محکمہ تعلیم سندھ اسکولوں کی اپ گریڈیشن میں 3 ارب 75 کروڑ روپے کے گھپلے
تعلیمی اداروں کی تعمیر ومرمت کا ذمے دار ایجوکیشن ورکس ڈپارٹمنٹ یہ واضح کرنے سے قاصر ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں خرچ کی گئی
محکمہ تعلیم سندھ کے تحت اسکولوں کی اپ گریڈیشن کے منصوبے میں3 ارب 75 کروڑ روپے کی سنگین بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
بنیادی سہولتوں سے محروم2500 پرائمری، مڈل اور سیکنڈری اسکولوں کی اصلاحات پروگرام کے تحت اپ گریڈیشن کے لیے10 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ ایجوکیشن ورکس ڈپارٹمنٹ جو تعلیمی اداروں کی تعمیر و مرمت کا ذمے دار ہے، کے دعوے کے مطابق اس بجٹ میں سے پونے4 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں مگر وہ یہ واضح کرنے سے قاصر ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں خرچ کی گئی۔
مزید برآں محکمہ تعلیم نے منصوبے کی مدت تکمیل میں توسیع کردی ہے مگر وہ خرچ کردہ رقم کا حساب لینے میں ناکام ہے۔2017 میں ورلڈ بینک نے اس منصوبے کے لیے20.8 ملین ڈالر فراہم کیے تھے۔ منصوبے کا آغاز اسی برس ہوگیا تھا اور اسے دسمبر2018 تک مکمل ہوجانا تھا۔
ایکسپریس کے رابطہ کرنے پر سیکریٹری تعلیم شاہد پرویز نے بتایاکہ منصوبے کو 2مراحل ( فیز ) میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ شاہد پرویزکے مطابق پہلے مرحلے میں شامل 12 میں سے 10اسکیمیں دسمبر 2018 تک مکمل کرلی گئی تھیں اور باقی بھی جلد تکمیل کو پہنچ جائیں گی تاہم سیکریٹری تعلیم یہ بتانے میں ناکام رہے کہ یہ رقم کہاں کہاں خرچ کی گئی یا کون سے اسکول بحال کیے گئے۔ یہ منصوبہ وزیراعلیٰ کے احکام پر شروع کیا گیا تھا اور اس کا ہدف صوبے میں ایجوکیشن سیکٹرکے موجودہ انفرااسٹرکچر کو مضبوط کرنا تھا۔
آئیڈیا یہ تھاکہ منصوبے پر عملی کام کا آغاز ان اسکولوں سے کیا جائے جہاں بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو، یہ اسکول زیادہ تر گنجان آباد علاقوں میں واقع تھے۔ اسکول میں زیرتعلیم بچوں کی بڑی تعداد ہر سال اپنی پرائمری تعلیم مکمل کرلیتی تھی۔ چناں چہ ان اسکولوں کو فوری طور پر مڈل یا سیکنڈری اسکولوں میں اپ گریڈ کرنے کی ضرورت تھی۔ محکمہ تعلیم کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق 42 لاکھ طلبا میں سے 68 فیصد صوبے کے24 فیصد اسکولوں میں زیرتعلیم ( انرول)ہیں۔
ابتدائی طور پر محکمہ تعلیم نے4560اسکولوں کی نشان دہی کی جنھیں فوری اپ گریڈیشن کی ضرورت تھی۔ ان میں سے 3890 اسکول پروگرام کے تحت اپ گریڈیشن کے لیے منتخب کیے گئے۔ محکمہ تعلیم کے ریکارڈکے مطابق ان اسکولوں میں998202 طلبازیرتعلیم تھے۔ بعدازاں اسکولوں کی تعداد میں مزید کمی کرکے اسے2885 تک لایا گیا جو ورلڈ بینک کی تجویز کردہ 2500 اسکولوں کی تعداد سے کچھ زیادہ تھی۔
محکمہ ایجوکیشن ورکس نے اسکولوں کی اپ گریڈیشن پر اخراجات کا تخمینہ2 ارب 43 کروڑ روپے لگایا۔ کہا گیاکہ یہ رقم 9582 کلاس رومز کی تعمیر بمع چاردیواری، بیت الخلا، چھت اور دیگر کاموں کے لیے استعمال کی جائے گی۔
علاوہ ازیں اسکولوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے8 ارب روپے درکار تھے۔ اسکولوں کی جانب سے پی سی ون یعنی پروجیکٹ کے پروپوزل محکمہ ایجوکیشن ورکس کے انجنیئروں کے فیلڈ سروے اور لاگت کا تخمینہ لگائے جانے کے بعد تیار کیے گئے۔
تمام پی سی ون پراونشیل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی ( PDWP ) کو پیش کیے گئے جس نے 26 جنوری 2018 کو منظوری دے دی۔ بعدازاں سندھ ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ نے فروری2018 میں 29 اسکیموں کی انتظامی منظوری دے دی۔ اگلے ہی ماہ میں فنانس ڈپارٹمنٹ نے بھی اسے منظور کرلیا اور27 مارچ 2018 کو 3 ارب 75 کروڑروپے جاری کردیے۔ کچھ عرصے بعد سندھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی ( SPPRA ) نے محکمہ ایجوکیشن ورکس کے تمام انجنیئروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے گاڑیوں کی خریداری کے لیے جاری کردہ ٹینڈر نوٹسز، جن اسکولوں کے لیے گاڑیاں خریدی گئیں ان کے نام اور ان اسکولوں میں کیے گئے ہرکام کی تفصیل طلب کرلی۔
نوٹس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ 2010 میں جاری کردہ سندھ پروکیورمنٹ رولز میں 2018 میں ترمیم کے بعد ٹینڈر نوٹسز میں منصوبوںکی تمام تفصیل اور اس کے اسکوپ کی صراحت ضروری ہے۔ بیشتر ایگزیکٹوانجنیئر ہر اسکول کی الگ الگ ضروری تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام رہے جہاں مبینہ طور پر تعمیر ومرمت کا کام کیا جارہا تھا۔ اس کے بجائے انھوں نے یہ کیاکہ ایک اسکیم میں شامل تمام اسکولوں کے مجموعی اخراجات کی فہرستیں فراہم کردیں۔
پروکیورمنٹ سے متعلق دستاویزمیں نہ ہی ان اسکولوں کے نام شامل تھے اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا تھاکہ کس اسکول پر کتنی رقم خرچ ہونی تھی۔ ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا تھاکہ یہ انداز اختیار کرنے کی وجہ سے ایک اسکول کے لیے درکار کام کی لاگت کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں جس کی وجہ سے شفافیت اورکھلی مسابقت ( اوپن کمپٹیشن ) کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔
نوٹس میں کہا گیاکہ پروکیورمنٹ ایجنسیوں کو اس معاملے سے آگاہ کردیا گیا ہے، اس کے باوجود انھوں نے بے قاعدگیاں ختم کرنے کے لیے تاحال کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اسی دوران ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا ایک نمائندہ یہ معاملہ سپریم کورٹ لے گیا جہاں اس نے ٹینڈرنگ پروسیجر کی تفصیلات فراہم کرنے کی استدعاکی۔
سپریم کورٹ نے پروکیورمنٹ ایجنسی کو سوالوں کے جواب مہیا کرنے کی ہدایت کی، مگر متعلقہ پروکیورمنٹ ایجنسی کے نمائندے نے عدالت میں جو جواب داخل کیا وہ2018 میں ترمیم شدہ سندھ پروکیورمنٹ رولز ( 2010) کے رول17( 3 ) ( c ) کے برخلاف تھا۔ پروکیورمنٹ ایجنسیوں کو خط کے ذریعے مزید ہدایت کی گئی کہ صورتحال یا معاملے کو رولزکے مطابق درست کریں۔ انھیں پروکیورمنٹ کا عمل ازسرنو شروع کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔
ایجنسیوں کو سندھ پبلک پروکیورمنٹ رولز ( SPP ) پر لازماً عمل درآمد کی ہدایت کرتے ہوئے اتھارٹی نے خبردار کیاکہ اگر نئے ٹینڈرز میں ایسی کوئی بے قاعدگی پائی گئی تو انھیں اتھارٹی کی ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا جائے گا۔ SPPRA نے منصوبے کو ملتوی کرنے کی تجویز بھی دی تاکہ درکار پروسیجر پر عمل درآمد کیا جاسکے۔
اس طرح اتھارٹیز منصوبے کے لیے مختص 10 ارب روپے کی خطیر رقم کے غلط استعمال کی راہ روکنے کے قابل ہوجاتیں۔ سیکریٹری محکمہ تعلیم شاہد پرویز نے دعویٰ کیاہیکہ متذکرہ بالا منصوبہ کامیاب رہا تھا اور ورلڈ بینک کی عائد کردہ شرائط کے علاوہ بھی بہت کچھ کرلیا گیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ منصوبہ 2مراحل میں مکمل ہونا تھا۔ پہلا مرحلہ31 دسمبر 2018 کو پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اور 12 میں سے 10اسکیمیں مکمل کرلی گئی ہیں بقیہ 2 اسکیموں پر کام جاری ہے اور یہ اسکیمیں جون2019 تک مکمل ہوجائیں گی۔
شاہد پرویز نے کہاکہ ورلڈ بینک کی فراہم کردہ رقم کے علاوہ سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لیے 8 ارب روپے مختص کیے تھے تاکہ صوبے میں ایجوکیشن سیکٹر کو بہتر بنایا جاسکے اور ورلڈ بینک پر انحصار ختم کیا جاسکے۔ ورلڈ بینک نے2500 اسکولوں کو بہتر بنانے کی شرط عائد کی تھی مگر حکومت سندھ نے 2632 اسکول اپ گریڈ کیے۔
بنیادی سہولتوں سے محروم2500 پرائمری، مڈل اور سیکنڈری اسکولوں کی اصلاحات پروگرام کے تحت اپ گریڈیشن کے لیے10 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ ایجوکیشن ورکس ڈپارٹمنٹ جو تعلیمی اداروں کی تعمیر و مرمت کا ذمے دار ہے، کے دعوے کے مطابق اس بجٹ میں سے پونے4 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں مگر وہ یہ واضح کرنے سے قاصر ہے کہ اتنی بڑی رقم کہاں خرچ کی گئی۔
مزید برآں محکمہ تعلیم نے منصوبے کی مدت تکمیل میں توسیع کردی ہے مگر وہ خرچ کردہ رقم کا حساب لینے میں ناکام ہے۔2017 میں ورلڈ بینک نے اس منصوبے کے لیے20.8 ملین ڈالر فراہم کیے تھے۔ منصوبے کا آغاز اسی برس ہوگیا تھا اور اسے دسمبر2018 تک مکمل ہوجانا تھا۔
ایکسپریس کے رابطہ کرنے پر سیکریٹری تعلیم شاہد پرویز نے بتایاکہ منصوبے کو 2مراحل ( فیز ) میں تقسیم کردیا گیا تھا۔ شاہد پرویزکے مطابق پہلے مرحلے میں شامل 12 میں سے 10اسکیمیں دسمبر 2018 تک مکمل کرلی گئی تھیں اور باقی بھی جلد تکمیل کو پہنچ جائیں گی تاہم سیکریٹری تعلیم یہ بتانے میں ناکام رہے کہ یہ رقم کہاں کہاں خرچ کی گئی یا کون سے اسکول بحال کیے گئے۔ یہ منصوبہ وزیراعلیٰ کے احکام پر شروع کیا گیا تھا اور اس کا ہدف صوبے میں ایجوکیشن سیکٹرکے موجودہ انفرااسٹرکچر کو مضبوط کرنا تھا۔
آئیڈیا یہ تھاکہ منصوبے پر عملی کام کا آغاز ان اسکولوں سے کیا جائے جہاں بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو، یہ اسکول زیادہ تر گنجان آباد علاقوں میں واقع تھے۔ اسکول میں زیرتعلیم بچوں کی بڑی تعداد ہر سال اپنی پرائمری تعلیم مکمل کرلیتی تھی۔ چناں چہ ان اسکولوں کو فوری طور پر مڈل یا سیکنڈری اسکولوں میں اپ گریڈ کرنے کی ضرورت تھی۔ محکمہ تعلیم کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق 42 لاکھ طلبا میں سے 68 فیصد صوبے کے24 فیصد اسکولوں میں زیرتعلیم ( انرول)ہیں۔
ابتدائی طور پر محکمہ تعلیم نے4560اسکولوں کی نشان دہی کی جنھیں فوری اپ گریڈیشن کی ضرورت تھی۔ ان میں سے 3890 اسکول پروگرام کے تحت اپ گریڈیشن کے لیے منتخب کیے گئے۔ محکمہ تعلیم کے ریکارڈکے مطابق ان اسکولوں میں998202 طلبازیرتعلیم تھے۔ بعدازاں اسکولوں کی تعداد میں مزید کمی کرکے اسے2885 تک لایا گیا جو ورلڈ بینک کی تجویز کردہ 2500 اسکولوں کی تعداد سے کچھ زیادہ تھی۔
محکمہ ایجوکیشن ورکس نے اسکولوں کی اپ گریڈیشن پر اخراجات کا تخمینہ2 ارب 43 کروڑ روپے لگایا۔ کہا گیاکہ یہ رقم 9582 کلاس رومز کی تعمیر بمع چاردیواری، بیت الخلا، چھت اور دیگر کاموں کے لیے استعمال کی جائے گی۔
علاوہ ازیں اسکولوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے8 ارب روپے درکار تھے۔ اسکولوں کی جانب سے پی سی ون یعنی پروجیکٹ کے پروپوزل محکمہ ایجوکیشن ورکس کے انجنیئروں کے فیلڈ سروے اور لاگت کا تخمینہ لگائے جانے کے بعد تیار کیے گئے۔
تمام پی سی ون پراونشیل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی ( PDWP ) کو پیش کیے گئے جس نے 26 جنوری 2018 کو منظوری دے دی۔ بعدازاں سندھ ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈپارٹمنٹ نے فروری2018 میں 29 اسکیموں کی انتظامی منظوری دے دی۔ اگلے ہی ماہ میں فنانس ڈپارٹمنٹ نے بھی اسے منظور کرلیا اور27 مارچ 2018 کو 3 ارب 75 کروڑروپے جاری کردیے۔ کچھ عرصے بعد سندھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی ( SPPRA ) نے محکمہ ایجوکیشن ورکس کے تمام انجنیئروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے گاڑیوں کی خریداری کے لیے جاری کردہ ٹینڈر نوٹسز، جن اسکولوں کے لیے گاڑیاں خریدی گئیں ان کے نام اور ان اسکولوں میں کیے گئے ہرکام کی تفصیل طلب کرلی۔
نوٹس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ 2010 میں جاری کردہ سندھ پروکیورمنٹ رولز میں 2018 میں ترمیم کے بعد ٹینڈر نوٹسز میں منصوبوںکی تمام تفصیل اور اس کے اسکوپ کی صراحت ضروری ہے۔ بیشتر ایگزیکٹوانجنیئر ہر اسکول کی الگ الگ ضروری تفصیلات فراہم کرنے میں ناکام رہے جہاں مبینہ طور پر تعمیر ومرمت کا کام کیا جارہا تھا۔ اس کے بجائے انھوں نے یہ کیاکہ ایک اسکیم میں شامل تمام اسکولوں کے مجموعی اخراجات کی فہرستیں فراہم کردیں۔
پروکیورمنٹ سے متعلق دستاویزمیں نہ ہی ان اسکولوں کے نام شامل تھے اور نہ ہی یہ واضح کیا گیا تھاکہ کس اسکول پر کتنی رقم خرچ ہونی تھی۔ ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا تھاکہ یہ انداز اختیار کرنے کی وجہ سے ایک اسکول کے لیے درکار کام کی لاگت کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں جس کی وجہ سے شفافیت اورکھلی مسابقت ( اوپن کمپٹیشن ) کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔
نوٹس میں کہا گیاکہ پروکیورمنٹ ایجنسیوں کو اس معاملے سے آگاہ کردیا گیا ہے، اس کے باوجود انھوں نے بے قاعدگیاں ختم کرنے کے لیے تاحال کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اسی دوران ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا ایک نمائندہ یہ معاملہ سپریم کورٹ لے گیا جہاں اس نے ٹینڈرنگ پروسیجر کی تفصیلات فراہم کرنے کی استدعاکی۔
سپریم کورٹ نے پروکیورمنٹ ایجنسی کو سوالوں کے جواب مہیا کرنے کی ہدایت کی، مگر متعلقہ پروکیورمنٹ ایجنسی کے نمائندے نے عدالت میں جو جواب داخل کیا وہ2018 میں ترمیم شدہ سندھ پروکیورمنٹ رولز ( 2010) کے رول17( 3 ) ( c ) کے برخلاف تھا۔ پروکیورمنٹ ایجنسیوں کو خط کے ذریعے مزید ہدایت کی گئی کہ صورتحال یا معاملے کو رولزکے مطابق درست کریں۔ انھیں پروکیورمنٹ کا عمل ازسرنو شروع کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔
ایجنسیوں کو سندھ پبلک پروکیورمنٹ رولز ( SPP ) پر لازماً عمل درآمد کی ہدایت کرتے ہوئے اتھارٹی نے خبردار کیاکہ اگر نئے ٹینڈرز میں ایسی کوئی بے قاعدگی پائی گئی تو انھیں اتھارٹی کی ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا جائے گا۔ SPPRA نے منصوبے کو ملتوی کرنے کی تجویز بھی دی تاکہ درکار پروسیجر پر عمل درآمد کیا جاسکے۔
اس طرح اتھارٹیز منصوبے کے لیے مختص 10 ارب روپے کی خطیر رقم کے غلط استعمال کی راہ روکنے کے قابل ہوجاتیں۔ سیکریٹری محکمہ تعلیم شاہد پرویز نے دعویٰ کیاہیکہ متذکرہ بالا منصوبہ کامیاب رہا تھا اور ورلڈ بینک کی عائد کردہ شرائط کے علاوہ بھی بہت کچھ کرلیا گیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ منصوبہ 2مراحل میں مکمل ہونا تھا۔ پہلا مرحلہ31 دسمبر 2018 کو پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اور 12 میں سے 10اسکیمیں مکمل کرلی گئی ہیں بقیہ 2 اسکیموں پر کام جاری ہے اور یہ اسکیمیں جون2019 تک مکمل ہوجائیں گی۔
شاہد پرویز نے کہاکہ ورلڈ بینک کی فراہم کردہ رقم کے علاوہ سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لیے 8 ارب روپے مختص کیے تھے تاکہ صوبے میں ایجوکیشن سیکٹر کو بہتر بنایا جاسکے اور ورلڈ بینک پر انحصار ختم کیا جاسکے۔ ورلڈ بینک نے2500 اسکولوں کو بہتر بنانے کی شرط عائد کی تھی مگر حکومت سندھ نے 2632 اسکول اپ گریڈ کیے۔