سارے رنگ
مستنصر حسین تارڑ
پورے لاہور میں شاید وہ اکیلا ہندو تھا جو اُس گلی میں چارپائی پر بیٹھا حقہ پیتا تھا۔ باقی سب جا چکے تھے اور اُن کی جگہ لینے کو اُدھر سے لوگ آچکے تھے، جنہیں پناہ گیر کہا جاتا تھا۔۔۔ اُن پناہ گیروں کی شکلیں ایسی تھیں کہ کوئی بڑے سے بڑا اداکار اُن جیسی شکل بنانے پر قادر نہیں تھا۔ ہزاروں برسوں سے کسی گھر میں رہنا۔ آس پاس کے ویرانوں کو قبروں سے آّباد کرنا، پھر اُن گھروں کو ایک تنکا اٹھائے بغیر چھوڑنا۔ پھر بھوک دکھ اور بیماری اٹھا کر چلتے جانا اور اپنی مائوں کو بیٹیوں کو ننگے بدن دیکھنا، بہت کچھ دیکھنا اور کچھ نہ کرسکنا۔ بچوں کو کرپانوں میں پروئے ہوئے دیکھا اور کچھ نہ کرسکنا۔ بھوک اور بے چارگی اور موت بے شرم ہو جانا۔۔۔ تب جا کر کچھ ویسی شکل بنتی ہے جو ان پناہ گیروں کی تھی، یہ تو بنائے نہ بنے۔
۔۔۔
خانہ پُری
ر ۔ ط۔ م
ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے 2014ء کے انتخابات سے پہلے بھارتی عوام سے کہا تھا کہ 'میں آپ کے پیسے کا چوکی دار ہوں۔' اسی تناظر میں کانگریسی راہ نما راہول گاندھی نے اُن پر چوٹ کَسی کہ 'چوکی دار چور ہے!' نریندر مودی نے اس بات کو اتنا دل پر لیا کہ سماجی روابط کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر اپنا نام 'چوکی دار نریندر مودی' رکھ لیا۔ راہول گاندھی اس معاملے میں ہم سے بہتر ہیں کہ چوکی دار کو کہہ سکتے ہیں کہ 'وہ چور ہے۔۔۔!' ویسے راہول نے تو لفظ 'چور' پر زور دیا تھا، اب پتا نہیں کیوں نریندر مودی نے چوکی دار کے بہ جائے 'چور نریندر مودی' لکھنے کی طرف توجہ نہ دی۔
یوں بھی نریندر مودی خود کو چوکی دار تو پہلے ہی کہتے رہے ہیں۔ اب اُن کو نیا 'خطاب' تو چور کا دیا گیا تھا، جسے انہیں قبول کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ کسی گھاگ آدمی کا قول بھی تو ہے کہ چوری روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ 'چور کو چوکی دار بنا دو۔۔۔!' ظاہر ہے جب وہ مال کی چوکسی پر مامور ہوگا، تو خود چوری کر کے کیوں کر عتاب اپنے سر لے گا۔ ہمارے ہم سائے دیش میں مرحلہ وار عام چنائو جاری ہیں، یعنی ابھی وقت نکلا نہیں، نریندر مودی اپنے نام کے ساتھ 'چور' لگا کر اپنی جَنتا کو حیران کر کے ان کا 'نیا اعتماد' بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے وزیراعظم عمران خان نے مودی کی جیت سے کشمیر کے تصفیے کی آس لگا کر سرحد کے اِس طرف والوں کو تو حیران کیا ہی کہ مودی تو کشمیر کو بھارتی وفاق میں مزید کَسنے کے نام پر چنائو لڑ رہے ہیں، تو ساتھ ہی سرحد کی دوسری طرف والے کچھ حلقے اِس بات سے مودی کی 'غدار' والی شبیہ بنانے لگے ہیں۔ ہندوستان میں آیندہ پانچ سال کے لیے کس کی سرکار بنے گی، اس کا فیصلہ ہونے میں ابھی ایک ماہ لگے گا۔
اگر حیران کن نتائج نہ نکلے تو برسراقتدار 'بھارتیہ جنتا پارٹی' کے مقابلے کو جیسی تیسی جماعت 'کانگریس' ہی دکھائی دیتی ہے۔ پاک وہند میں امن کا خواب دیکھنے والوں کی نظر میں مودی اب کافی 'موذی' ثابت ہوچکے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ امن کی امید اگرچہ 'کانگریس' سے بھی نہیں، اس لیے بس ہماری دعا ہے کہ ہندوستان میں کوئی امن پسند حاکم آجائے، اور ہندوستانی عوام اس بار کسی 'موذی' نہیں بلکہ 'موزوں' حاکم کو چننے میں کام یاب ہوں۔۔۔!
۔۔۔
سچے موتی
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
٭ اگر تم چاہتے ہو کہ لوگ تم سے مختلف سلوک کریں، تو پہلے تمہیں اپنے سے خود روا رکھے سلوک کو بدلنا ہوگا۔ جب تک تم خود اپنے آپ سے بھرپور طرح سے اور خلوص سے محبت کرنا نہ سیکھ لو، کوئی صورت نہیں کہ تم سے محبت کی جا سکے۔ اگرچہ جب تم اس مرتبے کو پہنچ جائو تو ہر اس کانٹے کے لیے شکر گزار ہونا، جو دوسرے تم پر پھینکیں گے۔ یہ علامت ہے اس بات کی کہ جلد ہی تم پر گلاب نچھاور ہوں گے۔
٭ایک انسان کے اندر پوری کائنات موجود ہے تمہارے اندر ہر شے جو تم اپنے ارد گرد دیکھتے ہو، بشمول ان کے جو تمہیں پسند نہیں اور حتیٰ کہ وہ لوگ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، وہ سب کسی نہ کسی درجے میں تمہارے اپنے اندر موجود ہے اس لیے شیطان کو بھی اپنے باہر تلاش نہ کرو۔ شیطان باہر سے حملہ آور ہونے والی کوئی غیرمعمولی طاقت نہیں ہے وہ تمہارے اندر ہی موجود معمولی آواز ہے۔ اگر تم خود کو پوری طرح جان لو، اپنے تاریک اور روشن رخ دونوں کا ایمان داری اور شدت سے سامنا کرلو، تو تم شعور کی اعلیٰ ترین صورت کو پہنچ جائو گے۔ جب کوئی شخص خود کو جان لیتا ہے تو وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے۔
٭اس نے کہا ''محبت کے بغیر کوئی بھی زندگی کسی شمار میں نہیں۔ خود سے یہ مت پوچھو کہ تمہیں کیسی محبت کی جستجو کرنا چاہیے، روحانی یا مادی، الوہی یا دینوی، مشرقی یا مغربی، تقسیم مزید تقسیم پر ختم ہوتی ہے۔ محبت کا کوئی نام نہیں، کوئی تعریف نہیں۔ یہ جو ہے بس وہی ہے، خالی اور سادہ۔
(''چالیس چراغ عشق کے'' از ایلف شفق سے لی گئی سطریں)
۔۔۔
نصرت بھٹو نے کہا 'مرتضیٰ ایک بہادر لڑکا ہے۔۔۔!'
بیرسٹر صبغت اللہ قادری
1992ء کے انتخابات سے چند ماہ قبل محترمہ نصرت بھٹو نے لندن کے مقامی ریستوراں میں چند صحافیوں اور قریبی لوگوں سے بات کر رہی تھیں، انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا قادری صاحب، کل کے دہشت گرد آج کے ہیرو ہوتے ہیں۔ منڈیلا کو کل تک دہشت گرد کہا جاتا تھا آج وہ قوم کا ہیرو ہے۔ امریکا میں جدوجہد کرنے والوں کو بھی دہشت گرد کہا گیا، بعد میں وہ قوم کے ہیرو بنے۔ کیوبا اور ویت نام میں جدوجہد کرنے والوں کو باغی اور دہشت گرد کہا گیا، ہر محب وطن پر الزام لگائے جاتے ہیں، مرتضیٰ بھٹو کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ میں نے کہا بی بی، مرتضیٰ نے ہائی جیکنگ کی ہے۔ انہوں نے کہا کوئی ہائی جیکنگ نہیں تھی۔ یہ جدوجہد کا حصہ تھا، بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو کو مکمل سپورٹ کیا کرتی تھیں۔
بیگم صاحبہ سے میری دوسری ملاقات لندن کے مشہور ریستوران میں ہوئی۔ 1992ء کے عام انتخابات سے قبل پاکستان جاتے وقت پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ مرتضیٰ بھٹو پاکستان جا کر انتخابات میں حصہ لیں گے اور سیاست میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ مرتضیٰ پر دہشت گردی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے سختی سے کہا کہ مرتضیٰ ایک بہادر لڑکا ہے، جس نے آمریت کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ مرتضیٰ واقعی آمریت کے خلاف تھا اور اپنے باپ کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔
مجھے یاد ہے میں دسمبر میں چھٹیاں گزارنے پاکستان گیا ہوا تھا۔ امریکی سفارت خانے کے پیچھے دہشت گردی کی عدالت میں میری مرتضیٰ بھٹو سے ملاقات ہوئی تھی۔ مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ اس مقدمے میں مسرور احسن بھی ملزم کی حیثیت سے پیش ہو رہے تھے۔ مرتضیٰ جیل میں تھے، ان کی ضمانت نہیں ہوئی تھی۔ مرتضیٰ سے میں نے کہا کہ بی بی کی حکومت ہے، جمہوریت بحال ہوچکی ہے۔ میری بات پر ہنسنے لگے کہا قادری صاحب آپ کو یہ جمہوریت نظر آتی ہے۔ مرتضیٰ بھٹو سے ملاقات کے بعد میری بیگم صاحبہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں بھٹو صاحب کی یوم پیدائش پر لاڑکانہ جانا چاہتا تھا، اتفاق سے میں لاڑکانہ جا نہیں سکا۔ بھٹو صاحب کی برسی پر بہت افسوس ناک واقعہ پیش آیا، ان کے گھر پر فائرنگ کی گئی، جس سے بیگم صاحبہ بال بال بچی تھیں، مگر پارٹی کا ایک کارکن جاں بحق ہوگیا تھا۔
مرتضیٰ بھٹو 1993ء میں پاکستان آئے تو ان کے جہاز کو کراچی ایئرپورٹ پر کئی گھنٹے بعد اترنے کی اجازت ملی۔ جہاز کوئی گھنٹوں تک فضا میں گھومتا رہا۔ بیگم نصرت بھٹو، مرتضیٰ بھٹو کو ایئرپورٹ لینے گئیں۔ وہ وفاقی حکومت میں سنیئر وزیر تھیں۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان تھیں، مگر وہ بے بس تھیں، فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے۔ بیگم صاحبہ مرتضیٰ بھٹو کے حوالے سے بہت زیادہ جذباتی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بیگم نصرت بھٹو کو چیئرمین شپ سے ہٹایا گیا تھا۔ بے نظیر نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کو دور کیا جائے۔ ان کا اعتماد بحال کیا جائے مگر وہ اس میں ناکام رہیں۔
(''بکھری یادیں اور باتیں'' ترتیب وتدوین رشید جمال سے ایک اقتباس)
۔۔۔
صد لفظی کتھا
روزگار
رضوان طاہر مبین
'شانتی نگر' اپنے نام کی طرح بہت پُرامن تھا۔
ثمر اور امر نے وہاں جا کر ملازمت کرنا چاہی، لیکن ہر اسامی پُر تھی، اس لیے دونوں ناکام لوٹے۔
کچھ دن بعد وہ نئی تیاری کے ساتھ 'شانتی نگر' گئے۔۔۔
اس بار دونوں وہاں بہت زیادہ کمائی کرنے لگے۔
''وہاں تو کسی نئی نوکری کی گنجائش نہیں تھی؟''
لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا۔
''ہم نے وہاں جا کر اپنا روزگار خود پیدا کیا۔'' امر بولا۔
''وہ کیسے؟'' میں نے استفسار کیا۔
''پہلے امر نے 'چوری' کی، پھر ایک جگہ مجھے 'محافظ' رکھ لیا گیا!''
ثمر نے جواب دیا۔
۔۔۔
اگر یہی 'عدم' ہے تو۔۔۔
سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
دلی کے ایک پاک وہند مشاعرے کی بات ہے، جب عبدالحمید عدم، پنڈت ہری چند اختر کو دیکھتے ہی فرط جذبات سے اُن سے لپٹ گئے اور بولے: ''پنڈت جی مجھے پہچانا۔۔۔؟ میں عدم ہوں۔ پنڈت ہری چند اختر نے عبدالحمید عدم کا فربہ جسم دیکھتے ہوئے مسکرا کر اپنے مخصوص انداز میں کہا: ''اگر یہی عدم ہے تو وجود کیا ہوگا۔''
۔۔۔
میں اور موہن داس گاندھی ایک اختلاف کے ساتھ الگ ہوگئے۔۔۔!
مولانا ابوالکلام آزاد
ہندوستان پر جاپان کے امکانی حملے کے پیش بندی کے طور پر میں نے پہلے ہی کچھ اقدامات کر لیے تھے۔ کانگریس کی تنظیم سے میں نے کہا تھا کہ جاپانیوں کے خلاف عوامی مزاحمت کی تعمیر کے لیے اُسے پروپیگنڈے کی ایک مہم چلانی چاہیے۔ میں نے کلکتہ کو مختلف وارڈوں میں تقسیم کرایا تھا اور رضا کاروں کے جتھے، جنہوں نے جاپان کی مخالفت کا عہد کر رکھا تھا ان کی تربیت اور تنظیم شروع کردی تھی۔ ان رضا کاروں کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اگر جاپانی فوج پیش قدمی کرے، تو اس کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔
میرے ذہن میں یہ اسکیم تھی کہ جیسے ہی جاپانی فوج بنگال پہنچے اور برطانوی فوج پیچھے ہٹے، کانگریس کو اپنے رضا کاروں کی مدد سے آگے بڑھ کر ملک کا کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے قدم جما سکیں، بیچ کے وقفے میں ہمیں اقتدار پر قابض ہوجانا چاہیے۔ صرف اسی طرح ہم اپنے نئے دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے اور اپنی آزادی حاصل کرسکتے تھے۔ دراصل مئی اور جون 1942ء میں میرے وقت کا بیش تر حصہ اس نئی تدبیر کو آگے بڑھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں صرف ہوا۔
میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاندھی جی مجھ سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں مجھ سے کہا کہ اگر جاپانی فوج کبھی ہندوستان آہی گئی، تو وہ ہمارے دشمن کے طور پر نہیں، بلکہ انگریزوں کے دشمن کے طور پر آئے گی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر انگریز چلے گئے، تو جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے۔ میں اس تجزیے کو تسلیم نہیں کرسکا اور طویل بحثوں کے باوجود ہم کسی مفاہمت پر نہیں پہنچ سکے، چناں چہ ہم اختلاف کے ایک نوٹ کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔
۔۔۔
حادثے کے بعد بھی۔۔۔
مولانا وحید الدین خان
اے پی (لندن) کی فراہم کردہ ایک خبر حسب ذیل الفاظ میں شایع ہوئی ہے۔
مسٹر اسٹینلی جاکی ہنگری میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک سیاہ پوش راہب عیسائی عالم اور فزکس کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 10سال تک آواز سے محرومی ان کے لیے ان کی سائنس اور مذہب سے متعلق تحریروں پر دو لاکھ 20 ہزار ڈالر جیتنے کا ذریعہ بن گئی۔ 1953ء میں میرے گلے کی سرجری نے مجھے وقت دیا کہ میں لکھوں اور سوچوں اور میں ہمیشہ ایسا نہیںہوتا۔ بہت سے انتہائی مقبول کتابوں کے مصنف ایسے ہیں جو بالکل نہیں سوچتے۔ مسٹر جاکی جنہوں نے مذہب میں ترقی پر ٹمپلٹن انعام حاصل کیا ہے، یقین رکھتے ہیں کہ عیسائیت نے وہ ذہنی فضا پیدا کی جس نے سائنس کو ترقی کا موقع دیا۔ وہ اس خیال کے سخت ناقد ہیں کہ سائنس اور خدا ایک دوسرے سے غیرمتعلق چیزیں ہیں۔
مسٹر جاکی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا کہ غلط آپریشن کی وجہ سے ان کے بولنے کی صلاحیت ختم ہوگئی، مگر ان کے سوچنے اور پڑھنے کی صلاحیت بدستور باقی تھی۔ انہوں نے اس بچی ہوئی صلاحیت کو بھرپور طور پر استعمال کیا۔ دس سال کی خاموش محنت سے انہوں نے ایک ایسی کتاب لکھی جس کا انعام سوا دو لاکھ ڈالر تھا۔ حادثے کے بعد جو لوگ کھوئی ہوئی چیزوں کا غم کریں وہ صرف اپنی بربادی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جو لوگ حادثہ پیش آنے کے بعد بچی ہوئی چیز پر اپنی ساری توجہ لگا دیں، وہ ازسرنو کام یابی کی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔