ٹارگٹ کلنگ نہیں بربریت ہے
دہشت گردوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ معصوم لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
PESHAWAR:
بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آگئی ہے، صوبہ پہلے ہی زخموں سے چور چور ہے، وہی اس کے جسم پر ایک اور گہرا گھاؤ لگایا گیا ہے،گزشتہ روزضلع گوادر میں مکران کوسٹل ہائی پر درجنوں مسلح افراد نے پاک بحریہ کے9 اہلکاروں سمیت 14 مسافروں کو شناخت کے بعد بسوں سے اتارکر شہیدکردیا ، صرف دو مسافر بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔ معصوم اور بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے دہشت گرد سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ خوف وہراس پھیلا کر بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کے سفرکو روک سکیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔
صدر، وزیراعظم ، وفاقی وزراء سمیت سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کوکیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بقول لیویز تھانہ انچارج حملے میں بچ جانے والے ایک سیکیورٹی اہلکار نے بتایا ہے کہ ملزمان کی تعداد چالیس سے زائد تھی، جس مقام پر واقعہ پیش آیا ہے وہ پہاڑی علاقہ ہے اورحملہ آور واردات کرنے کے بعد پیدل پہاڑوں کی طرف فرار ہوگئے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بزدل دہشت گردوں نے بے گناہ نہتے مسافروں کو قتل کرکے بربریت کی انتہا کی لیکن ترقی اور امن کا سفر ہر صورت میں جاری رہے گا ۔
بلاشبہ بلوچستان پاکستان کی ترقی کا گیٹ وے ہے ، سی پیک منصوبے نے اس امرکو مہمیز دی ہے کہ بلوچستان بہت جلد ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پرگامزن ہوگا ۔کیونکہ اس صوبے کے طول وعرض میں قدرت کے بیش بہا خزانے پوشیدہ ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ پڑوسی ملک سمیت کچھ عالمی قوتوں کے پیٹ میں درد اور مروڑ اٹھتے ہیں، ان سے بلوچستان کی ترقی ہضم نہیں ہو پا رہی ہے لہذا سازشوں کا ایک جال ہے جو مقامی دہشتگردوں کی مدد سے بناگیاہے۔پے درپے دہشتگردی کے واقعات سے یہ تاثر جڑ پکڑ رہا ہے کہ بلوچستان میں کسی کی جان ومال محفوظ نہیں ، دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں جب چاہتے ہیں اپنے کارروائی کرنے کے بعد بآسانی روپوش ہوجاتے ہیں ۔ انتہا پسندوں کا رویہ اور طرز عمل انسانی حقوق کی پامالی اور انسان دشمنی کی بد ترین مثال ہے۔
ہمیں مستقبل قریب میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر من وعن عمل کرنا ہوگا، ایسا مربوط میکنزم قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ترتیب دینا ہوگا جوکہ دہشتگردوں کو آہنی شکجنے میں بآسانی جکڑسکے۔ دہشت گردی ایک لعنت ہے جس کے خاتمے کے لیے ہم ایک دہائی سے کوششیں کر رہے ہیں، جس میں ہمیں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی ہے۔
دہشت گردوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ معصوم لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا نہ ہی ایسا کرنے سے کسی مخصوص ہدف کو حاصل کرنے میں انھیں مدد ملے گی۔ بلوچستان میں امن وامان کو خراب کرنے کی کسی بھی کوشش کو سختی سے کچل دینا چاہیے۔
اب یہ حکومت بلوچستان پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ واقعے کی مکمل تحقیقات کرکے ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچائے جب کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اورسکیو رٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے موثر اقدامات کریں ۔ ہمیں بلوچستان میں امن وامان قائم کرنا ہے تاکہ پاکستان دشمنوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آگئی ہے، صوبہ پہلے ہی زخموں سے چور چور ہے، وہی اس کے جسم پر ایک اور گہرا گھاؤ لگایا گیا ہے،گزشتہ روزضلع گوادر میں مکران کوسٹل ہائی پر درجنوں مسلح افراد نے پاک بحریہ کے9 اہلکاروں سمیت 14 مسافروں کو شناخت کے بعد بسوں سے اتارکر شہیدکردیا ، صرف دو مسافر بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکے۔ معصوم اور بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے دہشت گرد سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ خوف وہراس پھیلا کر بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کے سفرکو روک سکیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔
صدر، وزیراعظم ، وفاقی وزراء سمیت سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کوکیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بقول لیویز تھانہ انچارج حملے میں بچ جانے والے ایک سیکیورٹی اہلکار نے بتایا ہے کہ ملزمان کی تعداد چالیس سے زائد تھی، جس مقام پر واقعہ پیش آیا ہے وہ پہاڑی علاقہ ہے اورحملہ آور واردات کرنے کے بعد پیدل پہاڑوں کی طرف فرار ہوگئے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بزدل دہشت گردوں نے بے گناہ نہتے مسافروں کو قتل کرکے بربریت کی انتہا کی لیکن ترقی اور امن کا سفر ہر صورت میں جاری رہے گا ۔
بلاشبہ بلوچستان پاکستان کی ترقی کا گیٹ وے ہے ، سی پیک منصوبے نے اس امرکو مہمیز دی ہے کہ بلوچستان بہت جلد ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پرگامزن ہوگا ۔کیونکہ اس صوبے کے طول وعرض میں قدرت کے بیش بہا خزانے پوشیدہ ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ پڑوسی ملک سمیت کچھ عالمی قوتوں کے پیٹ میں درد اور مروڑ اٹھتے ہیں، ان سے بلوچستان کی ترقی ہضم نہیں ہو پا رہی ہے لہذا سازشوں کا ایک جال ہے جو مقامی دہشتگردوں کی مدد سے بناگیاہے۔پے درپے دہشتگردی کے واقعات سے یہ تاثر جڑ پکڑ رہا ہے کہ بلوچستان میں کسی کی جان ومال محفوظ نہیں ، دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں جب چاہتے ہیں اپنے کارروائی کرنے کے بعد بآسانی روپوش ہوجاتے ہیں ۔ انتہا پسندوں کا رویہ اور طرز عمل انسانی حقوق کی پامالی اور انسان دشمنی کی بد ترین مثال ہے۔
ہمیں مستقبل قریب میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر من وعن عمل کرنا ہوگا، ایسا مربوط میکنزم قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ترتیب دینا ہوگا جوکہ دہشتگردوں کو آہنی شکجنے میں بآسانی جکڑسکے۔ دہشت گردی ایک لعنت ہے جس کے خاتمے کے لیے ہم ایک دہائی سے کوششیں کر رہے ہیں، جس میں ہمیں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی ہے۔
دہشت گردوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ معصوم لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا نہ ہی ایسا کرنے سے کسی مخصوص ہدف کو حاصل کرنے میں انھیں مدد ملے گی۔ بلوچستان میں امن وامان کو خراب کرنے کی کسی بھی کوشش کو سختی سے کچل دینا چاہیے۔
اب یہ حکومت بلوچستان پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ واقعے کی مکمل تحقیقات کرکے ملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچائے جب کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اورسکیو رٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے موثر اقدامات کریں ۔ ہمیں بلوچستان میں امن وامان قائم کرنا ہے تاکہ پاکستان دشمنوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں۔