ابھی نہیں تو کبھی نہیں
پاکستان میں کرپشن ایک طرز زندگی بن چکی ہے۔ برسوں سے جاری قومی خزانے کی لوٹ مار آج معیشت کی بدحالی کا بنیادی سبب ہے۔
اگر اس ملک کو درست راستے پر ڈالنا ہے تو کرپشن کے خاتمے کی جنگ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ دیگر کئی اسباب کے ساتھ کرپشن وہ بنیادی وجہ ہے جس نے ملکی معیشت کو اس حال تک پہنچایا ، اسی کی وجہ سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہورہی ہے ، اداروں کو اس مرض نے کھوکھلا کردیا ہے جس کے اثرات کا اب ہمیں سامنا ہے۔
کرپشن سے لڑائی اوپر سے نیچے کی جانب آنی چاہیے تاکہ کسی بڑے سیاسی منصب پر براجمان بدعنوان شخص اس عمل میں مداخلت کے قابل نہ رہے۔ عدالتوں میں کرپشن کو ثابت کرنا دشوار کام ہے۔ جیسے میاں نواز شریف کا کیس جو ابھی تک چل رہا ہے اور کرپشن کا الزام پوری طرح ثابت نہیں کیا جاسکا۔ ایسے ہی دیگر مقدمات ، جن میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ پر مالی کرپشن اور جعلی بینک کھاتوں یا بے نامی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں، وہ بھی طول پکڑ رہے ہیں۔
نیب کو جن رکاوٹوں کا سامنا ہے ان میں ملزمان کو دی جانے والی قبل از گرفتاری ضمانت ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے ادارے کو تفتیش میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ http://www.lawsofpakistan.com میں اس حوالے سے کیے گئے تبصرے کے مطابق:''قبل از گرفتاری ضمانت کا حق شاذ ہی کسی کو دیا جاتا ہے اور یہ صرف بہت ٹھوس اسباب کی دست یابی اور غیر معمولی حالات کی حد تک محدود ہے جن میں بدنیتی/عناد واضح ہو۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 498 قبل از گرفتاری ضمانت کے موضوع پر روشنی ڈالتی ہے۔
یہ عدالت عالیہ یا سیشن کورٹ کو غیر معمولی نوعیت کے مقدمات میں قبل از گرفتاری ضمانت دینے کا اختیار دیتی ہے۔ لیکن یہ اختیار عدالت عظمی کے واضح کیے گئے اصولوں اور ہدایات کے مطابق استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم قبل از گرفتاری ضمانت کی شرائط کا خلاصہ کریں تو یہ نکات واضح ہوتے ہیں۔1) فوری گرفتاری کا حقیقی خدشہ ثابت ہوجائے۔ 2)درخواست گزار کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔3) بلا جواز گرفتاری کی صورت میں ہراساں کرنے اور ناقابلِ تلافی تضحیک کا خدشہ پایا جاتا ہو۔4) بصورت دیگر پیش نظر معاملہ میرٹ پر پورا اترتا ہو۔
آج کل پاکستان میں نیب ملزمان کی ضمانت، عبوری ضمانت اور ضمانت قبل از گرفتاری کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی رمضان شوگر مل اور صاف پانی کمپنی کیس میں 17ستمبر تک کے لیے ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی۔ اس سے قبل نیب نے تفتیش میں تعاون نہ کرنے پر حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن شریف خاندان کے سیکڑوں حامی ان کی راہ کی دیوار بن گئے۔
اس کے بعد بظاہر محسوس ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ نے شریف خاندان کو رعایت دیتے ہوئے حمزہ شہباز کے لیے فوری عبوری ضمانت منظور کی اور عدالتی احکامات نیب کو پہنچا کر گرفتاری روک دی گئی۔
حمزہ کے والد شہباز شریف کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم اور رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانت دی گئی۔ اس سے قبل وہ گزشتہ برس اکتوبر سے نیب کی حراست میں تھے اور ضمانت ملتے ہی وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ لندن روانہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی والدہ اور عملے کے دیگر چار ارکان کے لیے بھی ویزے حاصل کرلیے۔ ضمانت منظوری کی شرائط میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ ملزم ملک چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ آخر میں نواز شریف، جو العزیزیہ معاملے میں کرپشن پر نیب عدالت سے دی گئی سات برس کی قید کاٹ رہے ہیں انھیں علاج معالجے کے لیے چھ ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کیا گیا۔
یہ تو دیگ کے چند دانے ہیں۔ نیب زرداری، تالپور، اومنی گروپ چیئرمین انور مجید، پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے سابق چیئرمین حسین لوائی، سمٹ بینک کے سینیئر نائب صدر طہ رضا اور زرداری کے دیگر قریبی ساتھیوں کے خلاف جعلی بینک کھاتوں کے معاملے کی تفتیش کررہا ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران 6 ستمبر 2018کو دو مزید کمپنیاں میسز لینڈ مارکس اور نیشنل گیسز پرائیوٹ لمیٹڈ(میسز این جی ایس) کے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کی بھی نشان دہی کی گئی۔ لینڈمارکس زرداری، تالپور اور پیچوہو کی مشترکہ ملکیت ہے۔ ان دونوں کمپنیوں کا انکشاف اس ہارڈ ڈسک سے ملنے والے ریکارڈ سے ہوا تھا جو ایف آئی اے نے اومنی گروپ کی ملکیت کھوسکی شوگر ملز پر چھاپے کے دوران ضبط کی تھی، اس فرنچائز کے سربراہ انور مجید ہیں۔
کچھ روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے 28مارچ کو سماعت کے لیے منظور ہونے والی درخواست قبل از گرفتاری کی سماعت کرتے ہوئے زرداری اور ان کی ہمشیر فریال تالپور کی ضمانت میں 29اپریل تک توسیع کی منظوری دی۔ اسی روز نیب نے زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو دی جانے والی ضمانت منسوخ کرنے کی استدعا کی اور خدشہ ظاہر کیا کہ زرداری اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر ریکارڈ میں رد و بدل کرسکتے ہیں اور یہ بھی بیان کیا کہ زرداری پہلے ہی تحقیقات میں بیورو سے تعاون نہیں کررہے ہیں۔ نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ زرداری نے ضمانت کی درخواست میں بھی عدالت کو گمراہ کیا ہے اور اس معاملے میں وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ لیکن عدالت نے بخوشی گمراہ ہونا قبول کرلیا اور دونوں ملزمان کی ضمانت منظور کرلی۔
ان نمایاں مقدمات سے ہٹ کر دیگر متعدد مقدمات میں لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے ملزمان کی ضمانتیں منظور کی گئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قانونی راستے سے کرپشن کے خلاف جنگ کتنا دشوار کام ہے۔ کمزور ریاست ایسے لوگوں کو تسلی بخش تحفظ نہیں دے سکتی جو اس ملک کے طاقتوروں کے خلاف گواہی دینے یا شواہد فراہم کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ بالخصوص نچلی عدالتوں کے جج بھی اسی وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ ملکی قوانین ایسے رویوں کی جڑ ہیں، یہ استدلال پوری طرح درست نہیں۔ موجودہ قوانین پر سختی کے ساتھ، بغیر کسی ''نرمی'' (یہ بھی قانونی اصطلاح ہوئی؟) کے ساتھ عمل کیا جائے اور جج پوری کرپشن کے خلاف جنگ میں یکسو ہوجائیں تو یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں کرپشن ایک طرز زندگی بن چکی ہے۔ برسوں سے جاری قومی خزانے کی لوٹ مار آج معیشت کی بدحالی کا بنیادی سبب ہے۔ بیرونی قرضے 100ارب ڈالر اور مقامی بینکوں کے قرضے 20ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت کی پاکستان واپسی کے آثار نظر نہیں آتے۔ لیکن مستقبل میں اس لوٹ مار کو روکنے کے لیے لٹیروں کو سزائیں تو دی جاسکتی ہیں۔ فی الحال حالات دیکھتے ہوئے یہ بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
قومی احتساب آرڈیننس میں بہتری لاکر اور نیب کی مدد سے ریاست اور اداروں میں کرپشن کی گہری جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں جاری ہیں۔ قومی احتساب آرڈیننس کو بالادست قانون بنایا گیا تھا اور اسے کسی بھی نافذ قانون پر فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔(آرٹیکل 3) اس وقت سے اس قانون کے نفاذ اور بدعنوان عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے جب کہ بازیافت ہونے والے غیر قانونی اثاثوں کی ضبطی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اس دوران ایسا کڑا وقت بھی آتا رہا ہے جب نیب کو دیگر اداروں کا تعاون حاصل نہیں رہا ۔ لیکن گزرتے برسوں میں نیب مضبوط ہوا ہے اور ''معلوم ذرایع سے زائد آمدن'' کا تصور تفتیش کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ٹھوس بنیاد بنتا جارہا ہے۔
اس صورت حال میں ایک اور کارگر حل یہ ثابت ہوسکتاہے کہ ایک آرڈیننس کے ذریعے ضمانت پر 120 دن تک پابندی عائد کردی جائے۔ اگر حال ہی میں دی جانے والی ضمانتیں منسوخ کردی جائیں اور آیندہ چار ماہ تک ضمانت نہ دی جائے تو ملزمان خود ہی سوالوں کے جواب بھی دینا شروع کردیں گے اور مطلوبہ معلومات بھی فراہم کردیں گے۔ کسی بھی پیش رفت کے لیے 120دن کافی ہوتے ہیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)