برطانیہ میں آزادئ صحافت پر حملہ
انسانی حقوق کے کارکن برطانیہ کی حکومت پر اس غیر منصفانہ فیصلے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
KOHAT:
ایکواڈور نے Julian Paul Assange کی شہریت منسوخ کر دی ۔ تحقیقاتی صحافت میں ایک نئی روایت کا آغازکرنے والے 47 سالہ اسانج کو لندن پولیس کے اہلکاروں نے ایکوڈورکے سفارتخانے کے ایک چھوٹے سے کمرے سے کھینچ نکالا۔ اسانج کے مقدر میں اب امریکا کے خفیہ تحقیقاتی مرکز اور امریکی جیلیں ہیں۔
اسانج کی شہریت منسوخ ہونے اورگرفتاری سے آزادئ صحافت پر نئی پابندیوں اور آزاد خیال صحافیوں کے لیے نئی مشکلات کے دورکا آغاز ہوگیا۔ اب تیسری دنیا کے ممالک میں ہی نہیں بلکہ برطانیہ اور امریکا میں بھی اطلاعات فراہم کرنے کے حق کو استعمال کرنے والے میڈیا کا برا دور شروع ہوگیا ۔
جولین نے لندن میں ایکواڈورکے سفارتخانے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں 7 سال گزارے جہاں اس کو نہ ٹیلی وژن اور نہ انٹرنیٹ کی سہولت میسر تھی ، جولین اسانج کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ وہ 3 جولائی 1971ء کو آسٹریلیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں Townsville Queensland میں پیدا ہوئے، اپنی والدہ کے ساتھ یورپ آگئے، اسانج کا پورا بچپن غربت میں گزرا۔ اسانج کی ماں کی کئی شادیاں ناکام ہوئیں ۔ اسانج کو اپنی ماں کے ساتھ روپوشی کی زندگی گزارنی پڑی جس کی بناء پر وہ تعلیم حاصل کرنے میں یکسانیت برقرار نہ رکھ سکا۔
اسانج کو اپنی ماں کے ساتھ جو اپنے شوہروں سے خوفزدہ رہتی تھی آسٹریلیا اور سویڈن کے مختلف قصبوں میں زندگی گزارنی پڑی، جس کا اثر اس کی تعلیم پر ہوا۔ اسانج نے سینٹرل کوئنز لینڈ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف میلبورن میں تعلیم حاصل کی۔ جولین اسانج نے 16 سال کی عمر میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور مسلسل ناکامیوں کے بعد وہ وکی لیکس کا ایڈیٹر پروگرامز اور سیاستدان بن گیا ۔
جولین پال اسانج کی ازدواجی زندگی بھی کامیاب نہیں رہی مگر اس نے وکی لیکس کے ذریعے تحقیقاتی صحافت کے نئے دورکا آغاز کیا۔ جولین اسانج نے 2006ء میں وکی لیکس نام کا ادارہ قائم کیا۔ یہ بنیادی طور پر ایک پبلشنگ ہاؤس تھا جسے جنگی جرائم، انسانی حقوق اورکرپشن سے متعلق دستاویزات شایع کرنا تھا مگر نومبر 2010ء میں وکی لیکس کی دستاویزات نے دنیابھر میں تہلکہ مچادیا۔
وکی لیکس کی یہ دستاویزات امریکا کی وزارت خارجہ، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں اور دنیا بھر میں امریکی سفارتکاروں سے خفیہ رپورٹوں پر مشتمل تھی۔ ان رپورٹوں میں عراق پر امریکا کے حملے، افغانستان میں کارروائیاں، پاکستان میں القاعدہ اور اس کے قائد اسامہ بن لادن اور ان کے اہل خانہ کی سرگرمیوں، پاکستانی حکومت کے عہدیداروں کی سرگرمیوں کے بارے میں امریکی سفارت کاروں کی رپورٹوں، بھارت میں روس کے علاوہ امریکا کے یورپی اتحادی ممالک کے سربراہوں اور وزراء کی پالیسیوں اور دیگر ان گنت موضوعات سے متعلق تھیں۔
ان رپورٹوں نے دنیا بھر کے معروف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے اسکرین پر قبضہ کیا جس کی بناء پر امریکا کے اپنے دوست ممالک سے تعلقات خطرے میں پڑگئے۔ امریکی حکومت کو اپنے وزراء اور سفارتکاروں کو ان ممالک کے دوروں پر بھیجنا پڑا تاکہ وہ وکی لیکس سے افشاں ہونے والے رازوں کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات کی تلافی کرسکیں۔ جرمن چانسلر سمیت کئی ممالک کے سربراہوں کے بارے میں امریکی سفارتکاروں نے جو ریمارکس تحریر کیے تھے اس نے امریکی خارجہ پالیسی کا سیاہ چہرہ نمایاں کردیا۔ امریکا کے اہلکار پہلے اسانج کوs Whistle Blower قرار دیتے تھے۔ اب سرکاری راز کے افشاں کرنے کا ملزم قرار دینے لگے۔ اسانج کے خلاف امریکا، سویڈن اور کئی اور ممالک میں مقدمات درج کرنے اور گرفتاری کے لیے اقدامات کو آخری شکل دی جانے لگی۔
اسانج کے خلاف پہلا مقدمہ سویڈن میں بنا۔ اسانج پر ایک خاتون پر جنسی حملہ کا الزام لگایا گیا۔ اسانج نے اس خاتون سے تعلقات کو فریقین کی رضامندی قرار دیا تھا۔ مگر سویڈن کے وکیل استغاثہ نے تحقیقات کے بعد اسانج کے خلاف اس الزام کو واپس لے لیا۔ امریکا میں اسانج کے خلاف 1917ء کے سرکاری راز افشاں کرنے کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ اسانج کے لیے آسٹریلیا اور سویڈن میں گرفتاری کے امکانات بڑھ گئے تو وہ برطانیہ آگیا، مگر برطانیہ کی حکومت امریکی دباؤ کے آگے جھک گئی۔
برطانیہ کی سپریم کورٹ نے برطانیہ کے منحرف صحافیوں، ادیبوں، تخلیق کاروں اور سیاسی کارکنوں کو سیاسی پناہ دینے کی صدیوں پرانی روایت سے انحراف کیا اور اسانج کو صحافی ماننے سے انکارکیا۔ اسانج نے لاطینی امریکا کے ملک ایکواڈور کو 7 دسمبر 2010ء کو اپنے ملک کی شہریت دینے کی درخواست دی اور اس کے سفارتخانے میں داخل ہوگیا۔ اس وقت ایکواڈور کی حکومت نے اسانج کو اپنے ملک کی شہریت دینے کا فیصلہ کیا مگر اسانج کے لیے برطانیہ سے ایکوڈور جانا ممکن نہیں تھا، یوں اس کو ایکوڈور کے سفارتخانے کے ایک کمرے میں پناہ مل گئی ۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے ایک سپاہی سفارتخانے کے باہر اس جگہ تعینات کردیا جہاں اسانج کے کمرے کی کھڑی کھلتی تھی۔ اسانج کے کمرے میں بیرونی دنیا سے رابطہ کی سہولتیں موجود تھیں جو بعد میں امریکا کے دباؤپر منقطع کردی گئیں۔ اسانج اس دوران بیمار ہوگیا مگر اس نے کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے انکارکیا، یوں 7 سال گزر گئے۔ ایکواڈور میں حکومت تبدیل ہوئی اور ایکوڈور کے نئے صدر نے اسانج کو سیاسی قیدی ماننے سے انکارکیا۔ لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس کے سپاہی ایکواڈور کے سفارتخانے میں داخل ہوئے۔ انھوں نے اس کمرے پر دھاوا بول دیا جہاں اسانج بیماری کی حالت میں مقیم تھے۔
اسانج کو کئی سپاہیوں نے گھسیٹا اور ایک وین میں ڈال کر لے گئے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ اسانج کے خلاف سویڈن میں دوبارہ جنسی حملے کا مقدمہ شروع ہونے والا ہے، پھر اس کو امریکا منتقل کیا جائے گا جہاں سی آئی اے کے اہلکار تشدد کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسانج کے پاس امریکا کی وزارت خارجہ کی خفیہ معلومات کے نظام میں داخل ہونے کے لیے پاس ورڈ کس نے فراہم کیا تھا ۔
تحقیقاتی صحافت کو سمجھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکی اہلکاروں نے نفسیاتی یا جسمانی تشدد کے ذریعے اسانج سے اس کے ذرایع کا پتہ معلوم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تو یہ اتنی بری نظیر قائم ہوجائے گی کہ دنیا بھر میں تحقیقاتی صحافت کے امکانات مخدوش ہو جائیں گے جس سے عوام کا جاننے کا حق متاثر ہوگا اور عوام اپنے اس حق سے محروم ہونے کی بناء پر حکمرانوں کے منتخب کرنے اور ان کے اختیارات کے حق کو کھودیں گے، یوں جمہوری ادارے مفلوج ہونگے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اسانج ایک ذہین آئی ٹی ایکسپرٹ ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ اس نے خود ہی وزارت خارجہ کے پاس ورڈ کا توڑ نکال لیا ہو مگر اسانج کی گرفتاری سے جہاں اس کا مستقبل مخدوش ہوگا وہیں تحقیقاتی رپورٹنگ کے لیے بھی خطرناک صورتحال پیدا ہوگی۔
ابلاغ عامہ کے استاد اور محقق ڈاکٹر عرفان عزیز اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وکی لیکس نے ایک نئی صحافت کا آغاز کیا تھا جس کے ذریعہ امریکی حکومت کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک کے سربراہوں کی حقیقی تصویر عوام کے سامنے آئی تھی اور عوام کے جاننے کے حق Right to know کی تسکین ہوئی تھی۔ اگرچہ امریکا کے خفیہ دستاویزات کو افشاں ہونے کے قانون کے تحت 10سال بعد بہت سی دستاویزات عوام کے سامنے آتی ہیں اور کچھ دستاویزات پوشیدہ رہتی ہیں مگر مختصر عرصہ میں وکی لیکس کے ذریعے ان دستاویزات کی اشاعت سے عوام کے شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ اسانج کی گرفتاری پر پوری دنیا میں صحافی احتجاج کر رہے ہیں اور اس صورتحال کو جدید صحافت کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔ لندن میں جرمنی اور اسپین کی دو خواتین اراکین پارلیمنٹ نے اسانج کی رہائی کے لیے پریس کانفرنس کی ہے۔
آزادئ صحافت پر اس طرح کی پابندیوں کی صورتحال صرف امریکا اور برطانیہ میں نہیں ہے بلکہ یورپی ممالک میں بھی اسی طرح کی پابندیاں عائد ہیں اور افریقہ اور ایشیائی ممالک تو ہر لحاظ سے پسماندہ ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن برطانیہ کی حکومت پر اس غیر منصفانہ فیصلے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر روسی حکومت اس برطانوی صحافی کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرے جس نے اس کی حکومت کے خلاف دستاویزات شایع کیں تو برطانیہ کی حکومت ایسا ہی رویہ اختیار کرے گی؟ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب کے صحافی جمال خوشوگی کے قتل پر برطانیہ کی مذمت کا بھی پھر کوئی جواز نہیں رہے گا۔
اسانج کے ساتھ پیدا ہونے والی جیسی صورتحال کا سامنا پاکستان میں بھی صحافیوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے بعد سائبر کرائم کے قانون کے تحت 6صحافیوں کے خلاف کارروائی، سینئر صحافیوں کے خلاف مقدمات، پریس ایڈوائس اور اشتہارات کو آزادئ صحافت کو کچلنے کے لیے اقدامات بھی برطانیہ میں اسانج کے خلاف ہونے والے اقدامات جیسے ہیں۔ عظیم دانشور اور امریکی منحرف نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ اسانج نہ تو ہیرو ہے نہ غدار، مگر اسانج وہ شخص ہے جس نے شہری ذمے داریوں کو پورا کیا ہے۔ اسانج کی گرفتاری کے خلاف آواز اٹھا کر ہی آزادئ صحافت کے ادارے کو بچانے کی تحریک کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔