قائداعظم اور عوام کی اجتماعی دانش
حکومت سیاسی عزم سے عاری ہے
عید کے روزدہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے بچنے کی خاطر حکومت کو فوری طور پر چاندرات سے عید کی صبح 10بجے تک16گھنٹے کے لیے موبائل فون سروس بندکرنا پڑی۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ شدت پسند عناصر بے انتہا طاقتور ہوچکے ہیں۔ان کے لیے ملک کے کسی بھی حصے میں بم دھماکے کرنا، مختلف عقائدو نظریات رکھنے والے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کرنا اوراہم قومی تنصیبات کو نشانہ بنانا معمول کی بات بن چکی ہے۔ان کے حوصلے اس لیے بھی بلند ہوئے ہیں کہ مختلف مذہبی وسیاسی جماعتیںان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں اور اسٹبلشمنٹ میں ان کے حامی موجود ہیں۔ حکومت سیاسی عزم سے عاری ہے۔
حکومت کی کمزوری ، سیاسی حلقوں میں یکساںسوچ کی عدم موجودگی اوراسٹبلشمنٹ میںموجود نرم گوشہ نے شدت پسندوں کے حوصلے بلند کردیے ہیں۔ اس لیے انھوں نے پورے ملک کو بالعموم اور خیبر پختونخواہ کو بالخصوص اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کی زد پر لے لیا ہے۔انھوں نے سب سے پہلے پولیو کے خلاف مہم کو سبوتاژکیا۔حکومت کی مجرمانہ خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران خیبر پختونخوا میں 5ہزار اسکولوں کو بم سے اڑایاہے۔بعض تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ متشدد فرقہ واریت اور غیر مسلم کمیونٹیز کے ساتھ ناروا سلوک میں ان کی ذیلی تنظیمیں شریک ہیں۔
اس کے علاوہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے غیر ملکی امداد کے علاوہ کراچی سمیت بڑے شہروں میں ڈکیتیوںاوراغواء برائے تاوان جیسی مجرمانہ کارروائیوں میں بھی یہی عناصرملوث ہیں۔ ا ملک میں ہونے والی 90فیصدبینک ڈکیتیوں میں ان عناصرکے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ دراصل پاکستان کا بنیادی مسئلہ ریاست کے منطقی جواز پر مختلف حلقوں کے درمیان فکری کشاکش ہے۔ یہ غلط سوچ ہے کہ متشدد مذہبی عناصرکا محور صرف افغانستان ہے۔ بلکہ یہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوکر اسے بھی یک مسلکی آمریت کے چنگل میں جکڑناچاہتے ہیں۔اس مقصد کے لیے وہ پاکستان کے قیام کے منطقی جواز کی مذہبی تاویلیں پیش کرتے ہیں۔حالانکہ برٹش انڈیامیں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالیں،تو مختلف حقائق سامنے آتے ہیں۔
برصغیر میںایسے جید علماء کی کمی نہیں تھی جن کے علم، قابلیت، فکری پاکیزگی اورسیاسی بصیرت پر انگشت نمائی کی جاسکے۔ مگرمسلمانانِ ہند نے ان علماء کا تمام تر احترام کرنے کے باوجودان کے سیاسی نقطہ نظر کو تسلیم نہیں کیا اور ان کی قیادت کو قبول کرنے کے بجائے اپنی رہنمائی کے لیے جدید تعلیم یافتہ اور مغربی رہن سہن رکھنے والے وکیل محمدعلی جناح کاانتخاب کرکے انھیں قائد اعظم کے لقب سے نوازا۔جن کی قیادت میں پاکستان کا حصول ممکن ہوسکا۔ یہ مسلمانِ ہند کی اجتماعی دانش تھی کہ انھوں نے مسلکی عصبیتوں میں الجھنے کے بجائے میرٹ پر اپنے لیے ایک ماڈرن رہبرکاانتخاب کیا،تاکہ ایک جدید وسیع البنیاد مسلم جمہوریہ تشکیل دے سکیں۔
اس لیے مذہبی جماعتوں کا یہ فلسفہ رد ہوجاتا ہے کہ ہندی مسلمانوں کی جدوجہد تھیوکریٹک ریاست کے قیام یا کسی مخصوص مسلک کی بالادستی کے لیے تھی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح برصغیر کے وہ واحد رہنما تھے، جو تمام فقہوں، فرقوںاور مسالک سے تعلق رکھنے والے ہندی مسلمانوںکے جذبات اور احساسات کا واضح ادراک اور انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔برصغیر کی اس وقت کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھیں تواس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے مسلم رہنما اور جید عالم میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ تمام فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوںکو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرسکے۔
لہٰذا ان جیسے رہنما سے کس طرح یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نئے ملک میں کسی ایک فرقہ یا مسلک کی بالادستی کاتصور بھی کرسکتے ہیں۔اسی طرح ان کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیں،تو ان کے کسی بیان، کسی تقریر یا کسی عمل سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ وہ نئے ملک کوکسی بھی شکل میںتھیوکریٹک ریاست بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ بلکہ ان کے مدنظر ایک ایسی وسیع البنیاد مسلم ریاست تھی،جو جدید جمہوریہ ہواور جس میںتمام شہریوں کو اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو۔ 11اگست1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میںکیا گیا ان کا خطاب، ان کے اسی فکروفلسفہ اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ان کی سوچ کو واضح طورپر عیاں کرتاہے۔
جس کے بعد کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے۔ایک اور پہلو پر غورضروری ہے،یعنی آل انڈیا مسلم لیگ میںکسی بھی مرحلہ پر شیعہ ،سنی یا کسی اور فرقہ کے حوالے سے کوئی عصبیت نہیں پائی جاتی تھی۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ مسلم لیگ کے پہلے صدر سرسلطان محمد آغا خان اسماعیلی فرقہ کے مذہبی پیشواتھے۔ خود قائد اعظم اسماعیلی گھرانے میں پیدا ہوئے اور انھوں نے بارضاورغبت 1898میں اثنائے عشری عقیدہ اختیار کیا(اس حقیقت کی تصدیق دو روز قبل متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین نے اپنے ایک بیان میں کی ہے)۔پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری نوابزادہ لیاقت علی خان سنی العقیدہ تھے۔جب کہ مقبول مرکزی رہنماء نواب بہادر یار جنگ کا تعلق مہدوی فرقہ سے تھااورراجہ صاحب محمودآباد اثنائے عشری تھے۔
بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگی قیادت تمام فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے اکابرین پر مشتمل تھی۔ جن کے مدنظر ایک ایسی وسیع البنیاد مسلم ریاست تھی، جس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں اور مسالک کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کو بھی اپنی مذہبی رسومات (Rituals) کی ادائیگی کی مکمل آزادی ہو۔
لیکن کوتاہ اندیش سیاستدانوںاور نوآبادیاتی فکر کی حامل نوکرشاہی نے قیام پاکستان کے فوراً بعد اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطرملک میں ان مذہبی جماعتوں کی سرپرستی شروع کردی جو 13 اگست1947 تک قیام پاکستان کی شدید مخالف تھیں۔یہ حکمت عملی عوام کی اجتماعی دانش اور قائد کے تصور پاکستان سے متصادم تھی۔یہی وہ رویہ تھا ،جس کی بنا پر نوکرشاہی نے قائد کی11اگست کی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی۔جس کی تصدیق عقیل عباس جعفری سمیت کئی معتبرتاریخ دانوں نے کی ہے۔
یہ وہ ابتداء تھی، جس نے اس ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے قیام اور فروغ کے راستے میںکانٹے بچھائے اور فوجی آمریتوں کی راہ ہموار کی۔حالانکہ پاکستان کے عوام کو جب بھی آزادانہ حق رائے دہی کا موقع ملا،انھوں نے مذہبی جماعتوں کو رد کرتے ہوئے لبرل سیاسی جماعتوں کے حق میں ووٹ دیا۔ عوام کا یہ طرزعمل برٹش انڈیا میں ان کے رویہ اور رجحان کا تسلسل کہاجاسکتا ہے۔
مگر اسٹبلشمنٹ نے ان کی خواہشات کا احترام کرنے کے بجائے اپنے ادارہ جاتی مفادات کی خاطر 5فیصد سے بھی کم ووٹ بینک رکھنے والی مذہبی جماعتوں کو اس قدر طاقتور اور توانا کردیا کہ وہ قومی پالیسی سازی پر اثرانداز ہونے لگیں۔ اس لحاظ سے جنرل ضیاء الحق کا دور اس ملک کی تاریخ کا بدترین دور تھا۔کیونکہ اس دور میں 1973 کے متفقہ آئین کاحلیہ بگاڑا گیا،متشددفرقہ واریت اور لسانیت کو ہوا دی گئی اور سب سے بڑھ کر افغان جنگ کے نام پر جنگجو جتھے تیار کیے گئے،جنہوں نے جہاد کے نام پر پہلے افغانستان کوغیر مستحکم کیا اور اب پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
اس مقصد کے لیے دینی مدارس کو عسکری تربیت گاہ کے طورپر استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کی علمی وتحقیقی حیثیت مشکوک ہوگئی۔اس صورتحال سے صرف سیاسی عمل ہی تاراج نہیںہوا،بلکہ پورا سماجی Fabric بھی بری طرح تباہ ہوگیا۔جس کے اثرات اب نمایاں طورپر ظاہرہورہے ہیں۔
اگرحکمران پاکستان کو شدت پسندی، دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت سے نجات دلانے میںواقعی سنجیدہ ہیں، تو انھیں عوام کی اجتماعی دانش اور قائد کی 11اگست کی تقریر کی بنیاد پر ملک کے منطقی جواز کے مسئلے کو جرأت مندانہ انداز میں طے کرنا ہوگا۔تاریخی حقائق کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کرنا ہوگااورقائد کے تصور پاکستان کو عملی جامہ پہناناہوگا۔لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ عوام کی اجتماعی دانش اور قائد کے تصور پاکستان کوسمجھا جائے اور اس کوعملی شکل دینے کی کوشش کی جائے۔اس کے علاوہ اس ملک کو بچانے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
حکومت کی کمزوری ، سیاسی حلقوں میں یکساںسوچ کی عدم موجودگی اوراسٹبلشمنٹ میںموجود نرم گوشہ نے شدت پسندوں کے حوصلے بلند کردیے ہیں۔ اس لیے انھوں نے پورے ملک کو بالعموم اور خیبر پختونخواہ کو بالخصوص اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کی زد پر لے لیا ہے۔انھوں نے سب سے پہلے پولیو کے خلاف مہم کو سبوتاژکیا۔حکومت کی مجرمانہ خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران خیبر پختونخوا میں 5ہزار اسکولوں کو بم سے اڑایاہے۔بعض تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ متشدد فرقہ واریت اور غیر مسلم کمیونٹیز کے ساتھ ناروا سلوک میں ان کی ذیلی تنظیمیں شریک ہیں۔
اس کے علاوہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے غیر ملکی امداد کے علاوہ کراچی سمیت بڑے شہروں میں ڈکیتیوںاوراغواء برائے تاوان جیسی مجرمانہ کارروائیوں میں بھی یہی عناصرملوث ہیں۔ ا ملک میں ہونے والی 90فیصدبینک ڈکیتیوں میں ان عناصرکے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ دراصل پاکستان کا بنیادی مسئلہ ریاست کے منطقی جواز پر مختلف حلقوں کے درمیان فکری کشاکش ہے۔ یہ غلط سوچ ہے کہ متشدد مذہبی عناصرکا محور صرف افغانستان ہے۔ بلکہ یہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوکر اسے بھی یک مسلکی آمریت کے چنگل میں جکڑناچاہتے ہیں۔اس مقصد کے لیے وہ پاکستان کے قیام کے منطقی جواز کی مذہبی تاویلیں پیش کرتے ہیں۔حالانکہ برٹش انڈیامیں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالیں،تو مختلف حقائق سامنے آتے ہیں۔
برصغیر میںایسے جید علماء کی کمی نہیں تھی جن کے علم، قابلیت، فکری پاکیزگی اورسیاسی بصیرت پر انگشت نمائی کی جاسکے۔ مگرمسلمانانِ ہند نے ان علماء کا تمام تر احترام کرنے کے باوجودان کے سیاسی نقطہ نظر کو تسلیم نہیں کیا اور ان کی قیادت کو قبول کرنے کے بجائے اپنی رہنمائی کے لیے جدید تعلیم یافتہ اور مغربی رہن سہن رکھنے والے وکیل محمدعلی جناح کاانتخاب کرکے انھیں قائد اعظم کے لقب سے نوازا۔جن کی قیادت میں پاکستان کا حصول ممکن ہوسکا۔ یہ مسلمانِ ہند کی اجتماعی دانش تھی کہ انھوں نے مسلکی عصبیتوں میں الجھنے کے بجائے میرٹ پر اپنے لیے ایک ماڈرن رہبرکاانتخاب کیا،تاکہ ایک جدید وسیع البنیاد مسلم جمہوریہ تشکیل دے سکیں۔
اس لیے مذہبی جماعتوں کا یہ فلسفہ رد ہوجاتا ہے کہ ہندی مسلمانوں کی جدوجہد تھیوکریٹک ریاست کے قیام یا کسی مخصوص مسلک کی بالادستی کے لیے تھی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح برصغیر کے وہ واحد رہنما تھے، جو تمام فقہوں، فرقوںاور مسالک سے تعلق رکھنے والے ہندی مسلمانوںکے جذبات اور احساسات کا واضح ادراک اور انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔برصغیر کی اس وقت کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھیں تواس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے مسلم رہنما اور جید عالم میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ تمام فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوںکو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرسکے۔
لہٰذا ان جیسے رہنما سے کس طرح یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نئے ملک میں کسی ایک فرقہ یا مسلک کی بالادستی کاتصور بھی کرسکتے ہیں۔اسی طرح ان کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیں،تو ان کے کسی بیان، کسی تقریر یا کسی عمل سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ وہ نئے ملک کوکسی بھی شکل میںتھیوکریٹک ریاست بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ بلکہ ان کے مدنظر ایک ایسی وسیع البنیاد مسلم ریاست تھی،جو جدید جمہوریہ ہواور جس میںتمام شہریوں کو اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو۔ 11اگست1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میںکیا گیا ان کا خطاب، ان کے اسی فکروفلسفہ اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں ان کی سوچ کو واضح طورپر عیاں کرتاہے۔
جس کے بعد کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے۔ایک اور پہلو پر غورضروری ہے،یعنی آل انڈیا مسلم لیگ میںکسی بھی مرحلہ پر شیعہ ،سنی یا کسی اور فرقہ کے حوالے سے کوئی عصبیت نہیں پائی جاتی تھی۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ مسلم لیگ کے پہلے صدر سرسلطان محمد آغا خان اسماعیلی فرقہ کے مذہبی پیشواتھے۔ خود قائد اعظم اسماعیلی گھرانے میں پیدا ہوئے اور انھوں نے بارضاورغبت 1898میں اثنائے عشری عقیدہ اختیار کیا(اس حقیقت کی تصدیق دو روز قبل متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین نے اپنے ایک بیان میں کی ہے)۔پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری نوابزادہ لیاقت علی خان سنی العقیدہ تھے۔جب کہ مقبول مرکزی رہنماء نواب بہادر یار جنگ کا تعلق مہدوی فرقہ سے تھااورراجہ صاحب محمودآباد اثنائے عشری تھے۔
بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلم لیگی قیادت تمام فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے اکابرین پر مشتمل تھی۔ جن کے مدنظر ایک ایسی وسیع البنیاد مسلم ریاست تھی، جس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں اور مسالک کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کو بھی اپنی مذہبی رسومات (Rituals) کی ادائیگی کی مکمل آزادی ہو۔
لیکن کوتاہ اندیش سیاستدانوںاور نوآبادیاتی فکر کی حامل نوکرشاہی نے قیام پاکستان کے فوراً بعد اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطرملک میں ان مذہبی جماعتوں کی سرپرستی شروع کردی جو 13 اگست1947 تک قیام پاکستان کی شدید مخالف تھیں۔یہ حکمت عملی عوام کی اجتماعی دانش اور قائد کے تصور پاکستان سے متصادم تھی۔یہی وہ رویہ تھا ،جس کی بنا پر نوکرشاہی نے قائد کی11اگست کی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی۔جس کی تصدیق عقیل عباس جعفری سمیت کئی معتبرتاریخ دانوں نے کی ہے۔
یہ وہ ابتداء تھی، جس نے اس ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے قیام اور فروغ کے راستے میںکانٹے بچھائے اور فوجی آمریتوں کی راہ ہموار کی۔حالانکہ پاکستان کے عوام کو جب بھی آزادانہ حق رائے دہی کا موقع ملا،انھوں نے مذہبی جماعتوں کو رد کرتے ہوئے لبرل سیاسی جماعتوں کے حق میں ووٹ دیا۔ عوام کا یہ طرزعمل برٹش انڈیا میں ان کے رویہ اور رجحان کا تسلسل کہاجاسکتا ہے۔
مگر اسٹبلشمنٹ نے ان کی خواہشات کا احترام کرنے کے بجائے اپنے ادارہ جاتی مفادات کی خاطر 5فیصد سے بھی کم ووٹ بینک رکھنے والی مذہبی جماعتوں کو اس قدر طاقتور اور توانا کردیا کہ وہ قومی پالیسی سازی پر اثرانداز ہونے لگیں۔ اس لحاظ سے جنرل ضیاء الحق کا دور اس ملک کی تاریخ کا بدترین دور تھا۔کیونکہ اس دور میں 1973 کے متفقہ آئین کاحلیہ بگاڑا گیا،متشددفرقہ واریت اور لسانیت کو ہوا دی گئی اور سب سے بڑھ کر افغان جنگ کے نام پر جنگجو جتھے تیار کیے گئے،جنہوں نے جہاد کے نام پر پہلے افغانستان کوغیر مستحکم کیا اور اب پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
اس مقصد کے لیے دینی مدارس کو عسکری تربیت گاہ کے طورپر استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کی علمی وتحقیقی حیثیت مشکوک ہوگئی۔اس صورتحال سے صرف سیاسی عمل ہی تاراج نہیںہوا،بلکہ پورا سماجی Fabric بھی بری طرح تباہ ہوگیا۔جس کے اثرات اب نمایاں طورپر ظاہرہورہے ہیں۔
اگرحکمران پاکستان کو شدت پسندی، دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت سے نجات دلانے میںواقعی سنجیدہ ہیں، تو انھیں عوام کی اجتماعی دانش اور قائد کی 11اگست کی تقریر کی بنیاد پر ملک کے منطقی جواز کے مسئلے کو جرأت مندانہ انداز میں طے کرنا ہوگا۔تاریخی حقائق کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کرنا ہوگااورقائد کے تصور پاکستان کو عملی جامہ پہناناہوگا۔لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ عوام کی اجتماعی دانش اور قائد کے تصور پاکستان کوسمجھا جائے اور اس کوعملی شکل دینے کی کوشش کی جائے۔اس کے علاوہ اس ملک کو بچانے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔