پیپلزپارٹی نے سندھ میں نفرت کا نظام پاس کراکے اپنے زوال کا آغاز کردیا الطاف حسین

پیپلز پارٹی نے 1973 میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے سندھ میں بسنےوالے افراد کوتقسیم کرنے کی سازش کی بنیاد رکھی تھی، الطاف حسین


ویب ڈیسک August 19, 2013
منتخب ہونے والے امیدواروں عوام سے مسلسل رابطے میں رہیں کیونکہ اگر ایم کیو ایم سیٹ دلوا سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے، قائد ایم کیو ایم فوٹو: فائل

متحدہ قومی موومنٹ نے قائد الطاف حسین نےکہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں نیا بلدیاتی نظام نہیں بلکہ نیا نفرت کا نظام پاس کرایا ہے جس کے بعد صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا زوال آج سے شروع ہو گیا ہے۔

کراچی اور میر پور خاص میں کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب میں الطاف حسین نے نئے بلدیاتی نظام کی قرارداد منظور ہونے پر پاکستان پیپلز پارٹی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کو مسترد کرتی ہے کیونکہ سندھ حکومت کے علاوہ کسی بھی صوبے میں ایسا نظام نہیں بنایا گیا جس میں شہری اور دیہی علاقوں میں تفریق کی گئی ہو۔

قائد ایم کیو ایم نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت دیہی اور شہری علاقوں کی تفریق بڑھانا چاہتی ہے، پیپلز پارٹی نے 1973 میں صرف صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے سندھ میں رہنے والے افراد کو تقسیم کرنے کی سازش کی بنیاد رکھی تھی اور وہ آج تک اس پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں بسنے والے تمام قومیتوں اور مذاہب کے افراد ایم کیو ایم کے جھنڈے تلے متحد ہو جائیں اور پیپلزپارٹی کی عوام دشمن پالیسیوں اور سازشوں کو ناکام بنائیں، ایم کیو ایم میں ہر مذہب اور ہر علاقے اور ہر قوم کے لوگ موجود ہیں اور ہم نے اقتدار میں آ کر دیہی اور شہری تقسیم کا خاتمہ کیا تھا۔

الطاف حسین نے کارکنان سے کہا کہ دنیا بھر میں حق پرستوں اور بالخصوص ان کے قائد کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں اور انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اگر برطانوی پولیس کسی جھوٹے مقدمے میں مجھے گرفتار کر لے تو کارکنان ہمت نہ ہاریں اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ الطاف حسین کی گردن کٹ تو سکتی ہے مگر یزیدیت کے سامنے جھک نہیں سکتی۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد نے ایم کیو ایم میں احتساب کمیٹی بنانے کا بھی اعلان کیا اور منتخب ہونے والے امیدواروں سے کہا کہ وہ عوام سے مسلسل رابطے میں رہیں کیونکہ اگر ایم کیو ایم سیٹ دلوا سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں