KARACHI:
شمالی وزیرستان سے ممکنہ فوجی آپریشن کے پیش نظرعلاقہ مکینوں نے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
حکام کے بارہا آپریشن شروع نہ کرنے کے بیانات کے باوجود وزیرستان کے رہائشیوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ شمالی وزیرستان کا پاکستان کا ساتواں قبائلی علاقہ ہے اوراسے افغان طالبان اور ال قائدہ کا گڑ سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان اس سے قبل طالبان کے خلاف سوات اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن کر چکا ہے مگرشمالی وزیرستان میں حقانی نیٹورک کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے حوالے سے امریکہ کی خواہش کو اب تک پورا نہیں کیا گیا۔
میران شاہ میں تعینات حکومت کے ایک حکام سیف الرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اب تک ہزاروں قبائلی شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ایک اور حکومتی نمائندے تسلیم خان نے بھی نقل مکانی کی تصدیق کی ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتیخار حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں پناہ لینے پہنچے ہیں۔
پاکستانی طالبان کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں ایک انٹیلیجنس رپورٹ موصول ہوئی ہے جس میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔
میڈیا کو بھیجی گئی ایک ای میل میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان الللہ احسان نے کہا کہ یہ آپریشن اگسٹ 26 کو شروع ہوکرایک ماہ تک جاری رہنا تھا۔
حکومت اور افواج پاکستان نے ریڈیو کے ذریعے لوگوں کو پرامن رہنے کی ہدایت کی ہے اور انہیں یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ فی الحال آپریشن شروع نہیں کیا جا رہا۔
ہفتہ کو دو ہزار قبائلی عمائدین اور مذہبی لیڈران نے حکومت کوخبردار کیا ہے کہ اگرآپریشن شروع کیا گیا تووہ افغانستان نقل مکانی کریں گے۔
مرالی میں ہوئے ایک جرگہ میں بھی مقامی لوگوں کو علاقہ خالی نہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔