نئی اور پاکیزہ زندگی
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام ڈنڈے کے زور پر ہرگز نہیں پھیلا ہے اور مذہب کو چھوڑنا بھی اتنا آسان نہیں ہے۔
کچھ دنوں سے دو نو مسلم بہنوں کی خبریں تواتر سے اخبارات کی زینت بن رہی ہیں، انھوں نے مسلم لڑکوں سے پسند کی شادی کی اور اپنی مرضی سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں، اس قسم کے حقائق آئے دن منظر عام پر آتے ہیں۔
والدین کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ زبردستی مسلمان کیا گیا ہے جب کہ صداقت اس وقت سامنے آتی ہے جب بات عدالت اور کورٹ تک جاتی ہے اور موکل ببانگ دہل اپنے مسلمان ہونے اور رضامندی سے بیاہ کرنے کا اعلان کردیتے ہیں۔ عدالت کو مجبوراً نوبیاہتا دلہنوں کو ان کے شوہروں کے ساتھ رہنے کا حق ودیعت کرنا پڑتا ہے کہ وہ اس عمرکو پہنچ جاتی ہیں جہاں وہ اپنی پسند کے مطابق اپنا بَر تلاش کرکے شرعی اور قانونی طور پر شادی کرسکتی ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمادیا ہے کہ ''لا اکراہ فی الدین'' دین میں زبردستی نہیں ہے، مذہب کے حوالے سے جو شخص جس طرح کا مذہب اختیارکرنا چاہے،اسے مکمل آزادی ہے،ایک تعلیم یافتہ باشعور انسان غوروفکرکرتا ہے کہ دنیا کس طرح وجود میں آئی اس کا کوئی خالق ہے، جو زبردست طاقت والا ہے، بتوں کے پجاری جو صاحب بصیرت ہیں وہ یہ بات بار بار سوچتے ہیں کہ ہم اپنے خداؤں کو اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں پھر ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر مرادیں مانگتے ہیں اور جب آرزوؤں کی تکمیل نہیں ہوتی تو ان میں سے کچھ سرکش لوگ کلہاڑی کے ایک ہی وار سے اس مورتی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں جسے سنگتراش نے بڑی عقیدت اور چاؤ سے بنایا تھا۔
بے شمار غیر مسلموں خصوصاً ہندوؤں کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے باپ دادا کا مذہب ہے ہم اسے کیوں چھوڑیں، حضرت ابراہیمؑ کا وہ واقعہ بھی مجھے یاد آرہا ہے جب وہ حق کی تبلیغ کر رہے تھے اور اللہ کی وحدانیت کا درس دے رہے تھے، تب اہل علاقہ یہی جواب دیتے اور ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے، ایک دفعہ ایسا ہوا، جب علاقے کے تمام لوگ میلہ دیکھنے گئے تھے تو اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر حضرت ابراہیمؑ نے بت خانے میں جاکر تمام بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑی بڑے بت کے ہاتھ میں پکڑا دی جبلوگ واپس آئے اور اپنے بتوں کی بے حرمتی اور انھیں ٹکڑوں کی شکل میں دیکھا تو سخت برہم ہوئے اور شبہ آذر کے بیٹے حضرت ابراہیمؑ پر گیا کہ وہی بتوں کی پوجا کرنے سے منع فرما رہے تھے اور خدا پر یقین رکھنے کا درس دے رہے تھے۔
چنانچہ تمام سرداران جمع ہوئے اور حضرت ابراہیمؑ کو طلب کیا گیا۔ آپ نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ آپ اس سے پوچھیے کہ جس کے ہاتھ میں کلہاڑی ہے۔ یقینا یہ بڑا بت ہی قصور وار ہے یہ کام اسی کا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا جواب سن کر انھوں نے حیران ہوکر کہ یہ تو چل نہیں سکتا، بول نہیں سکتا، تو پھر یہ کس طرح بتوں کو پاش پاش کرسکتا ہے؟ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ جب یہ اتنا بے بس ہے، کچھ نہیں کرسکتا پھر تمہاری باتیں کیسے سن سکتا ہے؟ تمہارے مسائل کا حل کرنا اس کا کام نہیں ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے جواب نے انھیں شرمندہ کردیا اور انھوں نے ندامت سے اپنے سر جھکا لیے پھر ابراہیمؑ نے کہا کہ تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دیتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ (سورۃ الانبیا)بعثت نبوی ﷺ سے پہلے عربوں کا مشرکانہ نظام تھا، ہر قبیلے کا بت جدا تھا، عربوں کا اپنا کوئی قومی وجود نہیں تھا، لیکن جب درمیان سے بت ہٹا دیے گئے اور قبائل دین حنیف پر متحد ہوگئے تو عربوں کی متحدہ قومیت اور وطنیت نمایاں ہوگئی۔اسی موقع پر مجھے ہندو بہنوں کے قبول اسلام کے واقعہ کے بعد ایک ہندو لڑکی کا واقعہ یاد آگیا ہے۔
حضرت سلطان باہو اللہ والے بزرگ گزرے ہیں جن کے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات سے اہل علم واقف ہیں، ایک بار ظہر کی نماز کے لیے دریا کے قریب پہنچ گئے تاکہ وضو کرکے نماز ادا کرلی جائے، ابھی نماز کی نیت باندھنا ہی چاہتے تھے کہ آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ان کے پیچھے کوئی شخص موجود ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ نے پلٹ کر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں ایک خوبصورت ہندو دوشیزہ ہاتھوں میں جوتے اٹھائے کھڑی تھی۔ حضرت سلطان باہو نے نامحرم عورت کو دیکھ کر نظریں جھکالیں،لڑکی بولی کہ آپ کے پاس آنے کے لیے میں نے بہت لمبا سفر کیا ہے، میرے پیروں میں آبلے پڑ گئے ہیں۔ آخر تمہیں مجھ سے کیا کام ہے؟
ہندو لڑکی نے جواباً کہا کہ میں ایک ساہوکار کی بیٹی ہوں میرا گھر ملتان میں ہے۔ بہت عرصے سے میں بہت بے چین اور پریشان رہنے لگی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ ہماری ہندو برادری پتھر کے مجسموں کی پوجا کرتی ہے اور جو مجھے پسند نہیں کہ میں ایک انسان ہوتے ہوئے اپنا سَر پتھر کے سامنے جھکادوں۔ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی۔ جواب میں حضرت سلطان باہو نے کہا، ظہر کی نمازکا وقت تنگ نہ ہوجائے پہلے نماز ادا کرلوں، پھر تمہارا حال سنتا ہوں۔ یہ کہہ کر سلطان باہوؒ نے نماز کے لیے نیت باندھ لی، نماز سے فراغت کے بعد انھوں نے اس لڑکی سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟
اس کے چہرے پر امید و بیم کے رنگ بکھرگئے اور وہ اداسی سے بولی کہ میں اپنے مضطرب دل کو مخدوم بہائوالدین زکریاؒ کے مزار پر لے گئی تھی میں نے سنا تھا کہ یہاں سکون ملتا ہے میں بھی اپنے دل میں یہی خواہش لائی تھی کہ ہوسکتا ہے کہ میں بھی بھاگ بھری ہوجائوں اور میرا نصیبہ جاگ جائے۔ سلطان باہو نے اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے پوچھا کہ تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ ہندو دوشیزہ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا میں نے زکریا ملتانی کے مزار مبارک میں آپ کو داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور پھر آپ جب باہر تشریف لائے تو میں آپ کا چہرہ دیکھتے ہی مسلمان ہوگئی تھی۔
مجھے حضرت زکریاؒ کے دربار سے یہ حکم ملا تھا کہ میں آپ کی لونڈی بن کر جائوں اسی وجہ سے میں داسی کی طرح اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چل رہی ہوں۔ ہندو دوشیزہ کے بیان نے آپؒ کو حیرت میں مبتلا کردیا، چنانچہ انھوں نے تھوڑی دیر بعد مراقبہ کیا، مراقبے کے دوران سلطان باہو کو اپنی وہ بات یاد آگئی جو انھوں نے حضرت مخدوم بہائوالدین زکریاؒ کے دربار میں عرض کی تھی۔ ''مخدوم! اگر ایسا ہی ہے تو مجھے اپنے شہر سے ایک پاکیزہ آدمی کا بازو عطا کیجیے۔'' اس خیال کی روشنی میں حضرت سلطان باہوؒ نے دوشیزہ سے کہا جب (غوث الملک) مخدوم بہائوالدین کا حکم ہے تو یہ خادم کیسے ٹال سکتا ہے، تم فکر نہ کرو، اللہ نے تمہیں تمہاری منزل عطا کردی ہے۔
اس کے بعد سلطان باہوؒ نے اسے کلمہ طیبہ پڑھایا اور جب وہ لڑکی اللہ کی وحدانیت اور حضور اکرم ﷺ کی رسالت کا اقرار کرچکی تو سلطان باہو اسے شہر کی طرف لے آئے اور علاقے کے اکابرین کی موجودگی میں آپؒ نے اس سے عقد کرلیا اور اپنے آبائی وطن شورکوٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔قبول اسلام کے حوالے سے بے شمار واقعات سامنے آتے ہیں، اندرون سندھ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ایک ہی محلے میں رہتے بستے ہیں ۔
ایک دوسرے کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے اچھی طرح واقف ہیں، دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں، اسلام دین فطرت ہے اسی وجہ سے وہ لوگ جو اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں اور اس دنیا اور دنیا کے خالق پر غور وخوض کرتے ہیں تب وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں اس کائنات کو بنانے والا کوئی بہت بڑی ہستی ہے جو روز اول سے دنیا کے نظام کو چلا رہا ہے اور وہ بڑی طاقت اللہ کی ہے، خود بخود کوئی کام انجام تک نہیں پہنچتا ہے، آگ، پانی، ہوا، مٹی، پتھر، اللہ کا بدل کیسے ہوسکتے ہیں یہ تو اللہ کی تخلیق ہے، ایسے ہی لوگوں کو اللہ ہدایت فرماتا ہے اور وہ سچے دل سے اسلام کی حقانیت پر ایمان لے آتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو دین و دنیا میں سرخرو ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام ڈنڈے کے زور پر ہرگز نہیں پھیلا ہے اور مذہب کو چھوڑنا بھی اتنا آسان نہیں ہے کہ جو چاہے ورغلا لے، اور دائرہ اسلام میں داخل کردے۔ مذہب کی تبدیلی تو دل کے اطمینان اور ذہنی سکون کے ساتھ کی جاتی ہے۔ گھوٹکی کی دونوں بہنوں کو عدالت نے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دے دیا اس طرح وہ خوشی خوشی اپنے شوہروں کے ساتھ رخصت ہوگئیں ایک نئی اور پاکیزہ زندگی گزارنے کے لیے۔ جو اُن کا انتظار کر رہی تھی۔
والدین کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ زبردستی مسلمان کیا گیا ہے جب کہ صداقت اس وقت سامنے آتی ہے جب بات عدالت اور کورٹ تک جاتی ہے اور موکل ببانگ دہل اپنے مسلمان ہونے اور رضامندی سے بیاہ کرنے کا اعلان کردیتے ہیں۔ عدالت کو مجبوراً نوبیاہتا دلہنوں کو ان کے شوہروں کے ساتھ رہنے کا حق ودیعت کرنا پڑتا ہے کہ وہ اس عمرکو پہنچ جاتی ہیں جہاں وہ اپنی پسند کے مطابق اپنا بَر تلاش کرکے شرعی اور قانونی طور پر شادی کرسکتی ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمادیا ہے کہ ''لا اکراہ فی الدین'' دین میں زبردستی نہیں ہے، مذہب کے حوالے سے جو شخص جس طرح کا مذہب اختیارکرنا چاہے،اسے مکمل آزادی ہے،ایک تعلیم یافتہ باشعور انسان غوروفکرکرتا ہے کہ دنیا کس طرح وجود میں آئی اس کا کوئی خالق ہے، جو زبردست طاقت والا ہے، بتوں کے پجاری جو صاحب بصیرت ہیں وہ یہ بات بار بار سوچتے ہیں کہ ہم اپنے خداؤں کو اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں پھر ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر مرادیں مانگتے ہیں اور جب آرزوؤں کی تکمیل نہیں ہوتی تو ان میں سے کچھ سرکش لوگ کلہاڑی کے ایک ہی وار سے اس مورتی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں جسے سنگتراش نے بڑی عقیدت اور چاؤ سے بنایا تھا۔
بے شمار غیر مسلموں خصوصاً ہندوؤں کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے باپ دادا کا مذہب ہے ہم اسے کیوں چھوڑیں، حضرت ابراہیمؑ کا وہ واقعہ بھی مجھے یاد آرہا ہے جب وہ حق کی تبلیغ کر رہے تھے اور اللہ کی وحدانیت کا درس دے رہے تھے، تب اہل علاقہ یہی جواب دیتے اور ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے، ایک دفعہ ایسا ہوا، جب علاقے کے تمام لوگ میلہ دیکھنے گئے تھے تو اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر حضرت ابراہیمؑ نے بت خانے میں جاکر تمام بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑی بڑے بت کے ہاتھ میں پکڑا دی جبلوگ واپس آئے اور اپنے بتوں کی بے حرمتی اور انھیں ٹکڑوں کی شکل میں دیکھا تو سخت برہم ہوئے اور شبہ آذر کے بیٹے حضرت ابراہیمؑ پر گیا کہ وہی بتوں کی پوجا کرنے سے منع فرما رہے تھے اور خدا پر یقین رکھنے کا درس دے رہے تھے۔
چنانچہ تمام سرداران جمع ہوئے اور حضرت ابراہیمؑ کو طلب کیا گیا۔ آپ نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ آپ اس سے پوچھیے کہ جس کے ہاتھ میں کلہاڑی ہے۔ یقینا یہ بڑا بت ہی قصور وار ہے یہ کام اسی کا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کا جواب سن کر انھوں نے حیران ہوکر کہ یہ تو چل نہیں سکتا، بول نہیں سکتا، تو پھر یہ کس طرح بتوں کو پاش پاش کرسکتا ہے؟ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ جب یہ اتنا بے بس ہے، کچھ نہیں کرسکتا پھر تمہاری باتیں کیسے سن سکتا ہے؟ تمہارے مسائل کا حل کرنا اس کا کام نہیں ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کے جواب نے انھیں شرمندہ کردیا اور انھوں نے ندامت سے اپنے سر جھکا لیے پھر ابراہیمؑ نے کہا کہ تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دیتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ (سورۃ الانبیا)بعثت نبوی ﷺ سے پہلے عربوں کا مشرکانہ نظام تھا، ہر قبیلے کا بت جدا تھا، عربوں کا اپنا کوئی قومی وجود نہیں تھا، لیکن جب درمیان سے بت ہٹا دیے گئے اور قبائل دین حنیف پر متحد ہوگئے تو عربوں کی متحدہ قومیت اور وطنیت نمایاں ہوگئی۔اسی موقع پر مجھے ہندو بہنوں کے قبول اسلام کے واقعہ کے بعد ایک ہندو لڑکی کا واقعہ یاد آگیا ہے۔
حضرت سلطان باہو اللہ والے بزرگ گزرے ہیں جن کے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات سے اہل علم واقف ہیں، ایک بار ظہر کی نماز کے لیے دریا کے قریب پہنچ گئے تاکہ وضو کرکے نماز ادا کرلی جائے، ابھی نماز کی نیت باندھنا ہی چاہتے تھے کہ آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ان کے پیچھے کوئی شخص موجود ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ نے پلٹ کر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں ایک خوبصورت ہندو دوشیزہ ہاتھوں میں جوتے اٹھائے کھڑی تھی۔ حضرت سلطان باہو نے نامحرم عورت کو دیکھ کر نظریں جھکالیں،لڑکی بولی کہ آپ کے پاس آنے کے لیے میں نے بہت لمبا سفر کیا ہے، میرے پیروں میں آبلے پڑ گئے ہیں۔ آخر تمہیں مجھ سے کیا کام ہے؟
ہندو لڑکی نے جواباً کہا کہ میں ایک ساہوکار کی بیٹی ہوں میرا گھر ملتان میں ہے۔ بہت عرصے سے میں بہت بے چین اور پریشان رہنے لگی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ ہماری ہندو برادری پتھر کے مجسموں کی پوجا کرتی ہے اور جو مجھے پسند نہیں کہ میں ایک انسان ہوتے ہوئے اپنا سَر پتھر کے سامنے جھکادوں۔ یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی۔ جواب میں حضرت سلطان باہو نے کہا، ظہر کی نمازکا وقت تنگ نہ ہوجائے پہلے نماز ادا کرلوں، پھر تمہارا حال سنتا ہوں۔ یہ کہہ کر سلطان باہوؒ نے نماز کے لیے نیت باندھ لی، نماز سے فراغت کے بعد انھوں نے اس لڑکی سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟
اس کے چہرے پر امید و بیم کے رنگ بکھرگئے اور وہ اداسی سے بولی کہ میں اپنے مضطرب دل کو مخدوم بہائوالدین زکریاؒ کے مزار پر لے گئی تھی میں نے سنا تھا کہ یہاں سکون ملتا ہے میں بھی اپنے دل میں یہی خواہش لائی تھی کہ ہوسکتا ہے کہ میں بھی بھاگ بھری ہوجائوں اور میرا نصیبہ جاگ جائے۔ سلطان باہو نے اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے پوچھا کہ تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ ہندو دوشیزہ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا میں نے زکریا ملتانی کے مزار مبارک میں آپ کو داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور پھر آپ جب باہر تشریف لائے تو میں آپ کا چہرہ دیکھتے ہی مسلمان ہوگئی تھی۔
مجھے حضرت زکریاؒ کے دربار سے یہ حکم ملا تھا کہ میں آپ کی لونڈی بن کر جائوں اسی وجہ سے میں داسی کی طرح اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چل رہی ہوں۔ ہندو دوشیزہ کے بیان نے آپؒ کو حیرت میں مبتلا کردیا، چنانچہ انھوں نے تھوڑی دیر بعد مراقبہ کیا، مراقبے کے دوران سلطان باہو کو اپنی وہ بات یاد آگئی جو انھوں نے حضرت مخدوم بہائوالدین زکریاؒ کے دربار میں عرض کی تھی۔ ''مخدوم! اگر ایسا ہی ہے تو مجھے اپنے شہر سے ایک پاکیزہ آدمی کا بازو عطا کیجیے۔'' اس خیال کی روشنی میں حضرت سلطان باہوؒ نے دوشیزہ سے کہا جب (غوث الملک) مخدوم بہائوالدین کا حکم ہے تو یہ خادم کیسے ٹال سکتا ہے، تم فکر نہ کرو، اللہ نے تمہیں تمہاری منزل عطا کردی ہے۔
اس کے بعد سلطان باہوؒ نے اسے کلمہ طیبہ پڑھایا اور جب وہ لڑکی اللہ کی وحدانیت اور حضور اکرم ﷺ کی رسالت کا اقرار کرچکی تو سلطان باہو اسے شہر کی طرف لے آئے اور علاقے کے اکابرین کی موجودگی میں آپؒ نے اس سے عقد کرلیا اور اپنے آبائی وطن شورکوٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔قبول اسلام کے حوالے سے بے شمار واقعات سامنے آتے ہیں، اندرون سندھ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ایک ہی محلے میں رہتے بستے ہیں ۔
ایک دوسرے کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے اچھی طرح واقف ہیں، دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں، اسلام دین فطرت ہے اسی وجہ سے وہ لوگ جو اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں اور اس دنیا اور دنیا کے خالق پر غور وخوض کرتے ہیں تب وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں اس کائنات کو بنانے والا کوئی بہت بڑی ہستی ہے جو روز اول سے دنیا کے نظام کو چلا رہا ہے اور وہ بڑی طاقت اللہ کی ہے، خود بخود کوئی کام انجام تک نہیں پہنچتا ہے، آگ، پانی، ہوا، مٹی، پتھر، اللہ کا بدل کیسے ہوسکتے ہیں یہ تو اللہ کی تخلیق ہے، ایسے ہی لوگوں کو اللہ ہدایت فرماتا ہے اور وہ سچے دل سے اسلام کی حقانیت پر ایمان لے آتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو دین و دنیا میں سرخرو ہوں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام ڈنڈے کے زور پر ہرگز نہیں پھیلا ہے اور مذہب کو چھوڑنا بھی اتنا آسان نہیں ہے کہ جو چاہے ورغلا لے، اور دائرہ اسلام میں داخل کردے۔ مذہب کی تبدیلی تو دل کے اطمینان اور ذہنی سکون کے ساتھ کی جاتی ہے۔ گھوٹکی کی دونوں بہنوں کو عدالت نے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دے دیا اس طرح وہ خوشی خوشی اپنے شوہروں کے ساتھ رخصت ہوگئیں ایک نئی اور پاکیزہ زندگی گزارنے کے لیے۔ جو اُن کا انتظار کر رہی تھی۔