کسان کا حال ِدل
حکومت کی طرف سے ابھی تک کسانوں کو کوئی خیر کا کلمہ سننا نصیب نہیں ہوا۔
میں لاہور شہر کے ایک مکان میں مقیم ہوں جسے میں گھر بھی نہیں کہہ سکتا کیونکہ میرا گھر لاہور سے بہت دور ایک وادی میں ہے جہاں کا موسم گرمیوں میںخوشگوار یعنی شہروں کی تپتی گرمی سے بہتر مگر سردیوں میں شدید سردی میری وادی کے باسیوں کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے۔
لاہور کے مکان میں بیٹھ کر کھلے دروازے سے اپریل کے مہینے میںبارش کا نظارہ کرنا لاہور کے باسیوں کے لیے تو خوشگوار تجربہ ہو سکتا ہے جس سے وہ گرم موسم میں ٹھنڈ کا لطف اٹھا رہے ہیں لیکن میرے جیسے معمولی کاشتکار کے لیے اس سے بے رحم موسم کوئی اور نہیں ہے، بارش کا ایک ایک قطرہ میری گندم کی فصل کو تباہ و برباد کر چکا ہے اور میری سال بھر کی محنت واقعی مٹی میں مل چکی ہے۔
بیساکھ کا مہینہ کسانوں کے ہاں گندم کی فصل کی کٹائی کا مہینہ ہوتا ہے جس کے لیے بہت پہلے سے ہی تیاریاں کر لی جاتی ہیں کیونکہ سال بھر کے دانے اسی فصل سے حاصل ہوتے ہیں۔ گندم کی کٹائی کے موسم میں کسان ہر روز آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور اگر ان کو آسمان پر بادل کے چند ٹکڑے بھی نظر آجائیں تو وہ اللہ سے یہ دعا کرتے نظر آتے ہیں کہ باری تعالیٰ ان کی گندم کی فصل کو خیریت سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ اگر اس موسم میں بارش ہو جائے تو وہ ان کی سال بھر کی محنت کو ضایع کر دیتی ہے ۔ گندم کی فصل جب تیار ہو جاتی ہے تو اس کے کھیت اس طرح معلوم ہوتے ہیں جیسے سونے جیسی چمک والی کوئی شئے دور دور تک نظر آرہی ہے۔
شہروں کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر گرم گرم روٹی کھانے والے کیا جانیں کہ ان کے ملک کا کسان کتنی مشقت کے بعد یہ روٹی اپنے ہاتھوں پر چھالے ڈال کران کے نرم ہاتھوں میں پہنچاتا ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں صبح سویرے ہاتھوں میں درانتی پکڑے کسان ٹولیوں کی شکل میں اپنی زمینوں سے گندم کی کٹائی شروع کرتے ہیں اور جیسے جیسے سورج کی تمازت بڑھتی جاتی ہے کسان کا جسم پسینے سے شرابور ہوتا جاتا ہے لیکن یہ پسینہ اس کی سال بھر کی کمائی کا پسینہ ہوتا ہے جس کی بدبو بھی اسے خوشبو کی مانند لگتی ہے، یہ خوشبو اسے مست کردیتی ہے اوروہ ایک نئے جذبے کے ساتھ کٹائی کا عمل جاری رکھتا ہے۔ لسی کے بڑے گلاس گندم کی کٹائی کے گرم موسم میں کسان کی پیاس بجھاتے ہیں اور گڑ اور شکر کے ساتھ تندور کی روٹیوں پر دیسی گھی لگا کر کسان گندم کی کٹائی کے دوران اپنے شکم کی پیاس بجھاتے ہیں۔
بارانی علاقوں کے رہنے والے بارش کی قدرو قیمت سے آگاہ ہیں ان کو معلوم ہے کہ بروقت بارش ان کی فصل کے لیے زندگی کا پیغام لاتی ہے جب کہ یہی بارش اگر بے موسمی یعنی آج کل کے موسم میں ہو تو یہ بارش ان کی فصل کے لیے تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ میں پہلے بھی متعدد مرتبہ اپنے قارئین تک یہ بات پہنچا چکا ہوں کہ بارانی علاقوں کی فصلوں کا دارومدار صرف اور صرف باران رحمت پر ہوتا ہے جس برس بروقت بارشیں ہو گئیں تو بارانی کسانوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں اور ان کے چہروں پر پائی جانے والی خوشی کا ہم شہروں میں بیٹھ کر تصور بھی نہیں کرسکتے لیکن اگر بارانی علاقوں میں بارش نہ ہو تو بارانی کاشتکاروں کی تمام تر محنت مٹی میں مل جاتی ہے چونکہ بیج کو مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں ملتا اس لیے فصل کے خوشے اول تو زمین سے نکلتے ہی نہیں اگر زمین کی ٹھنڈک کی وجہ سے نکل آئیں توموسم کی حدت برداشت نہیں کر پاتے۔
بہر حال یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو کسی انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہ معاملہ ایک ایسے شخص اور اس کے مالک کے درمیان ہے جو اپنا سب کچھ زمین میں بیج کر اپنے مالک کی رحمت کا منتظر رہتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس شخص سے بڑا توکل رکھنے والا اور کوئی نہیں جو ایک ان دیکھے موسم کے بجائے صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتا ہے اور اسی سے مدد کا طلبگار ہوتا ہے۔ اگر اس کی فصل اچھی ہوجائے تو اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے دوسری صورت میں صبر شکر کر کے اگلی فصل کے لیے اللہ تعالیٰ سے امید لگا کر بیٹھ جاتا ہے۔
گندم کی فصل سے کسانوں کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ہمارے سادہ دل کسانوں کی خواہشات محدود ہوتی ہیں ایسی ہی جیسے وہ محدود پانی پر گزارہ کر کے اپنی فصل کی کاشت کو ممکن بناتے ہیں ۔ گندم کی فصل سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بچوں کی شادیاں اورقرض خواہوں کو ادائیگی کے وعدے پورے کرنے ہوتے ہیں اور اگر اس میں سے کچھ بچ جائے تو اس کو زندگی کی باقی ماندہ بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے سنبھال کر رکھ لیا جاتاہے۔ ہمارے کسانوں کی نئی نسل کے خواب بھی نئے زمانے کی طرح نئے ہیں گو کہ دیہات کے رہنے والوں میں ابھی تک وہ خرابیاں سرایت نہیں کر سکیں جو شہروں میں ہیں لیکن انھوں نے اپنی آمد کی اطلاع ضرور دے دی ہے۔
میرے بارانی علاقے کے محنتی کسان سادہ زندگی گزارنے کے عادی ہیں لیکن اب ان کی اولاد اس سادگی کومزید اختیار کرنے کو تیار نظر نہیں آتی وہ سنگلاخ زمینوں سے اپنے والد کی طرح اناج اگانے کی مشقت سے بچنا چاہتے ہیں۔ نئے زمانے کے نوجوانوں کی نئی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے باپ گندم کی کٹائی کا انتظار کرتا ہے سال کے دانے اکٹھے ہو جائیں تو کسان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے سالن کے نام پر تو اپنی ہی زمینوں پر خود رو ساگ کی چٹنی سے بھی گزارا ہو جاتا ہے ۔ اس کسمپرسی کی زندگی میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا میرے بارانی علاقے کے بہادر کسانوں کا خاص وصف اور روایت ہے۔
بے وقت کی بارشوں نے گندم کی فصل سے جڑی خواہشوں کے رنگ پھیکے کر دیے ہیں ۔یہ وہ موسم ہے جب ہمارے کسان کہتے ہیں کہ ان کو ''سونے کی کنی '' بھی قبول نہیں ۔یعنی سونے کی بارش بھی ان کی گندم کی فصل کے سامنے ہیچ ہے۔ سال بھر کی محنت چند دنوں میں ضایع ہونے جارہی ہے مگر حکومت کی طرف سے ابھی تک کسانوں کو کوئی خیر کا کلمہ سننا نصیب نہیں ہوا۔ حکومتی ایوانوں سے سب اچھے کی گردان جاری ہے، دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔کسان اپنا حال دل کس سے کہیں ،حکومت بے خبر اور بے دل ہے کسان اپنے دل کا حال اللہ تعالیٰ کو ہی سنائیں، وہی سب کی سننے والا اور غفور ورحیم وکریم ہے ۔