سائنس نامہ
ماہرین جب ہلاکتوں کی وجوہ کا تعین کرنے میں ناکام رہے تو پھر گلہ بانوں نے اپنے طور پر تحقیق شروع کی۔
سولر پینلز، ونڈ ٹربائن مویشیوں کے لیے موت کا پیغام۔۔۔۔ ؟
فرانس میں سیکڑوں گائیں پُراسرار موت کا شکار، ماہرین حیوانات اور محققین وجہ کا تعین کرنے میں ناکام
گذشتہ چند برسوں کے دوران فرانس کے شمال مغربی علاقے برٹنی میں سیکڑوں مویشی پُراسرار موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان میں اکثریت گایوں کی ہے۔ کوشش کے باوجود ماہرین حیوانات اور محققین ہلاکتوں کے پُراسرار سلسلے کی وجوہ کا تعین نہیں کرسکے۔ گائیں کسی بیماری میں مبتلا ہوئے بغیر وزن گھٹانے لگتی ہیں۔ پوری خوراک کھانے کے باوجود چند ہی ماہ میں ان کا وزن اتنا گرجاتا ہے کہ ہڈیوں پر بس کھال رہ جاتی ہے اور پھر وہ موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ماہرین جب ہلاکتوں کی وجوہ کا تعین کرنے میں ناکام رہے تو پھر گلہ بانوں نے اپنے طور پر تحقیق شروع کی اور آخرکار مویشیوں کی اموات کا سبب جان لینے کا دعویٰ کیا۔ گلہ بانوں کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں گایوں کی پُراسرار موت کا سبب اس علاقے میں مختلف مقامات پر نصب سولر پینلز اور ونڈ ٹربائن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوا اور دھوپ سے بجلی کشید کرنے کی غرض سے نصب کی گئی یہ مشینیں زمین میں مقررہ حد سے زیادہ برقی رَو منتقل کررہی ہیں جس کے نتیجے میں مویشی موت کا شکار ہورہے ہیں۔
یوںتو برٹنی کے پورے علاقے میں مویشیوں کی اموات ہوئی ہیں تاہم Cote-d'Amour کے علاقے میں صورت حال سنگین تر ہوچکی ہے جہاں کئی کسان اپنے سیکڑوں مویشیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ انھی کسانوں میں سے ایک پیٹرک لی نشیت ہیں۔ چند برس قبل پیٹرک کے مویشی جسمانی طور پر کمزور ہونے لگے اور بہ تدریج ان میں سے بیشتر موت کے جبڑوں میں چلے گئے۔ عجیب بات یہ تھی کہ بہ ظاہر یہ جانور کسی بھی بیماری میں مبتلا نظر نہیں آتے تھے۔ مختلف تشخیصی ٹیسٹ کرنے کے باوجود حیوانات کے معالج وزن میں کمی اور پھر موت کا سبب نہ جان سکے۔ پے در پے اموات کے بعد لی نے خود اس پراسرار معاملے کی گتھی سلجھانے کا تہیہ کرلیا۔ کئی ماہ طویل تحقیقات کے بعد لی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جانوروں کی اموات کا سلسلہ انھی دنوں شروع ہوا تھا جب اس علاقے میں فوٹووولٹک تنصیبات ہونے لگی تھیں۔
ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے پیٹرک لی نے کہا کہ پانچ سال کے دوران اس کی 120 گائیں ہلاک ہوئیں۔ اس صورت حال نے اسے انتہائی پریشان کردیا تھا، وہ حیران تھا کہ گائیں یکے بعد دیگرے موت کا شکار کیوں ہورہی ہیں۔ حیوانات کے معالجین سے مایوس ہونے کے بعد اس نے خود اس اسرار سے پردہ اٹھانے کا عزم کرلیا۔ پیٹرک کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ علاقے میں سولر سیلز اور ونڈ ٹربائن کی تنصیب کے ساتھ ہی مویشیوں کا وزن گرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو اس نے اپنے کیٹل فارم اور اطراف کی زمین پر ٹیسٹ کیے اور یہ معلوم کرنے میں کام یاب رہا کہ مٹی یا خشکی اور پانی کے ذخائر میں ایک وولٹ سے زائد طاقت کا برقی کرنٹ موجود تھا۔ کرنٹ کی یہ طاقت جانوروں کے لیے تسلیم شدہ حد سے تین گنا زیادہ تھی۔
پیٹرک لی کا کہنا ہے کہ مویشیوں کی موت ان کے پیروں تلے دوڑ رہی ہے۔ انھیں اس طرح بے بسی کے عالم میں موت کے منھ میں جاتے ہوئے دیکھنا یقیناً میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔
Cote-d'Amour سے 30 کلومیٹر کی دوری پر اسٹیفن لی بریشے کا کیٹل فارم ہے۔ چند برس کے دوران اس کے 200 مویشی پراسرار حالات میں موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جب 6 ماہ کے دوران اسٹیفن کی37 گائیں موت کا شکار ہوگئیں تو اسے احساس ہوا کہ یہ قدرتی اموات نہیں ہیں۔ اس کا سبب کچھ اور ہے۔ گایوں کی اموات کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب 200 پر پہنچ چکی ہے اور وہ باقی بچ جانے والی گایوں کے بارے میں شدید فکرمند ہے۔
اسٹیفن کا کہنا ہے کہ اس نے گلہ بانی کے کاروبار میں پانچ لاکھ یورو کی رقم لگائی تھی۔ مویشیوں کی پے در پے اموات نے اسے شدید مالی بحران سے دوچار کردیا ہے اور صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ وہ یوٹیلی بلوں کی ادائیگی سے قاصر ہوگیا ہے۔ اسٹیفن کا کہنا ہے کہ اس کے خیال میں مویشیوں کی ہلاکتوں کے 17 ذمے داران ہیں جن میں ونڈٹربائن، سیل فون ٹاور اور ٹرانسفارمرز بھی شامل ہیں۔
اگرچہ فرانسیسی کسانوں کے پاس اس امر کے ناقابل تردید ثبوت موجود نہیں کہ سولر پینلز، ونڈ ٹربائن اور اسی نوع کی دیگر تنصیبات سے خارج ہونے والا برقی کرنٹ ہی مویشیوں کی ہلاکتوں کا سبب بن رہا ہے، لیکن مویشیوں پر برقی کرنٹ کے منفی اثرات تسلیم شدہ ہیں۔ دو سال قبل دریائے رون کے قریبی علاقے کے رہائشی ایک فرانسیسی کسان پیٹر آندرے نے نزدیکی صنعتی علاقے سے زمین میں جذب ہونے والے برقی کرنٹ پر اپنے مویشیوں کے ردعمل کے بارے میں باقاعدہ شکایات درج کرائی تھیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ بڑے بڑے ٹرانسفارمرز سے زمین میں جذب ہونے والی برقی رَو اس کی گایوں کی صحت اور رویے پر اثرانداز ہورہی ہے۔
پیٹر کا کہنا تھا کہ جب ٹرانسفارمر یا تاروں سے کسی سبب چنگاریاں چھوٹتی ہیں تو اس کے باڑے میں پھیلی ہوئی گائیں دوڑتی ہوئی ایک کونے میں جمع ہوجاتی ہیں۔ کچھ لنگڑانے لگتی ہیں اور بچھڑے عام طور پر اسی وقت موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پیٹر نے یہ بھی شکایت کی کہ اس کی گائیں صحت مند ہونے کے باوجود وزن گھٹارہی ہیں اور دودھ کی پیداوار بھی کم ہوتی جارہی ہے۔
ایک سائنسی ماہر کے مطابق بجلی مویشیوں کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ انسانی جسم میں 1500 اوہم کے مساوی برقی مزاحمت پائی جاتی ہے جب کہ گایوں میں یہ مزاحمت صرف 500 اوہم ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ انسانی پیر جوتوں، چپلوں کی وجہ سے زمین سے اتصال میں نہیں رہتے لیکن گایوں کو یہ 'سہولت' میسر نہیں ہوتی۔ یوں وہ ہر لمحہ زمین میں دوڑتے کرنٹ سے نبردآزما رہتی ہیں۔
۔۔۔
قلت آب۔۔۔
کاشت کاری میں پانی کا استعمال محدود کرنے کی تیکنیک وضع کرلی گئی
قلت آب ایک عالمگیر مسئلہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ پیش گوئی کی جاچکی ہے کہ تیسری عالمی جنگ معدنی نہیں آبی ذخائر پر قبضے کے لیے ہوگی۔ تازہ پانی کا سب سے زیادہ استعمال ( 70 فی صد) کاشت کاری میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسانی ضروریات آتی ہیں۔ عوام الناس کو پانی کے استعمال میں احتیاط برتنے کی تاکید کے لیے تو دنیا بھر میں آگاہی مہمات چلائی جاتی رہتی ہیں۔ تاہم اب سائنس دانوں نے زراعت میں بھی پانی کے محدود استعمال سے اچھی فصل حاصل کرنے کی تیکنیک ایجاد کرلی ہے۔ یہ کارنامہ گلاسگو یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے۔ انھوں نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈنکالا ہے جس کے ذریعے پتوں کے مساموں ( stomata ) کے کھلنے اور بند ہونے کے عمل کو تیز تر کیا جاسکتا ہے۔
بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر دنیا بھر میں زیرکاشت رقبے کے حجم میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے، اور اسی تناسب سے کاشت کاری میں پانی کی کھپت بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب تازہ پانی کے آبی ذخائر میں اس رفتار سے اضافہ نہیں ہورہا۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کا باکفایت استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پودوں کے پتوں کے مساموں سے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ اگر اس اخراج کو محدود کیا جاسکے تو پھر پودوں کو نشوونما کے لیے پانی کی کم مقدار درکار ہوگی۔ پتوں کے مساموں کی حرکت پر قابو پانے کے لیے محققین نے بیجوں میں جینیاتی ردوبدل کرکے پودے تیار کیے۔ ان پودوں کی خاصیت یہ ہے کہ خوراک کی تیاری کے عمل (ضیائی تالیف) کے دوران زیادہ سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کام میں لاتے ہیں اور عام پودوں کی نسبت کم مقدار میں پانی خارج کرتے ہیں۔
گلاسگو یونی ورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار مالیکیولر، سیل اینڈ سسٹم بایولوجی سے وابستہ ڈاکٹر ماریا پاپاسیو کہتی ہیں کہ پودوں میں خوراک کی تیاری کے دوران پانی کی زائد مقدار خارج ہوتی ہے۔ ہم نے جینیاتی انجنیئرنگ سے کام لیتے ہوئے پتوں کے مساموں کو اس قابل کیا کہ وہ ضیائی تالیف کے دوران زیادہ عرصے بند رہیں تاکہ پانی کا ضیاع کم سے کم ہو اور پھر آئندہ انھیں کم مقدار میں پانی درکار ہو۔
۔۔۔
Giant Magellan Telescope
ہبل سے دس گنا زیادہ طاقت وَر دوربین 2025 میں فعال ہوجائے گی
کائنات کی وسعتوں میں پنہاں سیکڑوں ہزاروں اجرام فلکی انسانی مشاہدے اور علم میں آچکے ہیں۔ خلائے بسیط کے ان سربستہ رازوں تک انسان کی رسائی میں کلیدی کردار خلائی دوربینوں کا ہے۔ انتہائی طاقت وَر عدسوں سے لیس یہ دوربینیں بلاشبہ انسانی آنکھیں ہیں جن سے وہ خلا میں کروڑوں اربوں نوری سال کی دوری پر معلق ستاروں، سیاروں، سیارچوں اور دیگر اجرام فلکی کے وجود سے واقف ہورہا ہے۔ انھی آلات کی بدولت انسان تک اجرام فلکی کی ماہیئت، طبعی حالات وغیرہ کے متعلق معلومات بھی پہنچتی ہیں۔
ارضی مدار میں موجود خلائی دوربین 'ہبل' تسخیر کائنات کے سفر میں 1990ء سے انسان کی رہبر کا کردار نبھاتی آرہی ہے۔ کئی طاقت وَر دوربینیں سطح ارض پر موجود رہ کر انسان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ تسخیر کائنات کی مہم کو مہمیز کرنے کے لیے ایک اور انتہائی طاقت وَر دوربین کے منصوبے پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ نئی دوربین جو منصوبے کی بروقت تکمیل کی صورت میں 2025ء میں فعال ہوجائے گی، کو Giant Magellan Telescope (جی ایم ٹی ) کا نام دیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتہائی وسیع و عریض عدسے کی حامل یہ دوربین کائنات کو دیکھنے کا انسانی انداز اور سوچ بدل دے گی۔
جی ایم ٹی چلی میں واقع Las Campanas نامی رصدگاہ میں تعمیر کی جائے گی۔ یہ دوربین کئی لحاظ سے دیگر دوربینوں سے منفرد ہوگی۔ جی ایم ٹی کے سات عدسے ہوں گے۔ ہر عدسے کا قطر 8.4میٹر (27.6 ) ہوگا۔ یہ عدسے ایک ہی عدسے کے طور پر کام کریں گے جس کا مجموعی قطر 80 فٹ ہوگا۔ یوں اس کی طاقت ہبل دوربین سے دس گنا زیادہ ہوگی۔
ماہرین فلکیات شدت سے جی ایم ٹی کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ سائنسی حلقوں میں اس منصوبے کے حوالے سے بہت اشتیاق پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کے سلسلے میں ہونے والی ہر پیش رفت فوری زیربحث آتی ہے۔ اس منصوبے کے مرحلے میں دوربین کی تنصیب کے لیے مطلوبہ مقام پر کھدائی کا کام یابی سے مکمل کرلیا گیا ہے۔ اگلے مرحلہ ''واٹر پیکیج'' کا ہے جس کی تکمیل میں 8 ماہ صرف ہوں گے۔ اس مرحلے میں چلی کی پہاڑیوں پر منصوبے کے لیے مختص جگہ پر پانی کے پائپ بچھائے جائیں گے اور رصدگاہ کے ٹینک سے آنے والے پانی کو ذخیرہ، ٹریٹ اور ترسیل کرنے کے لیے عمارت تعمیر کرکے اس میں مطلوبہ مشینری نصب کی جائے گی۔ بعدازاں پہاڑی چوٹی پر عارضی کنکریٹ پلانٹ تعمیر کیا جائے گا، اور دوربین کی تنصیب کے لیے کنکریٹ کے ستون اور دیگر تعمیرات کی جائیں گی۔
جی ایم ٹی کی تعمیر امریکا، آسٹریلیا، برازیل اور جنوبی کوریا کا مشترکہ منصوبہ ہے جس کے لیے ایک ارب ڈالر کا فنڈ مختص کیا گیا ہے۔
فرانس میں سیکڑوں گائیں پُراسرار موت کا شکار، ماہرین حیوانات اور محققین وجہ کا تعین کرنے میں ناکام
گذشتہ چند برسوں کے دوران فرانس کے شمال مغربی علاقے برٹنی میں سیکڑوں مویشی پُراسرار موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان میں اکثریت گایوں کی ہے۔ کوشش کے باوجود ماہرین حیوانات اور محققین ہلاکتوں کے پُراسرار سلسلے کی وجوہ کا تعین نہیں کرسکے۔ گائیں کسی بیماری میں مبتلا ہوئے بغیر وزن گھٹانے لگتی ہیں۔ پوری خوراک کھانے کے باوجود چند ہی ماہ میں ان کا وزن اتنا گرجاتا ہے کہ ہڈیوں پر بس کھال رہ جاتی ہے اور پھر وہ موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ماہرین جب ہلاکتوں کی وجوہ کا تعین کرنے میں ناکام رہے تو پھر گلہ بانوں نے اپنے طور پر تحقیق شروع کی اور آخرکار مویشیوں کی اموات کا سبب جان لینے کا دعویٰ کیا۔ گلہ بانوں کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں گایوں کی پُراسرار موت کا سبب اس علاقے میں مختلف مقامات پر نصب سولر پینلز اور ونڈ ٹربائن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوا اور دھوپ سے بجلی کشید کرنے کی غرض سے نصب کی گئی یہ مشینیں زمین میں مقررہ حد سے زیادہ برقی رَو منتقل کررہی ہیں جس کے نتیجے میں مویشی موت کا شکار ہورہے ہیں۔
یوںتو برٹنی کے پورے علاقے میں مویشیوں کی اموات ہوئی ہیں تاہم Cote-d'Amour کے علاقے میں صورت حال سنگین تر ہوچکی ہے جہاں کئی کسان اپنے سیکڑوں مویشیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ انھی کسانوں میں سے ایک پیٹرک لی نشیت ہیں۔ چند برس قبل پیٹرک کے مویشی جسمانی طور پر کمزور ہونے لگے اور بہ تدریج ان میں سے بیشتر موت کے جبڑوں میں چلے گئے۔ عجیب بات یہ تھی کہ بہ ظاہر یہ جانور کسی بھی بیماری میں مبتلا نظر نہیں آتے تھے۔ مختلف تشخیصی ٹیسٹ کرنے کے باوجود حیوانات کے معالج وزن میں کمی اور پھر موت کا سبب نہ جان سکے۔ پے در پے اموات کے بعد لی نے خود اس پراسرار معاملے کی گتھی سلجھانے کا تہیہ کرلیا۔ کئی ماہ طویل تحقیقات کے بعد لی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جانوروں کی اموات کا سلسلہ انھی دنوں شروع ہوا تھا جب اس علاقے میں فوٹووولٹک تنصیبات ہونے لگی تھیں۔
ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے پیٹرک لی نے کہا کہ پانچ سال کے دوران اس کی 120 گائیں ہلاک ہوئیں۔ اس صورت حال نے اسے انتہائی پریشان کردیا تھا، وہ حیران تھا کہ گائیں یکے بعد دیگرے موت کا شکار کیوں ہورہی ہیں۔ حیوانات کے معالجین سے مایوس ہونے کے بعد اس نے خود اس اسرار سے پردہ اٹھانے کا عزم کرلیا۔ پیٹرک کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ علاقے میں سولر سیلز اور ونڈ ٹربائن کی تنصیب کے ساتھ ہی مویشیوں کا وزن گرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو اس نے اپنے کیٹل فارم اور اطراف کی زمین پر ٹیسٹ کیے اور یہ معلوم کرنے میں کام یاب رہا کہ مٹی یا خشکی اور پانی کے ذخائر میں ایک وولٹ سے زائد طاقت کا برقی کرنٹ موجود تھا۔ کرنٹ کی یہ طاقت جانوروں کے لیے تسلیم شدہ حد سے تین گنا زیادہ تھی۔
پیٹرک لی کا کہنا ہے کہ مویشیوں کی موت ان کے پیروں تلے دوڑ رہی ہے۔ انھیں اس طرح بے بسی کے عالم میں موت کے منھ میں جاتے ہوئے دیکھنا یقیناً میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔
Cote-d'Amour سے 30 کلومیٹر کی دوری پر اسٹیفن لی بریشے کا کیٹل فارم ہے۔ چند برس کے دوران اس کے 200 مویشی پراسرار حالات میں موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ جب 6 ماہ کے دوران اسٹیفن کی37 گائیں موت کا شکار ہوگئیں تو اسے احساس ہوا کہ یہ قدرتی اموات نہیں ہیں۔ اس کا سبب کچھ اور ہے۔ گایوں کی اموات کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب 200 پر پہنچ چکی ہے اور وہ باقی بچ جانے والی گایوں کے بارے میں شدید فکرمند ہے۔
اسٹیفن کا کہنا ہے کہ اس نے گلہ بانی کے کاروبار میں پانچ لاکھ یورو کی رقم لگائی تھی۔ مویشیوں کی پے در پے اموات نے اسے شدید مالی بحران سے دوچار کردیا ہے اور صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ وہ یوٹیلی بلوں کی ادائیگی سے قاصر ہوگیا ہے۔ اسٹیفن کا کہنا ہے کہ اس کے خیال میں مویشیوں کی ہلاکتوں کے 17 ذمے داران ہیں جن میں ونڈٹربائن، سیل فون ٹاور اور ٹرانسفارمرز بھی شامل ہیں۔
اگرچہ فرانسیسی کسانوں کے پاس اس امر کے ناقابل تردید ثبوت موجود نہیں کہ سولر پینلز، ونڈ ٹربائن اور اسی نوع کی دیگر تنصیبات سے خارج ہونے والا برقی کرنٹ ہی مویشیوں کی ہلاکتوں کا سبب بن رہا ہے، لیکن مویشیوں پر برقی کرنٹ کے منفی اثرات تسلیم شدہ ہیں۔ دو سال قبل دریائے رون کے قریبی علاقے کے رہائشی ایک فرانسیسی کسان پیٹر آندرے نے نزدیکی صنعتی علاقے سے زمین میں جذب ہونے والے برقی کرنٹ پر اپنے مویشیوں کے ردعمل کے بارے میں باقاعدہ شکایات درج کرائی تھیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ بڑے بڑے ٹرانسفارمرز سے زمین میں جذب ہونے والی برقی رَو اس کی گایوں کی صحت اور رویے پر اثرانداز ہورہی ہے۔
پیٹر کا کہنا تھا کہ جب ٹرانسفارمر یا تاروں سے کسی سبب چنگاریاں چھوٹتی ہیں تو اس کے باڑے میں پھیلی ہوئی گائیں دوڑتی ہوئی ایک کونے میں جمع ہوجاتی ہیں۔ کچھ لنگڑانے لگتی ہیں اور بچھڑے عام طور پر اسی وقت موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پیٹر نے یہ بھی شکایت کی کہ اس کی گائیں صحت مند ہونے کے باوجود وزن گھٹارہی ہیں اور دودھ کی پیداوار بھی کم ہوتی جارہی ہے۔
ایک سائنسی ماہر کے مطابق بجلی مویشیوں کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ انسانی جسم میں 1500 اوہم کے مساوی برقی مزاحمت پائی جاتی ہے جب کہ گایوں میں یہ مزاحمت صرف 500 اوہم ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ انسانی پیر جوتوں، چپلوں کی وجہ سے زمین سے اتصال میں نہیں رہتے لیکن گایوں کو یہ 'سہولت' میسر نہیں ہوتی۔ یوں وہ ہر لمحہ زمین میں دوڑتے کرنٹ سے نبردآزما رہتی ہیں۔
۔۔۔
قلت آب۔۔۔
کاشت کاری میں پانی کا استعمال محدود کرنے کی تیکنیک وضع کرلی گئی
قلت آب ایک عالمگیر مسئلہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ پیش گوئی کی جاچکی ہے کہ تیسری عالمی جنگ معدنی نہیں آبی ذخائر پر قبضے کے لیے ہوگی۔ تازہ پانی کا سب سے زیادہ استعمال ( 70 فی صد) کاشت کاری میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسانی ضروریات آتی ہیں۔ عوام الناس کو پانی کے استعمال میں احتیاط برتنے کی تاکید کے لیے تو دنیا بھر میں آگاہی مہمات چلائی جاتی رہتی ہیں۔ تاہم اب سائنس دانوں نے زراعت میں بھی پانی کے محدود استعمال سے اچھی فصل حاصل کرنے کی تیکنیک ایجاد کرلی ہے۔ یہ کارنامہ گلاسگو یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے۔ انھوں نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈنکالا ہے جس کے ذریعے پتوں کے مساموں ( stomata ) کے کھلنے اور بند ہونے کے عمل کو تیز تر کیا جاسکتا ہے۔
بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر دنیا بھر میں زیرکاشت رقبے کے حجم میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے، اور اسی تناسب سے کاشت کاری میں پانی کی کھپت بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب تازہ پانی کے آبی ذخائر میں اس رفتار سے اضافہ نہیں ہورہا۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کا باکفایت استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پودوں کے پتوں کے مساموں سے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ اگر اس اخراج کو محدود کیا جاسکے تو پھر پودوں کو نشوونما کے لیے پانی کی کم مقدار درکار ہوگی۔ پتوں کے مساموں کی حرکت پر قابو پانے کے لیے محققین نے بیجوں میں جینیاتی ردوبدل کرکے پودے تیار کیے۔ ان پودوں کی خاصیت یہ ہے کہ خوراک کی تیاری کے عمل (ضیائی تالیف) کے دوران زیادہ سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کام میں لاتے ہیں اور عام پودوں کی نسبت کم مقدار میں پانی خارج کرتے ہیں۔
گلاسگو یونی ورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار مالیکیولر، سیل اینڈ سسٹم بایولوجی سے وابستہ ڈاکٹر ماریا پاپاسیو کہتی ہیں کہ پودوں میں خوراک کی تیاری کے دوران پانی کی زائد مقدار خارج ہوتی ہے۔ ہم نے جینیاتی انجنیئرنگ سے کام لیتے ہوئے پتوں کے مساموں کو اس قابل کیا کہ وہ ضیائی تالیف کے دوران زیادہ عرصے بند رہیں تاکہ پانی کا ضیاع کم سے کم ہو اور پھر آئندہ انھیں کم مقدار میں پانی درکار ہو۔
۔۔۔
Giant Magellan Telescope
ہبل سے دس گنا زیادہ طاقت وَر دوربین 2025 میں فعال ہوجائے گی
کائنات کی وسعتوں میں پنہاں سیکڑوں ہزاروں اجرام فلکی انسانی مشاہدے اور علم میں آچکے ہیں۔ خلائے بسیط کے ان سربستہ رازوں تک انسان کی رسائی میں کلیدی کردار خلائی دوربینوں کا ہے۔ انتہائی طاقت وَر عدسوں سے لیس یہ دوربینیں بلاشبہ انسانی آنکھیں ہیں جن سے وہ خلا میں کروڑوں اربوں نوری سال کی دوری پر معلق ستاروں، سیاروں، سیارچوں اور دیگر اجرام فلکی کے وجود سے واقف ہورہا ہے۔ انھی آلات کی بدولت انسان تک اجرام فلکی کی ماہیئت، طبعی حالات وغیرہ کے متعلق معلومات بھی پہنچتی ہیں۔
ارضی مدار میں موجود خلائی دوربین 'ہبل' تسخیر کائنات کے سفر میں 1990ء سے انسان کی رہبر کا کردار نبھاتی آرہی ہے۔ کئی طاقت وَر دوربینیں سطح ارض پر موجود رہ کر انسان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ تسخیر کائنات کی مہم کو مہمیز کرنے کے لیے ایک اور انتہائی طاقت وَر دوربین کے منصوبے پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ نئی دوربین جو منصوبے کی بروقت تکمیل کی صورت میں 2025ء میں فعال ہوجائے گی، کو Giant Magellan Telescope (جی ایم ٹی ) کا نام دیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انتہائی وسیع و عریض عدسے کی حامل یہ دوربین کائنات کو دیکھنے کا انسانی انداز اور سوچ بدل دے گی۔
جی ایم ٹی چلی میں واقع Las Campanas نامی رصدگاہ میں تعمیر کی جائے گی۔ یہ دوربین کئی لحاظ سے دیگر دوربینوں سے منفرد ہوگی۔ جی ایم ٹی کے سات عدسے ہوں گے۔ ہر عدسے کا قطر 8.4میٹر (27.6 ) ہوگا۔ یہ عدسے ایک ہی عدسے کے طور پر کام کریں گے جس کا مجموعی قطر 80 فٹ ہوگا۔ یوں اس کی طاقت ہبل دوربین سے دس گنا زیادہ ہوگی۔
ماہرین فلکیات شدت سے جی ایم ٹی کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ سائنسی حلقوں میں اس منصوبے کے حوالے سے بہت اشتیاق پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کے سلسلے میں ہونے والی ہر پیش رفت فوری زیربحث آتی ہے۔ اس منصوبے کے مرحلے میں دوربین کی تنصیب کے لیے مطلوبہ مقام پر کھدائی کا کام یابی سے مکمل کرلیا گیا ہے۔ اگلے مرحلہ ''واٹر پیکیج'' کا ہے جس کی تکمیل میں 8 ماہ صرف ہوں گے۔ اس مرحلے میں چلی کی پہاڑیوں پر منصوبے کے لیے مختص جگہ پر پانی کے پائپ بچھائے جائیں گے اور رصدگاہ کے ٹینک سے آنے والے پانی کو ذخیرہ، ٹریٹ اور ترسیل کرنے کے لیے عمارت تعمیر کرکے اس میں مطلوبہ مشینری نصب کی جائے گی۔ بعدازاں پہاڑی چوٹی پر عارضی کنکریٹ پلانٹ تعمیر کیا جائے گا، اور دوربین کی تنصیب کے لیے کنکریٹ کے ستون اور دیگر تعمیرات کی جائیں گی۔
جی ایم ٹی کی تعمیر امریکا، آسٹریلیا، برازیل اور جنوبی کوریا کا مشترکہ منصوبہ ہے جس کے لیے ایک ارب ڈالر کا فنڈ مختص کیا گیا ہے۔