ایران سیلاب اور امریکی دہشت گردی کی زد میں
تادم تحریر بیس سے زائد صوبے سیلاب سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ آج اس سیلاب کو ایک ماہ کا عرصہ بیت جانے والا ہے
ایران میں 19 مارچ سے تیز بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب سے آدھے سے زیادہ ایران متاثر ہوا ہے۔ تازہ ترین موصولہ اطلاعات کے مطابق آدھا ملک زیر آب آچکا ہے۔ البتہ اس صورتحال میں بہت سے مقامات پر سیلاب کی وارننگ جاری ہونے کے باعث جانی نقصان کو کنٹرول کیا گیا جو ایک خوش آئند بات ہے لیکن دوسری طرف بہت سے مقامات پر سیلاب کا تیز بہاؤ متعدد قیمتی جانوں کو بہا لے جانے کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کی پراپرٹی اور ایران کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا چکا ہے۔
تادم تحریر بیس سے زائد صوبے سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس سیلاب کو اب ایک ماہ کا عرصہ بیت جانے والا ہے۔ سیلاب کے باعث ایران کے متعدد صوبوں میں ایمرجنسی نافذ کی جاچکی ہے جبکہ کئی سو افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ سیکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں بے گھر ہیں۔ کئی دن تک امدادی سرگرمیاں حالات کی سنگینی کے باعث سست روی کا شکار رہی ہیں کیونکہ بہت سے مقامات پر زمینی رابطے منقطع ہو چکے تھے جبکہ جدید ہیلی کاپٹرز کے نہ ہونے اور دیگر سہولیات کی کمی کے باعث امدادی سرگرمیاں متاثر رہی ہیں۔
ایک طرف ایران میں سیلاب یعنی قدرتی آفت کے باعث سنگین مشکلات کاسامنا ہے تو دوسری طرف عالمی ٹھیکیدار امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی مشقیں اپنے عروج پر ہیں۔ کیونکہ انہی دنوں میں دوسری طرف امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل (جعلی ریاست) میں انتخابات کا ڈھونگ بھی رچایا جارہا تھا اور امریکی انتظامیہ چاہتی تھی کہ نسل پرست نیتن یاہو دوبارہ انتخابات میں صہیونیوں کی جعلی ریاست کے وزیراعظم بن جائیں۔ اس عنوان سے امریکا نے اسرائیل کو خوش کرنے کےلیے پہلے ہی ایران پر سنگین نوعیت کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جبکہ حالیہ دنوں سیلاب سے متاثر ہونے پر بھی امریکا نے تازہ پابندیوں کا اطلاق کردیا۔ ان پابندیوں کے اطلاق کے باعث ایران سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کےلیے ہیلی کاپٹر جیسے امدادی آلات بھی خریدنے سے قاصر رہا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دوسری طرف ہرملک کی افواج کی طرح ایران کی عسکری افواج اور اداروں نے بھی سیلاب کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کےلیے ہر ممکنہ اقدامات کیے ہیں۔ پانی کا زور توڑنے کےلیے مختلف مقامات پر بم دھماکوں اور دیگر وسائل سے راستوں کو کاٹ کر پانی کے رخ کو آبادیوں کی جانب مزید بڑھنے سے روکا بھی گیا ہے۔ بہرحال یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ایرانی قوم ایک ایسی قوم ہے کہ جس نے ماضی میں آٹھ سال ایک ایسی جنگ کو استقامت کے ساتھ عبور کیا کہ جس کی پشت پناہی پورا مغرب اور عرب ممالک کے بادشاہ کر رہے تھے لیکن ایران کو جھکانے میں ناکام ہوئے۔ سیلاب کی اس سنگین صورتحال سے بھی دیر یا جلد بالآخر ایرانی قوم نکل ہی جائے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی سیاست اپنی جگہ لیکن انسانی حقوق کے نام پر تو جنگوں میں بھی عالمی اداروں کے قوانین کی پاسداری کا واویلا کیا جاتا ہے لیکن ایران کی سیلابی صورتحال میں دیکھا گیا ہے کہ ایک طرف امریکا نے مزید شکنجہ سخت کرکے ثابت کردیا کہ امریکا کے انسانی حقوق سے متعلق نعرے کھوکھلے دعووں سے زیادہ کچھ نہیں اور نہ ہی امریکا کے ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی کے نعرے کوئی حقیقت رکھتے ہیں۔ امریکا چونکہ اپنی شیطانی سیاست اور دوہرے معیار کے باعث دنیا بھر میں دہشت گرد ہی معروف ہے تاہم ایران کے سیلاب میں بھی معاشی دہشت گردی کا عملی نمونہ پیش کرکے امریکا نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بے رحم ملک ہے۔
دوسری اہم بات، جو ایران کے سیلاب سے سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا کی حکومتوں نے انتہائی بے حسی اور سست روی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ ایرانی حکومت نے رسمی طور پر کسی بھی اسلامی برادر ملک یا کسی دوسرے ملک سے امداد نہیں مانگی تھی لیکن یہ مسلم امہ کے ممالک کا اولین فرض بنتا تھا کہ سب ایران کے سیلاب متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ امریکا کی ناجائز پابندیوں کے مقابلے میں ایران کا ساتھ دیتے۔ بالآخر یہ ایران ہی ہے کہ جس نے فلسطین سمیت دنیا کی تمام مظلوم اقوام اور ملتوں کی ہر ممکنہ مدد جاری رکھی ہوئی ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ زمینی سرحد کے ساتھ جڑے ہوئے پاکستان کی حکومت بھی ایرانی سیلاب متاثرین کی مدد کے حق میں بات کرنے سے جان بچارہی تھی۔ سوشل میڈیا پر حکومت کو جب تنقید کا سامنا ہوا تو وزیراعظم صاحب کو مجبوری میں ایرانی سیلاب متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کرنا پڑا۔ یہاں پاکستانی حکومت کی بات اس لیے بھی پیش کی ہے کہ جب ماضی میں پاکستان میں سیلاب آیا تھا اور تباہ کاریاں ہوئی تھیں تو اس وقت ایران کے سوا کسی بھی ملک میں عید کے خطبات میں پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کےلیے اپیل نہیں کی گئی تھی۔
خود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے عید کے خطبے میں ایرانی عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کےلیے جس قدر ممکن ہو، چندہ اور عطیات جمع کروائیں تاکہ مصیبت کی اس گھڑی میں مسلمان بھائیوں کی مدد کی جائے۔ اس اپیل کے جواب میں ایران کے عوام نے بڑھ چڑھ کر اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کی تھی جو آن ریکارڈ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایران میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر ایک طرف ایرانی عوام اپنی مدد آپ کے تحت نبرد آزما ہیں اور جہد مسلسل کر رہے ہیں۔ امریکا کی معاشی دہشت گردی اور کمپنیوں پر پابندی کے باعث تاحال امدادی اداروں کو مشینری خریدنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ عرب ممالک خاموش ہیں۔ 13 اپریل کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مسلم ممالک میں سے اب تک ترکی، کویت، عمان، آذربائیجان، پاکستان جبکہ مغربی اور دیگر مماک سے فرانس، جرمنی، روس، سوئٹزر لینڈ، جاپان سے امدادی سامان پہنچا ہے جو امدادی اداروں ہلال احمر اور دیگر کے ذریعے ایران کی ہلال احمر کے سپرد کیا جاچکا ہے۔ تاہم ایران کے اس تباہ کن سیلاب میں تاحال ایرانی امدادی اداروں کو غیرمعمولی سطح پر امداد کی اشد ضرورت ہے جبکہ امریکی دہشت گرد انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندیاں امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
قدرتی آفات اقوام کی زندگی کا معمول ہیں لیکن جو چیز آفات گزر جانے کے بعد بھی یاد رکھی جاتی ہے اور اقوام کی زندگی پر ہمیشہ اثر انداز ہوتی رہتی ہے وہ آفت کے مقابلے میں قوم کا اپنا، حکومت اور آفت زدہ قوم کی نسبت دیگر اقوام کا ردعمل ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
تادم تحریر بیس سے زائد صوبے سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس سیلاب کو اب ایک ماہ کا عرصہ بیت جانے والا ہے۔ سیلاب کے باعث ایران کے متعدد صوبوں میں ایمرجنسی نافذ کی جاچکی ہے جبکہ کئی سو افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ سیکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں بے گھر ہیں۔ کئی دن تک امدادی سرگرمیاں حالات کی سنگینی کے باعث سست روی کا شکار رہی ہیں کیونکہ بہت سے مقامات پر زمینی رابطے منقطع ہو چکے تھے جبکہ جدید ہیلی کاپٹرز کے نہ ہونے اور دیگر سہولیات کی کمی کے باعث امدادی سرگرمیاں متاثر رہی ہیں۔
ایک طرف ایران میں سیلاب یعنی قدرتی آفت کے باعث سنگین مشکلات کاسامنا ہے تو دوسری طرف عالمی ٹھیکیدار امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی مشقیں اپنے عروج پر ہیں۔ کیونکہ انہی دنوں میں دوسری طرف امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل (جعلی ریاست) میں انتخابات کا ڈھونگ بھی رچایا جارہا تھا اور امریکی انتظامیہ چاہتی تھی کہ نسل پرست نیتن یاہو دوبارہ انتخابات میں صہیونیوں کی جعلی ریاست کے وزیراعظم بن جائیں۔ اس عنوان سے امریکا نے اسرائیل کو خوش کرنے کےلیے پہلے ہی ایران پر سنگین نوعیت کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جبکہ حالیہ دنوں سیلاب سے متاثر ہونے پر بھی امریکا نے تازہ پابندیوں کا اطلاق کردیا۔ ان پابندیوں کے اطلاق کے باعث ایران سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کےلیے ہیلی کاپٹر جیسے امدادی آلات بھی خریدنے سے قاصر رہا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دوسری طرف ہرملک کی افواج کی طرح ایران کی عسکری افواج اور اداروں نے بھی سیلاب کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کےلیے ہر ممکنہ اقدامات کیے ہیں۔ پانی کا زور توڑنے کےلیے مختلف مقامات پر بم دھماکوں اور دیگر وسائل سے راستوں کو کاٹ کر پانی کے رخ کو آبادیوں کی جانب مزید بڑھنے سے روکا بھی گیا ہے۔ بہرحال یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ایرانی قوم ایک ایسی قوم ہے کہ جس نے ماضی میں آٹھ سال ایک ایسی جنگ کو استقامت کے ساتھ عبور کیا کہ جس کی پشت پناہی پورا مغرب اور عرب ممالک کے بادشاہ کر رہے تھے لیکن ایران کو جھکانے میں ناکام ہوئے۔ سیلاب کی اس سنگین صورتحال سے بھی دیر یا جلد بالآخر ایرانی قوم نکل ہی جائے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی سیاست اپنی جگہ لیکن انسانی حقوق کے نام پر تو جنگوں میں بھی عالمی اداروں کے قوانین کی پاسداری کا واویلا کیا جاتا ہے لیکن ایران کی سیلابی صورتحال میں دیکھا گیا ہے کہ ایک طرف امریکا نے مزید شکنجہ سخت کرکے ثابت کردیا کہ امریکا کے انسانی حقوق سے متعلق نعرے کھوکھلے دعووں سے زیادہ کچھ نہیں اور نہ ہی امریکا کے ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی کے نعرے کوئی حقیقت رکھتے ہیں۔ امریکا چونکہ اپنی شیطانی سیاست اور دوہرے معیار کے باعث دنیا بھر میں دہشت گرد ہی معروف ہے تاہم ایران کے سیلاب میں بھی معاشی دہشت گردی کا عملی نمونہ پیش کرکے امریکا نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بے رحم ملک ہے۔
دوسری اہم بات، جو ایران کے سیلاب سے سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا کی حکومتوں نے انتہائی بے حسی اور سست روی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ ایرانی حکومت نے رسمی طور پر کسی بھی اسلامی برادر ملک یا کسی دوسرے ملک سے امداد نہیں مانگی تھی لیکن یہ مسلم امہ کے ممالک کا اولین فرض بنتا تھا کہ سب ایران کے سیلاب متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ امریکا کی ناجائز پابندیوں کے مقابلے میں ایران کا ساتھ دیتے۔ بالآخر یہ ایران ہی ہے کہ جس نے فلسطین سمیت دنیا کی تمام مظلوم اقوام اور ملتوں کی ہر ممکنہ مدد جاری رکھی ہوئی ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ زمینی سرحد کے ساتھ جڑے ہوئے پاکستان کی حکومت بھی ایرانی سیلاب متاثرین کی مدد کے حق میں بات کرنے سے جان بچارہی تھی۔ سوشل میڈیا پر حکومت کو جب تنقید کا سامنا ہوا تو وزیراعظم صاحب کو مجبوری میں ایرانی سیلاب متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کرنا پڑا۔ یہاں پاکستانی حکومت کی بات اس لیے بھی پیش کی ہے کہ جب ماضی میں پاکستان میں سیلاب آیا تھا اور تباہ کاریاں ہوئی تھیں تو اس وقت ایران کے سوا کسی بھی ملک میں عید کے خطبات میں پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کےلیے اپیل نہیں کی گئی تھی۔
خود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے عید کے خطبے میں ایرانی عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کےلیے جس قدر ممکن ہو، چندہ اور عطیات جمع کروائیں تاکہ مصیبت کی اس گھڑی میں مسلمان بھائیوں کی مدد کی جائے۔ اس اپیل کے جواب میں ایران کے عوام نے بڑھ چڑھ کر اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کی تھی جو آن ریکارڈ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایران میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر ایک طرف ایرانی عوام اپنی مدد آپ کے تحت نبرد آزما ہیں اور جہد مسلسل کر رہے ہیں۔ امریکا کی معاشی دہشت گردی اور کمپنیوں پر پابندی کے باعث تاحال امدادی اداروں کو مشینری خریدنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ عرب ممالک خاموش ہیں۔ 13 اپریل کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مسلم ممالک میں سے اب تک ترکی، کویت، عمان، آذربائیجان، پاکستان جبکہ مغربی اور دیگر مماک سے فرانس، جرمنی، روس، سوئٹزر لینڈ، جاپان سے امدادی سامان پہنچا ہے جو امدادی اداروں ہلال احمر اور دیگر کے ذریعے ایران کی ہلال احمر کے سپرد کیا جاچکا ہے۔ تاہم ایران کے اس تباہ کن سیلاب میں تاحال ایرانی امدادی اداروں کو غیرمعمولی سطح پر امداد کی اشد ضرورت ہے جبکہ امریکی دہشت گرد انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندیاں امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
قدرتی آفات اقوام کی زندگی کا معمول ہیں لیکن جو چیز آفات گزر جانے کے بعد بھی یاد رکھی جاتی ہے اور اقوام کی زندگی پر ہمیشہ اثر انداز ہوتی رہتی ہے وہ آفت کے مقابلے میں قوم کا اپنا، حکومت اور آفت زدہ قوم کی نسبت دیگر اقوام کا ردعمل ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔