فرق صاف ظاہر ہے

اگر کوئی شخص گورا ہے تو خبروں میں اسے ٹیریرسٹ نہیں لکھا جاتا ہے، وہ صرف ’’گن مین‘‘ ہوتا ہے


Wajahat Ali Abbasi August 26, 2012
[email protected]

KARACHI: پچھلے دو تین ہفتوں میں امریکا کے ہر بڑے شہر میں موجود ہندوستانی خبریں بناتے نظر آئے۔ خبر اس لیے نہیں کہ کچھ دن پہلے پندرہ اگست گزری ہے اور ہر سال کی طرح انڈینز نے ریلیاں نکالیں بلکہ اِس لیے کہ امریکا کے علاقے وس کانسن میں واقع سکھوں کے گردوارے میں ایک شخص نے گھس کر فائرنگ کھول دی جس سے چھ لوگ ہلاک ہوگئے تھے اور اِسی وجہ سے انڈین ہر جگہ سوگ مناتے نظر آئے۔ نیویارک تھا یا کیلی فورنیا ہر جگہ کئی ایونٹس کیے گئے، ہلاک ہونیوالوں کی تصویروں کے سامنے موم بتیاں جلائی گئیں، تقریریں ہوئیں اور امریکی میڈیا نے اِن ایونٹس کو بڑھ چڑھ کر کوریج دی، میڈیا کے درجنوں انٹرنیٹ، ٹی وی اور ریڈیو کی رپورٹس سے ایک بات صاف ہوگئی کہ اگر کوئی گورا کہیں گھس کر عام پبلک کو مارے تو اس میں اور کسی اور رنگ والے کا ایسا کرنے میں فرق ہوتا ہے۔

مرنے والے کو تکلیف اتنی ہی ہوتی ہے، اسے کوئی فرق نظر نہیں آتا، اس شخص میں جو اس پر بلاوجہ گولیاں چلارہا ہوتا ہے۔ وہ مسلمان ہو، ہندو کرسچن، کالا گورا، چھوٹا لمبا، اس کی کوئی بھی پہچان مارنے والے کی تکلیف کم نہیں کرتی لیکن گردوارے کے سانحے کے بعد میڈیا کی رپورٹ سے یہ بات صاف ہوگئی کہ جیسے امریکا پہنچتے ہی ایئرپورٹ پر امریکی سپر مازنسز کی لائن الگ لگتی ہے ویسے ہی گورے ٹیریرسٹ بھی الگ ٹریٹ کیے جاتے ہیں۔ جیسے کبھی نہ کبھی آپ نے کسی اخبار یا رسالے میں ضرور دیکھا ہوگا، دو تصویریں برابر برابر ایک جگہ چھپی ہوتی ہیں اور نیچے لکھا ہوتا ہے ''فرق بتائیں''۔

بظاہر تصویریں دیکھنے میں بالکل ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن دیر تک غور سے دیکھنے پر چھوٹے چھوٹے درجن بھر فرق نظر آجاتے ہیں۔ وہ فرق جو نظر آجانے کے بعد تصویر مختلف نظر آنے لگتی ہے۔ بس ویسے ہی کچھ فرق ہم کو میڈیا کی کھنچی گورے اور دوسرے رنگوں کے ٹیریرسٹوں میں نظر آئی۔

سب سے پہلے تو اگر کوئی شخص گورا ہے تو خبروں میں اسے ٹیریرسٹ نہیں لکھا جاتا ہے، وہ صرف ''گن مین'' ہوتا ہے۔ اگر کسی جگہ کوئی امریکا میں ہی رہنے والا عرب پاکستانی یا افغانی کہیں گھس کر گولی چلاتا ہے تو خبروں میں آتا ہے کہ ٹیریرسٹ نے فائرنگ کی، جیسے ہی وہ فائرنگ کوئی گورا کرتا ہے تو وہ صرف ایک ''گن مین'' نے کی ہوتی ہے اور بس۔ کسی بھی دوسری قوم کے شخص کے حملہ کرنے پر اس کو فوراً کسی ٹیریرسٹ گروپ سے جوڑا جاتا ہے جس کے حملے کا پورا پلاٹ ایک بہت بڑی بین الاقوامی سازش ہوتی ہے لیکن یہی فائرنگ کرنے والا گورا وہ شخص ہوتا ہے جو دنیا میں بالکل اکیلا ہوتا ہے اور تنہائی سے تنگ آکر وہ اکیلے بغیر کسی اور کی مدد اور پلاننگ کے یہ کام انجام دیتا ہے۔

مختلف ملکوں میں کس کس طرح کے ٹیریرسٹ ہوتے ہیں، ان کے آپریشن کیسے چلتے ہیں پر درجنوں ریسرچ ہوچکی ہیں اور اِس وقت بھی جاری ہیں، ساتھ ہی ہر طرح کی ہالی وڈ سے لے کر Independent فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ اِس موضوع پر جس میں کوئی خاتون یا تو افغانستان کے پہاڑوں میں کوئی ٹیریرسٹ ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں یا پھر کراچی شہر کے شور شرابے والی سڑکوں پر۔

''ٹیریرسٹ آف افغانستان''، ٹیریرسٹ آف پاکستان جیسی ان گنت ٹائٹل لیکن کوئی بھی ریسرچ، فلم یا کتاب کسی گورے ٹیریرسٹ پر نہیں جب کہ پچھلے دس برسوں میں درجنوں واقعات ہوئے ہیں، جہاں کسی گورے نے وہی کیا ہے جو دوسرے قوم کا شخص کرے تو وہ پکا ٹیریرسٹ ہوتا ہے۔

اگر ٹیریرسٹ کسی دوسری قوم کا ہو تو اس کی شناخت ہوجانے کے بعد اس کے رشتے داروں کے گھر خبروں میں دِکھائے جاتے ہیں۔ ''یہ ہے وہ گھر جہاں دہشت گرد کے چاچا یا ماموں رہتے تھے لیکن اب بدنامی کے ڈر سے گھر سے غائب ہیں'' لیکن جب کوئی گورا دہشتگردی کرتا ہے تو اس کے خاندان والوں سے لے کر پڑوسی، اسکول کے پرانے ساتھی یہاں تک کہ اس کے کتے بلیوں کے انٹرویوز تک نشر کیے جاتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ''Exclusive Information'' پرانی تصویریں اور ہوم ویڈیوز ٹی وی چینلز کو دینے پر رشتے داروں کو لاکھوں ڈالرز بھی دیے جاتے ہیں۔

ایک عام دہشت گرد ایک پروفیشنل دہشت گرد ہوتا ہے جو دن رات کیمپ میں دہشت گرد بننے کی ٹریننگ کررہا ہوتا ہے لیکن ''گورا ٹیریرسٹ'' اتفاقیہ ٹیریرسٹ بنتا ہے۔ معاف کیجیے گا ہمارا مطلب ہے ''گن مین'' بنتا ہے یعنی وہ صرف ایک عام امریکی ہوتا ہے جو پچھلے ہفتے تک فیس بک پر اپنے دوستوں کی تصویروں پر تبصرے کررہا تھا اور اچانک حملہ کرنے پہنچ گیا، کوئی لمبی ہسٹری، کوئی لمبی پلاننگ اس سے نہیں جڑی ہوتی۔

دہشت کی ہر خبر میں دہشت گرد کی پہچان کم از کم اس کا مذہب ضرور لکھا ہوتا ہے، صومالیہ کے ایک مسلمان نے فائرنگ کی، جیسی خبریں لیکن جب یہی فائرنگ کوئی گورا کرتا ہے تو خبر کچھ یوں ہوتی ہے کہ ''ویسٹ پورٹ وس کانسن کے علاقے میں رہنے والے مائیکل پیچ نے فائرنگ کی، جس کے چھپنے سے اس کے مذہب کا کوئی قصور نہیں لگتا۔ گورا ٹیریرسٹ ''اتفاق'' اور باقی ''کلچر''، گورا دہشت گردی کرتا ہے تو وہ محض اتفاق ہوتا ہے لیکن اگر کوئی پاکستانی کرے تو خبریں کہ ''پھر ایک پاکستانی نے ایسا کیا'' خبریں جس سے لگتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد بنانے کا باقاعدہ کلچر ہے۔

گورا دہشت گرد ہمیشہ ڈرگ اڈیکٹ، الکحولک اور ذہنی بیمار ہوتا ہے جو اپنی خود کی ہی پریشانیوں سے تنگ آکر ایسا قدم اٹھاتا ہے لیکن دوسری قوموں کے دہشت گرد سلجھے ہوئے دماغوں کے ہوتے ہیں جو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتے ہیں۔ گورا دہشت گرد کبھی بھی اپنے ساتھ اسلحہ لے کر ہوائی سفر نہیں کرتا نہ ہی کبھی جہاز میں یا بیرون ملک دہشت کرنے کا پلان نہیں بناتا تب ہی کسی گورے کے کہیں شوٹنگ کرنے کے باوجود جب اگلے کچھ دن امریکا میں سیکیورٹی سخت ہوتی ہے تو الٹا سکھوں اور مسلمانوں کی ہی چیکنگ کی جارہی ہوتی ہے، ان گوروں کی نہیں جن میں سے ایک نے فائرنگ کی ہوتی ہے۔

یہ اولمپک کی ریس تو ہے نہیں جہاں اچھا پرفارم کرکے بہتر نظر آکے جیت کے دِکھانا ہے۔ مرنے والا انڈین ہو، امریکن یا پاکستانی اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا، بے گناہ، بے قصور لوگوں کو مارنا غلط ہے اور انھیں مارنے والے کو کسی بھی میٹر پر ناپا نہیں جاسکتا وہ بس ٹیریرسٹ ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں پھر کبھی ایسا نہ ہو جیسا کہ چند ہفتے پہلے گردوارے میں ہوا لیکن اگر کوئی گورا پھر ایسا کرے تو اس کی بھی میڈیا ویسی ہی تصویر کھینچے جیسی دوسرے ملکوں کے دہشت گردوں کی کھنچتی ہے، جس میں خبر دیکھنے والوں کو فرق صاف ظاہر نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں