جمیل جالبیادب و تحقیق کا اک چراغ اور بجھا

خلیق، وضعدار، انسان دوست اور پاکستانی ثقافت کے مسائل اور فکری بحثوں کونئی جہتیں عطا کرنے والا ادیب ہم میں باقی نہ رہا۔


Editorial April 21, 2019
خلیق، وضعدار، انسان دوست اور پاکستانی ثقافت کے مسائل اور فکری بحثوں کونئی جہتیں عطا کرنے والا ادیب ہم میں باقی نہ رہا۔ فوٹو:فائل

اردو ادب کا معتبر نام، نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ اور جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر جمیل جالبی طویل علالت کے بعد 89 برس کی عمرمیں انتقال کر گئے جب کہ اردو ادب کا ایک زریں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کی نمازجنازہ جمعرات کو ڈیفس فیز ٹو میں گھر کے قریب واقع مسجد ابوبکر میں بعد نماز عصر ادا کی گئی جس میں ادب و ثقافت کی ممتاز شخصیات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے، ان کے انتقال سے اردو تحقیق، تنقید اور ملکی علمی، فکری اور نظریاتی متاع ادب و فلسفہ، تاریخ، سماجی علوم کے تراجم ان کی یاد دلاتے رہیں گے، وہ علم کا روشن چراغ تھے اور ادبی حلقوں میں انھیں بڑے احترام اور عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

ان جیسا خلیق، وضعدار، انسان دوست اور پاکستانی ثقافت کے مسائل اور فکری بحثوں کو نئی جہتیں عطا کرنے والا ادیب ہم میں باقی نہ رہا۔ جمیل جالبی بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں1929 پیدا ہوئے، ان کا اصل نام محمد جمیل خان تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی اور 1943میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارن پور سے میٹرک کیا جس کے بعد میرٹھ کالج سے1945 میں انٹر اور 1947 میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

قیام پاکستان کے بعد جمیل جالبی اور ان کے بھائی عقیل پاکستان آگئے اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔ بعد ازاں جمیل جالبی کو بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر کی ملازمت کی پیش کش کی گئی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔ اسکول کی ملازمت کے دوران ہی انھوں نے ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کرلیے اور 1972میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹرغلام مصطفیٰ خان کی نگرانی میں قدیم اردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کیا۔

جمیل جالبی1983 میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے، وہ 1987میں مقتدرہ قومی زبان (موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) کے چیئرمین تعینات ہوئے۔ اس کے علاوہ جمیل جالبی نے1990سے1997 تک اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ بھی مقرر ہوئے۔ جمیل جالبی کی سب سے پہلی تخلیق ''سکندر اور ڈاکو'' تھی جو انھوں نے12سال کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈرامہ اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ جالبی صاحب کی تحریریں دہلی کے رسائل ''بنات'' اور ''عصمت'' میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی سب سے پہلی کتاب ''جانورستان'' تھی جو جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا، ان کی ایک اہم کتاب ''پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ'' ہے جس کے اب تک8 ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

جمیل جالبی کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرات لکھنوی تہذیب کا نمایندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔ جمیل جالبی نے قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی ان کی اہم تصانیف ہیں۔

ڈاکٹر جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں ان کی تصانیف کو انتہائی شوق سے پڑھا جاتاہے۔ انھوں نے تنقید، تحقیق، لغت، کلچر، تاریخ ادب، تراجم اور بچوں کے لے تقریباً 36 تصنیف و تالیف کا علمی ورثہ چھوڑا ہے، انجمن ترقی اردو پاکستان کے متولی اور خازن کے علاوہ مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ، صدر مشاورتی بورڈ، اردو لغت بورڈ کراچی متعدد علمی و ادبی اداروں کے بورڈ آف گورنرز کے رکن رہے۔

1990 میں حکومت نے ستارہ امتیاز سے نوازا، پسماندگان میں 2 بیٹے خاور جمیل، محمد علی خان اور صاحبزادیاں سمیرا جمیل اور فرح جمیل شامل ہیں۔ اردو ادب ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔