گائوں کھٹکرکلاں کا بھگت سنگھ 1
برصغیر کے کئی شہروں میں بھی اس کی یاد میں بڑے بڑے جلسے ہوئے۔ اس پر اب تک کئی فلمیں بن چکی ہیں۔
بھگت سنگھ برصغیر کا نامی گرامی حریت پسند جو آج تک پرانی اور نئی نسل کا ہیرو ہے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ اس کو خراج عقیدت پیش کرچکی ہوں۔ آج کی تحریر بھی باز خواں ایں قصۂ پارینہ را کے ضمن میں آتی ہے۔ 'بھگت سنگھ' اس کے دوسرے ساتھی اور غلامی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنے والے تمام نامدار اور گمنام لوگ' سترہ سو ستاون اور اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کا تسلسل تھے۔ وہ غدر پارٹی کے وارث تھے۔ یہ لوگ جو ایک نو آبادیاتی تسلط کے خلاف لڑ رہے تھے ان کے بارے میں ہمارے یہاں بہت کم جانا جاتا ہے۔ لہٰذا ان تمام لوگوں کی یاد تازہ کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے آزادی کے لیے سفاکانہ تشدد سہا اور جان جیسی انمول چیز نذرکر دی۔
بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907کو ضلع لائل پور میں بانگا کے قریب ایک گائوں کھٹکرکلاں میں پیدا ہوا اور23 مارچ 1931 کو لاہور میں سولی چڑھا، اس کی اور اس کے ساتھی سُکھ دیو او راج گرو کی لاشوںکے ٹکڑے کرکے فیروز پور لے جایا گیا اور وہاں خفیہ طور پر انھیںستلج کے کنارے آگ دی گئی۔ اس وقت تک لوگوںکو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی سولی چڑھ چکے اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی ہے۔
غیظ وغضب سے چنگھاڑتے ہوئے اور آنسو بہاتے ہوئے لوگوں کا ایک ہجوم حریت پسندوں کی تلاش میں نکلا اور ستلج کے کنارے سے ان کے بدن کے ادھ جلے ٹکڑوں اور ہڈیوں کو سمیٹ کر لاہور لایا جہاں محبت ، عقیدت اور احترام کے ساتھ دریائے راوی کے کنارے ان شہیدوں کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ بھگت سنگھ کی مانند حسن ناصر کو بھی لاہور میں اپنے انجام کو پہنچایا گیا اور اس کی ہڈیاں کسی گمنام قبر میں اپنے ڈھونڈنے والوں کاانتظارکرتی ہیں۔
کچھ دن پہلے میں لاہور میں تھی۔ وہاں شہرکی جگمگاتی، جاگتی سڑکوں سے گزرتے ہوئے مجھے بھگت سنگھ اور حسن ناصر یاد آئے۔ میں نے اس دور کے ایک دوسرے حریت پسند رام پرساد بسمل کو یاد کیا۔ جو تختۂ دار پر پہنچا تو اپنے یہ اشعارگنگنا رہا تھا کہ: سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہیدِ ملک وملت تیرے جذبوںکے نثار
تیری قربانی کا چرچا غیرکی محفل میں ہے
بھگت سنگھ نے جس شان ، جس آن سے جان دی، اس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے وہ برطانوی سامراج جس نے بھگت سنگھ سے زندگی چھینی تھی وہ اس سے ایک امر زندگی نہ چھین سکا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے جنم دن کی صد سالہ سالگرہ انگلستان میں بھی منائی گئی۔ لندن میں اس کی یاد میں ایک شایان شان جلسہ ہوا۔ برصغیر کے کئی شہروں میں بھی اس کی یاد میں بڑے بڑے جلسے ہوئے۔ اس پر اب تک کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ جن میں سے پہلی 1965 میں ''شہید'' کے نام سے راج کمار سنتوشی نے بنائی۔7 جون 2002 کو ایک اور فلم ریلیز ہوئی جس میں بھگت سنگھ کا کردار اجے دیوگن نے اور سکھ دیوکا کردار سو شانت سنگھ نے ادا کیا، راج ببرکشن سنگھ بنے۔ یہ فلم اردو، انگریزی، بنگالی، پنجابی میں بنی ہے۔ 2006 کی ایک بہت مشہور فلم ''رنگ دے بسنتی'' میں بھی نئی نسل کے انقلابی نوجوانوں پر بھگت سنگھ کے فلسفۂ انقلاب کے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
1919میں بیسویں صدی کے ہندوستان کو جلیانوالہ باغ کے قتل عام نے جس طرح اپنی بنیادوں سے ہلا دیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔10 اپریل 1919کو امرتسر کے اس باغ میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے جلسے پربریگیڈئیر رینالڈ ڈائر کے حکم سے اندھا دھند گولیاں چلیں۔ فوجی جوانوں نے 1650 رائونڈ چلائے۔ جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے اور 1800 زخمی ہوئے۔ مارے جانے والوں میں مرد ، عورتیں اور بچے سب ہی شامل تھے۔
جلیانوالہ باغ کی مٹی پر گرنے والا خون ان زائرین کو اپنی طرف بلاتا تھا جن کے سینے میں آزادی کی خواہش آگ کی طرح روشن تھی۔ 12برس کی عمر میں بھگت سنگھ نے بھی اس مقام کی زیارت کی، کہنے والے کہتے ہیں کہ اس نے وہاں سے مٹھی بھر مٹی بھی اٹھائی تھی۔ وہ مٹی جس میں شہیدوں کے خون کی خوشبو تھی۔ بارہ برس کے ایک بچے کا رویہ اس وقت سمجھ میں آجاتا ہے جب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ بھگت سنگھ کا تعلق ایک انقلابی خاندان سے تھا۔ اس کے باپ، چچا، ماموں اور بعض دوسرے رشتہ دار ''غدر پارٹی'' کے سرگرم کارکن رہے تھے۔ اس کے ایک چچا سورن سنگھ کو پھانسی ہوئی تھی اور دوسرے چچا اجیت سنگھ کو جان بچانے کے لیے ایران میں جلاوطنی کے دن کاٹنے پڑے تھے۔
1922 میں جب بھگت سنگھ نے لاہور کے ایک کالج میں قدم رکھا تویہ وہ وقت تھا جب لاہور سیاسی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز تھا۔ یہاں اگر ٹوڈیوں کی حکومت قائم تھی تو انقلابیوں کے میلے بھی یہیں لگتے تھے۔ وہ ادب کا بھی رسیا تھا۔ پنجابی اور اردو کی انقلابی شاعری اسے حفظ تھی اور وہ امرتسر سے اردو اور پنجابی کے رسالوں کی ادارت کرتا تھا۔ 1923 میںجب وہ سولہ برس کا تھا۔ اس نے پنجاب ہندی ساہتیہ سمیلن کے ایک تحریری مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا اور راتوں رات پورے پنجاب کے ادبی اور انقلابی حلقوں میں مشہور ہوگیا۔
کتابیں پڑھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور وہ دیوانوں کی طرح کتابیں پڑھتا تھا۔ اس کی عمر میں لڑکے لڑکیوں کا تعاقب کرتے ہیں لیکن سیاہ گھنی کمان ایسی بھنوئوں کے نیچے جادو جگاتی ہوئی بڑی بڑی روشن آنکھوں والا بھگت سنگھ لاہورکے گلی کوچوں میں کتابیں ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ روس میں 1917 کا انقلاب اس وقت برپا ہوا تھا جب بھگت سنگھ بچہ تھا، لیکن جب اس نے جوانی کے جہانِ شور انگیز میں قدم رکھا تو برطانوی راج کی کڑی پابندیوںکے باوجود مارکسی سیاست اور روسی ادب اس کا اوڑھنا بچھونا بن گئے۔
ان ہی دنوں سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 30 اکتوبر 1928 کو لاہور میں ایک بڑے قومی سیاستدان اور ٹریڈ یونین رہنما لالہ لاجپت رائے نے جو عدم تشدد کے حامی تھے ایک خاموش جلوس نکالا۔ اس جلوس پر مسلح پولیس بھوکے کتوں کی طرح جھپٹی اور لالہ لاجپت رائے پر اتنا بھیانک تشدد کیا کہ وہ چند ہی دنوں میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ بھگت سنگھ نے یہ ریاستی تشدد اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور خود بھی لاٹھیاں کھائی تھیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں سمیت یہ عہد کیا کہ وہ عدم تشدد کے حامی اس قومی رہنما کو خون میں نہلا دینے والے پولیس کے افسر اعلیٰ اسکاٹ سے بدلہ لیں گے۔بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں شیورام ، جے گوپال اور سُکھ دیو کے ساتھ گھات لگا کر پولیس چیف پر حملہ کیا لیکن نشان دہی کرنے والے کی غلطی سے اسکاٹ کی بجائے ڈی ایس پی سانڈرس بھگت سنگھ کی گولی کا نشانہ بن گیا اور بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی جائے واردات سے فرار ہو گئے۔
انقلابیوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو سختی سے کچلنے کے لیے برطانوی حکومت نے پولیس کو زیادہ اختیارات دینے کی خاطر ڈیفنس آف انڈیا کا مسودہ قانون اسمبلی سے منظور کرانا چاہا لیکن ایک ووٹ کے فرق سے یہ ایکٹ منظور نہ ہو سکا، تب حکومت کی جانب سے یہ ایکٹ اس آرڈیننس کے تحت منظور کیا گیا جسے ''عوام کے بہترین مفاد میں'' کا نام دیا گیا۔
یہ آرڈیننس 8 اپریل 1929 کو اسمبلی میں پیش کیا جانے والا تھا جب بھگت سنگھ اور باتوکیشور دت نے ''انقلاب زندہ باد'' کا نعرہ لگاتے ہوئے اسمبلی کی راہداری میںبم پھینکے اور اس کے ساتھ ہی سیکڑوں ورق بھی اچھال دیے گئے جن پر یہ جملہ چھپا ہوا تھاکہ ''بہروں کو سنانے کے لیے بہت بلند آواز ضروری ہوتی ہے'' یہ بم دھماکے کی طرف اشارہ تھا۔ یہ بم اس قدر ''بے ضرر'' تھا کہ وہ کسی کو ہلاک کرنا تو دور کی بات ہے زخمی بھی نہ کر سکا اور اس بات کی تصدیق برطانوی ماہرین نے بھی کی۔
بھگت سنگھ اور باتو کیشوردت نے اس بم دھماکے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے گرفتاری دے دی اور کہا کہ یہ بم عوام کا احتجاج تھا اسی لیے ہلاکت آفریں نہ تھا۔ ان دونوں پر مقدمہ چلا اور 12جون1929 کو ان دونوںکو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ بھگت سنگھ نے عدالتی کارروائی کے دوران اپنے بیانات اور اپنے 61 روزہ مرن برت سے اس مقدمے کو برطانوی حکومت کے خلاف ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کیا اور سارے ملک میں آگ لگا دی۔ یہی وجہ تھی کہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی راتوں رات ان کروڑوں عوام کی آنکھوں کا تارا بن گئے جو برطانوی راج سے آزادی چاہتے تھے۔
(جاری ہے)
بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907کو ضلع لائل پور میں بانگا کے قریب ایک گائوں کھٹکرکلاں میں پیدا ہوا اور23 مارچ 1931 کو لاہور میں سولی چڑھا، اس کی اور اس کے ساتھی سُکھ دیو او راج گرو کی لاشوںکے ٹکڑے کرکے فیروز پور لے جایا گیا اور وہاں خفیہ طور پر انھیںستلج کے کنارے آگ دی گئی۔ اس وقت تک لوگوںکو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی سولی چڑھ چکے اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی ہے۔
غیظ وغضب سے چنگھاڑتے ہوئے اور آنسو بہاتے ہوئے لوگوں کا ایک ہجوم حریت پسندوں کی تلاش میں نکلا اور ستلج کے کنارے سے ان کے بدن کے ادھ جلے ٹکڑوں اور ہڈیوں کو سمیٹ کر لاہور لایا جہاں محبت ، عقیدت اور احترام کے ساتھ دریائے راوی کے کنارے ان شہیدوں کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔ بھگت سنگھ کی مانند حسن ناصر کو بھی لاہور میں اپنے انجام کو پہنچایا گیا اور اس کی ہڈیاں کسی گمنام قبر میں اپنے ڈھونڈنے والوں کاانتظارکرتی ہیں۔
کچھ دن پہلے میں لاہور میں تھی۔ وہاں شہرکی جگمگاتی، جاگتی سڑکوں سے گزرتے ہوئے مجھے بھگت سنگھ اور حسن ناصر یاد آئے۔ میں نے اس دور کے ایک دوسرے حریت پسند رام پرساد بسمل کو یاد کیا۔ جو تختۂ دار پر پہنچا تو اپنے یہ اشعارگنگنا رہا تھا کہ: سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زورکتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہیدِ ملک وملت تیرے جذبوںکے نثار
تیری قربانی کا چرچا غیرکی محفل میں ہے
بھگت سنگھ نے جس شان ، جس آن سے جان دی، اس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے وہ برطانوی سامراج جس نے بھگت سنگھ سے زندگی چھینی تھی وہ اس سے ایک امر زندگی نہ چھین سکا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے جنم دن کی صد سالہ سالگرہ انگلستان میں بھی منائی گئی۔ لندن میں اس کی یاد میں ایک شایان شان جلسہ ہوا۔ برصغیر کے کئی شہروں میں بھی اس کی یاد میں بڑے بڑے جلسے ہوئے۔ اس پر اب تک کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ جن میں سے پہلی 1965 میں ''شہید'' کے نام سے راج کمار سنتوشی نے بنائی۔7 جون 2002 کو ایک اور فلم ریلیز ہوئی جس میں بھگت سنگھ کا کردار اجے دیوگن نے اور سکھ دیوکا کردار سو شانت سنگھ نے ادا کیا، راج ببرکشن سنگھ بنے۔ یہ فلم اردو، انگریزی، بنگالی، پنجابی میں بنی ہے۔ 2006 کی ایک بہت مشہور فلم ''رنگ دے بسنتی'' میں بھی نئی نسل کے انقلابی نوجوانوں پر بھگت سنگھ کے فلسفۂ انقلاب کے اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
1919میں بیسویں صدی کے ہندوستان کو جلیانوالہ باغ کے قتل عام نے جس طرح اپنی بنیادوں سے ہلا دیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔10 اپریل 1919کو امرتسر کے اس باغ میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے جلسے پربریگیڈئیر رینالڈ ڈائر کے حکم سے اندھا دھند گولیاں چلیں۔ فوجی جوانوں نے 1650 رائونڈ چلائے۔ جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے اور 1800 زخمی ہوئے۔ مارے جانے والوں میں مرد ، عورتیں اور بچے سب ہی شامل تھے۔
جلیانوالہ باغ کی مٹی پر گرنے والا خون ان زائرین کو اپنی طرف بلاتا تھا جن کے سینے میں آزادی کی خواہش آگ کی طرح روشن تھی۔ 12برس کی عمر میں بھگت سنگھ نے بھی اس مقام کی زیارت کی، کہنے والے کہتے ہیں کہ اس نے وہاں سے مٹھی بھر مٹی بھی اٹھائی تھی۔ وہ مٹی جس میں شہیدوں کے خون کی خوشبو تھی۔ بارہ برس کے ایک بچے کا رویہ اس وقت سمجھ میں آجاتا ہے جب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ بھگت سنگھ کا تعلق ایک انقلابی خاندان سے تھا۔ اس کے باپ، چچا، ماموں اور بعض دوسرے رشتہ دار ''غدر پارٹی'' کے سرگرم کارکن رہے تھے۔ اس کے ایک چچا سورن سنگھ کو پھانسی ہوئی تھی اور دوسرے چچا اجیت سنگھ کو جان بچانے کے لیے ایران میں جلاوطنی کے دن کاٹنے پڑے تھے۔
1922 میں جب بھگت سنگھ نے لاہور کے ایک کالج میں قدم رکھا تویہ وہ وقت تھا جب لاہور سیاسی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز تھا۔ یہاں اگر ٹوڈیوں کی حکومت قائم تھی تو انقلابیوں کے میلے بھی یہیں لگتے تھے۔ وہ ادب کا بھی رسیا تھا۔ پنجابی اور اردو کی انقلابی شاعری اسے حفظ تھی اور وہ امرتسر سے اردو اور پنجابی کے رسالوں کی ادارت کرتا تھا۔ 1923 میںجب وہ سولہ برس کا تھا۔ اس نے پنجاب ہندی ساہتیہ سمیلن کے ایک تحریری مقابلے میں پہلا انعام حاصل کیا اور راتوں رات پورے پنجاب کے ادبی اور انقلابی حلقوں میں مشہور ہوگیا۔
کتابیں پڑھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا اور وہ دیوانوں کی طرح کتابیں پڑھتا تھا۔ اس کی عمر میں لڑکے لڑکیوں کا تعاقب کرتے ہیں لیکن سیاہ گھنی کمان ایسی بھنوئوں کے نیچے جادو جگاتی ہوئی بڑی بڑی روشن آنکھوں والا بھگت سنگھ لاہورکے گلی کوچوں میں کتابیں ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ روس میں 1917 کا انقلاب اس وقت برپا ہوا تھا جب بھگت سنگھ بچہ تھا، لیکن جب اس نے جوانی کے جہانِ شور انگیز میں قدم رکھا تو برطانوی راج کی کڑی پابندیوںکے باوجود مارکسی سیاست اور روسی ادب اس کا اوڑھنا بچھونا بن گئے۔
ان ہی دنوں سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 30 اکتوبر 1928 کو لاہور میں ایک بڑے قومی سیاستدان اور ٹریڈ یونین رہنما لالہ لاجپت رائے نے جو عدم تشدد کے حامی تھے ایک خاموش جلوس نکالا۔ اس جلوس پر مسلح پولیس بھوکے کتوں کی طرح جھپٹی اور لالہ لاجپت رائے پر اتنا بھیانک تشدد کیا کہ وہ چند ہی دنوں میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ بھگت سنگھ نے یہ ریاستی تشدد اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور خود بھی لاٹھیاں کھائی تھیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں سمیت یہ عہد کیا کہ وہ عدم تشدد کے حامی اس قومی رہنما کو خون میں نہلا دینے والے پولیس کے افسر اعلیٰ اسکاٹ سے بدلہ لیں گے۔بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں شیورام ، جے گوپال اور سُکھ دیو کے ساتھ گھات لگا کر پولیس چیف پر حملہ کیا لیکن نشان دہی کرنے والے کی غلطی سے اسکاٹ کی بجائے ڈی ایس پی سانڈرس بھگت سنگھ کی گولی کا نشانہ بن گیا اور بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی جائے واردات سے فرار ہو گئے۔
انقلابیوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو سختی سے کچلنے کے لیے برطانوی حکومت نے پولیس کو زیادہ اختیارات دینے کی خاطر ڈیفنس آف انڈیا کا مسودہ قانون اسمبلی سے منظور کرانا چاہا لیکن ایک ووٹ کے فرق سے یہ ایکٹ منظور نہ ہو سکا، تب حکومت کی جانب سے یہ ایکٹ اس آرڈیننس کے تحت منظور کیا گیا جسے ''عوام کے بہترین مفاد میں'' کا نام دیا گیا۔
یہ آرڈیننس 8 اپریل 1929 کو اسمبلی میں پیش کیا جانے والا تھا جب بھگت سنگھ اور باتوکیشور دت نے ''انقلاب زندہ باد'' کا نعرہ لگاتے ہوئے اسمبلی کی راہداری میںبم پھینکے اور اس کے ساتھ ہی سیکڑوں ورق بھی اچھال دیے گئے جن پر یہ جملہ چھپا ہوا تھاکہ ''بہروں کو سنانے کے لیے بہت بلند آواز ضروری ہوتی ہے'' یہ بم دھماکے کی طرف اشارہ تھا۔ یہ بم اس قدر ''بے ضرر'' تھا کہ وہ کسی کو ہلاک کرنا تو دور کی بات ہے زخمی بھی نہ کر سکا اور اس بات کی تصدیق برطانوی ماہرین نے بھی کی۔
بھگت سنگھ اور باتو کیشوردت نے اس بم دھماکے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے گرفتاری دے دی اور کہا کہ یہ بم عوام کا احتجاج تھا اسی لیے ہلاکت آفریں نہ تھا۔ ان دونوں پر مقدمہ چلا اور 12جون1929 کو ان دونوںکو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ بھگت سنگھ نے عدالتی کارروائی کے دوران اپنے بیانات اور اپنے 61 روزہ مرن برت سے اس مقدمے کو برطانوی حکومت کے خلاف ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کیا اور سارے ملک میں آگ لگا دی۔ یہی وجہ تھی کہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی راتوں رات ان کروڑوں عوام کی آنکھوں کا تارا بن گئے جو برطانوی راج سے آزادی چاہتے تھے۔
(جاری ہے)