وزیر برائے ’’خوابی وسائل فیصل وعدہ‘‘

کوئی کچھ کہے ہمیں تو فیصل واوڈا صاحب کی بات پر مکمل یقین ہے۔


Muhammad Usman Jami April 21, 2019
کوئی کچھ کہے ہمیں تو فیصل واوڈا صاحب کی بات پر مکمل یقین ہے۔ فوٹو: فائل

MULTAN: فیصل واوڈا صاحب وفاقی وزیر برائے آبی وسائل ہیں، لیکن ان کے ملازمتوں کی برسات کے عنوان سے مشہور ہونے والے دعوے کے بعد لگتا ہے کہ وہ ''خوابی وسائل'' کے وزیر ہیں۔ انھوں نے نوکریاں برسانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے بعد لوگ انھیں پیار سے ''فیصل وعدہ'' کہنے لگے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ فیصل واوڈا نے واشگاف الفاظ میں خوش خبری سُنائی ہے ''اتنی نوکریاں آنے والی ہیں کہ لوگ کم پڑ جائیں گے۔ پان والا ٹھیلے والا کہے گا مجھ سے ٹیکس لے لو۔'' کوئی کچھ کہے ہمیں تو فیصل واوڈا صاحب کی بات پر مکمل یقین ہے۔ آپ بھی دیکھیے گا کہ بہ قول وزیرموصوف کوئی تین چار ہفتے بعد ''وہ دن کے جس کا وعدہ ہے'' آئے گا اور پوری قوم جھوم جھوم کر گارہی ہوگی ''اللہ اللہ کتنے پیارے دن آگئے''، کسی کی زبان پر ہوگا ''آئے موسم رنگیلے سُہانے جیا نہیں مانے''، یہ گانا وہ گائیں گے جن کا جیا نہیں مان رہا کہ فیصل صاحب سچ کہہ رہے ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں کہہ رہے۔

اس دعوے پر ہمارے یقین کی بنیاد پانی پر ہے، ارے بھئی سمندر کے پانی پر جس سے تیل نکلنے کا عمران۔۔۔۔۔معاف کیجیے گا۔۔۔۔ امکان ہے۔ تیل کا نوکری اور خوش حالی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں ''نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی'' اس محاورے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ رادھا کار کی طرح تیل سے چلنے والی کوئی مشین ہے جو تیل پی کر ناچے گی، بات یہ ہے کہ جس کا پاس تیل ہو اُس کے اشاروں پر ناچنا پڑتا ہے، رادھا بے چاری کے ساتھ مسئلہ یہ ہوا ہے کہ جن کے پاس تیل ہے ان کے ہاں ناچنے پر پابندی ہے، چناں چہ نو من تیل والے ناچ دیکھنے سمیت ہر من مانی کے لیے دبئی، امریکا اور یورپ کا رُخ کرتے ہیں۔

خیر بات ہورہی تھی تیل اور خوش حالی کی، تو صاحب جب ہمارے سمندر سے تیل نکلے گا تو ہر طرف اتنا تیل ہوگا کہ تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملے گی، بلکہ کسی بھی دھرنے کے لیے جگہ نہیں ہوگی، اچھا ہوا کہ تیل نوازشریف کے دور میں نہیں نکلا ورنہ دھرنا دینے والوں کی دھرنے کی خواہش دھری کی دھری رہ جاتی۔ سو جب اتنا تیل نکلے گا تو ظاہر ہے ہم تیل میں خودکفیل ہوجائیں گے، بلکہ اتنے ''کفیل'' ہوجائیں گے کہ سعودی عرب اور کویت وغیرہ سے ''کفیل'' آکر ہمارے ''رفیق'' بنیں گے۔

اُدھر سمندر سے تیل ہی تیل نکلے گا اِدھر زمین پر نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی۔ دو تین کروڑ لوگوں کی نوکری تو بس یہ ہوگی کہ سمندر کے کنارے بیٹھ جاؤ اور ''تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔'' ویسے تو تیل کی صفائی کے لیے اُس سے بے کار اجزاء نکالنے کے بہ جائے اُسے تحریک انصاف میں شامل کردینا کافی ہوگا، لیکن کیوں کہ حکومت کا مقصد ملازمتیں پیدا کرنا ہے، اس لیے وہ تیل کی صفائی کے لیے کارخانے لگائے گی، یہ کارخانے ہی اتنے ہوں گی کہ سارے بے روزگار انھی میں کھپ جائیں گے، پھر بھی کارکنوں کی گنجائش رہے گی اور لوگوں کو زبردستی پکڑ کر ''کارخانے چلو ورنہ تھانے چلو'' کہتے ہوئے لایا اور ان کارخانوں میں بھرتی کیا جائے گا۔



یہاں ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ ''پڑھی فارسی بیچا تیل'' کے مشہور محاورے سے اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوں کہ تیل بیچنے کے لیے فارسی پڑھنا ضروری ہے، عربوں کو دیکھیے وہ فارسی پڑھے بلکہ بہت سے تو کچھ بھی پڑھے بغیر تیل بیچ رہے ہیں۔ چلیے آپ کو تو ہم نے اس غلط فہمی سے بچالیا، لیکن حکم رانوں کو کسی غلط فہمی اور خوش فہمی سے بچانا ہمارے بس کی بات نہیں، اس لیے یقیناً وہ تیل بیچنے کے لیے فارسی پڑھنے کو ضروری خیال کرتے ہوئے پوری قوم کے لیے فارسی پڑھنے کا سرکاری انتظام کریں گے، تاکہ قوم اچھی تیل فروش بن سکے۔ یوں ایک کروڑ کے لگ بھگ فارسی پڑھانے والے اساتذہ کی اسامیاں وجود میں آئیں گی۔

جن سرکاری حکام کو عرصے سے عوام کا تیل نکالنے کی عادت پڑ چکی ہے ان کی یہ عادت ختم کرکے انھیں تیل نکالنے کی تربیت دینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ماہرینِ نفسیات اور ماہرین تیلیات کی تقرری کی جائے گی، جو انھیں عوام کو قریب سے دکھا کر سمجھائیں گے کہ ''دیکھو پیارے! ان تِلوں میں اب تیل نہیں ہے۔'' پھر سمندر دکھا کر بتائیں گے کہ تیل اب یہاں سے نکالنا ہے۔

یہ تو صرف تیل سے متعلق ملازمتیں ہیں، جب یہ تیل دنیا میں بِکے گا اور ہمارے پاس قرضوں اور امداد کے بہ جائے معاوضے کی صورت میں پیسہ آئے گا تو ہر طرف ادارے ہی ادارے اور نوکریاں ہی نوکریاں ہوں گی۔ بھرتیوں پر بھرتیاں ہونے کے بعد بھی ''اسامیاں خالی ہیں'' کے اشتہارات آتے رہیں گے۔ نوبت یہ آئے گی کہ افرادی قوت بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑے گی۔ پھر ہوگا یہ کہ امریکی لاہور میں ٹیکسی چلاتے نظر آئیں گے، انگریز کراچی میں گنے کا رس بیچتے دکھائی دیں گے، جرمن پنڈی بھٹیاں میں ڈھابے کھولے بیٹھے ہوں گے، فرانسیسی مردان میں ٹھیلے لگائے ہوں گے۔

اب تک تو ملازمتوں کی کمی کے باعث صورت حال یہ تھی کہ پولیس کی نفری ناکافی ہونے کی وجہ سے پولیس آپریشن میں فیصل واوڈا صاحب کو پستول لے جانا پڑتا تھا، لیکن کچھ دنوں بعد واوڈا صاحب ''تجھ کو پَرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو'' پر عمل کرتے نظر آئیں گے، اس لیے بہت کم نظر آئیں گے۔

محمد عثمان جامعی
[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں