بلدیاتی اختیارات کون دے گا
ملک میں بلدیاتی نظام کے سلسلے میں تمام حکمران سیاسی جماعتیں آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی مرتکب ہو چکی ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے میئر کراچی سے ان کے اختیارات اور ریونیو کی تفصیلات طلب کرلی ہیں ۔ سپریم کورٹ میں میئر کراچی نے کہا کہ ان کے اختیارات انتہائی محدود ہیں ، میرے پاس تو بلدیاتی ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو میں کے الیکٹرک کو بل کیسے دوں۔ شہر کی پراپرٹی، چارجڈ پارکنگ، لائسنس فیس سب ریونیو سندھ حکومت لے جاتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کراچی ملک کی لائف لائن ہے یہاں کوئی تھنک ٹینک نہیں جو بتائے کہ شہر کیسے چلانا ہے۔ سارے ملک کی طرح کراچی میں بھی سارا مسئلہ اعتماد کے فقدان کا ہے۔ کراچی کی بجلی کاٹ کر کیا کراچی کو ڈبونا ہے۔
یہ شہر ہم سب کا ہے سندھ حکومت بلدیہ عظمیٰ کراچی کو الگ کیوں سمجھتی ہے۔ بلدیہ کے ملازمین غیر ملکی نہیں انھیں سندھ حکومت اپنا کیوں نہیں سمجھتی؟ بلدیہ عظمیٰ کی پچاس کروڑ کی گرانٹ سے 20 کروڑ روپے کے ڈی اے کو کیوں دیے جاتے ہیں؟ عدالت نے اس سلسلے میں کوئی بھی مناسب حل تجویز نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اختیارات کا مسئلہ بھی کیا ہمیں دیکھنا پڑے گا؟
جسٹس مقبول باقر نے اس موقع پر مزید کہا کہ کیا اس شہر کی سانس نہیں چلانی؟ اس شہر سے حکومت اتنا ریونیو لیتی ہے تو کیا اس شہر پر خرچ نہیں کرنا۔ انھوں نے کہا کہ سندھ حکومت ہمارے نرم رویے کو غیر سنجیدہ نہ لے ایسا نہ ہو کہ ہم حکومت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کے اختیارات کا خود جائزہ لیں اور فیصلہ دیں۔ سپریم کورٹ میں یہ ریمارکس کے الیکٹرک کے بلوں کی عدم ادائیگی کے معاملے کی سماعت پر دیے گئے ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کے میئر اس سے قبل بھی اپنے اختیارات کے سلسلے میں درخواست کرچکے ہیں۔ جماعت اسلامی کا بھی اس سلسلے میں عدلیہ میں معاملہ زیر سماعت ہے۔ سٹی حکومت تین سال اختیارات کے بغیر سندھ حکومت کی محتاجی میں گزار چکی ہے مگر اب تک اختیارات نہیں ملے اور اب سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی کہنا پڑا کہ انھیں بلدیہ عظمیٰ کے اختیارات کا جائزہ لینا پڑے گا ۔ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کے یہ ریمارکس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ ہی اس سلسلے میں فیصلہ دے کیونکہ بے اختیار بلدیاتی اداروں نے اپنی مدت کے جو تین سال مکمل کیے ہیں وہ واقعی مایوس کن ہیں کیونکہ سندھ حکومت نے جان بوجھ کر بلدیاتی اداروں کو ان کے آئینی اختیارات سے محروم کر رکھا ہے اور یہ اختیارات سندھ حکومت نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر سندھ اسمبلی کے ذریعے سلب کیے تھے۔
واضح رہے کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے نہیں کرائے تھے بلکہ دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی ادارے سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے کئی سال تک حوالے کر رکھے تھے اور جنرل پرویز مشرف کے بعد دونوں بڑی حکومتوں نے اپنے صوبوں میں 6 سال تک بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے تھے جس پر سپریم کورٹ نے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا مگر دونوں سیاسی حکومتوں نے منتخب بلدیاتی اداروں کو چارج لینے نہیں دیا تھا۔ ملک میں بلدیاتی الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے اور سیاسی حکومتوں نے ہمیشہ آئین سے انحراف کیا جب کہ ملک میں تین فوجی جنرلوں نے اپنی حکومتوں میں چھ سات بار بلدیاتی انتخابات کرائے جنھیں آمر کہا جاتا ہے جب کہ آمروں نے آئین پر عمل کرایا تھا۔
آئین پر عمل کی زیادہ ذمے داری سیاسی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ غیر جمہوری حکومت تو آئی ہی غیر آئینی طور پر ہے مگر کبھی غیر آئینی قرار نہیں پائی کیونکہ جب بھی ایسا مرحلہ آیا انھوں نے ایسے جواز پیش کیے جو درست قرار پائے۔ ایک ایسی مثال آئین کی دفعہ A40 ہے جس کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری ہیں جس پر سیاسی حکومتیں اس لیے عمل نہیں کراتیں کہ انھیں اپنے ارکان اسمبلی کو خوش کرنا پڑتا ہے کیونکہ ارکان اسمبلی اپنی قانونی ذمے داری سے انحراف کرکے کمائی اور اقربا پروری کے لیے بلدیاتی فنڈ مانگتے ہیں جو ان کا نہیں بلکہ بلدیاتی اداروں کا قانونی اختیار ہوتا ہے مگر ترقیاتی فنڈ کے نام پر سیاسی حکومتیں یہ فنڈ اپنے ارکان اسمبلی کو غیر قانونی طور پر دیتی ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اس فنڈ کے مخالف تھے مگر (ق) لیگ کی سیاسی حکومت میں انھیں اس مسئلے پر خاموش رہنا پڑتا تھا اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی اقتدار میں آنے سے قبل ارکان اسمبلی کو دیے جانے والے ترقیاتی فنڈ کو سیاسی رشوت قرار دیتے تھے مگر اقتدار میں آکر انھوں نے 5 سال تک کے پی کے کو جنرل پرویز مشرف جیسا بااختیار بلدیاتی نظام نہیں دیا اور اب پنجاب میں ان کی حکومت اقربا پروری کرکے اپنے ارکان کو یہ غیر قانونی ترقیاتی فنڈ فراہم کر رہی ہے۔
عمران خان نے اقتدار ملنے سے قبل ملک کو بااختیار بلدیاتی نظام دینے کا اعلان کیا تھا اور 2013 میں کے پی کے میں حکومت ملنے کے بعد عمران خان کو اپنے صوبے میں بااختیار بلدیاتی نظام دے کر ملک کے باقی صوبوں کے لیے مثال قائم کرنی چاہیے تھی مگر انھوں نے کے پی کے میں جو بلدیاتی نظام نافذ کرایا وہ چوں چوں کا مربہ تھا جو مکمل طور پر صوبائی حکومت کے ماتحت تھا جس میں بلدیاتی نمایندوں کو برائے نام ایسے ہی اختیارات حاصل تھے جیسے سندھ پنجاب اور بلوچستان میں حاصل تھے۔ تحریک انصاف بااختیار بلدیاتی نظام دے کر ملک میں اچھی مثال قائم کرسکتی تھی مگر بلدیاتی نظام کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی نکلی جو بلدیاتی نظام ہی کے خلاف ہیں اور تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف نے بھی ثابت کردیا کہ وہ بھی بااختیار بلدیاتی نظام کی حامی نہیں اور نہ ایسا چاہتی ہے۔
پنجاب میں منتخب بلدیاتی عہدیداروں اور تمام میئروں کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے کیونکہ 3 سال قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف پنجاب ہی نہیں سندھ میں بھی بری طرح ناکام ہوئی تھی اور 8 ماہ قبل پنجاب میں مخلوط حکومت بنانے والی تحریک انصاف نے پنجاب کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کے منتخب میئروں کو اپنے ہی فنڈز کے استعمال سے روک دیا تھا اور ان کے اختیارات سلب کردیے تھے جس کے بعد پنجاب کے بلدیاتی ادارے مفلوج ہیں اور پی ٹی آئی جون میں ان عہدیداروں کو ہٹا کر آیندہ سال بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی ہے۔
ملک میں بلدیاتی نظام کے سلسلے میں تمام حکمران سیاسی جماعتیں آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی مرتکب ہو چکی ہیں جب کہ بااختیار بلدیاتی نظام جمہوریت کی بنیاد ہے اس لیے سپریم کورٹ کو حکومتوں کی آئینی خلاف ورزی کا نوٹس لے کر بلدیاتی اختیارات کا تعین کردینا چاہیے۔