ملک کا سیاسی خلا کون پُر کرے گا
کرپٹ اشرافیہ سخاوت اور نیکی میں بھی لوٹ مار کا موقع نکال لیتی ہے
NEW DEHLI:
پاکستان کی سیاست کے حوالے سے آج کل جو بات زیرِ بحث ہے، وہ یہ ہے کہ پُرانے سیاسی اوتاروں کی کرپشن، خاندانی حکمرانیوں کی روایت، آپس کے الزام تراشیوں کی وجہ سے ان کے خلاف عوام میں جو بیزاری، ناپسندیدگی پیدا ہوگئی ہے، اس نے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے اور عوام اس حوالے سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں کہ انھیں اس خلا کو پورا کرنے والا نہ کوئی رہنما نظر آرہا ہے، نہ کوئی ایسی سیاسی پارٹی نظر آ رہی ہے جو اس خلا کو پُر کرے۔
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے یہ طے کرنا ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی اشرافیہ عوام کی ناپسندیدگی بلکہ نفرت کو محسوس کر کے از خود سیاست سے الگ ہونے پر تیار ہو گی؟ اس سوال کا جواب ہمیں ان کی منصوبہ بندیوں اور سیاسی سرگرمیوں میں تلاش کرنا پڑے گا۔ اس پس منظر میں جب ہم ان خاندانی سیاست دانوں کی سرگرمیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سوال کا جواب نفی میں آتا ہے۔ یہ میڈیا میں اپنے کرتوتوں کی داستانوں کی تشہیر کے باوجود انتہائی بے شرمی سے آنے والے ممکنہ الیکشن میں کامیابی کے لیے جوڑ توڑ اور عوام کو پرچانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہر سیاسی پارٹی آنے والے ممکنہ الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے سیاسی اتحادوں، سیٹ ایڈجسٹمنٹس کے کھیل میں مصروف نظر آتی ہے۔ ان اتحادوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوششوں کو ناپاک اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان اتحادوں، سیٹ ایڈجسٹمنٹس میں عوامی مفادات کا سرے سے کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ ان سرگرمیوں کا بنیادی مقصد اقتدار میں آنے کے بعد وزارتوں، سفارتوں، قانون ساز اداروں میں نشستوں کی بندر بانٹ اور لوٹ مار کے راستوں کی تلاش کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر ان اتحادوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فریقوں پر نظر ڈالیں تو ان تمام فریقوں کا تعلق اسی ''بدمعاشیہ'' سے نظر آتا ہے جسے سیاسی اصطلاح میں سیاسی اشرافیہ کا نام دیا جاتا ہے۔
اس سازش کی ضرورت اس اشرافیہ کو اس لیے پیش آتی ہے کہ یہ اپنی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے قومی سطح کی سیاست میں ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کی وجہ اب وہ علاقائی سیاست کے حصار میں قید ہو گئے ہیں۔ کوئی پنجاب کی سیاست کر رہا ہے، کوئی بلوچ سیاست کر رہا ہے، کوئی پختون سیاست کر رہا ہے، کوئی سرائیکی سیاست کر رہا ہے، کوئی سندھ کی سیاست کر رہا ہے۔ ان اتحادوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی سلطنتوں کے علاوہ دوسری سلطنتوں کے مالکان سے یہ معاہدے کیے جائیں کہ وہ اپنی سلطنتوں میں سے کچھ نشستیں انھیں دیں اور اس ایثار کے بدلے میں ان کی سلطنت سے کچھ سیٹیں لیں۔
اس ادلا بدلی سے عوام کو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ اوتار صرف اپنے صوبے ہی میں مقبول نہیں بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی مقبول ہیں۔ جب یہ اشرافیہ اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزر جاتی ہے تو پھر مل جل کر حکومتیں بنانے کا مرحلہ آتا ہے، جس کا واحد مقصد مل جل کر لوٹ مار کرنا ہوتا ہے۔ اگر ماضی اور حال پر نظر ڈالیں تو آپ کو یہی شرم ناک تصویر نظر آئے گی۔
دوسری سازش یا دھوکا بازی یہ کی جا رہی ہے کہ عوام کی دولت عوام کو لیپ ٹاپ، آٹو رکشا، ہاریوں میں زمین کی تقسیم، نوجوانوں کو بلاسود قرضے دینے اور دو دو لاکھ کی چھوٹ کے ساتھ کسانوں کو ٹریکٹر فراہم کرنے کی دھوکا دہی کو اپنی سخاوت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی سخاوت نہیں بلکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بدترین کوشش ہے، جس کا عوام کو احساس ہونا چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ کرپٹ اشرافیہ اس سخاوت اور نیکی میں بھی لوٹ مار کا موقع نکال لیتی ہے۔
یعنی عوام کو عطا کی جانے والی ان چیزوں کی فراہمی کے ٹھیکے یا تو اپنے بھائی بندوں کو دیے جاتے ہیں یا پھر بھاری کمیشن پر بدعنوان ٹھیکے داروں کو دیے جاتے ہیں۔ اس قسم کی بدعنوانیوں کی داستانوں سے میڈیا لبالب بھرا ہوا ہے اور عدالتوں میں بھی اس قسم کی بدعنوانیوں کے بے شمار کیسز زیر سماعت ہیں اور کرپشن کے پھیلائو کا عالم یہ ہے کہ برسوں سے اس قسم کے سیکڑوں کیس فیصلوں اور انصاف کے منتظر ہیں لیکن ''بوجوہ'' ان کی باری ہی نہیں آتی۔
اب آئیے اس اہم سوال کی طرف جو سارے ملک میں ''سیاسی خلاء'' کے حوالے سے زیر بحث ہے۔ ہمارے ملک کی یہ بدنصیبی ہے یا سازش کہ اس ملک میں ان افراد اور جماعتوں کو عوام میں متعارف ہی نہیں کرایا جاتا جنھوں نے اپنی ساری زندگی اس کرپٹ نظام کو ختم کرنے کی کوششوں میں صرف کر دی۔
ہمارا آزاد اور طاقتور الیکٹرانک میڈیا بھارت کی بوڑھی اور عوام کی نظروں سے اوجھل سری دیوی کی 49 ویں سالگرہ پر اس کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے دن میں پچاس بار اس کے بے ہودہ ڈانس عوام کی خدمت میں پیش کرتا ہے، لیکن اس کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصّہ عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے والے مڈل کلاس کے گم نام سیاسی کارکنوں کو اور ان کے سیاسی ایجنڈوں کو عوام میں متعارف کرانے کے لیے بھی اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت دے۔ اگر 2007ء کے بعد سے میڈیا یہ ذمے داری پوری کرتا تو آج عوام کو نہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا نہ ملک میں موجود سیاسی خلا کو کون پُر کرے گا، جیسے سوالات ہمارے سامنے ہوتے۔
اس حوالے سے اس بدبختی کو بھی تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جو لوگ برسوں بلکہ عشروں سے اس استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے جھک ماری کر رہے ہیں، ان میں نہ کوئی منصوبہ بندی کا شعور ہے نہ میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی حکمت عملی ہے، نہ آپس میں اشرافیہ کے منفی اور عوام دشمن اتحادوں کے مقابلے میں مثبت اور عوام دوست اتحاد بنانے کا شعور، نہ ان کے پاس کوئی تھنکر ہے نہ تھنک ٹینک جو ان کی رہنمائی کرے۔
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج کل انڈر ورلڈ جیسی مجرم طاقتیں بھی اپنی رہنمائی کے لیے تھنکر اور تھنک ٹینک سے رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ اگر اپنی اپنی قبروں میں سکون سے سونے اور اپنی اپنی قبروں پر انقلاب کے کتبے لگانے والے عوام دوست اٹھ بیٹھیں اور ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھیں تو وہ سیاسی خلا مثبت طریقے سے پُر ہو سکتا ہے جو آج سب حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
پاکستان کی سیاست کے حوالے سے آج کل جو بات زیرِ بحث ہے، وہ یہ ہے کہ پُرانے سیاسی اوتاروں کی کرپشن، خاندانی حکمرانیوں کی روایت، آپس کے الزام تراشیوں کی وجہ سے ان کے خلاف عوام میں جو بیزاری، ناپسندیدگی پیدا ہوگئی ہے، اس نے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا کر دیا ہے اور عوام اس حوالے سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں کہ انھیں اس خلا کو پورا کرنے والا نہ کوئی رہنما نظر آرہا ہے، نہ کوئی ایسی سیاسی پارٹی نظر آ رہی ہے جو اس خلا کو پُر کرے۔
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے یہ طے کرنا ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی اشرافیہ عوام کی ناپسندیدگی بلکہ نفرت کو محسوس کر کے از خود سیاست سے الگ ہونے پر تیار ہو گی؟ اس سوال کا جواب ہمیں ان کی منصوبہ بندیوں اور سیاسی سرگرمیوں میں تلاش کرنا پڑے گا۔ اس پس منظر میں جب ہم ان خاندانی سیاست دانوں کی سرگرمیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سوال کا جواب نفی میں آتا ہے۔ یہ میڈیا میں اپنے کرتوتوں کی داستانوں کی تشہیر کے باوجود انتہائی بے شرمی سے آنے والے ممکنہ الیکشن میں کامیابی کے لیے جوڑ توڑ اور عوام کو پرچانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہر سیاسی پارٹی آنے والے ممکنہ الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے سیاسی اتحادوں، سیٹ ایڈجسٹمنٹس کے کھیل میں مصروف نظر آتی ہے۔ ان اتحادوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوششوں کو ناپاک اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان اتحادوں، سیٹ ایڈجسٹمنٹس میں عوامی مفادات کا سرے سے کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ ان سرگرمیوں کا بنیادی مقصد اقتدار میں آنے کے بعد وزارتوں، سفارتوں، قانون ساز اداروں میں نشستوں کی بندر بانٹ اور لوٹ مار کے راستوں کی تلاش کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر ان اتحادوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فریقوں پر نظر ڈالیں تو ان تمام فریقوں کا تعلق اسی ''بدمعاشیہ'' سے نظر آتا ہے جسے سیاسی اصطلاح میں سیاسی اشرافیہ کا نام دیا جاتا ہے۔
اس سازش کی ضرورت اس اشرافیہ کو اس لیے پیش آتی ہے کہ یہ اپنی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے قومی سطح کی سیاست میں ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کی وجہ اب وہ علاقائی سیاست کے حصار میں قید ہو گئے ہیں۔ کوئی پنجاب کی سیاست کر رہا ہے، کوئی بلوچ سیاست کر رہا ہے، کوئی پختون سیاست کر رہا ہے، کوئی سرائیکی سیاست کر رہا ہے، کوئی سندھ کی سیاست کر رہا ہے۔ ان اتحادوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی سلطنتوں کے علاوہ دوسری سلطنتوں کے مالکان سے یہ معاہدے کیے جائیں کہ وہ اپنی سلطنتوں میں سے کچھ نشستیں انھیں دیں اور اس ایثار کے بدلے میں ان کی سلطنت سے کچھ سیٹیں لیں۔
اس ادلا بدلی سے عوام کو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ اوتار صرف اپنے صوبے ہی میں مقبول نہیں بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی مقبول ہیں۔ جب یہ اشرافیہ اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزر جاتی ہے تو پھر مل جل کر حکومتیں بنانے کا مرحلہ آتا ہے، جس کا واحد مقصد مل جل کر لوٹ مار کرنا ہوتا ہے۔ اگر ماضی اور حال پر نظر ڈالیں تو آپ کو یہی شرم ناک تصویر نظر آئے گی۔
دوسری سازش یا دھوکا بازی یہ کی جا رہی ہے کہ عوام کی دولت عوام کو لیپ ٹاپ، آٹو رکشا، ہاریوں میں زمین کی تقسیم، نوجوانوں کو بلاسود قرضے دینے اور دو دو لاکھ کی چھوٹ کے ساتھ کسانوں کو ٹریکٹر فراہم کرنے کی دھوکا دہی کو اپنی سخاوت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی سخاوت نہیں بلکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بدترین کوشش ہے، جس کا عوام کو احساس ہونا چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ کرپٹ اشرافیہ اس سخاوت اور نیکی میں بھی لوٹ مار کا موقع نکال لیتی ہے۔
یعنی عوام کو عطا کی جانے والی ان چیزوں کی فراہمی کے ٹھیکے یا تو اپنے بھائی بندوں کو دیے جاتے ہیں یا پھر بھاری کمیشن پر بدعنوان ٹھیکے داروں کو دیے جاتے ہیں۔ اس قسم کی بدعنوانیوں کی داستانوں سے میڈیا لبالب بھرا ہوا ہے اور عدالتوں میں بھی اس قسم کی بدعنوانیوں کے بے شمار کیسز زیر سماعت ہیں اور کرپشن کے پھیلائو کا عالم یہ ہے کہ برسوں سے اس قسم کے سیکڑوں کیس فیصلوں اور انصاف کے منتظر ہیں لیکن ''بوجوہ'' ان کی باری ہی نہیں آتی۔
اب آئیے اس اہم سوال کی طرف جو سارے ملک میں ''سیاسی خلاء'' کے حوالے سے زیر بحث ہے۔ ہمارے ملک کی یہ بدنصیبی ہے یا سازش کہ اس ملک میں ان افراد اور جماعتوں کو عوام میں متعارف ہی نہیں کرایا جاتا جنھوں نے اپنی ساری زندگی اس کرپٹ نظام کو ختم کرنے کی کوششوں میں صرف کر دی۔
ہمارا آزاد اور طاقتور الیکٹرانک میڈیا بھارت کی بوڑھی اور عوام کی نظروں سے اوجھل سری دیوی کی 49 ویں سالگرہ پر اس کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے دن میں پچاس بار اس کے بے ہودہ ڈانس عوام کی خدمت میں پیش کرتا ہے، لیکن اس کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصّہ عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے والے مڈل کلاس کے گم نام سیاسی کارکنوں کو اور ان کے سیاسی ایجنڈوں کو عوام میں متعارف کرانے کے لیے بھی اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت دے۔ اگر 2007ء کے بعد سے میڈیا یہ ذمے داری پوری کرتا تو آج عوام کو نہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا نہ ملک میں موجود سیاسی خلا کو کون پُر کرے گا، جیسے سوالات ہمارے سامنے ہوتے۔
اس حوالے سے اس بدبختی کو بھی تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جو لوگ برسوں بلکہ عشروں سے اس استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے جھک ماری کر رہے ہیں، ان میں نہ کوئی منصوبہ بندی کا شعور ہے نہ میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی حکمت عملی ہے، نہ آپس میں اشرافیہ کے منفی اور عوام دشمن اتحادوں کے مقابلے میں مثبت اور عوام دوست اتحاد بنانے کا شعور، نہ ان کے پاس کوئی تھنکر ہے نہ تھنک ٹینک جو ان کی رہنمائی کرے۔
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج کل انڈر ورلڈ جیسی مجرم طاقتیں بھی اپنی رہنمائی کے لیے تھنکر اور تھنک ٹینک سے رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ اگر اپنی اپنی قبروں میں سکون سے سونے اور اپنی اپنی قبروں پر انقلاب کے کتبے لگانے والے عوام دوست اٹھ بیٹھیں اور ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھیں تو وہ سیاسی خلا مثبت طریقے سے پُر ہو سکتا ہے جو آج سب حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔