اتحادِ بین المُسلمین

مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب تفرقہ بازی،  اسلامی تعلیمات سے دُوری، اسوۂ نبویؐ سے انحراف اور باہمی جنگ و جدل ہے

مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب تفرقہ بازی،  اسلامی تعلیمات سے دُوری، اسوۂ نبویؐ سے انحراف اور باہمی جنگ و جدل ہے۔ فوٹو: فائل

مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کا شیرازہ اس وقت بکھرا ہوا ہے، وہ افتراق و انتشار کا شکار ہیں، معاشی طور پر دوسروں کے دست نگر ہیں، سیاسی طور پر محکوم ہیں، عسکری لحاظ سے پرانے اور فرسودہ حربی آلات پر قناعت کیے ہوئے ہیں، مذہبی نقطۂ نظر سے ٹولیوں اور جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، بین الاقوامی سیاست میں ان کا وزن نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

گاجر مولی کی طرح انہیں کاٹا جا رہا ہے اور خدا کی وسیع زمین ان پر تنگ کی جا رہی ہے، ننھے معصوم بچوں کو بھی گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، بہنوں کے سروں سے دوپٹے کھینچے جارہے ہیں، مسلمان آبادی پر وہاں کے نفوس سے بھی زیادہ تعداد میں بم گرائے جاتے ہیں، اور مسلمان صرف آہ و بکا اور چیخ و پکار کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ اسی پر بس نہیں بل کہ اب دشمن قوتیں آپس میں متحد ہوکر مسلمانوں پر آخری اور کاری ضرب لگانا چاہتی ہیں۔ وہ دیکھ رہی ہیں کہ مریض مضمحل، نڈھال اور جان بلب ہے، زخموں سے بدن چُور چُور ہے، نبض ڈوب رہی ہے، آنکھیں پتھرا رہی ہیں، جسم بے حس و حرکت ہے۔ یہ دیکھ کر گِدھ اس کے اردگرد منڈلا رہے ہیں، اور کیڑوں کی طرح آس پاس جمع ہو رہے ہیں۔

یہ منظر دیکھ کر کھلی آنکھوں سے آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مشاہدہ ہو رہا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ: '' یہ قومیں تمہیں ہڑپ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو بُلائیں گی اور تم پر اس طرح جھپٹا ماریں گی جس طرح بھوکے کھانے کی پلیٹ پر جھپٹتے ہیں۔'' (ابوداؤد)

مسلمان اپنی اس بے کسی، بے چارگی اور قوموں کے درمیان اپنے اس مقام پر پریشان ہیں، کئی ایک نسلیں اس جور و ستم اور جبر و ظلم کا شکار ہوچکی ہیں مگر اندھیری رات ہے جس کی قسمت میں صبح کا اجالا نہیں۔ لیکن اب پیمانۂ صبر لبریز ہو رہا ہے، برداشت کی قوت جواب دے چکی ہے، جسم میں اتنی سکت اور روح میں اتنی طاقت نہیں رہی کہ مزید کچھ عرصہ اس بھٹی کا ایندھن بنے رہیں۔ مگر افسوس صد افسوس اور حسرت بالائے حسرت! مسلمان اس گرداب سے نکلنا چاہتے ہیں، مگر جتنا زور لگاتے ہیں اتنا ہی دھنستے چلے جاتے ہیں۔

منزل کے پیچھے بھاگتے ہیں مگر وہ سراب ثابت ہو رہی ہے۔ترقی ترقی پکارتے ہیں مگر مزید تنزل تنزل کی صدائیں آنے لگتی ہیں۔کسی کو نجات دہندہ سمجھ کر اس کے پیچھے چلتے ہیں مگر وہی سب سے بڑا خائن اور غدار ثابت ہوتا ہے۔ بدقسمتی کی گرہ مسلمانوں کے نصیب میں پڑ چکی ہے، جتنا زور لگاتے ہیں اتنی ہی کَستی چلی جاتی ہے۔


قرآن کریم کی صداقت پر قربان جائیے، سچ فرمایا اس احکم الحاکمین نے: ''جس کو اللہ نے روشنی نہیں دی اس کے لیے کہیں روشنی نہیں۔''

افسوس کہ آج تک مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہوئی، غیروں کے پیمانوں، اوروں کے اصولوں، دیگر کی تدابیر اور خدا فراموش اقوام کے نظریات سے مسلم جسد کا علاج کیا جا رہا ہے۔ یورپ کی عینک لگا کر اپنے مصائب کا حل، اپنے مرض کی دوا، اور اپنے دکھوں کا مداوا تلاش کیا جا رہا ہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقۂ علاج کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا، نہ جانے دلوں میں ایمان نہیں رہا یا یقین اٹھ چکا ہے۔

ذرا چودہ صدیاں پیچھے پلٹ کر دیکھیے اور چشم تخیل اور قوت فکر سے اس وقت اور ماحول کا نظارہ کیجیے، مٹھی بھر مسلمان ہیں، نہ طاقت نہ قوت، نہ حکومت اور نہ ظاہری آلات و اسباب، مگر سینے یقین سے معمور، خدا پر بھرپور توکل و اعتماد، آپس میں اتحاد و اتفاق، ایک دوسرے کے غم سے غمگین، درد سے درد منداں، اور تکلیف سے پریشاں، نتیجہ یہ ہوا کہ مٹھی بھر جماعت، کیل کانٹوں سے لیس افواج ، متمدن ریاستوں اور بڑی بڑی طاقتوں پر غالب آگئی، حق کا کلمہ بلند ہوا، طاغوتی قوتیں ناکام ہوئیں، شر کی قوتیں ختم ہوئیں یا دب گئیں، اور خدا کا دین تمام ادیان پر، قرآن تمام کتابوں پر اور مسلمان تمام اقوام پر غالب آکر رہے۔

آج مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب باہم تفرقہ بازی، اختلافات، اسلامی تعلیمات سے انحراف، اسوۂ نبویؐ کو مشعل راہ نہ بنانا ، باہمی اتحاد و اتفاق کو فراموش کرنا اور اسلاف کے نقش قدم سے دوری ہے۔ لہٰذا آج بھی اگر مسلمان اپنے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں تو نسخہ وہی ہے کہ خدا پر غیر متزلزل یقین و اعتماد ، کردار کی پاکیزگی و طہارت اور آپس میں اتحاد، اخوّت اور بھائی چارے کو بروئے کار لایا جائے۔

یہی آسمانی پیغام ہے، یہی قرآن کی پکار ہے، یہی نبی کریم ﷺ کی نصیحت ہے اور یہی وقت کی اولین ضرورت اور اتحاد بین المسلمین کا نسخۂ کیمیا ہے۔
Load Next Story