کیا میں اور حکومت کبھی امیر ہوں گے یا وقت کا پہیہ ہمیشہ یونہی ایک ہی دائرے میں گھومتا رہے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
کیا میں اور حکومت کبھی امیر ہوں گے یا وقت کا پہیہ ہمیشہ یونہی ایک ہی دائرے میں گھومتا رہے گا اور ہم ہر چکر کے اختتام پر دوبارہ اپنے ہی گھر کی دہلیز پر آ کر دہائی دیتے رہیں گے کہ
لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے، گزرے تھے ہم جہاں سے
بچپن سے امیر ہونے کے طریقے سوچ رہا ہوں۔ کئی بار سوچا کہ یہ بزنس شروع کردوں تو خوب دولت کما سکتا ہوں اور کئی بار سوچا کہ اس بزنس میں بالکل پیسہ نہیں لہٰذا جب تک اسے چھوڑ کر وہ والا بزنس شروع نہیں کروں گا تب تک امیر نہیں ہوسکوں گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہوتا کہ ''یہ والا'' بزنس شروع کرنے اور پھر اسے سیٹ ہونے کا وقت دینے کا یا یہ والا چھوڑ کر ''وہ والا'' شروع کرنے اور پھر اسے سیٹ ہونے کا وقت دینے کا میرے پاس بالکل کوئی وقت نہیں ہوتا تھا کیونکہ بزنس شروع کرتے کرتے اور پھر اسے سیٹ کرتے کرتے میں بالکل خالی ہو چکا ہوتا۔ لہٰذا کام شروع ہونے سے پہلے ہی اس میں سے پیسہ نکلنا شروع ہوجاتا اور وہ ''سیٹ اپ'' ہونے کے بجائے الٹا ''اپ سیٹ'' ہونا شروع ہوجاتا۔
کئی بار سوچا کہ یہ نوکری کرلوں تو خوب دولت کما سکتا ہوں اور کئی بار سوچا کہ اس نوکری میں بالکل ترقی نہیں لہٰذا جب تک اسے چھوڑ کر وہ والی نوکری شروع نہیں کروں گا تب تک امیر نہیں ہوسکوں گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہوتا کہ ''یہ والی'' نوکری شروع کرنے اور پھر اسے سیٹ ہونے کا وقت دینے کا یا یہ والی چھوڑ کر ''وہ والی'' شروع کرنے اور پھر اس کو سیٹ ہونے کا وقت دینے کا میرے پاس بالکل کوئی وقت نہیں ہوتا تھا کیونکہ نوکری شروع کرتے کرتے اور پھر اس پر سیٹ ہوتے ہوتے میں بالکل خالی ہوچکا ہوتا اور پھر جب وہ بھی زیادہ اچھی یعنی منفعت بخش اور ترقی کرنے کے مواقع سے بھرپور ثابت نہ ہوتی تو میں سیٹ ہونے کی بجائے الٹا اپ سیٹ ہونا شروع ہوجاتا۔
پسِ تحریر
تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن آٹے دال کا بھاؤ تب ہی معلوم ہوتا ہے جب سر پر پڑتی ہے۔ بیوروکریسی، پولیس، عدالتی نظام، ایف بی آر، نیب و دیگر ریاستی اداروں کو ٹھیک کرنا کم و بیش ہر حکمران کی خواہش رہی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ سے شہیدِ ملت لیاقت علی خانؒ تک، چوہدری محمدعلی سے ایوب خان تک، ذوالفقار علی بھٹو سے ضیاء الحق تک، بینظیر سے نواز شریف تک اور پرویز مشرف سے عمران خان تک نجانے کس کس کو یہ خواہش رہی ہے اور رہے گی کہ ملک اور اس کے اداروں کا نظام بہتر بنا کر کرپشن کو ختم کیا جائے، حکومتی معاملات میں شفافیت لائی جائے، پیچیدگیاں کم کی جائیں، عوام دوست پالیسیاں لائی جائیں، ریاست اور اس کے اداروں اور ملازمین کو عوام کا خدمت گار، مددگار اور سہولت کار بنایا جائے نہ کہ ان کا کام یہ ہو کہ وہ عوام کی زندگیاں دوبھر کریں، ان کی مشکلات میں اضافہ کردیں اور ان کو ہر سانس کے ساتھ زندگی کا اور اس ملک میں رہنے کا تاوان دینے پر مجبور کردیں۔
لیکن المیہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی نیا حکمران آتا ہے تو اسے خزانہ خالی ملتا ہے۔ وزراء، افسران اور اہلکار اپنے اپنے ایجنڈے اور اپنے اپنے اہداف سے چمٹے ہوئے ملتے ہیں۔ میڈیا، اپوزیشن، عدالتیں، اسٹیبلشمنٹ اور عوام پہلے ہی حکمرانوں، حکومتوں اور بری حکمرانی سے تنگ آئے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذا نہ کوئی نئے آںے والے کو ٹکنے کا وقت دیتا ہے، نہ سمجھنے کا وقت دیتا ہے اور نہ کھل کر اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اسے اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کےلیے مناسب ماحول اور درکار سہولیات ملتی ہیں اور نہ ہی وقت ملتا ہے۔
اوپر سے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی ناتجربہ کاری اور بیوروکریسی و دیگر کھلاڑیوں کی تمام اقسام کے داؤ پیچ سے گہری واقفیت، عدم تعاون اور دیگر سیاسی و سماجی عوامل سے اکتا کر یا گھبرا کر یا دل برداشتہ ہو کر یا اپنی حیثیت کے کم ہو جانے کے خوف سے یا مزید بوجھ اٹھانے کی سکت کھو کر عوام کا کمر کس کر اس کے خلاف میدان میں آجانا اور اعلان بغاورت کردینا اس کے تابوتِ اقتدار میں آخری کیل ثابت ہوتا ہے اور وہ بالکل اسی طرح چاروں شانے چت ہو جاتا ہے جیسے خود اس نے دیگر معاشرتی قوتوں کے ساتھ مل کر اپنے سے پہلوں کو کیا ہوتا ہے!
کوئی تعویذ دو ردِ بلا کا
مرے پیچھے محبت پڑ گئی ہے
اور بقول میر
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٴ دل نے آخر کام تمام کیا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔