سیاست کی باکس آفس رپورٹ

غریب پر احسان کرتے ہوئے اس کی عزت نفس کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے اور اس کی لائیوکوریج بھی کی جاتی ہے

tahir.mir@expressnews.tv

زیر نظر کالم 'پارٹ ٹو' ہے۔ گذشتہ روز بیان کیا گیا کہ سیاست میںبھی شو بزنس اور فلم انڈسٹری کی طرح اشتہار بازی، سائن بورڈ، بینرز، پوسٹرز اور فوٹو سیٹ آویزاں کرنا لازم قرار دے دیا گیاہے۔ فلم کا کام تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اس کی نمائش ضروری سمجھی جاتی ہے مگر سیاست تو خدمت ہے اور یہ کیمرہ کے بغیر بھی جاری رہنی چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں یہ رواج فروغ پا گیا ہے کہ ہمارے خادم، مسیحا اور حکمران سب نیکی کرنے کے لیے کیمرہ کے منتظر رہتے ہیں۔ کہیں ایسا '' وقوعہ'' رونما نہیں ہوتا کہ ہمارا کوئی مسیحا کسی غریب کی مدد کرے اور یہ نیک عمل کیمرہ سے اوجھل رہ جائے۔

غریب پر احسان کرتے ہوئے اس کی عزت نفس کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے اور اس کی لائیوکوریج بھی کی جاتی ہے۔ ایسے سین پارٹ روزانہ نیوز چینلز پر براہ راست دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں بے آبرو دوشیزاوںکی داد رسی کے لیے مسیحا ان کے علاقے میںپہنچ کر موقع پر احکامات جاری کرتا ہے۔ ظالموں کے خلاف قاضی کے آنے والے آئیڈیا سے سیاسی فائدہ کوئی بھی اٹھاتا رہے لیکن سچ ہے کہ یہ آئیڈیا جماعت اسلامی کا ہے۔ چند سال پہلے ہونے والے عام انتخابات میںجماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کی کل نشستوں پر 187 امیدوار کھڑے کر کے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ''ظالموں قاضی آ رہا ہے'' لیکن نتائج کے بعد یار دوستوں نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ''ظالموں قاضی جا رہا ہے۔''

بات ہو رہی تھی سیاست میں اشتہار بازی، سائن بورڈز، پوسٹرز اور فوٹو سیٹ کی جن میں قومی رہنماوں کے ہیرو امیج کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ میں بینروں پر ان کی ماؤ کیپ والی تصاویر سجائی جاتی تھیں۔ جن کے ساتھ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دکھائی دیتا تھا۔ بھٹو صاحب جلسے جلوسوں میںشلوار قمیض پہن کر کف کھلے رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب کے اس انداز کو بعد میںآنے والے بعض لیڈروں نے بھی اپنایا مگر نظریاتی طور پر وہ ان کے مخالف رہے۔ لاہور کے ایک جلسہ میںجوش خطابت میں بھٹو صاحب کے ہاتھوں مائیک گر گیا تھا، یہ منظر نیوز چینلز پر اکثر اوقات دکھایا جاتا ہے۔

بھٹو صاحب کی طرف سے مائیک کا گرانا دانستہ تھا یا ایسا جوش خطابت میں ہو گیا؟ اس بات کی کھوج دنیائے فلم کا بڑے سے بڑا ہدایتکار بھی نہیںلگا سکتا کیونکہ بھٹو صاحب کی باڈی لینگویج، جوش خطابت اور مائیک گرانے کی ٹائمنگ اس قدر اوریجنل تھی کہ وہ ایک لمحہ سیاست کے جہان کا ایک یاد گار منظر بن گیا۔ بعد میں آنے والے بعض ''عوامی اداکاروں'' نے بھی مائیک گرانے والا یہ سین پارٹ کرنا چاہا لیکن وہ ایسی پرفارمنس نہیں دے پائے جو بھٹو صاحب نے پہلے ٹیک میں ہی (او۔کے) کر دی تھی۔ سلولائیڈ پر جیسی پرفارمنس دلیپ کمار صاحب نے دی اسے بعد میںآنے والے ہر بڑے اداکار نے اپنایا۔ بالی وڈ میں یہ سلسلہ شاہ رخ خان تک چل رہا ہے جسے آج کی بھارتی فلم انڈسٹری کا کنگ خان کہا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں بھی سلطان راہی مرحوم کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک عرصہ ہو گیا ہے مگر سنیما اسکرین پر ان کا اسٹائل آج بھی زندہ ہے۔ جس طرح سیاست میں سیاست ہوتی ہے اس طرح فلم میںبھی سیاست ہوتی ہے۔ فلم نگر میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اداکار اور اسٹار زیادہ کامیاب رہا جو اداکاری کرنے کے ساتھ، ساتھ سیاست سے کام لیتا رہا۔ ملکہ ترنم نورجہاں کے لیے کہا جاتا ہے مادام نے گانے کے سا تھ، ساتھ سیاست سے کام لے کر اپنی اننگ کو طویل بنائے رکھا۔ بھارت میں ہدایتکار رامیش سپی نے جب وقت کے سپر اسٹار امیتابھ بچن کو ''شکتی'' میں دلیپ کمار صاحب کے مقابل کاسٹ کرنا چاہا تو امیتابھ بچن نے یہ شرط عائد کر دی تھی کہ وہ دلیپ صاحب سے زیادہ معاوضہ وصول کریں گے، چاہے وہ صرف ایک روپیہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔


اپنی شرط منوا کر امیتابھ بچن نے ایک کامیاب سیاسی حربہ آزمایا تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ رامیش سپی نے ایسا ہی کیا لیکن اس کے بعد دلیپ صاحب نے جو امیتابھ بچن کے ساتھ کیا وہ''سیاست'' یو ٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے۔ شاہ رخ خان پر بھی ان کے ساتھی الزام عائد کرتے ہیںکہ وہ فلم انڈسٹری میں سیاست سے کام لے رہے ہیں۔ شاہ رخ خان نے ایک طویل عرصہ تک بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ عامرخان اور سلمان خان کو لینے نہیںدیا جس کے باعث دونوں خان ناراض بھی ہیں۔ یہ معاصرانہ چشمک سیاست میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان نے اسلام آباد کے ایک معروف اینکر پرسن سے اپنا دکھ بیان کیا کہ ان کے قائدین ان سے حسد کرتے ہیںکیونکہ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ واضح رہے کہ متذکرہ قائدین اپنی تقریروں میں پرائے شاعروں حتیٰ کہ نظریاتی پرائے شاعروں کے شعر پڑھتے رہتے ہیں۔

سیاست میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوچنے سمجھے والے تھینک ٹینک پس پردہ ہوتے ہیں اور اسکرین پر اسٹار اپنا اسٹارڈم بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ فلم کے کاروبار میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ چوری اورسرقے کا مال اپنے نام سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک سابق شو مین مست اور غریب شاعر ساغر صدیقی کے لکھے گیت اپنے نام سے سنا کر ایک عرصہ پرائی داد وصول کرتا رہا۔ فلم کا دھندہ سیاست سے اچھا خاصا ملتا جلتا ہے۔ فلم کی طرح سیاست میں بھی ہیروز، سائیڈہیروز، ہیروئینز، ولن، کریکٹر ایکٹر اور ایکسٹراز پائے جاتے ہیں۔ جس طرح فلم صرف ہیرو، ہیروئن اور ولن کے ساتھ نہیں بنتی اور اس میں ایکسٹراز کا ہونا لازمی امر سمجھا جاتا ہے۔

اس طرح سیاست میں ایکسٹراز کا کردار غریب ورکرز ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوںکی اسٹارکاسٹ پر نظر ڈالیں تو ان صفوں میںہر کٹیگری کا آرٹسٹ موجود نظر آتا ہے یعنی جذبات کا شہزادہ، ملکہ ء جذبات، جنگجو ہیرو اور اینگری ینگ مین وغیرہ وغیرہ۔ فلم کے ہیرو کی طرح سیاست کے اینگری ینگ مین بھی ادھیڑ عمر ہی ہیں لیکن باکس آفس پوزیشن اور متوقع بزنس کی خاطر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ نمائش ہونے والی فلم ''سویپ'' کرے گی۔ ان ادھیڑ عمر ہیروز کو دیکھ کر مجھے ادکار محمد علی یاد آ گئے جو 55 برس کی عمر تک اکثر فلموں میں یہ ڈائیلاگ بولتے دکھائی دیتے تھے کہ ۔۔۔ امی جان میں بی اے کے امتحان میں پاس ہو گیا ہوں۔۔۔۔

بزرگ بتاتے ہیںکہ تحریک پاکستان کے دنوں میں 1940ء میں جو ایک نعرہ بہت مقبولیت اختیار کر گیا وہ یہ تھا کہ ''مسلم ہے تو مسلم لیگ میںآ۔'' اب اس نعرہ سے استفادہ کرنا مشکل ہے کیونکہ اس کی وجہ میاں نواز شریف کی نون لیگ سے لے کر شیخ رشید کی عوامی لیگ کے درمیان دوسری لیگیں بھی ہیں۔ آنے والے الیکشن کی تیاریاں جاری ہیں اور ان میں لگائے جانے والے نعرے بھی گھڑ لیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کا نعرہ ابھی سے کانوں میں گونج رہا ہے کہ ''عمران کا جو حامی ہے، سونامی ہے، سونامی ہے۔'' نون لیگ کا مقبول نعرہ ہے''پوری قوم کا ایک ہی نعرہ، نواز شریف آئے دوبارہ۔'' متحدہ ہمیشہ کی طرح الطاف بھائی کی تصویروں سے سجے بینروں اور پوسٹروں سے غریب اور متوسط طبقے کی تقدیر بدلنے کے لیے میدان میں اترے گی۔

امید ہے متحدہ فخرو بھائی فیم صاف شفاف انتخابات کے تحت اپنی تمام نشستیں دوبارہ حاصل کر لے گی۔ آنے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور حکومت میںشامل جماعتیں عوام کو پوری کی پوری ٹرم لوڈشیڈنگ میں جھونکے رکھنے کا کیا عذر پیش کرتی ہے۔ اس کا علم نہیں ہے۔ مگر حلیف جماعتیں ''ایمانداری'' سے یہ بیان کر دیں گی لوڈ شیڈنگ کے گناہ کبیرہ میں وہ ملوث نہیں تھیں۔ پیپلز پارٹی کو لوڈ شیڈنگ کے کلنک کا ٹیکا ماتھے پر سجا کر انتخابات کے لیے عوام کے سامنے جانا ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنے انتخابی پوسٹر اور فوٹو سیٹ میں اپنے پرانے انتخابی منشو ر 'روٹی کپڑا اور مکان' کے ساتھ اس بار یہ بھی درج کرے کہ ' لوڈشینڈنگ کا خا تمہ ' ' ہمراہ سائیڈ پروگرام ' ووٹ دینا نہ بھولیے گا۔
Load Next Story