تعلیم ہی تقدیر بدل سکتی ہے
تعلیم ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم کامیاب لوگوں کو زیادہ سے زیادہ موضوع بحث بنائیں۔
مشہور ولایتی مثل ہے کہ گھر کو غربت سے نکالنا ہو تو بچے ہنر مند بنا دو۔ اب ہمارے ہاں ''ہنر مند'' کی بھی دو قسمیں پائی جاتی ہیں ایک وہ جو ''مستری'' قسم کے ہنرمند ہیں اور دوسرے وہ جو انجینئر ہیں۔ دونوں کام تو ایک ہی کرتے ہیں مگر دونوں کے کام میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مستری عمارت میں مختلف جگاڑ لگا کر کام چلاتا ہے اور انجینئر عمارت کا ہر زاویے سے مشاہدہ کر کے دھوپ، چھاؤں، ہوا، پانی، آندھی، بارش، زلزلہ، سیلاب، نکاسی آب اور بجلی وغیرہ کو مدنظر رکھ کر مشاہدہ کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ''مستری'' 15 سو روپے دہاڑی کے عوض دستیاب ہوتا ہے جب کہ انجینئرز محض مشاورت یا پیپر ورک کے ہی خاصے پیسے وصول کر لیتا ہے (انجینئرزکا کیا ہوا کام نسلوں چلتا رہتا ہے اور مستری کی عمارت چاہے دوسرے دن ہی زمین بوس ہو جائے) لیکن ہم سوچتے ہیں کہ ''مستری'' بہترین آپشن ہے۔ ہماری اجتماعی سوچ ''بس کام چلاؤ'' والی ہو گئی ہے۔ ہم نے مینڈک کی طرح کنویں کو ہی سمندر سمجھ لیا ہے۔ ہم جگاڑ لگانے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ بڑی سے بڑی عمارت کو بھی کمزور بنیادوں پر کھڑا کر کے ''دعاؤں'' کے سہارے چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم ایسی قوم بن چکے ہیں کہ 160 ''سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والے'' ممالک میں ہمارا نمبر 8 واں ہے۔ مارکیٹ کی مانگ کے مطابق ڈگریاں دینے والے ادارے بھی انجینئر نہیں مستری پیدا کر رہے ہیں۔ ہمیں سابق حکمرانوں نے دو وقت کی روٹی پوری کرنے میں اس قدر الجھا دیا ہے کہ ہمیں مستقبل سے زیادہ حال نے پریشان کیا ہوا ہے۔ تعلیم اور صحت ہماری ترجیحات کے پچھلے درجوں میں چلی گئی ہیں۔ تبھی تو ہماری اعلیٰ عدالتیں تعلیم کے حوالے سے حکومتوں کی کارکردگی پر تشویش کا اظہار کرتی نہیں تھکتیں۔ بلاشبہ ہمارے تعلیمی معیار کا دکھ کسے نہیں ہے؟ لیکن اس وقت اس بحث میں پڑے بغیرکہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے۔ آئیے اُن ممالک اور قوموں کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی بنائی ہوئی اشیاء دنیا بھر میںکھربوں ڈالر کا بزنس کر رہی ہیں اور ہم جیسے ممالک ان کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔
اگر ہم یہودیوں کی بات کریں تواس وقت یہودی بزنس، انجینئرنگ سائنس اور دیگر شعبوں میں باقی قوموں سے بہت آگے ہیں، پوری دنیا کے بزنس کا 70 فیصد حصہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والے فیصلوں پر یہودی پوری طرح اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ اکثر فیصلے ان کی مرضی سے ہوتے ہیں۔بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں یہودیوں کی ہیں جن کا نیٹ ورک پوری دنیا میں ہے ۔ فیشن، کاسمیٹکس، فوڈ آئٹمز، مشروبات، ہوٹلز، کمپیوٹرز انفارمیشن سسٹم، میڈیسن، آپٹکس، سافٹ ویئرز، کنزیومر گڈز، فلم انڈسٹری (ہالی وڈ) اور ایڈوانس ٹیکنالوجیز میں ان کی سبقت مسلّم ہے۔ بزنس کی دنیا میں بہترین اور کامیاب ترین برانڈز یہودیوں کے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں یہودی بہت آگے ہیں۔ صرف آج تک ملنے والے نوبل پرائز پر ہی نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ انعامات حاصل کرنے میں یہودی سب سے آگے ہیں۔ اب تک مختلف شعبوں میں جو نوبل انعام یہودیوں کے حصے میں آئے وہ یہ ہیں :کیمسٹری 32، اکنامکس 25، لٹریچر 13، امن 9، فزکس 47، بیالوجی/مڈیسن 54 جب کہ آج تک صرف 2 مسلمانوں کو نوبل انعام حاصل ہو سکا ہے۔
آپ امریکا کی مثال لے لیں، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس وقت دنیا کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں سے 8 یونیورسٹیاں امریکا کی ہیں۔ امریکا ہی کی ''اسٹینفورڈ یونیورسٹی'' سب سے زیادہ نوبل فاتحین کے ساتھ تعلیمی اداروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے، جب کہ نوبل انعام جیتنے والے ماہرین کی قومیت کی بنیاد پر بھی امریکی فاتحین ٹاپ 10 پوزیشن پر غالب ہیں۔ امریکی سائنس دانوں نے 71 نوبل انعامات جیتے ہیں، جب کہ مشترکہ طور پر نوبل انعام جیتنے والے کل فاتحین کی تعداد 146 ہے۔ امریکی تاریخ میں 2006ء کو ایک سنہرا سال بتایا گیا ہے، جس میں اس صدی کے آغاز کے بعد پہلی بار تمام نوبل انعام یافتہ شخصیات کا تعلق ایک ہی ملک سے تھا اور وہ اسی ملک کے تعلیمی اداروں کے ساتھ منسلک تھے۔ اسی طرح دیگر یورپی تعلیمی درسگاہیں اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
یہ ممالک اپنے گریجوایٹس کو کھلا نہیں چھوڑ دیتے بلکہ گریجویشن کے بعد اس کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسے آسان شرائط پر قرض فراہم کرتے ہیں ، تاکہ وہ اپنا کارخانہ لگا سکے، اپنا کاروبار کر سکے، مارکیٹنگ کمپنی بنا سکے، سافٹ وئیر ہاؤس بنا سکے، فوڈ ہاؤس بنا سکے۔ کپڑا بنانے کا چھوٹا سا یونٹ بنا سکے یا ایسی مشینری بنا سکے جو مستقبل میں انقلاب برپا کر دے۔ یا کوئی ایسی ایپلی کیشن بنا دے جس کے سامنے دنیا سرتسلیم خم کردے۔ لیکن اس کے برعکس ہم اپنے نوجوانوں کو ''کرائم کی دنیا'' میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
حکومتوں کے پاس ان کے لیے کوئی خاص پروگرام نہیں ہے۔ابھی حال ہی میں اسرائیل کے سائنسدانوں نے چیری کے سائز کے برابر دل بنایا ہے جو جلد ہی مارکیٹ میں فروخت کیا جا سکے گا۔ یقینا اسرائیل اس سے اربوں ڈالر کمائے گا۔ پاکستان جیسے درجنوں ملک اس کے سب سے بڑے خریدار ہوں گے۔کیوں نہ ہم بھی اپنے نوجوانوں سے ایک ایسی پراڈکٹ بنوا لیں جو اس ملک کی تقدیر بدل دے۔ ایک ایسی پراڈکٹ جس کا پاکستان ہی اسپیشلسٹ ہو۔ یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہم اپنے نوجوانوں کو وسائل دیں گے۔
تعلیم ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم کامیاب لوگوں کو زیادہ سے زیادہ موضوع بحث بنائیں تاکہ ہمارے اندر بھی کچھ کرنے کی تحریک پیدا ہوسکے۔ ہمیں بطور والدین اپنے بچے کو کل کے لیے تیار کرنا ہو گا بالکل اسی طرح جس طرح ڈاکٹر اسٹیفن کامیاب قوم کے بچوں کی تربیت پر تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب بچہ اس دنیا میں آنکھ کھول لیتا ہے اور ان کی توقع کے عین مطابق جس طرح کی صلاحیتیں وہ چاہتے ہیں اس بچے میں موجود ہوتی ہیں تو پھر بچے کی ان صلاحیتوں پر محنت شروع ہو جاتی ہے۔ بچے کم از کم دو سال کی عمر میں کنڈر گارٹن میں داخل ہو جاتے ہیں، اس سے پہلے گھر پر تربیت ہوتی ہے۔ بچوں کو گریڈ 1سے 6 تک جب بچے کی عمر چھ سے گیارہ سال کے درمیان ہوتی ہے بزنس میتھ میکٹس اور سائنس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ہمارے بچے ویڈیو گیمز، کارٹونوں اور کمپیوٹر گیمز میں الجھے رہتے ہیں۔
اسرائیل میں دو سال سے لے کر سترہ سال تک کے ہر بچے کے لیے تعلیم لازمی اور فری ہے۔ 90 فیصد تعلیمی ادارے گورنمنٹ خود چلا رہی ہے۔ اسرائیلی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ بچوں کو ایسا ماحول دیا جائے جس میں ان کا سیاسی، مذہبی اور کلچرل بیک گراؤنڈ بھی انھیں مکمل سپورٹ کر رہا ہو تاکہ وہ آگے چل کر دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچا سکیں۔ جب کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم کا ایسا ملغوبہ تیار کیا گیا ہے جسے آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا۔
لہٰذا عمران خان آج جب مشکل حالات میں ہیں اور پرانی حکومتوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنسے ہوئے ہیں تو انھیں چاہیے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے خصوصی پیکیجز کا اعلان کریں۔ ملک میں تعلیم پر فوکس کریں۔ دنیا بھر کے ڈونرز کو اس ملک کے بے شمار تعلیمی پراجیکٹ دیں۔ چونکہ دنیا ''پرپوزل'' مانگتی ہے اس لیے عمران خان ایسی ٹیم ہائیر کریں جو تعلیم کی بہتری کے لیے مختلف پروپوزل بنائے۔ آج اگر خزانے میں پیسہ نہیں بھی ہے تو دنیا کے بڑے بڑے ڈونر تعلیم پر پیسہ خرچ کرنے کے لیے بے تاب ہیں، یقینا اچھی پروپوزل کوئی نہیں ٹھکرائے گا لہٰذا دنیا کو یہ باور بھی کرائیں کہ اس دفعہ اُن کا پیسہ کرپشن کی نذر نہیں ہوگا بلکہ ٹھیک جگہ صرف ہوگا! آپ دیکھیں گے کہ اگر ایک بھی پراجیکٹ ''کلک '' کرگیا تو پاکستان محض ایک دہائی میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا۔