29 مارچ 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے گوادر کے انٹر نیشنل ایئرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کے ساتھ سی پیک سے منسلک اور بہت سے منصو بوں کے سنگ بنیاد رکھے اور بعض کا افتتاح بھی کیا ، اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال اور وفاقی وزراء اور اعلیٰ چینی حکام بھی موجود تھے۔
یہ مستقبل قریب میں نہ صر ف پاکستا ن کا بلکہ خطے کا ایک بہت ہی بڑا، مصروف ترین اور وسیع ائیر پورٹ ثابت ہو گا ، اس پر ATR 72 - ائیر بس اے 3000 اور بوئنگ 13-747 کے آنے جانے کی گنجائش ہو گی، یو ں اب یہا ں بڑے طیاروں کے ذریعے مسا فروں سمیت مال بر داری کے لیے بہت بڑے ٹرانسپورٹ طیارے بھی لینڈنگ اور ٹیک آف کر سکیںگے اور بڑے ڈیپ سی پورٹ کے بعد اب گوادر کو جلد بڑے جدید اور اہم ائیرپورٹ کی سہولت ہوگی۔
پاکستان کی شمالی سرحد پر چین پاکستان اقتصا دی راہداری کا دروازہ ہے خنجرآب، جس کے معنی ہیں خنجر کی کاٹ کی طرح سرد پانی، خنجرآب جو سطح سمندر سے 16010 فٹ بلند ہے، یہ علاقہ تقریباً ہمیشہ ہر موسم میں برف سے ڈھکا رہتا ہے اور جب کبھی یہاں سورج اپنی کرنیں بکھیرتا ہے تو یہ سارے پہاڑ چاندی کی طرح جھل مل کرتے چمکنے لگتے ہیں ۔ یہاں سے سی پیک کے مشر قی روٹ سے تقریباً 2688 کلومیٹر اور مغربی روٹ سے2463 کلو میٹر جنوب میں گوادر ہے۔
گہرے پانی کی بند رگاہ گوادر ایک جزیرہ نما ہے، یعنی اس کے تین اطرف میں سمندر اور ایک جانب پیلا ریتلا ساحل ہے، یہاں چودھویں کا چاند اپنے عام حجم سے نہ صرف کافی بڑا دکھائی دیتا ہے، بلکہ سطحِ سمندر اور سنہری ریت سے جب چاند کی کرنیں منعکس ہوتی ہیں تو یہ علاقہ سونے کی سی جھلک دکھلاتا ہے، جگمگاتا ہے، یوں سونے اور چاندی کی سی سُچی چمکتی اور ہمالہ جیسی اُونچی اور مضبوط اور بحیرہ عرب سے گہری دوستی پا کستان چین دوستی واقعی سی پیک اور گوادر کی زبان سے گواہی دیتی ہے کہ اس کی یہ چمک دمک آسمان والے کی مہربانی اور رحمت ہے۔
یہ ارضِ پاک کی ہتھیلی پرخوش قستمی کی واضح لکیر ہے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اس کے مغربی روٹ پر 2463 کلومیٹر طویل عالمی معیار کی شاہراہ کی تعمیر چند برس پہلے 700 ارب روپے سے شروع کردی تھی جو ابھی جاری ہے اور اس کا بیشتر حصہ بلوچستا ن سے گزرتا ہے۔ یہ مغربی روٹ خنجرآب گلگت بلتستان سے حویلیاں، ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان سے بلوچستان ژوب، لورالائی ، بوستان، کوئٹہ ، مستونگ سے کراچی جانے والی شاہرہ سے خصدار سے ذرا پہلے ہوشاب،بسیمہ، پنجگور، تربت،گوادر تک جاتا ہے۔ ایک راستہ جو کوسٹل ہائی وئے کہلاتا ہے یہ گوادر سے بحیرہِ عرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ کراچی جاتا اور پھر مشرقی روٹ سے روہڑی ، ملتان،لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد ، حویلیاں اور ایبٹ آباد سے ہوتا ہوا خنجرآب پہنچتا ہے۔ مشرقی روٹ کا ایک راستہ گوادر، تربت، پنجگور، خصدار، شہداد کو ٹ اور روہڑی بھی تجویز کردہ ہے۔
13 نومبر 2016 کو مغربی روٹ سے چار سو کنٹینروں پر مشتمل پہلا بڑا قافلہ خنجرآب سے گوادر پہنچا تھا ۔ سی پیک منصوبے سے چین اور پاکستان سمیت دیگر بہت سے ملکوں کو فائدہ ہوگا اور خصوصاً ہمارے علاقائی ملکوں میں اس وقت دنیا کی تقریباً نصف آبادی اور دنیا کا نصف سے زیادہ رقبہ ہے۔ یہ علاقے معدینات، زرعی پیداوار اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں یہاں دنیا کے ذہین اور اعلیٰ مہارتوں کے حامل اربوں افراد رہتے ہیں جو دنیا کا سب سے بڑا ہیومن کیپیٹل یعنی انسانی سرمایہ ہیں اور ان سب میں پاکستان ہر اعتبار سے نمایاں اور بہت سے شعبوں میں منفرد ہے اور یہ تمام عوامل اب یقین میں ڈھل گئے ہیں کہ اب ہمارے پاس اور ہمارے ہمسایہ دوست چین کے پاس ٹیکنالوجی بھی اور عزم وہمت بھی ہے۔
اس منصو بے کے بہت سے پہلو ہیں جن میں سے ایک پہلو یا شعبہ توانائی کا بھی ہے، پاکستان میں توانائی کا بحران 80 ء کی دہا ئی سے سر اٹھانے لگا، اور اس دوران ماہرین نے کالا باغ ڈیم سمیت بہت سے منصوبے دیئے تھے جن سے پانی کے مسئلے کے حل کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار بھی بڑھنا تھی مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ سی پیک منصوبے کا ایک خو ش کن پہلو یہ ہے کہ اس میں توانائی کے بھی بہت سے منصوبے شامل ہیں جن پر تیز رفتاری سے کام مکمل ہو رہا ہے اور توانائی کے بہت سے منصوبے مکمل بھی ہو گئے ہیں اور باقی تیزی سے تکمیل کی جانب رواں دواں ہیں۔
چینی کمپنیوں نے پاکستان میں توانائی کے 19 منصو بو ں کے لیے 35 ارب ڈالر کی سر مایہ کاری شروع کر رکھی ہے ، واضح رہے کہ دنیا میں کوئلے، تیل،گیس اور ایٹمی ایندھن سے بھی بجلی بنائی جاتی ہے اس کے علاوہ ہوا ، سورج کی شعاؤں اور پانی سے بھی بجلی تیارکی جاتی ہے، اس وقت ان چینی کمپنیوں نے تحقیق کی بنیاد پر جہاں جہاں توانائی کی پیداوار کے لیے جس نوعیت کے وسائل کو بہتر پایا اور دیکھا ہے کہ یہاں کس نوعیت کے توانائی کے منصوبے بہتر رہیں گے وہاں حرکی ، شمسی،کوئلے اور پن بجلی کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔
ان منصوبوں میں، صوبوں کے حوالے سے زیادہ حصہ سندھ کا ہے ، جو عنقریب ان منصوبو ں سے پوری پیداوارا کے ساتھ 5580 میگا واٹ بجلی پید ا کر کے نیشنل گرڈ سسٹم میں دے گا، اور اس کے بعد پنجاب کے توانائی کے منصوبے ہیں جن کی پیداورای صلاحیت بھی سندھ کی طرح تقریباً پوری طرح مکمل ہونے کے قریب ہے اور پنجاب 2940 میگا واٹ بجلی پیدا کر کے نیشنل گرڈ سسٹم میں شامل کردے گا۔ بلوچستان میں سی پیک کے توانائی کے منصوبے 16200 میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے، آزادجموں وکشمیرمیں سی پیک کے تحت قائم ہوئے منصو بوں کی پیداواری صلا حیت 1124 میگاواٹ ہے جب کہ ، خیبر پختونخواکے منصوبے 870 میگاواٹ کے ہیں ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت ہماری ضرورت کے مطابق ہے، مگر ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہماری ٹرانسمیشن لائنیں بہت کمزور ہیں اور اتنی مقدار میں بجلی کا بو جھ برداشت نہیں کر سکتیں، سی پیک کے توانائی کے ان منصوبوں کی مجمو عی لاگت کے علاوہ اربوں روپے کی مالیت سے اب پہلے مرحلے میں پشاور سے کراچی تک ان ٹرانسمیشنن لائنوں کو درست کیا جائے گا ، اور ان میں زیادہ مقدار کی بجلی کو برداشت کرنے کے لیے نئی تاریں بچھا ئی رہی ہیں ،جب کہ سی پیک کے ان توانائی کے منصوبوں میں مستقبل کی ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے، توانائی کے ان منصوبوں میںسے پانچ منصوبے کوئلے سے چلنے والے جن میں سے چار درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے ہیں، ان میں 3960 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ بجلی پیداکرنے والے منصوبوں میں چار ونڈ پاور پروجیکٹ ہیں، یعنی یہ وہ منصوبے ہیں جن میں ہوا سے بجلی پیدا کی جائے گی، اسے حرکی توانائی بھی کہتے ہیں۔
تین ہا ئیڈرو پروجیکٹ ہیں ان کو پن بجلی منصوبے بھی کہا جاتا ہے، ہمارے ہاں گذشتہ چار دہائیوں پہلے پن بجلی کا تناسب ہی سب سے زیا دہ ہوا کرتا تھا، اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاںدوبارہ پھر پن بجلی کے بڑے منصوبے شروع ہو گئے ہیں اور جہاں تک تعلق سی پیک کے ان توانائی کے منصوبوں کا ہے جو توانائی کا اہم حصہ ہیں ان میں سے ایک بڑا منصوبہ شمسی توانائی کا ہے یعنی سورج کی شعاؤں کی حد ت سے بجلی کی تیاری، شمسی توانائی کا سی پیک کی جانب سے یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا منصو بہ ہے، ان منصوبوں کے لیے 660 kv ٹرانسمیشن کی لائن بھی لگائی جا رہی ہے، سی پیک کے ہائیڈرو پاور یعنی پن بجلی کی پیداوار کے ان منصوبوں میں بجلی کی مقدار 2714 میگا واٹ ہے، سولر انرجی یعنی شمسی توانائی کی مقدار 900 میگا واٹ ہے، اور سی پیک توانائی کے منصوبوں میں حرکی توانائی یعنی ونڈ پاورکی مقدار، 300 میگاواٹ ہے، بلو چستان کے لیے دیگر منصو بوں کے علاوہ توانائی کا ایک بہترین منصوبہ نیشنل گرڈ سے منسلک 300 میگاواٹ کی بجلی کا منصوبہ ہے جس سے گوادر کی ضرورت پوری ہو جائے گی ، جہاں تک تعلق کول پاور پروجیکٹس یا منصوبوں کا ہے تو اس کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ کوئلے کو اُن مقامات تک پہنچانے کے لے مناسب انتظامات ہونے چاہیے۔
سی پیک کے توانائی کے ان منصوبوں کے علاوہ، سی پیک ہی کی جانب سے شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کے منصو بے بھی ہیں، ان میں سے ایک منصوبہ ریلوے لائن کراچی تا راولپنڈی پشاور ایم ایل ٹریک ون کو زیادہ بہتر کرنے کا ہے، اس ریلوے لائن کو معیاری بناتے ہو ئے اس سے گڈز ٹرینوں کے ذریعے کوئلہ ضرورت کے مطابق کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں تک پہنچایا جا ئے گا ، یہاں یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ اب ہمارے بجلی کی توانائی کے یہ منصوبے زیادہ ماحول دوست منصوبے ہیں کیو نکہ حرکی ، شمسی توانائی اور پن بجلی کے منصوبوں سے قدرتی ماحول کو نقصان نہیں پہنچتا ۔ سی پیک کے توانائی کے ان منصوبوں سے آئند ہ صرف ایک سے دو برسوں میں ہمارے پاس وافرا بجلی ہو گی یوں اس بجلی سے نہ صرف ہمارے گھر اور دفاتر روشن ہو ں گے بلکہ اس سے ہماری صنعتی ترقی میں بھی بجلی کی سی تیزی پیدا ہو گی،کارخانوں اور فیکٹریوں کی مشینیں چلیں گی۔
روزگار میں اضافہ ہوگا، اور جیسے جیسے پیدوار اور روزگار میں اضافہ ہو گا ہماری معیشت ترقی کرتی جائے گی، زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھنے لگیں گے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہی توانائی ہوتی ہے، توانائی روشنی بھی ہے اور طاقت بھی، یوں ہم خنجراب میں چاند ی جیسے پہاڑ سے سونے کی طرح چمکتے ہوئے ساحل اور بحیرہِ عرب پر واقع گوادر کی بندرگاہ تک کے راستے یعنی چین پاکستان اقتصادی رہداری پر اب روشنی ہی روشنی دیکھ رہے ہیں۔ یہی روشنی ہمیں خوشحالی کی عظیم منزل پر پہنچائے گی۔
لیکن یہاں کسی مفکر کا قول یاد آرہا ہے کہ بہت تیز روشنی اور اندھیرے میں کو ئی فرق نہیں ہوتا کیو نکہ دونوں میں انسانی آنکھیں دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اس کے لیے حقائق کو بہت شفاف انداز میں سامنے رکھنے کی ضرورت اور بدقسمتی سے 2002 ء میں جب گوادر ڈیپ سی پروجیکٹ کا آغاز ہوا تھا اُسی وقت سے بہت سی چیزوں کو فوری طور پر اور شفاف انداز میں سامنے نہیں لایا گیا، اور اس ابہام کی وجہ سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ اگر چہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس زمانے کی وفاقی حکومتوں کو بلوچستان کے تحفاظات دور کر نے کے لیے جتن کر نے پڑے اور ڈیپ سی پروجیکٹ تقریباً مکمل ہوا تو سب سے اہم یہ تھا کہ اب گوادر ڈیپ سی پورٹ سے جو راستے پاکستان چین سرحد تک جائیں گے ان کے روٹ کیا ہوں گے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی جانب سے یہ سوالات شکو ک اور اندیشوں کے ساتھ 2013 ء سے 2018 ء تک متواتر اٹھائے جاتے رہے اور کئی مرتبہ اُس وقت وفاقی وزیر احسن اقبال اسلام آباد کے علاوہ ، پشاور اور کوئٹہ آکر بھی بریفنگ دیتے رہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ساتھ ہی یہ باتیں عام رہیں کہ سی پیک کا مشرقی روٹ جو روہڑی اور گھوٹکی سے ملتان،لاہور ، راولپنڈی اور پورے پنجاب سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اس پر کام کی رفتار بھی زیادہ رہی اور اس روٹ پر اکنامک زون بھی زیادہ رہے، اس پر یہ تنقید بھی ہو تی رہی کہ یہ سی پیک روٹ جو مغربی روٹ کے مقا بلے میں 300 کلو میٹر زیادہ طویل اور بہت زیادہ ٹریفک کے بو جھ تلے دبا ہوا ہے یہاں ووٹ بنک کو مدنظر رکھ کر زیادہ منصوبے اور رقوم خرچ کی جا رہی ہیں، مگر اب 29 مارچ 2019 ء کو عمران اور اِن کی وفاقی حکومت نے یہ کہا کہ پہلے مغربی روٹ پر کام ہوگا اور بوستان تا ژوب اب شاہراہ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ بلو چستان میں آبادی کی گنجانیت سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں بیس گنا کم ہے۔
اس لیے بلو چستا ن کی شاہراہوں کراچی تا اسلام آباد کے مقابلے میں ٹریفک کا دباؤ بھی بیس گنا کم رہتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب گوادر ڈیپ سی پورٹ سے پہلے مرحلے میں خشکی کے راستے خنجراب سے آگے کاشغر اور بیجنگ تک کنٹینروں کے کاروان شروع ہو ں گے تو مشرقی روٹ کے مقابلے میں مغربی روٹ ہی زیادہ کا ر آمد ہو گا۔ جہاں تک تعلق گوادر ڈیپ سی پورٹ سے سی پیک کے اُن روٹوں کا ہے جو ایران اور ترکی کے بعد مغربی یورپ آسٹریا اور جرمنی تک جائیں گے اور دوسری جانب افغانستا ن ، ترکمانستان ، تاجکستان، کر غزستان ، قازقستا ن، از بکستان ،آذر بائیجان، اور اس سے آگے روس، یوکرائن اور پھر مشرقی یورپ پولینڈ وغیرہ تک پہنچیں گے تو یہ روٹ بھی مستقبل میں مغربی روٹ سے ہی منسلک ہو ں گے، یوں اہم روٹ مغربی روٹ ہی ہے اور اس پر پہلے ہی تو جہ دی جانی چاہیے تھی۔ بہر حال شکر ہے کہ اب مغربی روٹ پر توجہ دی جا رہی ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ شاہراہوں کے ساتھ ساتھ ریلوے لائنوں کے منصوبے بھی شروع کئے جا رہے ہیں جو سی پیک کی انہی شاہراہوں کے ساتھ ہوں گے۔
یہاں یہ وضاحت ضر وری ہے کہ انگر یزوں کی آمد سے صدیوں پہلے شاہراہوں کے اعتبار سے چین کی شاہراہ ِ ریشم بہت اہم تھی اور اُس وقت چینی تہذیب و تمدن اور صنعتی ترقی یورپ سے بہت آگے تھی۔ ریشم کی صنعت پر پوری دنیا میں اُ ن کی اجارہ داری تھی، اور دنیا میں کاغذ کی ایجاد کی طرح ریشم کی دریافت کا سہرا بھی چینیوں کے سر تھا اور دیوار ِ چین جہا ں چین کے بادشاہوں نے منگولوں، تاتاریوں سے دفاع کے لیے بنائی تھی وہاں اس کا بڑا مقصد ریشم کے راز کو باقی دنیا سے محفوظ رکھنا تھا، اور پھر صدیوں بعد مغربی یورپ کے دو جاسوس جو یہاں پادریوں کے روپ میں آئے تھے کئی سال یہاں قیام کے بعد اپنے عصا کو اندر سے کھوکھلا کر کے ان میں ریشم کے کیڑے چھپا کر یورپ لے گئے اور یہ راز دنیا کومعلوم ہو گیا۔
ہمارے ہاں تقر بیاً ساڑھے تین سو سال قبل اہم ترین شاہراہ مشہور بادشاہ شیر شاہ سوری نے تعمیر کر وائی تھی، یہ شاہر اہ پشاور سے ڈھاکہ تک ہے اور اب سی پیک کے روٹ کے چر چے ہیں، جہاں تک انگریزوں کے عہد میں ہونے والی ترقی یا ترقیاتی کاموں کا تعلق ہے تو انگر یزوں نے یہاں برصغیر میں آبپاشی اور نہری نظام کو توسیع بھی دی اور جدید تر بنایا بلکہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی دیئے، انگر یز موجد جارج اسٹیفن نے 1825ء میں نوے ٹن وزنی لوھے کے اسٹیم انجن کی ایجاد کے ساتھ 21 ویگنوں اور ایک کوچ پر مشتمل دنیا کی پہلی ٹرین کو 38 میل چلا کر کامیا ب تجربہ کیا اور 1830ء میں برطانیہ میں ٹرینیں باقاعدہ چلنے لگی تھیں۔ ممبئی میں 1853 اور ہمارے پاکستان کے علاقے میں کراچی سے کو ٹری تک ٹرین سروس 1861 میں شروع کر دی گئی تھی جو جلد ہی پنجا ب اور سندھ میںایک نفع بخش سروس ثابت ہوئی اور برصغیر کی اِن ریلوے کمپنیوں کو سالانہ لاکھوں کروڑوں روپے کا منافع دینے لگیں۔ 1839
تک نہ صرف پورے یورپ بلکہ امریکہ میں بھی ریلوے سروس شروع ہو چکی تھی، اور سب سے اہم یہ کہ ریلوے کو جنگوں کے اعتبار سے اہم قرار دیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے بھاری توپوں اور اسلحہ گولہ و بارود کو بڑی مقدار اور تعداد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے اور کم وقت میں پہنچا یا جا سکتا تھا ۔ برطا نیہ کو برصغیر کے دفاع کے لحاظ سے افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے خطرہ تھا، اور تاریخ نے انگریز کو یہ بتا دیا تھا کہ ہندوستان کے حکمرانوں کی دفاعی پالیسی میں یہ خامی تھی کہ وہ افغانستان کی سر حد پر دشمن کو روکنے کی بجائے پنجاب کے وسط پانی پت میں دفاعی لائن ترتیب دے کر برصغیر کا ناکام دفاع کرتے تھے اس لیے انگر یز نے 1839--42 میںپہلی اینگلو افغان جنگ پھر 1878 ء میں دوسری اینگلو افغان جنگ اور پھر 1919 ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ لڑی، یہ تینوں جنگیں ا فغا نستان کی سرحدوں پر یا افغانستان کے اندر لڑیں اور انہی جنگوں کی منصوبہ بندی میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ریلوے لائنیں بچھائیں۔
اگر چہ اُس وقت اِن ریلوے لائنو ں کے بچھا نے پر اور پھر ان کی دیکھ بھال پر کافی اخراجات آتے تھے۔ بلو چستان کی آبادی تو اُس وقت تین چار لاکھ سے زیادہ نہ تھی اور اِس آبادی کی اکثریت بھی خانہ بدوش تھی جس کو ریلو ے سروس سے کو ئی سروکار نہیں تھا ۔ کے پی کے کی آبادی آٹھ سے دس لاکھ تھی اور وہ بھی قبائلی آ باد ی تھی اِس لیے ریلو ے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نقصان میں تھی اور اس کا نقصان برصغیر کے دیگر علاقوں میں نفع کمانے والی ریلوے کی کمپنیوں کی مالی امداد سے پورا کیا جاتا تھا ۔ انگریزوں کے جانے کے بعد اگر چہ یہاں صورتحال بدل گئی اور ایک تو آبادی میں اضافہ ہوا تو ساتھ ہی افغانستان، پاکستان تعلقات خصوصاً عوامی سطح پر خوشگوار اور دوستانہ رہے تو شروع ہی میں ریلو ے کا خسارہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کا فی کم ہو گیا اور اگر ہوا تو وہ بعد کے دنوں میں خصو صاً 1980 کی دہائی کے بعد جب پاکستان ریلوے ناقص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی وجہ سے بری طرح اور بڑے خسارے میں جانے لگی، لیکن 2002 ء میں جب گوادر ڈیپ سی پورٹ کا منصوبہ شروع ہوا تو ایک بار پھر بلو چستان میں ریلوے کی اہمیت و افادیت پر ماہرین نے توجہ دی۔
انگر یزوں نے اپنے دور حکومت میں روہڑی ، جیکب آباد ، سبی، بولان ،کو ئٹہ براڈ گیج ٹریک ۔ سبی، ہرنائی برا ڈ گیج ٹریک۔کوئٹہ ،سپیزنڈ ، مستونگ روڈ ، دالبندین، تفتان آگے ایرانی علاقے میر جا وا اور زاہدان تک براڈ گج ٹریک ۔کوئٹہ ، چمن براڈ گیج ٹریک بچھا دیا تھا جب کہ کوئٹہ بوستان براڈ گیج ٹریک کے بعد بوستان سے ژوب تک تقریباً تین سو کلو میٹر ''چھوٹی لائن،، نیرو گیج ریلوے ٹریک بچھا یا تھا جو 1985 ء میں پاکستان ریلوے نے بند کر دیا، اس ریلوے لائن کے اسٹیم انجن اب ریلوے کوئٹہ اور راولپنڈی کے اسٹیشنوں کے علاوہ ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور اور چند دیگر مقامات پر یادگار کے طور پر کھڑے ہیں۔
2006-7 ء میں بلوچستان کے سابق گورنر اویس غنی نے تجویز دی تھی کہ کوئٹہ سے ژوب براڈ گیج ریلوے ٹریک بچھا کر یہاں سروس شروع کی جائے پھر اس منصوبے کا پی سی ون بھی بنا کر وفاقی حکومت کو بھیجا جس میں فی کلومیٹر برا ڈ گیج ریلوے لائن کی لاگت ایک کروڑ تھی، باوجود اس کے کہ اس منصو بے کو پسند بھی کیا گیا تھا اس پر آج تک کام نہ ہو سکا ، اب اس جانب اشارہ کیا جا رہا ہے کہ یہاں بوستان سے ژوب تک براڈگیج ریلوے ٹریک کو ڈیرہ اسماعیل خان اور حویلیاں، ایبٹ آباد اور پھر خنجرآب تک لے جایا جائے گا۔ اسی طرح کوئٹہ سے ایران کی سرحد پر واقع پاکستانی ٹا ؤن تفتان 600 کلو میٹر جو ٹریک اپنی خستہ حالی کے باوجود موجود ہے اس کو معیا ر ی بنایا جائے گا اور ایک نیا ٹریک جو گوادر، تربت ، پنجگور، بسمیہ، خضدار، قلات ، مستونگ تک آ کر ایک جانب کو ئٹہ سے منسلک ہو کر چمن تک اور دوسری جانب مستونگ سے منسلک ہو کر تفتان تک جائے گا جب کہ مستونگ کے بعد دالبندین کے قریب سے بھی افغانستان کی سرحد ملتی ہے جہاں افغا نستا ن کے ایک سو کلو میٹر علاقے کے بعد سنٹرل ایشیا ترکمانستان شروع ہو جا تا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کو ضرورت اس کی ہے کہ فوری طور پر اس کی معیشت بہتر ہو جائے اس کے لیے یا تو جلد ازجلد سی پیک مکمل ہو جائے اور یہاں تیزی سے کارباری تجا رتی اقتصادی سر گرمیاں شروع ہو جائیںاور ہمار ی آمدنیوں میں فوراً مناسب اضافہ ہو جائے یا پھر کہیں سے فوراً تیل اور گیس کے ذخائر دستیا ب ہو جائیں۔ تعریف کی بات یہ ہے کہ دونوں صورتیں دکھائی تو دے رہی ہیں مگر فی الحال اِن کی صورت سراب کی سی ہے۔ 22
کروڑ عوام پر مالیاتی اقتصادی بحران بڑھ رہا ہے، عوام یہ جانتے ہیں کہ پاکستا ن کی حیثیت بہت زیا دہ اور عمدہ دودھ دینے والی گا ئے کی سی ہے مگر اس کی اقتصادی چراگاہ کو کچھ غیر ملکی اور چند ملکی شخصیات نے صحرا میں بدلنے کی کو شش کی ہے، حکومت وقت کے پاس اب وقت کا ہی امتحان ہے اُسے تھوڑے یا کم وقت میں اس دودھ دینے والی گائے کو مناسب اقتصادی چارہ دینا ہے تاکہ اس کا دودھ جاری رہے اس کے لیے نہایت تیز رفتاری سے متوازن اور مستحکم انداز میں کام کر نا ہو گا، یہاں اتنا ہی کہنا ہے کہ اگر 2007 ء میں بوستان تا ژوب براڈ گیج ریلو ے ٹریک مکمل ہو جاتا تو آج اس پر فی کلو میٹر پچیس گنا زیادہ لاگت کا تخمینہ بھی نہ ہوتا اور یہ منصوبہ اپنی اس وقت کی لاگت سے دس گنا زیادہ کما کر دے چکا ہوتا ۔
ڈاکٹرعرفان احمد بیگ (تمغۂ امتیاز)