تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو
پاکستان میں ہم کب سے ہائے پٹرول وائے پٹرول کی فریادیں سن رہے ہیں
KARACHI:
ہم نے پہلے ہی یاروں کو خبر دار کیا تھا کہ یہ جو پٹرول کی قیمتیں تھوڑا کم ہوئی ہیں اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیل دیکھ تیل کی دھار دیکھو۔ سو دیکھ لو تیل کی دھار ہمارے دیکھتے دیکھتے کدھر چل پڑی۔ اب پٹرول کی چڑھی قیمتوں پر ہائے وائے ہو رہی ہے۔ اگر کسی سہانی صبح پٹرول کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
اب چڑھی قیمتوں پر جو شور مچ رہا ہے اس سے ہمارا دھیان پیچھے کی طرف گیا۔ پٹرول کی طرف سے ہمیں ستانے کا پروگرام کچھ ہمارے زمانے سے مخصوص نہیں۔ پاکستان میں ہم کب سے ہائے پٹرول وائے پٹرول کی فریادیں سن رہے ہیں۔ ہمیں یاد آیا کہ اب سے خاصا عرصہ پہلے ہمارے ایک مزاحیہ شاعر نے اس پٹرولی ہائے وائے پر حاشیہ آرائی کی تھی۔ وہ تھے سید محمد جعفری۔ ہم نے ان کی کلیات کے ورق الٹے پلٹے تو نظم برآمد تو ہو گئی۔ مگر وہاں مسئلہ تھوڑا مختلف تھا۔ ان دنوں پٹرول کے مسئلہ کو اس طرح حل کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس کی راشننگ شروع کر دی گئی۔ سید محمد جعفری اس پر رواں ہو گئے؎
موٹر نشین تھے جو تجمل حسین خاں
جوتوں پہ جن کے جمتی نہ تھی گرد کارواں
پٹرول راشننگ کی بدولت ہیں نوحہ خواں
اور پا پیادہ پھرتے ہیں چٹخاتے جوتیاں
پھر ان کا احوال یوں بیان ہوا ؎
ملنا مجھے حسینوں سے دشوار ہو گیا
مشکل طواف کوچہ دلدار ہو گیا
پٹرول کے نہ ہونے سے میں خوار ہو گیا
اس پاشکستگی میں جو دیدار ہو گیا
ان کی کمر کو پکڑوں کہ اپنی کمر کو میں
''ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جائوں کدھر کو میں''
مطلب یہ ہے کہ پٹرول نے ہمیشہ ہمیں خوار وزبوں ہی رکھا۔ کبھی اتنی قلت کہ راشننگ کرنی پڑی۔ کبھی اتنی گرانی کہ ہر طرف ہائے پٹرول وائے پٹرول کا نالہ بلند ہونے لگا۔ مگر گرانی مطلب یہ کہ مہنگائی کچھ پٹرول سے تو مخصوص نہیں۔ ارے ہم تو سر سے پیر تک مہنگائی کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ جب ہر شے دادا کے مول بک رہی ہے تو پٹرول میں کیا سرخاب کے پر لگے ہیں کہ اسے مہنگائی سے بری کر دیا جائے۔ اور مہنگائی کوئی آج کا معاملہ تھوڑا ہی ہے۔ سید محمد جعفری کے زمانے میں بھی مہنگائی پر ہائے وائے ہو رہی تھی۔ اس ہائے وائے کا ایک نقشہ ملاحطہ فرمائیے؎
بڑھنے چڑھنے میں قیمتیں بے باک
کس لیے ہم کریں گریباں چاک
ختم کپڑوں کا ہو چکا اسٹاک
''دیکھو ا ے ساکنان خطہ پاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی''
رہ گئی ہے گلے میں اک ٹائی
جعفری صاحب کے کلیات کا عجب نقشہ ہے۔ جتنے اوراق ہم پلٹتے جاتے ہیں اتنا ہی ورطہ حیرت میں غرق ہوتے جاتے ہیں۔ سارے مسائل وہی ہیں جن سے آج ہم دو چار ہیں۔ عید کے چاند کا قضیہ بھی وہاں اسی طرح ہے جس طرح اب ہمارے زمانے میں ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کا روئے زیبا بھی ویسا ہی ہے جیسا اب ہے۔ ریل کا سفر' ہوائی جہاز کا سفر' کراچی کا مسئلہ' بقر عید کے بکرے' سارا ہی نقشہ ہے کہ جو تب تھا وہ اب ہے۔
اچھا ہی ہوا یہ کلیات چھپ گئی۔ اس کی اچھی خاصی دستاویزی حیثیت ہے۔ جعفری صاحب نے ہنسی ہنسی میں وہ سب بے تکلفانہ بیان کر دیا ہے جو اس وقت ہو رہا تھا ،سیاست کے بلند و بالا ایوانوں سے لے کر قصائیوں کی دکانوں تک۔
یہ شاعری اس زمانے میں مشاعروں میں گونجی۔ پھر اس کی گونج نجی محفلوں میں سنائی دی۔ پھر وقت ان شعروں کو لے اڑا اور کتنے لوگوں کی زبانوں پر یہ شعر چڑھ گئے۔ جعفری صاحب مطمئن ہو گئے کہ ان کی شاعری اجتماعی حافظہ کا حصہ بن گئی۔ مگر ہوا یہ کہ زمانے کے ساتھ ہمارا حافظہ ہمیں دغا دے گیا۔ اس ملک میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس میں سے کتنا ہمیں یاد ہے۔ تو اچھا ہوا کہ ان کے انتقال کے بعد ان کے وارثوں نے ان کا بکھرا کلام اکٹھا کیا' سلیقہ سے مرتب کیا۔ اور سنگ میل نے اپنی کلیات سیریز کے ذیل میں اس کلیات کو بھی بصد اہتمام چھاپ دیا۔ اچھا کیا۔ پاکستان کے اہل سیاست' اہل دانش' اہالیان حکومت سب اپنے اپنے کرشمے دکھاتے نظر آ رہے ہیں۔
اس نوع کی شاعری کی بڑی مثال ہمارے یہاں اکبر الہ آبادی کی ہے۔ کتنی شگفتہ ہے اور کتنی سنجیدہ ہے۔ پورا عہد اپنے تضادات کے ساتھ اس میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ کچھ ایسا ہی نقشہ سید محمد جعفری کی شاعری کا ہے۔ جتنی شگفتہ ہے اتنی ہی سنجیدہ ہے۔ ایک آنکھ ہنس رہی ہے۔ دوسری آنکھ رونا چاہتی ہے۔ مگر ہنسنے والی آنکھ اسے رونے نہیں دیتی۔ ان کے دیباچہ نگار فرمان فتح پوری نے صحیح لکھا ہے کہ ''اس سارے عرصے میں پاکستان یا پاکستان کی سماجی زندگی میں حکومت و سیاست اور مذہب و ثقافت کے حوالے سے جتنی گمراہیاں' غلط اندیشیاں، نا انصافیاں، بدعنوانیاں، زیادتیاں، نا آسودگیاں، سختیاں، محرومیاں، ستم ارزانیاں اور خوش فعلیاں ظہور میں آئی ہیں، وہ سب سید محمد جعفری کے مشاہدہ و مطالعہ میں رہی ہیں''۔ ہمارا عہد بھی اصل میں اسی عہد کی توسیع ہے۔ جو کسر وہاں رہ گئی تھی وہ ہمارے زمانے میں آ کر پوری ہو گئی۔ تو اس شاعری کی مار اس زمانے سے لے کر ہمارے زمانے تک ہے۔
اے لو ہم تو سید محمد جعفری کی شاعری پر رواں ہو گئے۔ وہ پٹرول کا مسئلہ تو بیچ ہی میں رہ گیا۔ ویسے ہمارے سب ہی مسئلے کہیں بیچ میں پھنسے رہ گئے ہیں۔ کسی مسئلہ کے حل کی صورت ہی نہیں نکل رہی۔ لیکن خیر پٹرول کا مسئلہ تو شیطان کے کان بہرے بہت جلدی حل ہونے والا ہے۔ خبر بہار کی لایا ہے کوئی گل پارہ۔ خبر یہ ہے کہ ہمارا ایک نابغہ روز گار سائنسدان سائنسی تحقیق کے میدان میں گھوڑا دوڑا کر دور کی کوڑی لایا ہے۔ پانی میں اس نے پٹرول کی تاثیر دریافت کی ہے۔ بس وہ دریافت جامہ عمل پہننا چاہتی ہے۔ پھر پاکستان میں پانی کے بل پر موٹریں چلیں گی۔
یہ سن کر ہمارے دوست نے قہقہہ لگایا۔ ہم نے کہا کہ عزیز۔ یہ سائنسی تحقیق کا مسئلہ ہے۔ اسے تم ہنسی میں اڑا رہے ہو۔ وہ بولا' اس سے پہلے بھی پاکستان میں ایک ایسا ہی بقراط صفت سائنسداں نمودار ہوا تھا۔ لنکا میں سب باون گزے۔ پاکستان بھی لگتا ہے کہ اب لنکا کے مقام پر ہے۔
ہم نے ازراہ تجسس پوچھا کہ اس سائنسداں نے سائنسی تحقیق کے میدان میں کیا گل کھلایا تھا۔ جواب دیا کہ اس نے برسر کانفرنس اپنا یہ سائنسی تجزیہ پیش کیا کہ ہم بنی آدم تو مٹی کے مادھو ہیں۔ مگر جنات سر تاپا آگ ہیں۔ اگر انھیں تسخیر کر لیا جائے تو ان سے اتنی بجلی پیدا ہو گی کہ پاکستان کی بجلی کی ساری ضروریات بدرجہ اتم پوری ہوں گی۔ مگر افسوس کہ اس سائنسی دریافت پر کسی نے سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی۔ اس بے توجہی کی سزا ہم آج بھگت رہے ہیں اور بجلی کے قحط سے دوچار ہیں۔
ہم نے کہا کہ خیر اب پاکستان والوں نے اپنے اہل علم اور اہل ہنر کی قدر جان لی ہے۔ پاکستان کے مقتدر طبقوں ہی کی طرف سے نہیں کتنے ایک مدعیان سائنس کی طرف سے بھی اس جینس کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ البتہ جو واقعی سائنسداں ہیں وہ انگشت بدنداں ہیں کہ یہ عجوبہ روز گار سائنسداں سائنس کے نام پر کیا گل کھلانے کے در پے ہے۔ مگر ہمارا وہی جواب ہے کہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ نائی نائی بال کتنے کہ ججمان آگے آئے جاتے ہیں۔ بس تھوڑا صبر کرو تھوڑا انتظار۔