حقیقی عظمت
جو خدا کی عظمت میں زندگی گزارتے ہیں وہ کسی بھی معاملے کو ایک آدمی اور دوسرے آدمی کا معاملہ سمجھتا ہے۔
انسانی عظمت کے جھوٹے قصیدے جب پڑھے جاتے ہیں تو زمین و آسمان کی ہر چیز پڑھنے اور سننے والوں پر لعنت بھیجتی ہے مگر جب خدا کی عظمت کا چرچا کیا جائے تو زمین و آسمان اس کے ہم نوا ہو جاتے ہیں۔ انسانی عظمت کے قصیدے جھوٹی زبانوں سے نکلتے ہیں اور جھوٹے کانوں سے سنے جاتے ہیں مگر جب خدا کی عظمت بیان کرنے کی توفیق ملتی ہے تو یہ ایک ملکوتی کلام ہوتا ہے جو فرشتوں کی ہم نشینی سے کسی کی زبان سے ابلتا ہے۔
جو لوگ کسی انسان کی عظمت سے مسحور ہوں وہ اس کی شان میں الفاظ کے دریا بہاتے ہیں جب کہ خدا کی عظمت سے مسحور ہونے والے شخص پر چپ لگ جاتی ہے۔ انسانی عظمت کے چرچے پُر رونق مجلسوں اور عمدہ کاغذ پر چھپے ہوتے ہیں اور اللہ کی عظمت کا چرچا ایک بندہ خدا کے قلب میں ابلتا ہے اور صرف اس کی تنہائیوں کو یہ خوش قسمتی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اس کو سنیں اور دیکھیں۔ خدا کی عظمتوں میں جینے والے اور انسان کی عظمتوں میں جینے والے اور انسان کی عظمتوں میں جینے والے میں وہی فرق ہے جو خود خدا اور انسان میں۔
حضرت انسان کی ایک نفسیاتی کمزوری ہے کہ وہ اس وسیع و عریض کائنات میں خود کو تنہا سمجھتے ہوئے کسی سہارے کی تلاش میں رہتا ہے کوئی ایسا سہارا جو بہت بڑا اور بہت عظیم ہو۔ کوئی ایسا جس کے سہارے زندگی گزاری جا سکے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان مختلف ادوار اور مختلف خطوں میں اپنے لیے بہت سے سہارے تلاش کرتا رہا ہے۔
بہت سی عظمتوں اور بڑائیوں میں جیتا رہا ہے، لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان نے اپنی ناقص عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے خود ساختہ جتنی بھی بڑائیوں کا انتخاب کیا وہ سراب اور دھوکہ ثابت ہوئیں۔ انسانیت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئیں اب تک کی تاریخ انسانی کے مطالعے سے ہی ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ انسانیت کے لیے سنہرا دور وہ تھا جب معاشرے کی ایک عظیم اکثریت خدا کی بڑائی اور Greatness میں زندگی گزار رہا ہے۔ غور کریں تو یہ نفسیات اس میں ہر شخص کی نظر آتی ہے۔ خواہ وہ پاکستان کا ایک رکشہ یا بس ڈرائیور ہو یا کوئی امریکی صدر ہو۔
اس سے زیادہ حسین دور زمین و آسمان نے آج تک نہیں دیکھا۔ آج ہم پھر اپنی اپنی خودساختہ بڑائیوں میں جی رہے ہیں۔ دنیا میں جو اتنا فساد نظر آتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کوئی اپنی انا کی بڑائی میں جی رہا ہے کوئی بزرگوں کی بزرگی کی بڑائی میں جی رہے ہیں۔ کوئی خاندان، نسل، ذات برادری، قوم یا قبیلے کی سطوت و عظمت میں زندہ ہے تو کوئی وطن و ملت یا مذہب کی عظمت کے زیرنگیں سانس لے رہا ہے۔ ان میں سے کچھ بڑائیاں کچھ لوگوں کے لیے وقتی نفع رسانی کا سبب بنتی ہوں لیکن سب کے لیے اور تادیر حتیٰ کہ بعد از مرگ بھی نافع بڑائی جس میں کوئی جیے وہ خدا کی بڑائی اور عظمت ہے۔
کہتے ہیں ''نہ مانے تو مر کر دیکھ'' واقعہ یہ ہے کہ اگر اس وسیع و عریض کائنات اس گنجلک انسان اور اس پریشان تاریخ انسان پر غور و فکر کے بعد بھی اگر کوئی اس نتیجے پر نہ پہنچے تو موت از خود تمام حقائق کو اس پر عیاں کر دے گی اس دن کھرا اور کھوٹا، جھوٹ اور سچ سب پتہ چل جائے گا لیکن افسوس کہ اس وقت سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ کیا جا سکے گا۔ آج وقت ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اور سب کی دنیا و آخرت حسین ترین ہو تو ہم دیگر تمام جھوٹی عظمتوں سے نکل آئیں کہ ہمارے لیے صرف ایک خدا کی عظمت و بڑائی کافی ہے لیکن افسوس کہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم سب سے زیادہ خدا کی بڑائی سے ہی بے خبر ہیں۔ وہ کہ جو سب سے بڑا ہے کہ جو اس وسیع و عریض، حیرت انگیز کائنات کا خالق و مالک کہ جو ہمارا رب ہے وہ جو کہ اس وقت ہماری مدد کرتا ہے جب اس کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوتا وہ جو کہ اس وقت ہماری دست گیری کرتا ہے جب ہم بے دست و پا ہوتے ہیں وہ کہ جو ہم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ کوئی دوسرا اتنی محبت نہیں کرتا۔ وہ کہ جسے اس وقت بھی ہمارا خیال ہوتا ہے کہ جب سب بے رخی برت رہے ہوں وہ کہ جو ہر دم ہمارا بھلا کرتا ہے۔ کتنی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ہم اس سے بے خبر ہیں۔
ہمارا حال کتنا دگرگوں ہے کہ خدا کی مخلوق اور واقعات کے بارے میں بولنے کے لیے ہمارے پاس اتنا کچھ ہے کہ آسمان اور مخلوق کے خالق اور واقعات کے محرک حقیقی کے بارے میں بولنے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ ہم جھوٹی اور فنا ہو جانے والی عظمتوں کو محسوس تو کرتے ہیں لیکن افسوس کہ خدا کی عظمت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ آج زمین پر جو فساد اور نابرابری نظر آ رہی ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ اگر سب خدا کی عظمت اور بڑائی میں جینے والے ہو جائیں تو کوئی فساد نہ ہو گا کوئی ظلم نہ ہو گا۔
اس دنیا میں کچھ لوگوں کے پاس زیادہ مواقعے ہیں کچھ کے پاس کم۔ کچھ باصلاحیت ہیں کچھ کم صلاحیت والے اگر اپنی اپنی بڑائیوں میں جینے والے معاملات کو انسان سے انسان کی نسبت پر دیکھیں گے تو فساد ہو گا۔ لیکن اگر معاملات کو خدا کی بڑائی میں رہتے ہوئے خدا اور انسان کی سنت سے دیکھا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ سب برابر ہیں۔
اسلام انسان کو اس کردار کا حامل بناتا ہے جو خدا کی عظمت میں زندگی گزارتے ہیں وہ کسی بھی معاملے کو ایک آدمی اور دوسرے آدمی کا معاملہ سمجھتا ہے جوکہ آخرکار خدا کے سامنے پیش ہونے والا ہے۔
جو لوگ کسی انسان کی عظمت سے مسحور ہوں وہ اس کی شان میں الفاظ کے دریا بہاتے ہیں جب کہ خدا کی عظمت سے مسحور ہونے والے شخص پر چپ لگ جاتی ہے۔ انسانی عظمت کے چرچے پُر رونق مجلسوں اور عمدہ کاغذ پر چھپے ہوتے ہیں اور اللہ کی عظمت کا چرچا ایک بندہ خدا کے قلب میں ابلتا ہے اور صرف اس کی تنہائیوں کو یہ خوش قسمتی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اس کو سنیں اور دیکھیں۔ خدا کی عظمتوں میں جینے والے اور انسان کی عظمتوں میں جینے والے اور انسان کی عظمتوں میں جینے والے میں وہی فرق ہے جو خود خدا اور انسان میں۔
حضرت انسان کی ایک نفسیاتی کمزوری ہے کہ وہ اس وسیع و عریض کائنات میں خود کو تنہا سمجھتے ہوئے کسی سہارے کی تلاش میں رہتا ہے کوئی ایسا سہارا جو بہت بڑا اور بہت عظیم ہو۔ کوئی ایسا جس کے سہارے زندگی گزاری جا سکے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان مختلف ادوار اور مختلف خطوں میں اپنے لیے بہت سے سہارے تلاش کرتا رہا ہے۔
بہت سی عظمتوں اور بڑائیوں میں جیتا رہا ہے، لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان نے اپنی ناقص عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے خود ساختہ جتنی بھی بڑائیوں کا انتخاب کیا وہ سراب اور دھوکہ ثابت ہوئیں۔ انسانیت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئیں اب تک کی تاریخ انسانی کے مطالعے سے ہی ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ انسانیت کے لیے سنہرا دور وہ تھا جب معاشرے کی ایک عظیم اکثریت خدا کی بڑائی اور Greatness میں زندگی گزار رہا ہے۔ غور کریں تو یہ نفسیات اس میں ہر شخص کی نظر آتی ہے۔ خواہ وہ پاکستان کا ایک رکشہ یا بس ڈرائیور ہو یا کوئی امریکی صدر ہو۔
اس سے زیادہ حسین دور زمین و آسمان نے آج تک نہیں دیکھا۔ آج ہم پھر اپنی اپنی خودساختہ بڑائیوں میں جی رہے ہیں۔ دنیا میں جو اتنا فساد نظر آتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کوئی اپنی انا کی بڑائی میں جی رہا ہے کوئی بزرگوں کی بزرگی کی بڑائی میں جی رہے ہیں۔ کوئی خاندان، نسل، ذات برادری، قوم یا قبیلے کی سطوت و عظمت میں زندہ ہے تو کوئی وطن و ملت یا مذہب کی عظمت کے زیرنگیں سانس لے رہا ہے۔ ان میں سے کچھ بڑائیاں کچھ لوگوں کے لیے وقتی نفع رسانی کا سبب بنتی ہوں لیکن سب کے لیے اور تادیر حتیٰ کہ بعد از مرگ بھی نافع بڑائی جس میں کوئی جیے وہ خدا کی بڑائی اور عظمت ہے۔
کہتے ہیں ''نہ مانے تو مر کر دیکھ'' واقعہ یہ ہے کہ اگر اس وسیع و عریض کائنات اس گنجلک انسان اور اس پریشان تاریخ انسان پر غور و فکر کے بعد بھی اگر کوئی اس نتیجے پر نہ پہنچے تو موت از خود تمام حقائق کو اس پر عیاں کر دے گی اس دن کھرا اور کھوٹا، جھوٹ اور سچ سب پتہ چل جائے گا لیکن افسوس کہ اس وقت سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ کیا جا سکے گا۔ آج وقت ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اور سب کی دنیا و آخرت حسین ترین ہو تو ہم دیگر تمام جھوٹی عظمتوں سے نکل آئیں کہ ہمارے لیے صرف ایک خدا کی عظمت و بڑائی کافی ہے لیکن افسوس کہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم سب سے زیادہ خدا کی بڑائی سے ہی بے خبر ہیں۔ وہ کہ جو سب سے بڑا ہے کہ جو اس وسیع و عریض، حیرت انگیز کائنات کا خالق و مالک کہ جو ہمارا رب ہے وہ جو کہ اس وقت ہماری مدد کرتا ہے جب اس کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوتا وہ جو کہ اس وقت ہماری دست گیری کرتا ہے جب ہم بے دست و پا ہوتے ہیں وہ کہ جو ہم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ کوئی دوسرا اتنی محبت نہیں کرتا۔ وہ کہ جسے اس وقت بھی ہمارا خیال ہوتا ہے کہ جب سب بے رخی برت رہے ہوں وہ کہ جو ہر دم ہمارا بھلا کرتا ہے۔ کتنی حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ہم اس سے بے خبر ہیں۔
ہمارا حال کتنا دگرگوں ہے کہ خدا کی مخلوق اور واقعات کے بارے میں بولنے کے لیے ہمارے پاس اتنا کچھ ہے کہ آسمان اور مخلوق کے خالق اور واقعات کے محرک حقیقی کے بارے میں بولنے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ ہم جھوٹی اور فنا ہو جانے والی عظمتوں کو محسوس تو کرتے ہیں لیکن افسوس کہ خدا کی عظمت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ آج زمین پر جو فساد اور نابرابری نظر آ رہی ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ اگر سب خدا کی عظمت اور بڑائی میں جینے والے ہو جائیں تو کوئی فساد نہ ہو گا کوئی ظلم نہ ہو گا۔
اس دنیا میں کچھ لوگوں کے پاس زیادہ مواقعے ہیں کچھ کے پاس کم۔ کچھ باصلاحیت ہیں کچھ کم صلاحیت والے اگر اپنی اپنی بڑائیوں میں جینے والے معاملات کو انسان سے انسان کی نسبت پر دیکھیں گے تو فساد ہو گا۔ لیکن اگر معاملات کو خدا کی بڑائی میں رہتے ہوئے خدا اور انسان کی سنت سے دیکھا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ سب برابر ہیں۔
اسلام انسان کو اس کردار کا حامل بناتا ہے جو خدا کی عظمت میں زندگی گزارتے ہیں وہ کسی بھی معاملے کو ایک آدمی اور دوسرے آدمی کا معاملہ سمجھتا ہے جوکہ آخرکار خدا کے سامنے پیش ہونے والا ہے۔