ایک لاکھ 35 ہزار گھر
یہ پروجیکٹ اپنی طرز کا ایک بہت بڑا اور بامعنی پروجیکٹ ہے لیکن پاکستان ایک کرپٹ مافیا کا بھی ملک ہے۔
ISLAMABAD:
وفاقی کابینہ نے ایک لاکھ 35 ہزارگھر بنانے کی منظوری دے دی ہے، یہ اس ایک کروڑ مکانات کی تعمیرکا آغاز کہلا سکتا ہے جس کا اعلان وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیا تھا، اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ملک میں کروڑوں عوام رہائش سے محروم ہیں ، جس کے نتیجے میں ہر بڑے شہر میں کچی آبادیوں کے نام سے ہزاروں بستیاں آباد کردی گئی ہیں اور اس ''پروجیکٹ'' میں شروع سے آخر تک کرپشن کا دور دورہ رہا ہے۔
ہر ملک کے حکمران طبقے کی ترجیحات میں عوام کی رہائش کا بندوبست اولین ترجیح میں شمار ہوتا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں کرپشن اتنی زیادہ نہیں جتنی ہمارے ملک میں ہے لہٰذا قومی مسائل کے حل میں کرپشن کا عمل دخل نسبتاً بہت کم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان چونکہ کرپشن کا گڑھ بنا ہوا ہے لہٰذا یہاں اور شعبوں کی طرح تعمیراتی شعبے میں بھی کرپشن کی بھرمار ہے۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے ،اس میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو پسماندہ دیہی علاقوں سے حصول روزگار کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں چونکہ باہر سے آنے والوں کی پہلی ضرورت گھر ہوتاہے لہٰذا گھر کے حصول کے لیے ہر بندہ بشر بڑے پاپڑ بیلتا ہے۔
کراچی میں گھروں کے ضرورت مندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر ''کاریگروں'' نے باہر سے آنے والوں کو کچی بستیوں میں بسانے کا ایک مکمل کرپٹ نظام قائم کردیا ،کچی آبادیاں اسی کرپٹ نظام کا ایک حصہ ہیں ان آبادیوں میں عموماً جگہ بیچی جاتی ہے بغیرکسی منصوبہ بندی کے خریدی یا رشوت کے ذریعے حاصل کی گئی زمین پر بے ترتیب گھر بنائے جاتے ہیں۔جہاں بجلی، پانی، سیوریج جیسی بنیادی ضرورتوں کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا جس کا نتیجہ گندی بستیوں کی شکل میں نکلتا ہے۔
ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں سوائے پاکستان کے ابتدائی دور کے بستیاں بسانے کا کوئی اہتمام نہیں رہا ۔ جنرل اعظم خان کے دور میں لانڈھی، ملیر، کورنگی کے نام سے چند بستیاں بسائی گئیں اس کے بعد سرکاری سطح پر آبادکاری کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، آج کچی بستیوں کا حال یہ ہے کہ نہ ان بستیوں میں بجلی ہے، نہ پانی اس پر سیوریج کا نظام نہ ہونے سے یہ بستیاں گندگی کے ڈھیروں میں بدل گئی ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں۔
حکمران طبقات الیکشن سے کچھ پہلے ان بستیوں میں تشریف لاتے ہیں اور ووٹ کے حصول کے لیے ان بستیوں کے خاک نشینوں سے آسمان سے ستارے توڑ کر لانے کے وعدے کرتے ہیں اور غریب عوام کے ووٹوں سے انتخاب جیتنے کے بعد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی ترجیحات میں آبادکاری رہی ہی نہیں جس کا نتیجہ کرپشن کے سائے تلے ہزاروں کچی بستیاں حکمرانوں کے چہروں کا کوڑھ بنی ہوئی ہیں۔
اس پس منظر میں عمران خان حکومت کی جانب سے ایک لاکھ 35 ہزار مکانوں کی تعمیر کا اعلان بہت حیران کن ہے۔ عمران خان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور عمران خان نیک نیتی سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں سکون سے کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا ہے ۔عمران خان نے خلوص نیت سے جب ایک کروڑ مکانات بنانے کا اعلان کیا تو ہماری اپوزیشن نے اس کا مذاق اڑایا۔
عمران حکومت نے مکانوں کی تعمیر کا آغاز پسماندہ علاقوں سے کیا ہے بلوچستان ملک کا ایک پسماندہ صوبہ ہے جہاں ہزاروں بے گھر افراد رہتے ہیں ایسے صوبے سے سرکاری ہاؤسنگ اسکیم کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں پسماندہ علاقے اولین اہمیت کے حامل ہیں۔ بلوچستان میں آبادکاری کے پہلے مرحلے میں ایک لاکھ 10 ہزار گھر اور وفاقی ملازمین کے لیے 25 ہزار اپارٹمنٹس تعمیر کیے جائیں گے، اس کے علاوہ گوادر میں ماہی گیروں کے لیے ایک بستی الگ سے تعمیر کی جائے گی اس پروجیکٹ کے آغاز سے بلاشبہ غریب عوام کے لیے حکومت کی نیک نیتی اور ترجیحات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
بلاشبہ یہ پروجیکٹ اپنی طرز کا ایک بہت بڑا اور بامعنی پروجیکٹ ہے لیکن پاکستان ایک کرپٹ مافیا کا بھی ملک ہے اس اربوں روپوں کے پروجیکٹ پر ہمارا کرپٹ طبقہ دانت لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کی پوری پوری کوشش یہی ہوگی کہ ایک لاکھ 35 ہزار مکانوں کی تعمیر سے اربوں کی کمائی کرلے۔ یہ ایک ایسی بدنما حقیقت ہے جس کا مشاہدہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی کیا جا رہا ہے۔
تعمیراتی پروجیکٹوں میں ناقص میٹریل کا استعمال ہماری روایات کا اہم حصہ ہے بلاشبہ عمران حکومت کی ہاؤسنگ کے حوالے سے یہ ایک مفید اسکیم ہے لیکن اس کے نگرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اربوں روپوں کے اس بڑے پروجیکٹ میں کرپشن کو گھسنے نہ دیں ورنہ بہت جلد یہ بڑا پروجیکٹ لٹیری کلاس کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت نے اس منصوبے کو کرپشن سے بچانے کے لیے کیا کیا تدبیریں کی ہیں لیکن اسے ہر حال میں کرپشن سے بچانا ضروری ہے۔
ایک لاکھ 35 ہزار مکانات بنانا تو آسان ہے لیکن ان مکانوں کو حقیقی حقداروں تک پہنچانا بہت مشکل کام ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ یہ مکان صرف ان لوگوں کو ہی ملیں جو بے گھر اور رہائش کے حقدار ہیں۔ عمران خان کو پہلی بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہے اور وہ اس حوالے سے سنجیدہ اور پرعزم ہیں لیکن جلد سے جلد کئی بڑے بڑے کاموں کے شوق میں وہ حقائق کو نہ بھلائیں ایسے موقعوں پر قریبی لوگ جن میں پارٹی ورکرز بھی شامل ہوتے ہیں اپنے کرتب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ان حضرات سے ہوشیار رہنے کی سخت ضرورت ہے۔
ایم این ایز، ایم پی ایز اپنی کارکردگی دکھانے اور آنے والے الیکشن میں عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مکانوں کی الاٹمنٹ میں بے اصولیاں کرسکتے ہیں جس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ جس ملک میں مردوں کے لیے قبر کی جگہ حاصل کرنے کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے اس ملک میں اگر اربوں روپوں کا ایک پروجیکٹ لانچ کیا جا رہا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنے چور اس پروجیکٹ کو لوٹنے کی تیاریاں نہیں کر رہے ہوں گے؟
ایماندار اہلکاروں کے ذریعے سخت نگرانی میں پہلے ان لوگوں کی فہرستیں تیار کرنا ضروری ہے جنھیں مکانات الاٹ کیے جائیں گے چونکہ ماضی میں اس قسم کے منصوبوں میں بھاری کرپشن کا ارتکاب کیا جاتا رہا ہے لہٰذا اربوں روپوں کے اس بڑے پروجیکٹ کی سخت نگرانی اور ناقص میٹریل سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔
وفاقی کابینہ نے ایک لاکھ 35 ہزارگھر بنانے کی منظوری دے دی ہے، یہ اس ایک کروڑ مکانات کی تعمیرکا آغاز کہلا سکتا ہے جس کا اعلان وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیا تھا، اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ملک میں کروڑوں عوام رہائش سے محروم ہیں ، جس کے نتیجے میں ہر بڑے شہر میں کچی آبادیوں کے نام سے ہزاروں بستیاں آباد کردی گئی ہیں اور اس ''پروجیکٹ'' میں شروع سے آخر تک کرپشن کا دور دورہ رہا ہے۔
ہر ملک کے حکمران طبقے کی ترجیحات میں عوام کی رہائش کا بندوبست اولین ترجیح میں شمار ہوتا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں کرپشن اتنی زیادہ نہیں جتنی ہمارے ملک میں ہے لہٰذا قومی مسائل کے حل میں کرپشن کا عمل دخل نسبتاً بہت کم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان چونکہ کرپشن کا گڑھ بنا ہوا ہے لہٰذا یہاں اور شعبوں کی طرح تعمیراتی شعبے میں بھی کرپشن کی بھرمار ہے۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے ،اس میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو پسماندہ دیہی علاقوں سے حصول روزگار کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں چونکہ باہر سے آنے والوں کی پہلی ضرورت گھر ہوتاہے لہٰذا گھر کے حصول کے لیے ہر بندہ بشر بڑے پاپڑ بیلتا ہے۔
کراچی میں گھروں کے ضرورت مندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر ''کاریگروں'' نے باہر سے آنے والوں کو کچی بستیوں میں بسانے کا ایک مکمل کرپٹ نظام قائم کردیا ،کچی آبادیاں اسی کرپٹ نظام کا ایک حصہ ہیں ان آبادیوں میں عموماً جگہ بیچی جاتی ہے بغیرکسی منصوبہ بندی کے خریدی یا رشوت کے ذریعے حاصل کی گئی زمین پر بے ترتیب گھر بنائے جاتے ہیں۔جہاں بجلی، پانی، سیوریج جیسی بنیادی ضرورتوں کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا جس کا نتیجہ گندی بستیوں کی شکل میں نکلتا ہے۔
ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں سوائے پاکستان کے ابتدائی دور کے بستیاں بسانے کا کوئی اہتمام نہیں رہا ۔ جنرل اعظم خان کے دور میں لانڈھی، ملیر، کورنگی کے نام سے چند بستیاں بسائی گئیں اس کے بعد سرکاری سطح پر آبادکاری کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، آج کچی بستیوں کا حال یہ ہے کہ نہ ان بستیوں میں بجلی ہے، نہ پانی اس پر سیوریج کا نظام نہ ہونے سے یہ بستیاں گندگی کے ڈھیروں میں بدل گئی ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں۔
حکمران طبقات الیکشن سے کچھ پہلے ان بستیوں میں تشریف لاتے ہیں اور ووٹ کے حصول کے لیے ان بستیوں کے خاک نشینوں سے آسمان سے ستارے توڑ کر لانے کے وعدے کرتے ہیں اور غریب عوام کے ووٹوں سے انتخاب جیتنے کے بعد گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی ترجیحات میں آبادکاری رہی ہی نہیں جس کا نتیجہ کرپشن کے سائے تلے ہزاروں کچی بستیاں حکمرانوں کے چہروں کا کوڑھ بنی ہوئی ہیں۔
اس پس منظر میں عمران خان حکومت کی جانب سے ایک لاکھ 35 ہزار مکانوں کی تعمیر کا اعلان بہت حیران کن ہے۔ عمران خان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور عمران خان نیک نیتی سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں سکون سے کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا ہے ۔عمران خان نے خلوص نیت سے جب ایک کروڑ مکانات بنانے کا اعلان کیا تو ہماری اپوزیشن نے اس کا مذاق اڑایا۔
عمران حکومت نے مکانوں کی تعمیر کا آغاز پسماندہ علاقوں سے کیا ہے بلوچستان ملک کا ایک پسماندہ صوبہ ہے جہاں ہزاروں بے گھر افراد رہتے ہیں ایسے صوبے سے سرکاری ہاؤسنگ اسکیم کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں پسماندہ علاقے اولین اہمیت کے حامل ہیں۔ بلوچستان میں آبادکاری کے پہلے مرحلے میں ایک لاکھ 10 ہزار گھر اور وفاقی ملازمین کے لیے 25 ہزار اپارٹمنٹس تعمیر کیے جائیں گے، اس کے علاوہ گوادر میں ماہی گیروں کے لیے ایک بستی الگ سے تعمیر کی جائے گی اس پروجیکٹ کے آغاز سے بلاشبہ غریب عوام کے لیے حکومت کی نیک نیتی اور ترجیحات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
بلاشبہ یہ پروجیکٹ اپنی طرز کا ایک بہت بڑا اور بامعنی پروجیکٹ ہے لیکن پاکستان ایک کرپٹ مافیا کا بھی ملک ہے اس اربوں روپوں کے پروجیکٹ پر ہمارا کرپٹ طبقہ دانت لگائے بیٹھا ہوگا اور اس کی پوری پوری کوشش یہی ہوگی کہ ایک لاکھ 35 ہزار مکانوں کی تعمیر سے اربوں کی کمائی کرلے۔ یہ ایک ایسی بدنما حقیقت ہے جس کا مشاہدہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی کیا جا رہا ہے۔
تعمیراتی پروجیکٹوں میں ناقص میٹریل کا استعمال ہماری روایات کا اہم حصہ ہے بلاشبہ عمران حکومت کی ہاؤسنگ کے حوالے سے یہ ایک مفید اسکیم ہے لیکن اس کے نگرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اربوں روپوں کے اس بڑے پروجیکٹ میں کرپشن کو گھسنے نہ دیں ورنہ بہت جلد یہ بڑا پروجیکٹ لٹیری کلاس کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت نے اس منصوبے کو کرپشن سے بچانے کے لیے کیا کیا تدبیریں کی ہیں لیکن اسے ہر حال میں کرپشن سے بچانا ضروری ہے۔
ایک لاکھ 35 ہزار مکانات بنانا تو آسان ہے لیکن ان مکانوں کو حقیقی حقداروں تک پہنچانا بہت مشکل کام ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ یہ مکان صرف ان لوگوں کو ہی ملیں جو بے گھر اور رہائش کے حقدار ہیں۔ عمران خان کو پہلی بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہے اور وہ اس حوالے سے سنجیدہ اور پرعزم ہیں لیکن جلد سے جلد کئی بڑے بڑے کاموں کے شوق میں وہ حقائق کو نہ بھلائیں ایسے موقعوں پر قریبی لوگ جن میں پارٹی ورکرز بھی شامل ہوتے ہیں اپنے کرتب دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ان حضرات سے ہوشیار رہنے کی سخت ضرورت ہے۔
ایم این ایز، ایم پی ایز اپنی کارکردگی دکھانے اور آنے والے الیکشن میں عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مکانوں کی الاٹمنٹ میں بے اصولیاں کرسکتے ہیں جس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ جس ملک میں مردوں کے لیے قبر کی جگہ حاصل کرنے کے لیے رشوت دینی پڑتی ہے اس ملک میں اگر اربوں روپوں کا ایک پروجیکٹ لانچ کیا جا رہا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنے چور اس پروجیکٹ کو لوٹنے کی تیاریاں نہیں کر رہے ہوں گے؟
ایماندار اہلکاروں کے ذریعے سخت نگرانی میں پہلے ان لوگوں کی فہرستیں تیار کرنا ضروری ہے جنھیں مکانات الاٹ کیے جائیں گے چونکہ ماضی میں اس قسم کے منصوبوں میں بھاری کرپشن کا ارتکاب کیا جاتا رہا ہے لہٰذا اربوں روپوں کے اس بڑے پروجیکٹ کی سخت نگرانی اور ناقص میٹریل سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔