کیا ہمیں کوئی ایسا سیاستدان میسر آ سکتا ہے
یہ ہماری بدقسمتی نہیں ہے کہ ہمیں دیانتداری اور اصول وضوابط پر عمل کرنے کی مثالیں بھی مغرب سے درآمد کرنا پڑرہی ہیں
'' 1986ء کا واقعہ ہے۔ جرمنی کے نیڈر سیکسن نامی صوبے کے 42 سالہ وزیرِ اعلیٰ بارشل پر پانچ ہزار مارک کی رقم بطور ٹیکس ادا نہ کرنے کا الزام وارد ہوا۔ بارشل کے اندر چھپے ہوئے سیاست دان نے پہلے تو اپنی ایمان داری کی قسمیں کھائیں اور قوم کو تسلی دی کہ وہ ''بے قصور'' ہے لیکن بات سنبھل نہ پائی۔ اُس کے پرائیویٹ سیکریٹری نے ٹیکس میں گڑبڑ کے سارے ثبوت صوبائی اپوزیشن لیڈر اینگلز ہوم کے حوالے کر دیے۔ بارشل کی گردن پر جوں ہی میڈیا کا گھیرا تنگ ہوا، وہ دو دن کی چھٹی لے کر جنیوا ( سوئٹزر لینڈ) چلا گیا۔
وہاں پہنچ کر اُس نے رقص و سرود کی بزم میں مے وانگبین کے ساتھ اپنی زندگی کی آخری شام سنہرے انداز میں منائی۔ اُس نے اپنے کمرے میں واپس آ کر غسل کیا۔ نیا سوٹ زیب تن کیا، وہسکی کا گلاس میز پر رکھا، سگار سلگایا اور پھر کسی خاص لمحے بھرا ہوا پستول اپنی کنپٹی پر رکھا اور اُس کی لبلبی دبا دی۔ دھماکے کی آواز سن کر ہوٹل کی انتظامیہ اُس کے کمرے میں پہنچی لیکن اس سے پہلے کہ اُسے طبی امداد مہیا کی جاتی، وہ مر چکا تھا۔ بارشل جانتا تھا کہ جرمن سماج میں ایک بدعنوان شخص کی شہرت کے ساتھ زندگی گزارنا اُس کے لیے ناقابلِ برداشت شرمندگی کا باعث بنے گا۔
چنانچہ اُس نے عمر بھر کی خجالت اور رُوسیاہی سے بچنے کی خاطر خودکشی کر لی۔ بارشل کی خودکشی کے بعد سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی کا صوبائی صدر اینگلز ہوم، نیڈر سیکسن کا وزیرِ اعلیٰ بنا۔ اینگلز ہوم بڑا لائق فائق اور ہوشیار قسم کا سیاست دان تھا۔ جلد ہی سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی نے اُسے اپنا مرکزی صدر بھی منتخب کر لیا۔ 1994ء کے انتخابات میں پارٹی نے اُسے چانسلر (یعنی سربراہِ مملکت) کا اُمیدوار نامزد کر دیا۔ وہ جرمن عوام میں خاصا مقبول تھا۔ جرمن پریس کا خیال تھا کہ وہ (جرمنی کے حکمران) چانسلر کوہل کو بدترین شکست سے دوچار کر دے گا لیکن جلد ہی بدبختی نے اُسے آن دبوچا۔
سابق وزیرِ اعلیٰ بارشل کے اُسی پرائیویٹ سیکریٹری نے اپنے ضمیر کی خلش سے مجبور ہو کر عدالت میں یہ بیان دے دیا کہ اُس نے اینگلز ہوم سے بیس ہزار مارک رشوت لے کر اُسے بارشل کے خلاف ثبوت مہیا کیے تھے۔ اُس نے کہا: ''اگرچہ یہ ثبوت درست تھے لیکن اس کام کے لیے مجھے رشوت نہیں لینا چاہیے تھی۔'' اب اینگلز ہوم کی باری تھی کہ وہ موسیقی کی وہی دھن سنے جو چند سال پہلے بارشل کا مقدر ٹھہری تھی۔ سیکریٹری کے اس انکشاف نے جیسے جرمن پریس کو دیوانہ بنا کر رکھ دیا۔ ہر اخبار اور ٹی وی اسٹیشن سے اینگلز ہوم کا نام گونجنے لگا۔
پسِ پردہ واقعات کی نت نئی داستانیں نشر ہونے لگیں۔ یہ بحث شروع ہو گئی کہ ایک ایسا آدمی جس نے رشوت دی ہو، کیا وہ ملک کا سربراہ بننے کا اہل ہے؟ صرف سات دنوں کے اندر اندر میڈیا نے اینگلز ہوم کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ وہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے آخری بار چلایا: بس اب بہت ہو چکا۔ میَں یہ اذیت مزید برداشت نہیں کر سکتا کہ میڈیا کے مچھلی بازار میں ہر صبح میرا گوشت فروخت کیا جائے۔ اُس نے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی خالی کرتے ہوئے پارٹی کی صدارت اور سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔'' یہ چشم کشا واقعہ ہمارے ملک کے ممتاز دانشور اور تقریباً نصف درجن سے زائد شاندار کتابوں کے مصنف جناب راجہ انور (جو 70ء کے عشرے میں بھٹو صاحب کے مشیر برائے یُوتھ اور لیبر رہے اور آجکل پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے چیئرمین کی حیثیت میں فرائض انجام دے رہے ہیں) نے اپنی تازہ ترین نہایت دلچسپ کتاب ''بن باس'' میں شامل کیا ہے۔
ترقی پسند مصنف راجہ انور صاحب نے یہ واقعہ درج کرنے کے بعد اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید لکھا ہے: ''میَں نے 1996ء میں اینگلز ہوم کو فرینکفرٹ کے ایک قہوہ خانے میں اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ اُس نے اپنی داڑھی بڑھا رکھی تھی تاکہ کوئی اُسے پہچان نہ سکے۔ میَں نے اُس کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر سوچا کہ اگر وہ پاکستان کا حکمران ہوتا تو لوگوں سے اعلانیہ رشوت لیتا مگر کیا جھلا آدمی تھا کہ رشوت دینے کی شرمندگی برداشت نہ کر سکا! اگر سیاست چھوڑنے کے بجائے وہ پاکستان چلا آتا تو اُس کے نصیب جاگ اُٹھتے۔''
کیا یہ ہماری بدقسمتی نہیں ہے کہ ہمیں دیانتداری اور اصول وضوابط پر عمل کرنے کی مثالیں بھی مغرب سے درآمد کرنا پڑرہی ہیں،وہ مغرب جس کے بارے میں ہمارے اکثریتی اسلام پسندوں کا فتویٰ ہے کہ وہ مادر پدر آزاد ننگا کافر معاشرہ ہے اور وہاں صرف بدکردار اور بے دین لوگ ہی بستے ہیں۔بارشل اور اینگلز ہوم کی مثالیں سامنے رکھ کر ہمیں خود سے ایک سوال ضرور کرنا چاہیے:مملکتِ خداداد پاکستان میں ہمیں ایسے سیاست دان اور حکمران کیوں میسر نہیں؟ کیا بیس کروڑ افراد پر مشتمل یہ ملک دیانت وامانت کے حوالے سے بانجھ ہوچکا ہے؟کیا ہمارے سبھی سیاستدان اور حکمران طبقہ عقیم ہوچکا ہے کہ ان سے دیانت داری اور صاف ستھری سیاست کی توقعات وابستہ کی ہی نہیں جاسکتیں؟ ابھی تو بارشل اور اینگلز ہوم پر محض الزامات عائد ہوئے تھے۔
اُنہیں کسی قانون کی عدالت میں ثابت بھی نہیں کیاجاسکاتھا لیکن اصول پسندی ملاحظہ کیجیے کہ اِس سے قبل کہ وہ عدالت اور اپنے عوام کے سامنے ذلیل ورسوا ہوتے،ایک نے مارے ندامت کے خودکشی کرلی اور دوسرے نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست ہی کو خیرباد کہہ دیا اورڈاڑھی رکھ کرقوم سے منہ چھپاتا رہا اور ہماری بدقسمتی کا حال یہ ہے کہ یہاں کئی مقتدر اور غیر مقتدر مگر طاقتور سیاست دانوں پر سنگین نوعیت کے الزام عاید کیے گئے ،اُن کے خلاف کئی قسم کے مقدمات برسوں سے عدالتوں میں جاری ہیں لیکن کیا کوئی بارشل اور اینگلز ہوم ایسی مثالیں پیش کرنے کی جرأت کرسکا؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی ہر بڑی سیاسی پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت، جس میں بعض مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں بھی شامل ہیں، بھی سنگین الزامات سے بچ نہیں سکی ہیں۔خواہ وہ جناب آصف علی زرداری ہوں یا شریف برادران۔گجرات کے چوہدری برادران ہوں یا خیبر پختونخواہ اوربلوچستان کے مقتدر سیاسی ملاّ۔(اصغرخان کیس میں تو شریف برادران پر بعض ناقابلِ یقین الزامات لگائے گئے ہیں ۔
گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ صاحب نے 25 اگست 2012ء کی شب ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ عدالتیں ہیں،شریف برادران کے بارے میں اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوگا۔)انتہا یہ ہے کہ پاکستان میں ''نوجوانوں کی آخری امید''جناب کپتان خان بھی نون لیگ کے خواجہ سیالکوٹی کے ہاتھوں الزامات کی زد میں آگئے ہیں جس میں اُن کے شوکت خانم ٹرسٹ اسپتال کو بھی گزند پہنچانے کی جسارت کی گئی۔اِس کے ساتھ ہی یہ بھی حیرت خیز بات ہے کہ جناب کپتان خان نے خواجہ سیالکوٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے اور مقدمہ درج کرنے کا اعلان بھی برسرِ مجلس کیا تھا۔
ہم سب منتظر تھے کہ دیکھتے ہیں کپتان خان صاحب کس طرح ایک مبینہ جھوٹے کو گھر تک پہنچا کر آتے ہیں لیکن ایسا کوئی منظر نہ ابھرسکا۔تین ہفتے گزرگئے ہیں (کپتان نے یہ اعلان 7 اگست کو اسلام آباد میں ایک بھر پور پریس کانفرنس میں کیا تھا) لیکن ابھی تک کپتان خان نے اپنے اعلان کے مطابق سپریم کورٹ کے دروازے پردستک دی ہے نہ اِس بارے میں کوئی لفظ ہی منہ سے نکال سکے ہیں۔ایسے میں پاکستان کے بے چارے بیس کروڑ عوام کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وطن عزیز میں کوئی سیاستدان یا حکمران بارشل اور اینگلز ہوم کی مانند الزام لگنے پر محض اُصولوں کی بنیاد پر ندامت سے بچنے کے لیے خودکشی کرکے عوام کے سامنے سرخروہوگا یاسیاست کے میدان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اپنے کردار کی عظمت ثابت کرے گا؟
وہاں پہنچ کر اُس نے رقص و سرود کی بزم میں مے وانگبین کے ساتھ اپنی زندگی کی آخری شام سنہرے انداز میں منائی۔ اُس نے اپنے کمرے میں واپس آ کر غسل کیا۔ نیا سوٹ زیب تن کیا، وہسکی کا گلاس میز پر رکھا، سگار سلگایا اور پھر کسی خاص لمحے بھرا ہوا پستول اپنی کنپٹی پر رکھا اور اُس کی لبلبی دبا دی۔ دھماکے کی آواز سن کر ہوٹل کی انتظامیہ اُس کے کمرے میں پہنچی لیکن اس سے پہلے کہ اُسے طبی امداد مہیا کی جاتی، وہ مر چکا تھا۔ بارشل جانتا تھا کہ جرمن سماج میں ایک بدعنوان شخص کی شہرت کے ساتھ زندگی گزارنا اُس کے لیے ناقابلِ برداشت شرمندگی کا باعث بنے گا۔
چنانچہ اُس نے عمر بھر کی خجالت اور رُوسیاہی سے بچنے کی خاطر خودکشی کر لی۔ بارشل کی خودکشی کے بعد سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی کا صوبائی صدر اینگلز ہوم، نیڈر سیکسن کا وزیرِ اعلیٰ بنا۔ اینگلز ہوم بڑا لائق فائق اور ہوشیار قسم کا سیاست دان تھا۔ جلد ہی سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی نے اُسے اپنا مرکزی صدر بھی منتخب کر لیا۔ 1994ء کے انتخابات میں پارٹی نے اُسے چانسلر (یعنی سربراہِ مملکت) کا اُمیدوار نامزد کر دیا۔ وہ جرمن عوام میں خاصا مقبول تھا۔ جرمن پریس کا خیال تھا کہ وہ (جرمنی کے حکمران) چانسلر کوہل کو بدترین شکست سے دوچار کر دے گا لیکن جلد ہی بدبختی نے اُسے آن دبوچا۔
سابق وزیرِ اعلیٰ بارشل کے اُسی پرائیویٹ سیکریٹری نے اپنے ضمیر کی خلش سے مجبور ہو کر عدالت میں یہ بیان دے دیا کہ اُس نے اینگلز ہوم سے بیس ہزار مارک رشوت لے کر اُسے بارشل کے خلاف ثبوت مہیا کیے تھے۔ اُس نے کہا: ''اگرچہ یہ ثبوت درست تھے لیکن اس کام کے لیے مجھے رشوت نہیں لینا چاہیے تھی۔'' اب اینگلز ہوم کی باری تھی کہ وہ موسیقی کی وہی دھن سنے جو چند سال پہلے بارشل کا مقدر ٹھہری تھی۔ سیکریٹری کے اس انکشاف نے جیسے جرمن پریس کو دیوانہ بنا کر رکھ دیا۔ ہر اخبار اور ٹی وی اسٹیشن سے اینگلز ہوم کا نام گونجنے لگا۔
پسِ پردہ واقعات کی نت نئی داستانیں نشر ہونے لگیں۔ یہ بحث شروع ہو گئی کہ ایک ایسا آدمی جس نے رشوت دی ہو، کیا وہ ملک کا سربراہ بننے کا اہل ہے؟ صرف سات دنوں کے اندر اندر میڈیا نے اینگلز ہوم کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ وہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے آخری بار چلایا: بس اب بہت ہو چکا۔ میَں یہ اذیت مزید برداشت نہیں کر سکتا کہ میڈیا کے مچھلی بازار میں ہر صبح میرا گوشت فروخت کیا جائے۔ اُس نے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی خالی کرتے ہوئے پارٹی کی صدارت اور سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔'' یہ چشم کشا واقعہ ہمارے ملک کے ممتاز دانشور اور تقریباً نصف درجن سے زائد شاندار کتابوں کے مصنف جناب راجہ انور (جو 70ء کے عشرے میں بھٹو صاحب کے مشیر برائے یُوتھ اور لیبر رہے اور آجکل پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے چیئرمین کی حیثیت میں فرائض انجام دے رہے ہیں) نے اپنی تازہ ترین نہایت دلچسپ کتاب ''بن باس'' میں شامل کیا ہے۔
ترقی پسند مصنف راجہ انور صاحب نے یہ واقعہ درج کرنے کے بعد اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید لکھا ہے: ''میَں نے 1996ء میں اینگلز ہوم کو فرینکفرٹ کے ایک قہوہ خانے میں اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ اُس نے اپنی داڑھی بڑھا رکھی تھی تاکہ کوئی اُسے پہچان نہ سکے۔ میَں نے اُس کی یہ ہیئت کذائی دیکھ کر سوچا کہ اگر وہ پاکستان کا حکمران ہوتا تو لوگوں سے اعلانیہ رشوت لیتا مگر کیا جھلا آدمی تھا کہ رشوت دینے کی شرمندگی برداشت نہ کر سکا! اگر سیاست چھوڑنے کے بجائے وہ پاکستان چلا آتا تو اُس کے نصیب جاگ اُٹھتے۔''
کیا یہ ہماری بدقسمتی نہیں ہے کہ ہمیں دیانتداری اور اصول وضوابط پر عمل کرنے کی مثالیں بھی مغرب سے درآمد کرنا پڑرہی ہیں،وہ مغرب جس کے بارے میں ہمارے اکثریتی اسلام پسندوں کا فتویٰ ہے کہ وہ مادر پدر آزاد ننگا کافر معاشرہ ہے اور وہاں صرف بدکردار اور بے دین لوگ ہی بستے ہیں۔بارشل اور اینگلز ہوم کی مثالیں سامنے رکھ کر ہمیں خود سے ایک سوال ضرور کرنا چاہیے:مملکتِ خداداد پاکستان میں ہمیں ایسے سیاست دان اور حکمران کیوں میسر نہیں؟ کیا بیس کروڑ افراد پر مشتمل یہ ملک دیانت وامانت کے حوالے سے بانجھ ہوچکا ہے؟کیا ہمارے سبھی سیاستدان اور حکمران طبقہ عقیم ہوچکا ہے کہ ان سے دیانت داری اور صاف ستھری سیاست کی توقعات وابستہ کی ہی نہیں جاسکتیں؟ ابھی تو بارشل اور اینگلز ہوم پر محض الزامات عائد ہوئے تھے۔
اُنہیں کسی قانون کی عدالت میں ثابت بھی نہیں کیاجاسکاتھا لیکن اصول پسندی ملاحظہ کیجیے کہ اِس سے قبل کہ وہ عدالت اور اپنے عوام کے سامنے ذلیل ورسوا ہوتے،ایک نے مارے ندامت کے خودکشی کرلی اور دوسرے نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست ہی کو خیرباد کہہ دیا اورڈاڑھی رکھ کرقوم سے منہ چھپاتا رہا اور ہماری بدقسمتی کا حال یہ ہے کہ یہاں کئی مقتدر اور غیر مقتدر مگر طاقتور سیاست دانوں پر سنگین نوعیت کے الزام عاید کیے گئے ،اُن کے خلاف کئی قسم کے مقدمات برسوں سے عدالتوں میں جاری ہیں لیکن کیا کوئی بارشل اور اینگلز ہوم ایسی مثالیں پیش کرنے کی جرأت کرسکا؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی ہر بڑی سیاسی پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت، جس میں بعض مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں بھی شامل ہیں، بھی سنگین الزامات سے بچ نہیں سکی ہیں۔خواہ وہ جناب آصف علی زرداری ہوں یا شریف برادران۔گجرات کے چوہدری برادران ہوں یا خیبر پختونخواہ اوربلوچستان کے مقتدر سیاسی ملاّ۔(اصغرخان کیس میں تو شریف برادران پر بعض ناقابلِ یقین الزامات لگائے گئے ہیں ۔
گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ صاحب نے 25 اگست 2012ء کی شب ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ عدالتیں ہیں،شریف برادران کے بارے میں اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوگا۔)انتہا یہ ہے کہ پاکستان میں ''نوجوانوں کی آخری امید''جناب کپتان خان بھی نون لیگ کے خواجہ سیالکوٹی کے ہاتھوں الزامات کی زد میں آگئے ہیں جس میں اُن کے شوکت خانم ٹرسٹ اسپتال کو بھی گزند پہنچانے کی جسارت کی گئی۔اِس کے ساتھ ہی یہ بھی حیرت خیز بات ہے کہ جناب کپتان خان نے خواجہ سیالکوٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے اور مقدمہ درج کرنے کا اعلان بھی برسرِ مجلس کیا تھا۔
ہم سب منتظر تھے کہ دیکھتے ہیں کپتان خان صاحب کس طرح ایک مبینہ جھوٹے کو گھر تک پہنچا کر آتے ہیں لیکن ایسا کوئی منظر نہ ابھرسکا۔تین ہفتے گزرگئے ہیں (کپتان نے یہ اعلان 7 اگست کو اسلام آباد میں ایک بھر پور پریس کانفرنس میں کیا تھا) لیکن ابھی تک کپتان خان نے اپنے اعلان کے مطابق سپریم کورٹ کے دروازے پردستک دی ہے نہ اِس بارے میں کوئی لفظ ہی منہ سے نکال سکے ہیں۔ایسے میں پاکستان کے بے چارے بیس کروڑ عوام کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وطن عزیز میں کوئی سیاستدان یا حکمران بارشل اور اینگلز ہوم کی مانند الزام لگنے پر محض اُصولوں کی بنیاد پر ندامت سے بچنے کے لیے خودکشی کرکے عوام کے سامنے سرخروہوگا یاسیاست کے میدان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اپنے کردار کی عظمت ثابت کرے گا؟