چوہدری برادران اور تحریک انصاف کی حکومت
قصہ کوتاہ یہ کہ پنجاب میں ن لیگ اگرچہ اپوزیشن میں ہے، لیکن یہ کوئی معمولی اپوزیشن نہیں ہے۔
چوہدری برادران اور عمران خان میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔گزشتہ دنوں چوہدری شجاعت حسین کے بعد چوہدری پرویزالٰہی نے بھی وزیراعظم ہاوس میں ان سے ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں کے تناظر ہی میں نعیم الحق بھی وفد کے ہمراہ چوہدری برادران کی رہایش پہنچے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ پنجاب میں ان سے مشاورت کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ تاہم یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ چوہدری برادران اور تحریک انصاف حکومت کے درمیان سب اچھا نہیں ہے اور کہیں نہ کہیں کسی سطح پر کوئی اختلاف، کوئی اضطراب اور کوئی شکررنجی بھی موجود ہے۔
2018 میں الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی موجودہ حکومت وجود میں آئی، تو چوہدری برادران نے ہر لحاظ سے تعاون کیا؛ حالانکہ اس وقت ن لیگ کے اندر سے بھی ان کو تحریک انصاف کے خلاف تعاون کی پیش کش کی گئی تھی۔ پس منظر اس کا یہ تھا کہ الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ق کے کئی مضبوط امیدواروں کو تحریک انصاف میں دھکیلا گیا تھا، اس پرچوہدری برادران سخت نالاں تھے۔
چوہدری برادران کا کہنا یہ تھا کہ ان کی پارٹی میں نقب زنی نہ ہوتی تو کم ازکم پنجاب میں اس کی نشستوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی تھی؛ لیکن چونکہ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس کڑے وقت میں بے وفائی کے یہ گہرے زخم ان کو غیروںنے نہیں،بلکہ اپنوں ہی نے لگاے ہیں، لہٰذا انھوں نے الیکشن سے پہلے اور بعد عمران خان سے اس کا کوئی گلہ نہیں کیا، بلکہ جب مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق میں رابطے شروع ہوئے تو چوہدری برادران نے ہر سطح پر عمران خان کو غیر مشروط تعاون کا یقین دلایا۔
اس کا عملی ثبوت اس طرح دیا کہ الیکشن کے بعد بنی گالہ میں ہونے والی پہلی ملاقات میں جب عمران خان نے پنجاب اسمبلی میں اسپیکر شپ کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کا نام تجویز کیا تو چوہدری پرویزالٰہی نے باوجود تحفظات کے، ان کی تجویز پر صاد کیا، حالانکہ یہ ان کو بھی معلوم تھا کہ اس کا اگرکچھ فائدہ ہوگا تو صرف پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو ہوگا۔ یہ عہدہ 1997 میں بھی انھوں نے محض بدمزگی سے بچنے کے لیے قبول کیا تھا، کیونکہ نوازشریف اور شہباز شریف کے ساتھ ان کی شکررنجی چل رہی تھی اور وہ ان کی کابینہ میں شامل ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب اسمبلی میں چوہدری پرویزالٰہی کے اسپیکر بننے سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو ، جس کی سربراہی جنوبی پنجاب کے عثمان بزدار کر رہے ہیں، ایک ایسا شجر سایہ دار میسر آ گیا ہے، جس کی چھاوں میں وہ محفوظ بیٹھی ہے، بلکہ مزے کر رہی ہے۔ پنجاب میں اگر چوہدری برادران کے 10 ارکان بزدار سرکار کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں تو اس کے برقرار رہنے کی ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ وہ ن لیگ یا پیپلزپارٹی سے تعاون کی درخواست کرے، جو سردست اس کے لیے ممکن نہیں۔ لیکن چوہدری پرویزالٰہی نہ صرف یہ کہ پنجاب میں تحریک انصاف حکومت کی غیر مشروط حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، بلکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی سخت ترین اپوزیشن کے باوجود ان کی اسپیکر شپ کے بموجب پنجاب اسمبلی بنیادی قانون سازی میں بھی باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں سے آگے دکھائی آ رہی ہے۔
بلاشبہ پنجاب میں چوہدری پرویزالٰہی اور عمران خان فطری اتحادی ہیں۔ صوبہ میں شہبازشریف کے گزشتہ دس سال کے دوران یہ صرف چوہدری پرویز الٰہی اور عمران خان تھے، جنہوں نے ن لیگ کے طرز حکومت کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی اور اس کو چیلنج کیا۔ الیکشن میں دھاندلی پر احتجاجی دھرنا ہو یا پانامہ لیکس پر احتجاجی مارچ، مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف شانہ بہ شانہ نظر آتی رہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون پر بھی دونوں پارٹیاں ن لیگ حکومت کے خلاف ایک ہی صفحہ پر تھیں۔
الیکشن2018سے عین پہلے مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف میں محددوپیمانے پر انتخابی اتحاد بھی ہو گیا تھا اور جہاں جہاں یہ انتخابی اتحاد حقیقی معنوں میں نظر آیا، وہاں وہاں اس نے قریب قریب سویپ کیا۔ اس پس منظر میں الیکشن کے بعد عمران خان کی قیادت تلے بننے والے حکومتی اتحاد میں چوہدری برادران کی شمولیت یقینی تھی۔ تاہم یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ فی الحال یہ شمولیت واقعی غیر مشروط معلوم ہوتی ہے۔ حکومت سازی کے دوران طے پایا تھا کہ وفاقی کابینہ میں بھی مسلم لیگ ق کے دووزیر لیے جائیں گے اور پنجاب کابینہ میں بھی۔ لیکن پہلی قسط کے طور پر وفاق اور پنجاب دونوں جگہ پارٹی کوٹہ میں مسلم لیگ ق کو دو بے مقصد سی وزارتیں تھما دی گئیں۔ وفاق وزیر تو سردوگرم چشیدہ سیاست دان بھی ہیں، لہٰذا کسی نہ کسی طرح اپنی وزارت بدلوانے میں کامیاب ہو گئے۔مگر صوبائی وزیر کو جو ملا، اسی پر قناعت کر پڑی۔
اطلاعات یہ تھیں کہ بہت جلد وفاق اور پنجاب میں ایک ایک مزید وزارت بھی مسلم لیگ ق کو تفویض کر دی جائے گی۔ پنجاب میں دوسرے وزیر کے لیے سیالکوٹ کے ایک رکن اسمبلی کا، جب کہ وفاق میں مونس الٰہی کا نام لیا جا رہا تھا۔چوہدری پرویزالٰہی نے اسپیکر بننے کے بعد گجرات اور تلہ گنگ کی قومی ا سمبلی نشستیں خالی کردیں، تو گجرات کی نشست پر انھوں نے مونس الٰہی کو منتخب کرادیااور وزیراعظم کو باضابطہ طور پر مطلع کر دیا کہ مونس الٰہی ہی وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ ق کے کوٹے پر دوسرے وفاقی وزیر ہوں گے۔حکومت کی طرف سے ان کو یقین دہائی کرائی گئی کہ جیسے ہی پنجاب اور وفاق کی کابینہ میں توسیع ہو گی اور مسلم لیگ ق کو حسب وعدہ نمایندگی دے دی جائے گی۔
حقیقتاً پنجاب میں چوہدری پرویزالٰہی کی اسپیکرشپ کے بعد وفاق میں مسلم لیگ ق کے لیے مونس الٰہی کی وزارت ہی کچھ معنی رکھتی ہے۔ ان کو وزیر تجارت بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کے اندر بعض عناصر مونس الٰہی کا راستہ روکنے کی تگ و دو کر رہے ہیں، اور ان کی پوری کوشش ہے کہ وزیر بنانے کی صورت میں ان کو وزارت تجارت جیسی اہم وزارت نہ دی جائے، لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ مونس الٰہی ہی وفاقی وزیر کے لیے مسلم لیگ ق کے حتمی امیدوار ہیں ، بلکہ ان کے لیے پنجاب کی طرز پر کوئی غیر اہم اور بے ضرر سی وزارت قبول نہیں کی جائے گا۔
قصہ کوتاہ یہ کہ پنجاب میں ن لیگ اگرچہ اپوزیشن میں ہے، لیکن یہ کوئی معمولی اپوزیشن نہیں ہے۔ مستزاد یہ کہ فی الحال شہبازشریف اور حمزہ شہبازاس کی راہ نمائی کے لیے بھی موجود ہیں۔ان حالات میں پنجاب میں حکومتی اتحاد میں واقعی اگر کوئی دراڑ آ گئی تو اوپر کا نیچے اور نیچے کا اوپر ہونے میں زیادہ وقت نہٰیں لگے گا۔ پنجاب کی تاریخ عجیب وغریب اور ناقابل یقین واقعات سے بھری پڑی ہے۔ عمران خان کے اردگرد ان کے جو ''خیرخواہ'' ان کو چوہدری برادران سے بدظن کرنے کی مشن پر ہیں، حقیقتاً عمران خان حکومت ہی کے درپے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ جس روز پنجاب ان کے پاوں تلے سے نکل گیا، اسلام آباد میں بھی ان کے قدم ڈگمگا جائیں گے۔ لہذاپنجاب میں اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی حلیفوں کو بھی دیوار سے لگانے کی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں۔ شاعر نے کہا تھا ،
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا
ایسا نہ ہو کہ تو بھی مداوا نہ کرسکے
2018 میں الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی موجودہ حکومت وجود میں آئی، تو چوہدری برادران نے ہر لحاظ سے تعاون کیا؛ حالانکہ اس وقت ن لیگ کے اندر سے بھی ان کو تحریک انصاف کے خلاف تعاون کی پیش کش کی گئی تھی۔ پس منظر اس کا یہ تھا کہ الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ق کے کئی مضبوط امیدواروں کو تحریک انصاف میں دھکیلا گیا تھا، اس پرچوہدری برادران سخت نالاں تھے۔
چوہدری برادران کا کہنا یہ تھا کہ ان کی پارٹی میں نقب زنی نہ ہوتی تو کم ازکم پنجاب میں اس کی نشستوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی تھی؛ لیکن چونکہ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس کڑے وقت میں بے وفائی کے یہ گہرے زخم ان کو غیروںنے نہیں،بلکہ اپنوں ہی نے لگاے ہیں، لہٰذا انھوں نے الیکشن سے پہلے اور بعد عمران خان سے اس کا کوئی گلہ نہیں کیا، بلکہ جب مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق میں رابطے شروع ہوئے تو چوہدری برادران نے ہر سطح پر عمران خان کو غیر مشروط تعاون کا یقین دلایا۔
اس کا عملی ثبوت اس طرح دیا کہ الیکشن کے بعد بنی گالہ میں ہونے والی پہلی ملاقات میں جب عمران خان نے پنجاب اسمبلی میں اسپیکر شپ کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کا نام تجویز کیا تو چوہدری پرویزالٰہی نے باوجود تحفظات کے، ان کی تجویز پر صاد کیا، حالانکہ یہ ان کو بھی معلوم تھا کہ اس کا اگرکچھ فائدہ ہوگا تو صرف پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو ہوگا۔ یہ عہدہ 1997 میں بھی انھوں نے محض بدمزگی سے بچنے کے لیے قبول کیا تھا، کیونکہ نوازشریف اور شہباز شریف کے ساتھ ان کی شکررنجی چل رہی تھی اور وہ ان کی کابینہ میں شامل ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب اسمبلی میں چوہدری پرویزالٰہی کے اسپیکر بننے سے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو ، جس کی سربراہی جنوبی پنجاب کے عثمان بزدار کر رہے ہیں، ایک ایسا شجر سایہ دار میسر آ گیا ہے، جس کی چھاوں میں وہ محفوظ بیٹھی ہے، بلکہ مزے کر رہی ہے۔ پنجاب میں اگر چوہدری برادران کے 10 ارکان بزدار سرکار کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں تو اس کے برقرار رہنے کی ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ وہ ن لیگ یا پیپلزپارٹی سے تعاون کی درخواست کرے، جو سردست اس کے لیے ممکن نہیں۔ لیکن چوہدری پرویزالٰہی نہ صرف یہ کہ پنجاب میں تحریک انصاف حکومت کی غیر مشروط حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، بلکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی سخت ترین اپوزیشن کے باوجود ان کی اسپیکر شپ کے بموجب پنجاب اسمبلی بنیادی قانون سازی میں بھی باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں سے آگے دکھائی آ رہی ہے۔
بلاشبہ پنجاب میں چوہدری پرویزالٰہی اور عمران خان فطری اتحادی ہیں۔ صوبہ میں شہبازشریف کے گزشتہ دس سال کے دوران یہ صرف چوہدری پرویز الٰہی اور عمران خان تھے، جنہوں نے ن لیگ کے طرز حکومت کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی اور اس کو چیلنج کیا۔ الیکشن میں دھاندلی پر احتجاجی دھرنا ہو یا پانامہ لیکس پر احتجاجی مارچ، مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف شانہ بہ شانہ نظر آتی رہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون پر بھی دونوں پارٹیاں ن لیگ حکومت کے خلاف ایک ہی صفحہ پر تھیں۔
الیکشن2018سے عین پہلے مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف میں محددوپیمانے پر انتخابی اتحاد بھی ہو گیا تھا اور جہاں جہاں یہ انتخابی اتحاد حقیقی معنوں میں نظر آیا، وہاں وہاں اس نے قریب قریب سویپ کیا۔ اس پس منظر میں الیکشن کے بعد عمران خان کی قیادت تلے بننے والے حکومتی اتحاد میں چوہدری برادران کی شمولیت یقینی تھی۔ تاہم یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ فی الحال یہ شمولیت واقعی غیر مشروط معلوم ہوتی ہے۔ حکومت سازی کے دوران طے پایا تھا کہ وفاقی کابینہ میں بھی مسلم لیگ ق کے دووزیر لیے جائیں گے اور پنجاب کابینہ میں بھی۔ لیکن پہلی قسط کے طور پر وفاق اور پنجاب دونوں جگہ پارٹی کوٹہ میں مسلم لیگ ق کو دو بے مقصد سی وزارتیں تھما دی گئیں۔ وفاق وزیر تو سردوگرم چشیدہ سیاست دان بھی ہیں، لہٰذا کسی نہ کسی طرح اپنی وزارت بدلوانے میں کامیاب ہو گئے۔مگر صوبائی وزیر کو جو ملا، اسی پر قناعت کر پڑی۔
اطلاعات یہ تھیں کہ بہت جلد وفاق اور پنجاب میں ایک ایک مزید وزارت بھی مسلم لیگ ق کو تفویض کر دی جائے گی۔ پنجاب میں دوسرے وزیر کے لیے سیالکوٹ کے ایک رکن اسمبلی کا، جب کہ وفاق میں مونس الٰہی کا نام لیا جا رہا تھا۔چوہدری پرویزالٰہی نے اسپیکر بننے کے بعد گجرات اور تلہ گنگ کی قومی ا سمبلی نشستیں خالی کردیں، تو گجرات کی نشست پر انھوں نے مونس الٰہی کو منتخب کرادیااور وزیراعظم کو باضابطہ طور پر مطلع کر دیا کہ مونس الٰہی ہی وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ ق کے کوٹے پر دوسرے وفاقی وزیر ہوں گے۔حکومت کی طرف سے ان کو یقین دہائی کرائی گئی کہ جیسے ہی پنجاب اور وفاق کی کابینہ میں توسیع ہو گی اور مسلم لیگ ق کو حسب وعدہ نمایندگی دے دی جائے گی۔
حقیقتاً پنجاب میں چوہدری پرویزالٰہی کی اسپیکرشپ کے بعد وفاق میں مسلم لیگ ق کے لیے مونس الٰہی کی وزارت ہی کچھ معنی رکھتی ہے۔ ان کو وزیر تجارت بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کے اندر بعض عناصر مونس الٰہی کا راستہ روکنے کی تگ و دو کر رہے ہیں، اور ان کی پوری کوشش ہے کہ وزیر بنانے کی صورت میں ان کو وزارت تجارت جیسی اہم وزارت نہ دی جائے، لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ مونس الٰہی ہی وفاقی وزیر کے لیے مسلم لیگ ق کے حتمی امیدوار ہیں ، بلکہ ان کے لیے پنجاب کی طرز پر کوئی غیر اہم اور بے ضرر سی وزارت قبول نہیں کی جائے گا۔
قصہ کوتاہ یہ کہ پنجاب میں ن لیگ اگرچہ اپوزیشن میں ہے، لیکن یہ کوئی معمولی اپوزیشن نہیں ہے۔ مستزاد یہ کہ فی الحال شہبازشریف اور حمزہ شہبازاس کی راہ نمائی کے لیے بھی موجود ہیں۔ان حالات میں پنجاب میں حکومتی اتحاد میں واقعی اگر کوئی دراڑ آ گئی تو اوپر کا نیچے اور نیچے کا اوپر ہونے میں زیادہ وقت نہٰیں لگے گا۔ پنجاب کی تاریخ عجیب وغریب اور ناقابل یقین واقعات سے بھری پڑی ہے۔ عمران خان کے اردگرد ان کے جو ''خیرخواہ'' ان کو چوہدری برادران سے بدظن کرنے کی مشن پر ہیں، حقیقتاً عمران خان حکومت ہی کے درپے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ جس روز پنجاب ان کے پاوں تلے سے نکل گیا، اسلام آباد میں بھی ان کے قدم ڈگمگا جائیں گے۔ لہذاپنجاب میں اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی حلیفوں کو بھی دیوار سے لگانے کی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں۔ شاعر نے کہا تھا ،
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا
ایسا نہ ہو کہ تو بھی مداوا نہ کرسکے