ہیلو فائٹ۔۔۔۔ بنجر زمین سونا اُگلے
کھارے پانی سے اور بنجر زمین پر نشوونما پانے والے پودوں کے ذریعے پاکستان کو ہرابھرا کیا اور غذائی قلت مٹائی جاسکتی ہے۔
ہم میں سے اکثر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گردش کرنے والی وہ دل خراش تصویر دیکھ رکھی ہوں گی، جس میں ایک قحط زدہ افریقی بچی قریب المرگ ہے، اور چند فٹ دوری پر موجود گِدھ اس کے مرنے کا منتظر ہے۔
قحط کے شکار ملک سوڈان میں کھینچی گئی یہ تصویر 'گدھ اور چھوٹی لڑکی ' کے عنوان سے 26مارچ 1993کے نیو یارک ٹائمز میں شایع ہوئی۔ اس تصویر کی اشاعت نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ ایک سال بعد اس تصویر کے خالق فوٹو گرافرکیون کارٹر کو دنیا کے معتبر ترین صحافتی ایوارڈ 'پیولٹزر ایوارڈ ' سے نوازا گیا۔
سسکتی بلکتی انسانیت کا نوحہ سناتی اس تصویر نے دنیا بھر میں تو کیون کارٹر کو بام شہرت پر پہنچا دیا، لیکن دنیا کا معتبر ترین بین الاقوامی صحافتی ایوارڈ بھی کیون کی نظروں سے ایک پل کے لیے بھی اُس منظر کو اوجھل نہیں کرسکا، گدھ کی آنکھوں میں اپنی خوراک کو دیکھ کر پیدا ہونے والی حریصانہ چمک، بھوک اور پیاس سے ہڈیوں کا ڈھانچا بنی لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب جانے والی بچی کی بے بسی، اپنی بے حسی اور بچے کو نہ بچانے کی خلش نے کیون رچرڈ کو انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کردیا۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ فوٹو گرافر کیون رچرڈ نے 27جولائی1994کو خودکشی کرکے اس اذیت سے نجات حاصل کرلی۔ دوسری طرف جنوب ایشیائی خطے میں واقع ملک پاکستان ہے، جس کے ایک صحرا میں سیکڑوں بچے بھوک سے نڈھال ہوکر مرتے رہتے ہیں، مائیں اولاد کے غم میں نہ اپنی سوکھی چھاتیوں کو پیٹ سکتی ہیں اور نہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں۔ تھر، تھر واسیوں کے لیے قحط کا دوسرا نام ہے۔ تھر، جہاں زندگی ارزاں اور پانی مہنگا ہے۔
تھر، جہاں موت ہمہ وقت رقصاں رہتی ہے۔ سوڈان اور تھر میں ایک چیز 'خشک سالی' اور ' قحط' مشترک ہے۔ دنیا بھر میں میٹھے پانی کے ذخائر میں کمی ہوتی جارہی ہے، میٹھے اور صاف پانی کی قلت اور بڑھتی ہوئی آبادی نے ایک عالم گیر مسئلے کو جنم دیا ہے جسے ہم ' فوڈ سیکیوریٹی ' کے نام سے جانتے ہیں۔ کہنے تو یہ دو لفظ ہیں لیکن ان دو لفظوں پر پوری دنیا کی بقا داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ فوڈسیکیوریٹی کو لاحق چیلنجز میں سرفہرست پانی کی قلت، زرعی زمین کا بنجر ہونا، ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں نے مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے مختلف تجاویز پیش کی، زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے پھلوں اور سبزیوں کے بیجوں میں جینیاتی تبدیلیاں کی گئیں، زمین کو بہتر بنانے کے لیے کیمیائی اور طبعی تبدیلیاں کی گئیں۔
خود اقوام متحدہ غذائی ضروریات کے لیے حشرات الارض کو بہ طور خوراک کھانے کی تجویز دے چکا ہے، لیکن انہیں کھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کچھ سائنس دانوں نے جینیٹک انجینئرنگ جیسی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے پودوں کو 'سالٹ آرڈر پلانٹ' بنانے کی کوششیں کی، لیکن اس میں بھی ناکام رہے، کیوں کہ 'سالٹ آرڈر' ایک کثیرالجینیاتی (ملٹی جینی) کریکٹر ہے، کیوں کہ اس عمل میں بعض اوقات پچاس ساٹھ سسٹم 'سوئچ آن ' اور 'سوئچ آف' ہو نے پر ہی اس سسٹم میں سسٹین ایبیلٹی آتی ہے۔
حقیقی معنوں میں سائنس نے ابھی تک اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ سوئچ آن اور سوئچ آف کرنے والے ان پچاس ساٹھ سسٹمز کو ایک پودے سے نکال کر دوسرے پودے میں ڈال سکیں۔ تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں مستقبل میں انسانوں کو غذائی قلت سے قابل عمل 'ہیلو فائٹ' بچاسکتا ہے، کیوں کہ پانی کی قلت اور زرعی زمین کا بنجر ہونا فوڈ سیکیوریٹی کو درپیش اولین مسائل میں شامل ہے۔ کھارے پانی سے اور بنجر زمین پر نشوونما پانے والے ان پودوں (ہیلو فائٹ) کو جانوروں اور انسانوں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال مما لک میں سے ایک ہے۔ دیگر بہت سے قدرتی وسائل کی طرح پاکستان میں بھی ہیلو فائٹ نسل کی ساڑھے چار سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، جن کو موثر طریقے سے استعمال کرکے خوردنی تیل، حیاتیاتی ایندھن اور طبی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں گنتی کے چند ایک شعبے ایسے ہیں جن میں پاکستان سائنس دانوں کے کام کو سراہا جاتاہے جن میں ایک شعبہ ہیلو فائٹ پر تحقیق کا بھی ہے، جس میں پاکستان کو دنیا بھر میں لیڈر مانا جاتا ہے، لیکن حکومتی نااہلی کی وجہ سے پاکستان ایک دہائی سے کا زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس سے مستفید نہیں ہوسکا ہے جو کہ ہماری بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں۔ جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے بیس جنوری 2006کو جامعہ کے اندر ہی 'انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن ' کا سنگ بنیاد رکھا۔ کھارے پانی میں نشوونما پانے والے پودوں پر تحقیق کے لیے قائم کیے جانے والے اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا مقصد پاکستان خصوصاً تھر میں بنجر زمینوں پر کھارے پانی سے کاشت کاری کرنا تھا۔
کئی کروڑ روپے لاگت سے تیار ہونے والے اس انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ موجودہ شیخ الجامعہ ڈاکٹر اجمل خان کو بنا یا گیا، جنہوں نے فنڈز کی عدم دست یابی کے باوجود تھر جیسے بنجر صحرا کے ایک ٹکڑے کو عملی طور پر سرسبزوشاداب کر کے دکھایا ہے۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ 'پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے میٹھے پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں، دوسری بات یہ کہ جب آپ کوئی اَن کنٹرولڈ فصل کاشت کرتے ہیں تو اس سے بھی زمین میں کھارا پن بڑھ جاتا ہے۔ پودے ایک حد تک نمک برداشت کرتے ہیں، اس کے بعد وہ پنپ نہیں سکتے اور جس زمین پر نمک بڑھ جائے وہاں کوئی اور فصل بھی نہیں لگ سکتی۔ اب تین مسائل ہمیں درپیش ہیں اول، پانی کی کمی، زمین کا کھاراپن اور بڑھتی ہوئی آبادی ۔ اب ان تینوں کو ساتھ ملا لیں یہ ایک تباہی کی ترکیب ہے۔
خلیجی ممالک میں آج بھی پانی پیٹرول سے مہنگا ہے، کیوں کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کر کے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے تھر سے لے کر مراکش تک کا سارا کا سارا زون 'فوڈ ان سیکیور' ہے۔ دنیا بھر میں پودوں کی چھے ہزاراقسام ایسی ہیں جو نمکیات والی زمین پر نشوونما پاسکتی ہیں، ان پودوں کو بایو فیول، کیمیکل، خوردنی تیل، دلیے، جانوروں کے چارے اور بہت سے معاشی فوائد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن' میں ہم ایسے تمام پودوں (ہیلو فائٹ، نمکین زمین قدرتی طور پر اگنے والا پودا) پر تحقیقات اور ان کی اقتصادی استعمال پر کام کرتے ہیں۔ ہم نے دو سال قبل تھر میں آزمائشی طور پر ہیلو فائٹ نسل کی ایک گھاس لگائی تھی، جہاں یہ تجربہ بہت کام یاب رہا ہے۔
ہیلو فائٹ نمکیات والی زمین میں تیزی سے بڑھوتری کرنے والا پودا ہے۔ دوسرے عام پودے مخصوص حد تک نمکیات کو برداشت کرتے ہیں اور جب زمین میں نمکیات بڑھ جائیں تو ان کی نشوونما رُک جاتی ہے، لیکن ہیلو فائٹ بہت زیادہ کھاری زمین میں بھی نشوونما پاسکتا ہے۔ ہم نے عملی طور پر اس کام کا آغاز سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹیوں پر پائے جانے والے ہیلو فائٹ سے کیا۔ انہی دنوں میں نے بلوچستان کے علاقے جیونی گیا تو وہاں گدھا گاڑی پر چارے کے طور پر ایک پودا بک رہا تھا، میں نے اسے سونگھ کر دیکھا تو وہ ہیلو فائٹ نسل کا پودا Panicum Turgidum نکلا، میں اسے خریدنے والے فرد سے کہا کہ یہ تو زہریلا پودا ہے تم اسے جانور کو کھلارہے ہو تو اس نے ہنستے ہوئے کہا سر ہمارا جانور تو پلاسٹک کھا جاتا ہے یہ تو پھر بھی پودا ہے۔ اس کی بات سن کر میں نے طے کرلیا کہ ہم اپنے انسٹی ٹیوٹ میں سب سے پہلے اسی پر تجربہ کریں گے۔ چارے کے طور پر استعمال ہونے والا یہ پودا کھارے پانے سے نشوونما پاتا ہے اور سالانہ ساٹھ ہزار کلو گرام فی ہیکٹر فصل دیتا ہے۔
ہم نے Panicum Turgidum پر چار پانچ سال تجربہ کیا، جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال کیا اور اسے میٹھے پانی سے پیدا ہونے والی مکئی کی طرح ہی مفید پایا، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ میٹھے پانی اور اچھی زمین پر کاش ہونے والی مکئی کی ٖفصل سال میں دو بار ہوتی ہے اور ہیلو فائٹ نسل کا یہ پودا سال میں بارہ فصلیں دیتا ہے۔ گرمیوں میں اس کی فصل زیادہ اور سردیوں میں کم ہوتی ہے، گرمیوں میں آپ بیس پچیس دن بعد کٹائی کرسکتے ہیں، سردیوں میں چالیس پینتالیس دن بعد کٹائی کرسکتے ہیں۔ ہم نے Panicum Turgidum کا مکمل کیمیائی تجزیہ کیا، اس کی غذائی خصوصیات اچھے اور برے کیمیائی خواص کا کیمائی تجزیہ کیا۔
اس کے بعد ہم نے اسے جانوروں کو کھلا کر ان پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا اور اسے مکئی سے زیادہ بہتر پایا۔
یہ سب کام کرنے کے بعد ہم نے اس پودے کو اگانے اور مزید کھارا ہونے سے بچانے کے لیے ایک معیاری طریقۂ کار وضح کیا کہ اس پودے کو کس طرح لگایا جائے جس سے زمین میں نمکیات مزید نہ بڑھیں، اس کے لیے ہم وسط میں Panicum Turgidum کو لگایا اور اطراف میں ہیلو فائٹ نسل کے وہ پودے لگائے جن کے پتے نمکیات کو جذب کرتے ہیں۔ اپنی اس تحقیق کو ہم نے بین الاقوامی تحقیقی جریدے Elsevier میں شائع کروایا، بین الاقوامی سائنسی جریدے 'سائنس میگزین' نے اپنے ایڈیٹوریل میں ہماری اس ریسرچ کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ایسی ہی ریسرچ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے ہیلو فائٹ نسل کے دیگر پودوں سے تیل نکالنے کے لیے گیس کرومیٹک گراف استعمال کیا، ایک پودے کا گیس کرومیٹوگراف کا سیمپل تیار کرنے میں کم از کم دو ہفتے لگتے ہیں، ہم نے تقریباً ساٹھ پودوں سے نکلنے والے تیل کے نمونوں کا گیس کرومیٹو گراف کیا۔ نکلنے والے تیل کا تفصیلی تجزیہ کیا۔
کھانے کے لیے سب سے اچھا تیل وہ ہوتا ہے جس میں غیرسیرشدہ چکنائی زیادہ ہو۔ اس تحقیق سے ہمارے سامنے ایسے بہت سے ہیلو فائٹ آئے جن میں غیرسیرشدہ چکنائی مکئی، پام آئل اور دیسی گھی زیادہ تھی (تقابلی جائزہ گراف میں دیا گیا ہے)۔ اب اگر مکئی اور ہیلو فائٹ میں استعمال ہونے والی زمین اور پانی کو دیکھا جائے تو ہم خراب زمین اور خراب پانی سے زیادہ اچھی فصل دے رہے ہیں۔ اسی انسٹی ٹیوٹ میں ہم نے ہیلو فائٹ سے ایسینشل آئل اور حیاتیاتی ایندھن بھی نکالا۔ دنیا بھر میں بایو فیول بنانے کے دو طریقے رائج ہیں، پہلا طریقہ یہ ہے کہ آپ بیج سے نکلے ہوئے تیل میں سے گلیسرین الگ کردیں ، بچ جانے والا تیل خالص حیاتیاتی ایندھن ہوگا، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ پورے پودے کو لے کر اسے ڈائجسٹ (پودے کو شکر میں تبدیل کرنا) کردیں۔
ہیلو فائٹ میں بہت زیادہ نشاستہ پایا جاتا ہے اور جب آپ اسے توڑتے ہیں یہ نشاستہ شکر میں تبدیل ہوجاتا ہے، حاصل ہونے والی شکر کو الکحل میں تبدیل کردیا جاتا ہے اور اس الکحل کو حیاتیاتی ایندھن یا ایتھا نول کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایندھن کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ ہماری یہ تحقیق بین الاقوامی سائنسی جرائد میں شایع ہوئی، اور ہمیں دنیا بھر سے کافی اچھا ریسپانس ملا کہ آپ سمندری پانی اور بنجر زمینوں سے ایتھانول بنا رہے ہیں، یہ بنجر زمینوں کے استعمال کا بہترین تصور ہے۔ لیکن ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی سرمایہ لگانے پر ہی تیار نہیں ہے۔ اگر کوئی اس تحقیق میں سرمایہ کاری کرے تو پھر ہم چند سالوں میں ہی تھر اور پاکستان کی بنجر زمینوں کو سرسبز اور شاداب بنا سکتے ہیں۔
اس انسٹی ٹیوٹ میں ہیلو فائٹ کے مختلف لیولز کی تحقیق کی جاتی ہے، اور جانا جاتا ہے کہ قدرتی ماحول میں وہ کس طرح رہتا ہے، درجۂ حرارت ، کھاراپن بڑھنے یا روشنی کم ملنے سے اس پر کیا اثرات مرتب ہوں گے وغیرہ وغیرہ، پھر ہم پودے کے اندر جا کر اس کی بایو کیمسٹری دیکھتے ہیں، درج بالا عوامل کی وجہ سے پودے کے انزائم، ہارمونز پر کیا اثر پڑا اور کیا کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوئیں، بایو کیمسٹری کے بعد ہم پودے کے جینز پر جاتے ہیں، یہ بات حقیقت ہے کہ ابھی ہم پودے کے جینز کو منتقل کرنے کے قابل نہیں ہوئے ، لیکن مستقل تحقیق ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔
ہمارے پاس جینٹکس کی پوری لیباریٹری ہے، تمام آلات موجود ہیں، ہم جینو مکس (کرموسومز کا مکمل سیٹ) پر کام کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہم پودوں کی پروٹین اور دوسرے کیمیکلز پر کام کر رہے ہیں، مطلب یہ کہ اس انسٹی ٹیوٹ میں ہم پودے کے کام کرنے کے خلیات کے لیول، فیلڈ لیول، پاپولیشن لیول، انفرادی لیول، مالیکول کا لیول اور دیگر تمام لیول پر کام کر رہے ہیں، دنیا میں ایسے بہت کم انسٹی ٹیوٹ ہیں جہاں ان تمام لیولز پر ایک ہی چھت کے نیچے کام کیا جارہا ہو۔ ایک طرح سے یہ ہمارے اس انسٹی ٹیوٹ کی انفرادیت ہے۔ ہمارا اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سمیت بہت سے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ اشتراک ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن کی موجودہ ڈائریکٹر بلقیس گُل کا کہنا ہے کہ گھارو، بدین اور اطراف کے علاقوں کی بہت ساری زمین سیم و تھور کی وجہ سے خراب ہوچکی ہے، اگر ہمیں فنڈز دیے جائیں تو ہم وہاں قدرتی ماحول میں کاشت کاری کر سکتے ہیں، یہ جامعہ کراچی کے تحت چلنے والے اس ادارے کو فنڈز کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بجٹ میں ہمارا فنڈ پندرہ لاکھ روپے مختص کیا جاتا ہے، اس فنڈ میں توہم یہاں کے مینٹینینس کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتے، صرف آلات کو ہی ورکنگ کنڈیشن میں رکھنے کے لیے پچاس ساٹھ لاکھ روپے سالانہ چاہیے۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہائرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے روکی گئی ریکرنگ (متوازی) گرانٹ ہے، اگرچہ یہاں کے اسٹاف کی تنخواہیں جامعہ کراچی ادا کر رہی ہے لیکن ہمیں تحقیقی کاموں، کروڑوں روپے مالیت کے آلات کو بچانے کے لیے، ان کی مینٹی نینس کرنے کے لیے فنڈز چاہییں۔ اس انسٹی ٹیوٹ کو مکمل طور پر چلانے کے لیے کم از کم پچاس ملین سالانہ کا بجٹ مختص کیا جانا چاہیے، ابھی ہم صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پروگرام میں داخلہ دے رہے ہیں جس میں بایولوجیکل سائنسز کے مختلف شعبوں اور کیمسٹری سے بھی طلبا یہاں آتے ہیں، ہمارے یہاں طلبہ کی تعداد محدود ہے، ایم فل کے لیے پندرہ اور پی ایچ ڈی کے لیے ہر سال دس طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے۔
اس وقت ہمارے پاس سات ریسرچ گرانٹ ہیں، جو کہ ہماری فیکلٹی اپنی مدد آپ کے تحت لے کر آتی ہے۔ لیکن مالی مشکلات کے باوجود یہ انسٹی ٹیوٹ ڈھائی سو کتابیں اور پانچ سو سے زائد تحقیقی مقالے شائع کرواچکا ہے۔ اگر ہمیں تحقیق کے لیے فنڈز عطا کیے جائیں تو نہ صرف تھر بلکہ پاکستان کو غذائی قلت کے بحران سے نکالا جاسکتا ہے۔ ہم پورے تھر کو سرسبزوشاداب بنا سکتے ہیں۔ ہم اس سے ادویات، حیاتیاتی ایندھن، خوردنی تیل اور دیگر بہت سے کیمیکل حاصل کرکے زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔
ہم نے فنڈز نہ ہونے کے باجود اپنی ریسرچ نہیں روکی ہے، اس کے علاوہ ہم یونیسکو کی ایکو سسٹم (ماحولیات) پر شایع ہونے والی ایک کتابی سیریز پر کام کر رہے ہیں، گذشتہ ماہ ہی اس سیریز کی 49 ویں بک شائع ہوئی ہے۔ نجی شعبے کے بہت سے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا، بہت سے لوگوں کی ہزاروں ایکٹر بنجر زمین تھی، ہم نے انہیں بتادیا کہ وہ سارے اخراجات برداشت کریں تو ہم کام کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہمارے پاس آنے والی بزنس کمیونٹی یہ چاہتی ہے کہ آج کام شروع ہو اور دو ماہ بعد ہی زمین سونا اگلنا شروع کردے جو کہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے اور پودوں کو مستحکم کرنے کے لیے کم از کم بارہ سے پندرہ ماہ کا عرصہ لگتا ہے، اس کے بعد آپ اگلے کئی سالوں تک فصل کی کٹائی کرتے رہیں۔
دنیا بھر میں ہیلو فائٹ کی چھے ہزار سے زائد اقسام ہیں، ان میں سے پندرہ فیصد پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں ہم نے جو کیٹلاگ کی ہے وہ چار سو پچاس سے زائد ہیں۔ اور اس میں سے ڈیڑھ سو اقسام پاکستان کے کوسٹل ایریاز میں پائی جاتی ہیں۔ ویسے تو ہلکی نمکین زمین پر پالک، ٹماٹر کی کچھ اقسام ، آلو ، چیکو اُگ جاتے ہیں لیکن ساری فصلوں کے لیے نمکین زمین اور پانی کا استعمال نظری اعتبار سے تو ممکن ہے لیکن عملی طور پر ابھی اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ کا چارج سنبھالنے کے بعد میں نے تھر میں کان کنی کرنے والی ایک کمپنی سے رابطہ کیا، کان کنی میں پانی بہت زیادہ نکلتا ہے، ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے اس پانی کو کہیں نہ کہیں محفوظ طریقے سے استعمال کرنا ضروری تھا، کیوں کہ اس پانی کو صحرا میں نہیں پھینکا جاسکتا، اگر صحرائی زمین پر نمکین پانی ڈال دیا جائے تو وہ علاقہ بالکل برباد ہوجاتا ہے۔ ہم نے اس کمپنی سے کہا کہ ہمارے پاس اس پانی کے استعمال کا ایک متبادل طریقہ ہے۔
ہم اس پانی سے اتنا چارہ پیدا کردیں گے کہ تھر میں پھر کبھی قحط نہیں آئے گا، پھر ہم نے 'بایو سلائین ایگری کلچر' کے نام سے اس پراجیکٹ کا آغاز کیا، ڈرپ ایری گیشن کا سسٹم بنایا۔ اس کمپنی نے اس کام کے پائلٹ پراجیکٹ کا خرچہ بھی خود ہی اٹھایا ہم نے اپنی ٹیکنالوجی انہیں دینے کے لیے ایک روپیہ نہیں لیا۔ تھر میں زمین تیار کرنے اور ڈرپ ایری گیشن کے لیے انہوں نے خرچہ کیا۔ ہیلو فائٹ کے لیے فلڈ ایری گیشن نہیں کی جاسکتی، ڈرپ ایری گیشن ہی کرنی پڑتی ہے جس میں ابتدائی طور پر زیادہ خرچہ آتا ہے۔
اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عام فصل تو ایک بار پک جانے کے بعد اکھاڑ کر دوسری فصل لگائی جاتی ہے، لیکن ہیلو فائٹ کو ایک بار لگانے کے بعد پانچ سال تک جان چھوٹ جاتی ہے۔ تھر میں ابتدائی طور پر ہم نے ڈیڑھ ایکٹر کے رقبے پر یہ کام کیا، پہلے اپنی نرسری میں پودے کی نشوو نما کی، پھر چھوٹے پودوں کو وہاں لے جا کر اپنی نگرانی میں لگوایا۔ اس کو بڑے پیمانے میں تھر میں پھیلانا ہماری گنجائش سے باہر ہے، ایک تنظیم یہ کام کر رہی ہے جس کے ہیڈ وزیر اعلیٰ سندھ ہیں، وہ اس پراجیکٹ کو آگے لے جانے کے لیے بہت زیادہ دل چسپی لے رہے ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میں ہم اس کا دوسرا فیز شروع کریں گے۔
ایک ڈیڑھ سال پہلے حکومتِ سندھ کے ایک وزیر نے فوڈر پلانٹیشن پر ہم سے کونسیپٹ نوٹ مانگا تھا کہ بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ کو یہ پروگرام بہت پسند آیا ہے۔ ہمارے پاس کچھ فنڈ ز ہیں جن سے ہم اس منصوبے کو فروغ دینا چاہ رہے ہیں، ہم وہاں آپ کی لیباریٹری بنائیں گے، لیکن اس کے بعد کوئی جواب نہیں آیا، اس کے علاوہ چند ماہ پہلے ہی گورنر صاحب نے ہمیں بلایا، ہم نے انہیں اس پراجیکٹ کی تمام تر تفصیلات سے آگا ہ کیا، انہوں نے بھی اس میں کافی دل چسپی ظاہر کی، لیکن ابھی تک اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہاں میں ایک بات یہ بھی بتادوں کہ دنیا کے چند گنے چُنے ممالک میں ہی ہیلو فائٹ پر کام ہورہا ہے، چین روایتی فصلوں کو بھی نمکین پانی اور بنجر زمین پر اگانے کے لیے کافی کام کر رہا ہے ، انہوں نے حال ہی میں صحرا میں چاول اگانے کا ایک تجربہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران، تیونس، اسرائیل، امریکا، ترکی میں بھی اس پر تھوڑا بہت کام ہورہا ہے۔
ہیلوفائٹ کے طبی فوائد
ڈاکٹر بلقیس گُل کے مطابق پاکستان میں پائے جانے تقریباً تمام ہیلو فائٹ میں کوئی نہ کوئی طبی خصوصیت ہے، یہ اینٹی آکسیڈینٹ مانع تکسید مادے کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، ہیلو فائٹ میں دوسرے پودوں کی نسبت اینٹی آکسیڈنٹ کئی سو گنا زیادہ ہوتا ہے۔
ہم ہیلو فائٹ کی ان خصوصیات سے فائدہ اٹھا کر کثیر زرمبادلہ بھی حاصل کر سکتے ہیں، آپ سمندر کے پانی سے بنجرزمین پر اسے کاشت کریں، اس میں سے طبی خواص کے حامل کیمیکلز کشید کر کے انہیں بیروں ملک برآمد کریں، یہ دنیا بھر میں مہنگے داموں بکنے والا کیمکل ہے، کیوں کہ اس کی طلب بہت زیادہ ہے۔ اس میں تو ہمارا فائدہ سو فیصد ہے کیوں کہ نہ ہی ہم اچھا پانی استعمال کررہے ہے اور نہ ہی اچھی زمین۔ ہم نمکین پانی اور بنجر زمین استعمال کرکے آپ کو ایک دنیا بھر میں بے پناہ طلب والی کموڈیٹی دینے کو تیار ہے۔
یہ تو محض ایک کیمیکل ہے۔ ہیلو فائٹ کے ہر پودے کے کوئی نہ کوئی طبی خواص ہیں۔ مثال کے طور پر Cressa cretica Linn کو آپ زخموں کے علاج میں، Tribulus terrestris Linn کو جریان، ضعف کے لیے، Acacia nilotica (L.) Willd کو لیکوریا اور پیچش، Ipomoea pes-caprae (Linn.) Sweet. کو قبض، دافع تشنج، اسہال اور Zygophyllum simplex Linn. کو امراض چشم اور پیٹ کے کیڑوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
قحط کے شکار ملک سوڈان میں کھینچی گئی یہ تصویر 'گدھ اور چھوٹی لڑکی ' کے عنوان سے 26مارچ 1993کے نیو یارک ٹائمز میں شایع ہوئی۔ اس تصویر کی اشاعت نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ ایک سال بعد اس تصویر کے خالق فوٹو گرافرکیون کارٹر کو دنیا کے معتبر ترین صحافتی ایوارڈ 'پیولٹزر ایوارڈ ' سے نوازا گیا۔
سسکتی بلکتی انسانیت کا نوحہ سناتی اس تصویر نے دنیا بھر میں تو کیون کارٹر کو بام شہرت پر پہنچا دیا، لیکن دنیا کا معتبر ترین بین الاقوامی صحافتی ایوارڈ بھی کیون کی نظروں سے ایک پل کے لیے بھی اُس منظر کو اوجھل نہیں کرسکا، گدھ کی آنکھوں میں اپنی خوراک کو دیکھ کر پیدا ہونے والی حریصانہ چمک، بھوک اور پیاس سے ہڈیوں کا ڈھانچا بنی لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب جانے والی بچی کی بے بسی، اپنی بے حسی اور بچے کو نہ بچانے کی خلش نے کیون رچرڈ کو انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کردیا۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ فوٹو گرافر کیون رچرڈ نے 27جولائی1994کو خودکشی کرکے اس اذیت سے نجات حاصل کرلی۔ دوسری طرف جنوب ایشیائی خطے میں واقع ملک پاکستان ہے، جس کے ایک صحرا میں سیکڑوں بچے بھوک سے نڈھال ہوکر مرتے رہتے ہیں، مائیں اولاد کے غم میں نہ اپنی سوکھی چھاتیوں کو پیٹ سکتی ہیں اور نہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں۔ تھر، تھر واسیوں کے لیے قحط کا دوسرا نام ہے۔ تھر، جہاں زندگی ارزاں اور پانی مہنگا ہے۔
تھر، جہاں موت ہمہ وقت رقصاں رہتی ہے۔ سوڈان اور تھر میں ایک چیز 'خشک سالی' اور ' قحط' مشترک ہے۔ دنیا بھر میں میٹھے پانی کے ذخائر میں کمی ہوتی جارہی ہے، میٹھے اور صاف پانی کی قلت اور بڑھتی ہوئی آبادی نے ایک عالم گیر مسئلے کو جنم دیا ہے جسے ہم ' فوڈ سیکیوریٹی ' کے نام سے جانتے ہیں۔ کہنے تو یہ دو لفظ ہیں لیکن ان دو لفظوں پر پوری دنیا کی بقا داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ فوڈسیکیوریٹی کو لاحق چیلنجز میں سرفہرست پانی کی قلت، زرعی زمین کا بنجر ہونا، ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں نے مستقبل میں غذائی قلت سے بچنے کے لیے مختلف تجاویز پیش کی، زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے پھلوں اور سبزیوں کے بیجوں میں جینیاتی تبدیلیاں کی گئیں، زمین کو بہتر بنانے کے لیے کیمیائی اور طبعی تبدیلیاں کی گئیں۔
خود اقوام متحدہ غذائی ضروریات کے لیے حشرات الارض کو بہ طور خوراک کھانے کی تجویز دے چکا ہے، لیکن انہیں کھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کچھ سائنس دانوں نے جینیٹک انجینئرنگ جیسی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے پودوں کو 'سالٹ آرڈر پلانٹ' بنانے کی کوششیں کی، لیکن اس میں بھی ناکام رہے، کیوں کہ 'سالٹ آرڈر' ایک کثیرالجینیاتی (ملٹی جینی) کریکٹر ہے، کیوں کہ اس عمل میں بعض اوقات پچاس ساٹھ سسٹم 'سوئچ آن ' اور 'سوئچ آف' ہو نے پر ہی اس سسٹم میں سسٹین ایبیلٹی آتی ہے۔
حقیقی معنوں میں سائنس نے ابھی تک اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ سوئچ آن اور سوئچ آف کرنے والے ان پچاس ساٹھ سسٹمز کو ایک پودے سے نکال کر دوسرے پودے میں ڈال سکیں۔ تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں مستقبل میں انسانوں کو غذائی قلت سے قابل عمل 'ہیلو فائٹ' بچاسکتا ہے، کیوں کہ پانی کی قلت اور زرعی زمین کا بنجر ہونا فوڈ سیکیوریٹی کو درپیش اولین مسائل میں شامل ہے۔ کھارے پانی سے اور بنجر زمین پر نشوونما پانے والے ان پودوں (ہیلو فائٹ) کو جانوروں اور انسانوں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال مما لک میں سے ایک ہے۔ دیگر بہت سے قدرتی وسائل کی طرح پاکستان میں بھی ہیلو فائٹ نسل کی ساڑھے چار سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں، جن کو موثر طریقے سے استعمال کرکے خوردنی تیل، حیاتیاتی ایندھن اور طبی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں گنتی کے چند ایک شعبے ایسے ہیں جن میں پاکستان سائنس دانوں کے کام کو سراہا جاتاہے جن میں ایک شعبہ ہیلو فائٹ پر تحقیق کا بھی ہے، جس میں پاکستان کو دنیا بھر میں لیڈر مانا جاتا ہے، لیکن حکومتی نااہلی کی وجہ سے پاکستان ایک دہائی سے کا زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس سے مستفید نہیں ہوسکا ہے جو کہ ہماری بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں۔ جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے بیس جنوری 2006کو جامعہ کے اندر ہی 'انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن ' کا سنگ بنیاد رکھا۔ کھارے پانی میں نشوونما پانے والے پودوں پر تحقیق کے لیے قائم کیے جانے والے اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا مقصد پاکستان خصوصاً تھر میں بنجر زمینوں پر کھارے پانی سے کاشت کاری کرنا تھا۔
کئی کروڑ روپے لاگت سے تیار ہونے والے اس انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ موجودہ شیخ الجامعہ ڈاکٹر اجمل خان کو بنا یا گیا، جنہوں نے فنڈز کی عدم دست یابی کے باوجود تھر جیسے بنجر صحرا کے ایک ٹکڑے کو عملی طور پر سرسبزوشاداب کر کے دکھایا ہے۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ 'پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے میٹھے پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں، دوسری بات یہ کہ جب آپ کوئی اَن کنٹرولڈ فصل کاشت کرتے ہیں تو اس سے بھی زمین میں کھارا پن بڑھ جاتا ہے۔ پودے ایک حد تک نمک برداشت کرتے ہیں، اس کے بعد وہ پنپ نہیں سکتے اور جس زمین پر نمک بڑھ جائے وہاں کوئی اور فصل بھی نہیں لگ سکتی۔ اب تین مسائل ہمیں درپیش ہیں اول، پانی کی کمی، زمین کا کھاراپن اور بڑھتی ہوئی آبادی ۔ اب ان تینوں کو ساتھ ملا لیں یہ ایک تباہی کی ترکیب ہے۔
خلیجی ممالک میں آج بھی پانی پیٹرول سے مہنگا ہے، کیوں کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کر کے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے تھر سے لے کر مراکش تک کا سارا کا سارا زون 'فوڈ ان سیکیور' ہے۔ دنیا بھر میں پودوں کی چھے ہزاراقسام ایسی ہیں جو نمکیات والی زمین پر نشوونما پاسکتی ہیں، ان پودوں کو بایو فیول، کیمیکل، خوردنی تیل، دلیے، جانوروں کے چارے اور بہت سے معاشی فوائد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن' میں ہم ایسے تمام پودوں (ہیلو فائٹ، نمکین زمین قدرتی طور پر اگنے والا پودا) پر تحقیقات اور ان کی اقتصادی استعمال پر کام کرتے ہیں۔ ہم نے دو سال قبل تھر میں آزمائشی طور پر ہیلو فائٹ نسل کی ایک گھاس لگائی تھی، جہاں یہ تجربہ بہت کام یاب رہا ہے۔
ہیلو فائٹ نمکیات والی زمین میں تیزی سے بڑھوتری کرنے والا پودا ہے۔ دوسرے عام پودے مخصوص حد تک نمکیات کو برداشت کرتے ہیں اور جب زمین میں نمکیات بڑھ جائیں تو ان کی نشوونما رُک جاتی ہے، لیکن ہیلو فائٹ بہت زیادہ کھاری زمین میں بھی نشوونما پاسکتا ہے۔ ہم نے عملی طور پر اس کام کا آغاز سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹیوں پر پائے جانے والے ہیلو فائٹ سے کیا۔ انہی دنوں میں نے بلوچستان کے علاقے جیونی گیا تو وہاں گدھا گاڑی پر چارے کے طور پر ایک پودا بک رہا تھا، میں نے اسے سونگھ کر دیکھا تو وہ ہیلو فائٹ نسل کا پودا Panicum Turgidum نکلا، میں اسے خریدنے والے فرد سے کہا کہ یہ تو زہریلا پودا ہے تم اسے جانور کو کھلارہے ہو تو اس نے ہنستے ہوئے کہا سر ہمارا جانور تو پلاسٹک کھا جاتا ہے یہ تو پھر بھی پودا ہے۔ اس کی بات سن کر میں نے طے کرلیا کہ ہم اپنے انسٹی ٹیوٹ میں سب سے پہلے اسی پر تجربہ کریں گے۔ چارے کے طور پر استعمال ہونے والا یہ پودا کھارے پانے سے نشوونما پاتا ہے اور سالانہ ساٹھ ہزار کلو گرام فی ہیکٹر فصل دیتا ہے۔
ہم نے Panicum Turgidum پر چار پانچ سال تجربہ کیا، جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال کیا اور اسے میٹھے پانی سے پیدا ہونے والی مکئی کی طرح ہی مفید پایا، لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ میٹھے پانی اور اچھی زمین پر کاش ہونے والی مکئی کی ٖفصل سال میں دو بار ہوتی ہے اور ہیلو فائٹ نسل کا یہ پودا سال میں بارہ فصلیں دیتا ہے۔ گرمیوں میں اس کی فصل زیادہ اور سردیوں میں کم ہوتی ہے، گرمیوں میں آپ بیس پچیس دن بعد کٹائی کرسکتے ہیں، سردیوں میں چالیس پینتالیس دن بعد کٹائی کرسکتے ہیں۔ ہم نے Panicum Turgidum کا مکمل کیمیائی تجزیہ کیا، اس کی غذائی خصوصیات اچھے اور برے کیمیائی خواص کا کیمائی تجزیہ کیا۔
اس کے بعد ہم نے اسے جانوروں کو کھلا کر ان پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا اور اسے مکئی سے زیادہ بہتر پایا۔
یہ سب کام کرنے کے بعد ہم نے اس پودے کو اگانے اور مزید کھارا ہونے سے بچانے کے لیے ایک معیاری طریقۂ کار وضح کیا کہ اس پودے کو کس طرح لگایا جائے جس سے زمین میں نمکیات مزید نہ بڑھیں، اس کے لیے ہم وسط میں Panicum Turgidum کو لگایا اور اطراف میں ہیلو فائٹ نسل کے وہ پودے لگائے جن کے پتے نمکیات کو جذب کرتے ہیں۔ اپنی اس تحقیق کو ہم نے بین الاقوامی تحقیقی جریدے Elsevier میں شائع کروایا، بین الاقوامی سائنسی جریدے 'سائنس میگزین' نے اپنے ایڈیٹوریل میں ہماری اس ریسرچ کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ایسی ہی ریسرچ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے ہیلو فائٹ نسل کے دیگر پودوں سے تیل نکالنے کے لیے گیس کرومیٹک گراف استعمال کیا، ایک پودے کا گیس کرومیٹوگراف کا سیمپل تیار کرنے میں کم از کم دو ہفتے لگتے ہیں، ہم نے تقریباً ساٹھ پودوں سے نکلنے والے تیل کے نمونوں کا گیس کرومیٹو گراف کیا۔ نکلنے والے تیل کا تفصیلی تجزیہ کیا۔
کھانے کے لیے سب سے اچھا تیل وہ ہوتا ہے جس میں غیرسیرشدہ چکنائی زیادہ ہو۔ اس تحقیق سے ہمارے سامنے ایسے بہت سے ہیلو فائٹ آئے جن میں غیرسیرشدہ چکنائی مکئی، پام آئل اور دیسی گھی زیادہ تھی (تقابلی جائزہ گراف میں دیا گیا ہے)۔ اب اگر مکئی اور ہیلو فائٹ میں استعمال ہونے والی زمین اور پانی کو دیکھا جائے تو ہم خراب زمین اور خراب پانی سے زیادہ اچھی فصل دے رہے ہیں۔ اسی انسٹی ٹیوٹ میں ہم نے ہیلو فائٹ سے ایسینشل آئل اور حیاتیاتی ایندھن بھی نکالا۔ دنیا بھر میں بایو فیول بنانے کے دو طریقے رائج ہیں، پہلا طریقہ یہ ہے کہ آپ بیج سے نکلے ہوئے تیل میں سے گلیسرین الگ کردیں ، بچ جانے والا تیل خالص حیاتیاتی ایندھن ہوگا، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ پورے پودے کو لے کر اسے ڈائجسٹ (پودے کو شکر میں تبدیل کرنا) کردیں۔
ہیلو فائٹ میں بہت زیادہ نشاستہ پایا جاتا ہے اور جب آپ اسے توڑتے ہیں یہ نشاستہ شکر میں تبدیل ہوجاتا ہے، حاصل ہونے والی شکر کو الکحل میں تبدیل کردیا جاتا ہے اور اس الکحل کو حیاتیاتی ایندھن یا ایتھا نول کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایندھن کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ ہماری یہ تحقیق بین الاقوامی سائنسی جرائد میں شایع ہوئی، اور ہمیں دنیا بھر سے کافی اچھا ریسپانس ملا کہ آپ سمندری پانی اور بنجر زمینوں سے ایتھانول بنا رہے ہیں، یہ بنجر زمینوں کے استعمال کا بہترین تصور ہے۔ لیکن ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی سرمایہ لگانے پر ہی تیار نہیں ہے۔ اگر کوئی اس تحقیق میں سرمایہ کاری کرے تو پھر ہم چند سالوں میں ہی تھر اور پاکستان کی بنجر زمینوں کو سرسبز اور شاداب بنا سکتے ہیں۔
اس انسٹی ٹیوٹ میں ہیلو فائٹ کے مختلف لیولز کی تحقیق کی جاتی ہے، اور جانا جاتا ہے کہ قدرتی ماحول میں وہ کس طرح رہتا ہے، درجۂ حرارت ، کھاراپن بڑھنے یا روشنی کم ملنے سے اس پر کیا اثرات مرتب ہوں گے وغیرہ وغیرہ، پھر ہم پودے کے اندر جا کر اس کی بایو کیمسٹری دیکھتے ہیں، درج بالا عوامل کی وجہ سے پودے کے انزائم، ہارمونز پر کیا اثر پڑا اور کیا کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوئیں، بایو کیمسٹری کے بعد ہم پودے کے جینز پر جاتے ہیں، یہ بات حقیقت ہے کہ ابھی ہم پودے کے جینز کو منتقل کرنے کے قابل نہیں ہوئے ، لیکن مستقل تحقیق ہمیں آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔
ہمارے پاس جینٹکس کی پوری لیباریٹری ہے، تمام آلات موجود ہیں، ہم جینو مکس (کرموسومز کا مکمل سیٹ) پر کام کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہم پودوں کی پروٹین اور دوسرے کیمیکلز پر کام کر رہے ہیں، مطلب یہ کہ اس انسٹی ٹیوٹ میں ہم پودے کے کام کرنے کے خلیات کے لیول، فیلڈ لیول، پاپولیشن لیول، انفرادی لیول، مالیکول کا لیول اور دیگر تمام لیول پر کام کر رہے ہیں، دنیا میں ایسے بہت کم انسٹی ٹیوٹ ہیں جہاں ان تمام لیولز پر ایک ہی چھت کے نیچے کام کیا جارہا ہو۔ ایک طرح سے یہ ہمارے اس انسٹی ٹیوٹ کی انفرادیت ہے۔ ہمارا اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سمیت بہت سے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ اشتراک ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن کی موجودہ ڈائریکٹر بلقیس گُل کا کہنا ہے کہ گھارو، بدین اور اطراف کے علاقوں کی بہت ساری زمین سیم و تھور کی وجہ سے خراب ہوچکی ہے، اگر ہمیں فنڈز دیے جائیں تو ہم وہاں قدرتی ماحول میں کاشت کاری کر سکتے ہیں، یہ جامعہ کراچی کے تحت چلنے والے اس ادارے کو فنڈز کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بجٹ میں ہمارا فنڈ پندرہ لاکھ روپے مختص کیا جاتا ہے، اس فنڈ میں توہم یہاں کے مینٹینینس کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتے، صرف آلات کو ہی ورکنگ کنڈیشن میں رکھنے کے لیے پچاس ساٹھ لاکھ روپے سالانہ چاہیے۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہائرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے روکی گئی ریکرنگ (متوازی) گرانٹ ہے، اگرچہ یہاں کے اسٹاف کی تنخواہیں جامعہ کراچی ادا کر رہی ہے لیکن ہمیں تحقیقی کاموں، کروڑوں روپے مالیت کے آلات کو بچانے کے لیے، ان کی مینٹی نینس کرنے کے لیے فنڈز چاہییں۔ اس انسٹی ٹیوٹ کو مکمل طور پر چلانے کے لیے کم از کم پچاس ملین سالانہ کا بجٹ مختص کیا جانا چاہیے، ابھی ہم صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پروگرام میں داخلہ دے رہے ہیں جس میں بایولوجیکل سائنسز کے مختلف شعبوں اور کیمسٹری سے بھی طلبا یہاں آتے ہیں، ہمارے یہاں طلبہ کی تعداد محدود ہے، ایم فل کے لیے پندرہ اور پی ایچ ڈی کے لیے ہر سال دس طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے۔
اس وقت ہمارے پاس سات ریسرچ گرانٹ ہیں، جو کہ ہماری فیکلٹی اپنی مدد آپ کے تحت لے کر آتی ہے۔ لیکن مالی مشکلات کے باوجود یہ انسٹی ٹیوٹ ڈھائی سو کتابیں اور پانچ سو سے زائد تحقیقی مقالے شائع کرواچکا ہے۔ اگر ہمیں تحقیق کے لیے فنڈز عطا کیے جائیں تو نہ صرف تھر بلکہ پاکستان کو غذائی قلت کے بحران سے نکالا جاسکتا ہے۔ ہم پورے تھر کو سرسبزوشاداب بنا سکتے ہیں۔ ہم اس سے ادویات، حیاتیاتی ایندھن، خوردنی تیل اور دیگر بہت سے کیمیکل حاصل کرکے زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔
ہم نے فنڈز نہ ہونے کے باجود اپنی ریسرچ نہیں روکی ہے، اس کے علاوہ ہم یونیسکو کی ایکو سسٹم (ماحولیات) پر شایع ہونے والی ایک کتابی سیریز پر کام کر رہے ہیں، گذشتہ ماہ ہی اس سیریز کی 49 ویں بک شائع ہوئی ہے۔ نجی شعبے کے بہت سے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا، بہت سے لوگوں کی ہزاروں ایکٹر بنجر زمین تھی، ہم نے انہیں بتادیا کہ وہ سارے اخراجات برداشت کریں تو ہم کام کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہمارے پاس آنے والی بزنس کمیونٹی یہ چاہتی ہے کہ آج کام شروع ہو اور دو ماہ بعد ہی زمین سونا اگلنا شروع کردے جو کہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے اور پودوں کو مستحکم کرنے کے لیے کم از کم بارہ سے پندرہ ماہ کا عرصہ لگتا ہے، اس کے بعد آپ اگلے کئی سالوں تک فصل کی کٹائی کرتے رہیں۔
دنیا بھر میں ہیلو فائٹ کی چھے ہزار سے زائد اقسام ہیں، ان میں سے پندرہ فیصد پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں ہم نے جو کیٹلاگ کی ہے وہ چار سو پچاس سے زائد ہیں۔ اور اس میں سے ڈیڑھ سو اقسام پاکستان کے کوسٹل ایریاز میں پائی جاتی ہیں۔ ویسے تو ہلکی نمکین زمین پر پالک، ٹماٹر کی کچھ اقسام ، آلو ، چیکو اُگ جاتے ہیں لیکن ساری فصلوں کے لیے نمکین زمین اور پانی کا استعمال نظری اعتبار سے تو ممکن ہے لیکن عملی طور پر ابھی اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ کا چارج سنبھالنے کے بعد میں نے تھر میں کان کنی کرنے والی ایک کمپنی سے رابطہ کیا، کان کنی میں پانی بہت زیادہ نکلتا ہے، ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے اس پانی کو کہیں نہ کہیں محفوظ طریقے سے استعمال کرنا ضروری تھا، کیوں کہ اس پانی کو صحرا میں نہیں پھینکا جاسکتا، اگر صحرائی زمین پر نمکین پانی ڈال دیا جائے تو وہ علاقہ بالکل برباد ہوجاتا ہے۔ ہم نے اس کمپنی سے کہا کہ ہمارے پاس اس پانی کے استعمال کا ایک متبادل طریقہ ہے۔
ہم اس پانی سے اتنا چارہ پیدا کردیں گے کہ تھر میں پھر کبھی قحط نہیں آئے گا، پھر ہم نے 'بایو سلائین ایگری کلچر' کے نام سے اس پراجیکٹ کا آغاز کیا، ڈرپ ایری گیشن کا سسٹم بنایا۔ اس کمپنی نے اس کام کے پائلٹ پراجیکٹ کا خرچہ بھی خود ہی اٹھایا ہم نے اپنی ٹیکنالوجی انہیں دینے کے لیے ایک روپیہ نہیں لیا۔ تھر میں زمین تیار کرنے اور ڈرپ ایری گیشن کے لیے انہوں نے خرچہ کیا۔ ہیلو فائٹ کے لیے فلڈ ایری گیشن نہیں کی جاسکتی، ڈرپ ایری گیشن ہی کرنی پڑتی ہے جس میں ابتدائی طور پر زیادہ خرچہ آتا ہے۔
اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عام فصل تو ایک بار پک جانے کے بعد اکھاڑ کر دوسری فصل لگائی جاتی ہے، لیکن ہیلو فائٹ کو ایک بار لگانے کے بعد پانچ سال تک جان چھوٹ جاتی ہے۔ تھر میں ابتدائی طور پر ہم نے ڈیڑھ ایکٹر کے رقبے پر یہ کام کیا، پہلے اپنی نرسری میں پودے کی نشوو نما کی، پھر چھوٹے پودوں کو وہاں لے جا کر اپنی نگرانی میں لگوایا۔ اس کو بڑے پیمانے میں تھر میں پھیلانا ہماری گنجائش سے باہر ہے، ایک تنظیم یہ کام کر رہی ہے جس کے ہیڈ وزیر اعلیٰ سندھ ہیں، وہ اس پراجیکٹ کو آگے لے جانے کے لیے بہت زیادہ دل چسپی لے رہے ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میں ہم اس کا دوسرا فیز شروع کریں گے۔
ایک ڈیڑھ سال پہلے حکومتِ سندھ کے ایک وزیر نے فوڈر پلانٹیشن پر ہم سے کونسیپٹ نوٹ مانگا تھا کہ بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ کو یہ پروگرام بہت پسند آیا ہے۔ ہمارے پاس کچھ فنڈ ز ہیں جن سے ہم اس منصوبے کو فروغ دینا چاہ رہے ہیں، ہم وہاں آپ کی لیباریٹری بنائیں گے، لیکن اس کے بعد کوئی جواب نہیں آیا، اس کے علاوہ چند ماہ پہلے ہی گورنر صاحب نے ہمیں بلایا، ہم نے انہیں اس پراجیکٹ کی تمام تر تفصیلات سے آگا ہ کیا، انہوں نے بھی اس میں کافی دل چسپی ظاہر کی، لیکن ابھی تک اس معاملے میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہاں میں ایک بات یہ بھی بتادوں کہ دنیا کے چند گنے چُنے ممالک میں ہی ہیلو فائٹ پر کام ہورہا ہے، چین روایتی فصلوں کو بھی نمکین پانی اور بنجر زمین پر اگانے کے لیے کافی کام کر رہا ہے ، انہوں نے حال ہی میں صحرا میں چاول اگانے کا ایک تجربہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران، تیونس، اسرائیل، امریکا، ترکی میں بھی اس پر تھوڑا بہت کام ہورہا ہے۔
ہیلوفائٹ کے طبی فوائد
ڈاکٹر بلقیس گُل کے مطابق پاکستان میں پائے جانے تقریباً تمام ہیلو فائٹ میں کوئی نہ کوئی طبی خصوصیت ہے، یہ اینٹی آکسیڈینٹ مانع تکسید مادے کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، ہیلو فائٹ میں دوسرے پودوں کی نسبت اینٹی آکسیڈنٹ کئی سو گنا زیادہ ہوتا ہے۔
ہم ہیلو فائٹ کی ان خصوصیات سے فائدہ اٹھا کر کثیر زرمبادلہ بھی حاصل کر سکتے ہیں، آپ سمندر کے پانی سے بنجرزمین پر اسے کاشت کریں، اس میں سے طبی خواص کے حامل کیمیکلز کشید کر کے انہیں بیروں ملک برآمد کریں، یہ دنیا بھر میں مہنگے داموں بکنے والا کیمکل ہے، کیوں کہ اس کی طلب بہت زیادہ ہے۔ اس میں تو ہمارا فائدہ سو فیصد ہے کیوں کہ نہ ہی ہم اچھا پانی استعمال کررہے ہے اور نہ ہی اچھی زمین۔ ہم نمکین پانی اور بنجر زمین استعمال کرکے آپ کو ایک دنیا بھر میں بے پناہ طلب والی کموڈیٹی دینے کو تیار ہے۔
یہ تو محض ایک کیمیکل ہے۔ ہیلو فائٹ کے ہر پودے کے کوئی نہ کوئی طبی خواص ہیں۔ مثال کے طور پر Cressa cretica Linn کو آپ زخموں کے علاج میں، Tribulus terrestris Linn کو جریان، ضعف کے لیے، Acacia nilotica (L.) Willd کو لیکوریا اور پیچش، Ipomoea pes-caprae (Linn.) Sweet. کو قبض، دافع تشنج، اسہال اور Zygophyllum simplex Linn. کو امراض چشم اور پیٹ کے کیڑوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔