رشید احمد غیرقانونی طور پر چیئرمین پیمرا تعینات ہیں ٹرانسپیرنسی
تعیناتی 15 جنوری کے عدالتی حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے،سپریم کورٹ میں متفرق درخوست
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے سپریم کورٹ میں ایک متفرق درخواست دائر کی ہے جس میں سابق حکومت کی طرف سے چیئرمین پیمرا رشید احمد کی غیرقانونی تعیناتی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تعیناتی سپریم کورٹ کے 15جنوری 2013ء کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے پیرا گراف نمبر5میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ '' چیئر مین پیمرا کی اسامی پر ایسی شخصیت کی تعیناتی عمل میں لائی جائے جو پیمرا آرڈیننس میں دی گئی غیرمعمولی اور سخت شرائط پر پورا اترتی ہو، اس کے علاوہ یہ تعیناتی ایک صاف اور شفاف طریقے سے عمل میں لائی جائے تاکہ پیمرا آرڈیننس میں دی گئی شرائط پر عملدرآمد ممکن ہو''۔ عدالت عظمیٰ کے واضح احکام کے برعکس رشید احمد غیر قانونی طور پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپرنسی نے اپنی متفرق درخواست میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے احکام پر عملدرآمد کرنے کے بجائے سابق حکومت نے ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچنے والے وفاقی سیکریٹری اطلاعات رشید احمد کی ارسال کردہ ایک سمری منظور کرلی جس میں چیئرمین پیمرا کیلئے ان کا اپنا نام بھی شامل تھا۔ اس تعیناتی کیلیے پیمرا آرڈیننس کی شرائط کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ اسامی پر بھرتی کیلئے قومی پریس میں کوئی اشتہار اس لئے نہیں دیا گیا تاکہ یہ پتہ نہ چل سکے کہ رشید احمد چند ماہ بعد ریٹائر ہونے والے ہیں۔ یہ غیر قانونی بھرتی عبوری حکومت کے اقتدار میں آنے سے ڈیڑھ ماہ قبل کی گئی۔ ٹرانسپرنسی نے اپنی درخواست میں کہا کہ یہ عمل مفادات کا تصادم ہے کیونکہ ایک امیدوار سمری میں اپنا نام کیسے شامل کرسکتا ہے اور کیا چار سالہ میعاد کی حامل اس عہدے پر تعیناتی کے طریقہ کار کی اجازت سپریم کورٹ نے دی تھی؟۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس روایت پر چلتے ہوئے آئندہ ہر سیکریٹری ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنی بطور محتسب، ممبر پبلک سروس کمیشن اور دیگر عہدوں کیلیے تعیناتی کی سمری تیار کرے گا ، اس کے علاوہ رشید احمد کی تیار کردہ سمری میں سرکاری ضابطہ کار کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ ایسی کسی بھی سمری میں تمام ضروری حقائق اور 3ستمبر 1999کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات کا ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سرکلر کے تحت کسی عہدے کیلئے نامزد افسر کی تاریخ ریٹائرمنٹ کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ کئی افسروں کو ان کی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ پہلے کسی اور عہدے کیلیے نامزد کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
وزیراعظم کو بھیجی گئی رشید احمد کی سمری میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ رشید احمد کا نیا عہدہ ان کی ریٹائرمنٹ کی میعاد سے کئی سال بعد تک چلے گا۔ وزیراعظم کو تاریخِ پیدائش کا ذکر کیے بغیر ایسی تجاویز دینے کا مقصد دھوکہ دہی دینے سے دوبارہ ملازمت حاصل کرنا تھا۔ ٹرانسپرنسی نے درخواست میں بتایا ہے کہ نیب اور ایف آئی اے کے پاس سابق پرنسپل انفارمیشن افسر رشید احمد اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کئی دیگر افسروں کے مقدمات زیر التوأ ہیں۔ ان افسروں کیخلاف PARC کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ میسرز SIMM نے پی آئی ڈی کے ان افسروں کی ملی بھگت سے جعلی این او سی کے ذریعے 28ملین روپے کی رقم وصول کی۔
عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے پیرا گراف نمبر5میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ '' چیئر مین پیمرا کی اسامی پر ایسی شخصیت کی تعیناتی عمل میں لائی جائے جو پیمرا آرڈیننس میں دی گئی غیرمعمولی اور سخت شرائط پر پورا اترتی ہو، اس کے علاوہ یہ تعیناتی ایک صاف اور شفاف طریقے سے عمل میں لائی جائے تاکہ پیمرا آرڈیننس میں دی گئی شرائط پر عملدرآمد ممکن ہو''۔ عدالت عظمیٰ کے واضح احکام کے برعکس رشید احمد غیر قانونی طور پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپرنسی نے اپنی متفرق درخواست میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے احکام پر عملدرآمد کرنے کے بجائے سابق حکومت نے ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچنے والے وفاقی سیکریٹری اطلاعات رشید احمد کی ارسال کردہ ایک سمری منظور کرلی جس میں چیئرمین پیمرا کیلئے ان کا اپنا نام بھی شامل تھا۔ اس تعیناتی کیلیے پیمرا آرڈیننس کی شرائط کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ اسامی پر بھرتی کیلئے قومی پریس میں کوئی اشتہار اس لئے نہیں دیا گیا تاکہ یہ پتہ نہ چل سکے کہ رشید احمد چند ماہ بعد ریٹائر ہونے والے ہیں۔ یہ غیر قانونی بھرتی عبوری حکومت کے اقتدار میں آنے سے ڈیڑھ ماہ قبل کی گئی۔ ٹرانسپرنسی نے اپنی درخواست میں کہا کہ یہ عمل مفادات کا تصادم ہے کیونکہ ایک امیدوار سمری میں اپنا نام کیسے شامل کرسکتا ہے اور کیا چار سالہ میعاد کی حامل اس عہدے پر تعیناتی کے طریقہ کار کی اجازت سپریم کورٹ نے دی تھی؟۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس روایت پر چلتے ہوئے آئندہ ہر سیکریٹری ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنی بطور محتسب، ممبر پبلک سروس کمیشن اور دیگر عہدوں کیلیے تعیناتی کی سمری تیار کرے گا ، اس کے علاوہ رشید احمد کی تیار کردہ سمری میں سرکاری ضابطہ کار کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے کیونکہ ایسی کسی بھی سمری میں تمام ضروری حقائق اور 3ستمبر 1999کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات کا ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سرکلر کے تحت کسی عہدے کیلئے نامزد افسر کی تاریخ ریٹائرمنٹ کا ذکر کرنا ضروری ہے کیونکہ کئی افسروں کو ان کی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ پہلے کسی اور عہدے کیلیے نامزد کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
وزیراعظم کو بھیجی گئی رشید احمد کی سمری میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ رشید احمد کا نیا عہدہ ان کی ریٹائرمنٹ کی میعاد سے کئی سال بعد تک چلے گا۔ وزیراعظم کو تاریخِ پیدائش کا ذکر کیے بغیر ایسی تجاویز دینے کا مقصد دھوکہ دہی دینے سے دوبارہ ملازمت حاصل کرنا تھا۔ ٹرانسپرنسی نے درخواست میں بتایا ہے کہ نیب اور ایف آئی اے کے پاس سابق پرنسپل انفارمیشن افسر رشید احمد اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کئی دیگر افسروں کے مقدمات زیر التوأ ہیں۔ ان افسروں کیخلاف PARC کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ میسرز SIMM نے پی آئی ڈی کے ان افسروں کی ملی بھگت سے جعلی این او سی کے ذریعے 28ملین روپے کی رقم وصول کی۔