ایک بار پھر صدیوں پرانا کھیل

سچائی ہر ذہن میں موجود ہے اور اسے صرف تلاش کرنے کی ضرورت ہے

آفتاب احمد خانزادہ

ہیگل کہتاہے '' چیزوں اور واقعات کا الگ الگ مطالعہ نہیں کیاجاسکتا بلکہ ایک نظام کے بہت سے عناصر باہم متعلق ہیں اور واقعات یا چیزوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کو مدنظر رکھنا ضروری ہے مثلاًاگر ہم کسی شخص کے نفسیاتی نظریات کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ اس کے فلسفیانہ، معاشی اور سیاسی نظریا ت اور اس کے ملک کے مخصوص دور کے سیاسی معاشی اور معاشرتی حالات کا مطالعہ بھی کریں اس شخص کے نظریات کو ان سب اثرات سے الگ کر کے نہیں سمجھا جاسکتا ۔''

ہیگل کے الفاظ میں ہمیں '' کل '' کا مطالعہ کرنا چاہیے نہ کہ علیحدہ علیحدہ عناصر کا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ایک ہزار سال پہلے ہندوستان میں پدرانہ اور طبقاتی گلہ بانی کا نظام قائم تھا حکمران طبقوں نے لوگوں میں یہ نظریہ پھیلایا کہ جسمانی محنت ادنیٰ ہے اور ذہنی محنت اعلیٰ تر ۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ نظریہ بھی پھیلایا کہ ذہنی صلاحیتیں ورثے میں ملتی ہیں جس طرح دولت ورثے میں ملتی ہے اور اس طرح حکمران طبقے کے ورثا ہی حکومت کرسکتے ہیں کیونکہ حکومت کرنے کی صلاحیتیں ان ہی کو ملتی ہیں۔

حکمران طبقے کو اس قسم کے نظریات پھیلانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ لوگوں کی اکثریت بہت زیاد ہ محنت کرتی تھی لیکن حکمران طبقے کے افراد پیداوار کا بہت زیادہ حصہ خود رکھ لیتے تھے اس وجہ سے حکمران طبقے کے خلا ف لوگوں میں نفرت اور بغاوت پیدا ہوتی تھی۔لوگوں کی بغاوتوں کو دبانے کے لیے حکمران طبقے نے فوج اور قانون قائم کیے اور اس طرح ریاست کا قیام وجود میں آیا لیکن ریاست اور فوج قائم کرنے اور ان کے ذریعے لوگوں کو دبانے میں حکمران طبقے کی خاصی دولت خرچ ہوتی تھی اس لیے انھوں نے لوگوں کو دبانے کے لیے نفسیاتی طریقے استعمال کیے ۔

اس ضمن میں ذہنی محنت کی برتری اور ذہنی صلاحیتوں کی وراثت کا نظریہ پیش کیا تاکہ لوگ حکمران طبقوں کی حکومت کو تسلیم کرلیں، ان نظریات کو باقاعدہ طور پر عوام میں وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے بہت سے لوگوں کی ضرورت تھی ۔ یہ ضرورت برہمن نے پوری کی۔ برہمن صرف ذہنی کام کرتا اس طرح برہمہ سوترا اور ویدانت کا فلسفہ وجود میں آیا پھر آواگون کا فلسفہ دیاگیا پھر یہ نظریہ دیاگیا کہ بادشاہوں کو علم قدرت کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے جس کی رو سے بیرونی دنیا کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ صرف حواس کا دھو کہ ہے۔ اس قسم کے نظریات کا مقصد یہ تھا کہ عوام مادی اور عملی دنیا اور حکمران طبقے کے استحصال کی طرف توجہ نہ دیں کہ یہ سب تو صرف نظرکا دھوکہ ہے عوام کو اپنی ذات، اپنے خیالات اور روح کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔

دوسری طرف چھٹی صدی قبل مسیح یونان میں دورغلامی کا آغاز ہوچکا تھا ۔ پیداوار میں ترقی نے ایک طرف غلاموں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کردیا جو صرف جسمانی کام کرتا تھا اور دوسری طرف حکمران طبقے کو جسمانی محنت سے آزاد کردیا۔ جسمانی محنت سے آزادی کے نتیجے میں ایک ایسا دانشور طبقہ پیدا ہوا جو اپنا زیادہ وقت ذہنی کام میں گذارتا تھا اس طبقے نے باقاعدہ طور پر نظریات قائم کیے اور ان ہی نظریات میں ہمیں یونانی فلسفہ اور یونانی نفسیات ملتی ہے۔ اس دور میں یونانی غلاموںکے مالک دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے ایک طرف وہ مالک تھے جو غلاموں اور اجناس کی تجارت کرتے تھے اور مادی ترقی چاہتے تھے۔


مادی دنیا کی صحیح معلومات سائنس ان کی اہم ضرورت تھی غلاموں کے مالکوں کا دوسرا گروہ بڑے زمینداروں پر مشتمل تھا اور غلاموں کے زیادہ سے زیادہ استحصال میں دلچسپی رکھتا تھا اور وہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام میں کسی قسم کی تبدیلی کے خلاف تھا۔ یونانی مادیت پسند فلسفیوں کا اہم تاریخی کردار یہ ہے کہ انھوں نے دنیاکے نظام کی تشریح دیوتائوں اور خرافات کی بجائے ذاتی مشاہدے پر مبنی نظریات سے کی یہ سائنس کی طرف پہلا اہم قدم تھا ۔ سقراط نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سچائی ہر ذہن میں موجود ہے اور اسے صرف تلاش کرنے کی ضرورت ہے دنیا میں برائی اس وجہ سے موجود ہے کہ لوگوں کو اپنی ذات کے بارے میں علم نہیں اور علم حاصل کرنے سے نیکی پید اہوتی ہے سقراط کے نزدیک نیکی سے مراد وہ عمل ہے جو موثر ثابت ہو یعنی جس عمل سے منافع ، ذاتی خوشی اور معاشرتی پسندیدگی حاصل ہو ۔

ارسطو دنیاکا پہلا نفسیات دان اور نفسیات کا بانی ہے۔ ارسطو ایسے دور میں پیدا ہوا جب یونانی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی مگر اب اس میں زوال شروع ہوچکاتھا۔عیسائیت غلامانہ نظام کے استحصال کے خلاف غریب عوام اور غلاموں کے احتجاج کی صورت میں نمودار ہوئی۔ حکمران طبقوں نے اس مذہبی تحریک کو دبانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ غریب عوام اور غلام استحصالی غلامانہ نظام سے بد دل ہوچکے تھے۔ جب سامراجی نظام دنیا کے مختلف علاقوں میں پروان چڑھا تو سامراجیت نے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے مختلف طریقہ ہائے کار استعمال کیے۔

19 ویں صدی کے وسط میں سامراجی حکومتوں کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ صرف جبراً حکومت قائم رکھنا ان کے لیے بہت مشکل اور گراں ہے۔ بندوق اور توپ کے ساتھ ساتھ انہیں کچھ اور طریقے استعمال کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوئی جن کے ذریعے وہ اپنا تسلط قائم رکھتے ۔چونکہ 19 ویں صدی کے وسط میں سائنس ایک نئے مذہب کی شکل اختیار کر چکی تھی اس لیے مختلف قسم کے نظریات کو سائنسی لبادہ پہنایاگیا۔ یہ کام علم نفسیات کے ایک اہم شعبہ نفسیاتی پیمائش نے سر انجام دیا پھر جوں جوں سرمایہ دارانہ نظام ترقی کرتاگیا اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت بڑھتی گئی ۔

20ویں صدی کے شروع میں نفسیات میں انسانوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت عیاں ہو چکی تھی اس لیے نفسیات کو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت کے مطابق استعمال کیاجانے لگے ۔ نفسیات کے استعمال کے پھیلنے میں پہلی جنگ عظیم نے اہم کردار ادا کیا، جنگ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نفسیات کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا ۔ ادھر پاکستان میں بھی اشرافیہ اور غیر سیاسی قوتوں نے عوام کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پہلے ہی دن سے نفسیات کا استعمال کیا ۔ ساتھ ساتھ مخصوص دانشوروں اور مخصوص سیاستدانوں کے ٹولے کا استعمال بھی بار بار کیا جاتا رہا۔ کبھی مذہب کی آڑ میں کھیل کھیلا گیا کبھی عوام کے رہنمائوں کو جاہل ، نااہل اور کرپٹ کے الزامات لگا کر اقتدار پر اپنا قبضہ جاری رکھا ۔

ان کی پالیسی ہے لڑائو اورحکومت کرو، عوام کو تقسیم در تقسیم کرتے رہو، سیاستدانوں پر الزامات کا اور بہتا، ن بازی کا سیلاب لے آئو ۔ کبھی ملک دشمن اور اسلام دشمن الزامات کا سہارا لو کبھی پھانسی کبھی قتل تو کبھی جلا وطنی کی آڑ میں جمہوریت کو باربار پٹر ی سے اتارتے رہو اور اب ساتھ ساتھ عوام کو کنٹرول میں کرنے کے لیے میڈیا کا بھرپور سہارا لیا جا رہا ہے ۔ کچھ مخصوص نام نہاد دانشور اور مخصوص میڈیا میں بیٹھے چند حضرات عوام کو گمراہ کرنے کے لیے دن رات پارلیمنٹ، جمہوریت ، عوام کے نمائندوں کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں، الزاما ت کی بارش ہورہی ہے ۔عوام کے نمائندوں کی کردار کشی عروج پر ہے کبھی نام نہاد کر پشن کے قصے کبھی جعلی ڈگریوں کی باتیں ، ان سب کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ عوام کی نظروں میں ان کے نمائندوں کو بے توقیر کیاجائے ۔

اور پروپیگنڈہ کی مہم کی آڑ میں جمہوریت پر ایک بار پھر شب خون مارا جائے۔ پاکستان کے عوام کو کنٹرول میں رکھنے اور انہیں قابو میں کرنے کے لیے ایک بار پھر صدیوں پرانا کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس کھیل کو کھیلنے والے کھلاڑی نفسیات کا بہت خوبصورتی سے استعمال کررہے ہیں لیکن ہمارے یہ نادان کھلاڑی تاریخ کے اس سبق کو بھولے بیٹھے ہیں کہ عوام سب سے زیادہ سمجھدار اور ہوشیار ہیں اور وہ اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنانا اچھے طریقے سے جانتے ہیں ۔
Load Next Story