھربھی کچھ نہ نکلا تو اس پر میاں صاحب سخت برافروختہ ہوئے۔ اسی زمانے میں میاں صاحب اور ڈاکٹر صاحب سے میری بھی تفصیلی ملاقاتیں ہوئی۔ جہاں میاں صاحب سخت مایوسی کاشکار تھے، وہاں ڈاکٹر صاحب کو اس میں امید کی ایک ہلکی سی کرن نظر آ رہی تھی کہ انتخابی حکمت عملی کو مسلسل لاحاصل دیکھ کر جماعت کا ''انقلابی طبقہ'' شاید پاکستان میں'' اسلامی انقلاب '' کو برپا کرنے کے لیے اب ان کی طرف رجوع کرے۔ ان کی یہ امید مگر بر نہ آسکی۔ اس کے بعد بلکہ آج بھی جماعت اسی انتخابی ڈگر پر گامزن ہے، جس پر مولانا مودودی اسے ڈال گئے تھے۔

عوامی سطح پر ڈاکٹر اسراراحمد کی شہرت اور مقبولیت کا آغاز جنرل ضیاالحق دور میں پی ٹی وی پران کے ہفتہ وار درس قرآن سے ہوا۔ دینی حلقوں میں یہ پروگرام اس قدر مقبول تھا کہ بڑی بے تابی سے اس کا انتظار ہوتا تھا۔ شاید ہی کسی دینی پروگرام کو اتنی پذیرائی حاصل ہوئی ہو۔ جب ایک اختلافی مسئلہ پرحکومت نے سرکاری ٹی وی پران کا درس قرآن بند کرادیا تو اس وقت تک ''انجمن خدام القران'' کے تحت ان کے درس قرآن کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ شروع ہو چکی تھی۔ گویا عاشقان قرآن ان کے درس کو آج بھی اسی طرح سن سکتے ہیں، جس طرح ان کی زندگی میں سنتے تھے۔ عالمی مذہبی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جب اپنے انٹرنیشنل چینل Peace کے لیے دنیا بھر سے جن مفسرین قرآن کو چنا، ان میں ڈاکٹراسرار احمد بھی شامل تھے۔ اس کی بدولت ڈاکٹر صاحب کے درس قرآن کی گونج اب پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔

ڈاکٹر اسراراحمد صرف گفتار کے نہیں، کردار کے بھی غازی تھے۔ جس موقف کو حق سمجھا، بے خوف اس کا اظہار حکمرانوں کے سامنے بھی کیا۔ اپنے نظریات پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ زندگی ایسی سادگی سے گزار دی کہ پوری دنیا ان کو ٹی وی پر دیکھتی تھی، لیکن ان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔ حق گوئی کی پاداش میں کئی بار ان کی جان کو سخت خطرہ لاحق ہوا، ان کوکہا گیا کہ آپ کچھ عرصہ کے لیے پاکستان چھوڑ دیں، لیکن انھوں نے انکار کردیا، اور زندگی کی آخری سانسوں تک بے خوف وخطرکلمہ حق بلند کرتے رہے۔ وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی سچی تصویر تھے ،

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں