سکندر کے تانے بانے بین الاقوامی مافیا اور ابو ظہبی سے ملتے ہیں چوہدری نثارعلی

آزاد کشمیر سے ایک پولیس اہلکار، حافظ آباد سے ایک مذہبی شخص اور پسرور سے اسلحہ ڈیلر کو حراست میں لے لیا ہے، وزیر داخلہ


ویب ڈیسک August 19, 2013
دو ماہ کے دوران خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں کئی واقعات ہوئے لیکن ایک لظ نہیں بولا، چوہدری نثار علی خان۔ فوٹو : ایکسپریس نیوز

لاہور: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ سکندر کا معاملہ اتنا سیدھا نہیں جتنا نظر آتا ہے ، ابتدائی تفتیش کے دوران اس کے تانے بانے ابو ظہبی سے ملتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سکندر 12 اگست کو حافظ آباد سے آیا جہاں سے اس نے پسرور سے ہتھیار خریدے اور اسے بچوں کے کپڑوں میں چھپادیا۔ 12 اگست کی رات سے وہ 15 اگست تک اسلام آباد اور مری میں گھوما پھرا لیکن 15 اگست کو اس کی گاڑی کو تیز رفتاری کے باعث پولیس نے روکا ، جس پر اس نے گاڑی کے ڈرائیور کو اسلحے سے دھمکایا، حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کلثوم پلازہ سے پہلے ہی اس کی گاڑی کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ جہاں اس نے ڈرائیور کو گاڑی سے دھکا دے دیا۔ وہاں سے اس نے فرار ہونے کی کوشش کی اس کے لئے اس نے پولیس پر فائرنگ کی، پولیس کو خاتون اور بچوں کی موجودگی کے باعث محتاط ہونا پڑا۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ انہوں نے اعلیٰ حکام کو سکندر کو زندہ پکڑنے کی ہدایت کی کیونکہ وہ نہ تو اسلام آباد کے لئے خطرہ تھا اور نہ ہی کوئی سیکیورٹی رسک کیونکہ وہ بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا تھا، انہوں نے پولیس کو ہدایت کی کہ سکندر کو خصوصی ہتھیار کے ذریعے وقتی طور پر مفلوج کردیا جائے، حکام نے پہلے تو حامی بھر لی اور کافی وقت گرزنے کے بعد اس قسم کے ہتھیار نہ ہونے کا عذر پیش کیا، جس کے بعد اسٹن گن سیکیورٹی ایجنسیوں سے منگوائی گئی لیکن اس کے ساتھ اس کا آپریٹر نہیں آیا جس کی وجہ سے اس آپشن پر غور چھوڑ دیا گیا۔ رینجرز کے شوٹر بلوائے گئے لیکن اندھیرا ہوچکا تھا اور عوام کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی، میڈیا بھی اس سارے معاملے کی براہ راست کوریج پر بضد تھا میڈیا کی براہ راست کوریج رکوانے کےلئے چیرمین پیمرا اور سیکریٹری اطلاعات کو کہا گیا لیکن میڈیا نے ان کی بات بھی نیں مانی۔ ایسی صورت میں اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی جاسکتی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے براہ راست کوریج کے دوران ایک شخص مارا جائے اور یہ منظر اس کے بچے اور بیوی سمیت پورا پاکستان دیکھے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ان کی سب سے بڑی ذمہ داری عوام کا تحفظ ہے، وہ سفارش کرتے ہیں کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جو ماضی کی حکومت اور ان کی موجودہ وزارت کے دواران ملک ،ا سلام آباد اور ریڈ زون کی سیکیورٹی کا تقابلی جائزہ لے۔ عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کو دو ماہ اور چند روز ہوئے ہیں اس دوران خیبر پختونخوا اور کراچی میں کئی واقعات ہوئے لیکن انہوں نے کوئی نکتہ چینی نہیں کی کیونکہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال پر سیاست کو وہ گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ بدقسمتی سے پولیس کی بھاری نفری اس پر قابو میں نہیں پاسکی کیونکہ ہمارے ملک میں اچھے اور باصلاحیت افسران کی کمی ہے۔

چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ سکندر اور اس کی بیوی سے لئے گئے بیان کی روشنی میں تحقیقات مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اور قبضے میں لئے گئے موبائل فون پر ہونے والی گفتگوکے نتیجے میں ہونے والی تحقیقات سے نت نئے انکشاف ہورہے ہیں، گزشتہ روز اسلام آباد پولیس نے اس کے موبائل فون کے ذریعے آزاد کشمیر سے ایک حاضر سروس پولیس اہلکار، حافظ آباد سے ایک مذہبی شخص اور پسرور سے اسلحہ ڈیلر کو حراست میں لے لیا ہے، اس کے علاوہ سکندر نے اپنے بیان میں کئی غیر ملکی مافیاؤں اور بین الاقوامی تانوں بانوں کا ذکر کیا ہے جس کے سرے ابو ظہبی میں موجود لوگوں سے ملتے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔